اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ لَهُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۪- (پ 2، البقرۃ:228) ترجمہ: اور عورتوں کا بھی حق ایسا ہی ہے جیسا ان پر ہے شرع کے موافق۔ اردو میں یہ مضمون یوں ادا ہو گا کہ جس طرح مردوں کا عورتوں پر حق ہے اسی طرح عورتوں کا بھی مردوں پر حق ہے۔ عورتیں جانور یا جائیداد نہیں کہ مال موروثہ کی طرح ان پر مردوں کو تصرف کا حق حاصل ہو تو شوہر کہیں بھول نہ میں نہ پڑ جائیں کہ ان کے صرف حقوق ہی حقوق ہیں فرض و ذمہ داری کچھ نہیں؟ بلکہ ان پر بھی عورتوں کے حقوق ہیں بلحاظ حقوق دونوں ایک سطح پر ہیں جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّؕ- (پ 2، البقرۃ:187) ترجمہ: وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس۔

اکثر عورتوں میں ضد ہوتی ہے مرد کو چاہیے کہ اس پر صبر کرے اور سختی نہ کرے اس لئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو کہ ان کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے وہ تیرے لیے کبھی سیدھی نہیں ہو سکتی۔ اگر تو اسے برتنا چاہے تو اسی حالت میں برت سکتا ہے اور سیدھا کرنا چاہے گا تو توڑ دے گا اور توڑنا طلاق دینا ہے۔ (مسلم، ص 595، حدیث: 1468)

اے لوگو!عورتوں کے بارے میں نیکی اور بھلائی کرنے کی وصیت فرماتا ہوں تم میری اس وصیت کو قبول کرو بے شک عورتوں کا تمہارے اوپر حق ہے تم ان کے پہنانے اور کھلانے میں نیکی اختیار کرو۔ (سنی بہشتی زیور، ص 232)

ایک موقع پر ایک شخص نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! بیوی کا حق شوہر پر کیا ہے؟ فرمایا: جب خود کھائے تو اس کو کھلائے، جب اور جیسا خود پہنے اس کو پہنائے، نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے اور نہ گھر کے علاوہ اس کی سزا کے لیے اس کو علیحدہ کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/409، حدیث: 1850)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی عورتوں سے اچھا برتاؤ کرے اور میں بیویوں سے بہترین سلوک کرنے والا ہوں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص583)

نبی کریم ﷺ نے اپنے وصال کے وقت جبکہ زبان لڑ کھڑا رہی تھی تو تین چیزوں کے بارے میں نصیحت فرمائی: نماز، نماز اور جو تمہاری ملکیت(غلام) ہیں ان کی قوت برداشت سے زائد تکلیف نہ دینا اور عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا کیونکہ وہ تمہارے ہاتھوں میں قید ہیں اور تم نے انہیں اللہ تعالیٰ کی امانت کے طور پر لیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کلام سے ان کی شرم گاہیں تم پر حلال ہوئی ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص580)