اﷲ پاک نے معاشرتی زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط دیئے ہیں اور معاشرے کی بنیاد اور اکائی میاں بیوی ہیں اگر ان میں تعلقات استوار رہے اور دونوں قرآن و احادیث مبارکہ کی روشنی میں اور نبی کریم ﷺ کی مبارک سنتوں کے مطابق اجتماعی زندگی گزارنے کا اہتمام کریں تو ایک نیک و صالح کنبہ وجود میں آئے گا، یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس دنیا میں آنے کا مقصد صرف اور صرف اﷲ پاک کی عبادت ہے اور عبادت صحیح معنوں میں تب ہی ہو پائے گی جب آدمی پرسکون زندگی گزار رہا ہو اور پرسکون زندگی کیلئے باہمی تعلق و محبت ضروری ہے، چنانچہ اﷲ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔

اور سکون جب ہوگا جب نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے آداب زندگی کو اپنایا جائے لہٰذا مرد کیلئے لازم ہے کہ بیوی کے ان حقوق کی پابندی کرے جو شریعت نے بحیثیت شوہر ہونے کے اس پر عائد کیے ہیں:

پہلا حق: دینداری کی بنیاد پر نکاح ہو۔ مرد کو سکون جب ملے گا جب اس کی بیوی نیک اور پاکیزہ ہو جب وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو بجا لائے گی تو ان کے احکامات میں سے ایک حکم یہ بھی ہے کہ شوہر کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے اللہ پاک کی رضا مندی شوہر کی رضامندی میں ہے اور ظاہر ہے جب اللہ پاک کی فرمانبردار نہ ہو تو شوہر کی فرمانبردار کیسے بن سکتی ہے؟

اس لیے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: عورت سے چار وجوہات کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے: (1) اس کے مال کی وجہ سے (2) اس کے خاندان کی وجہ سے (3) اس کی خوبصورتی کی وجہ سے (4) اس کے دین کی وجہ سے۔ تم دینداری کو اختیار کرو کامیابی ہوگے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے عزت دیکھ کر شادی کی اللہ اسکی ذلت کو بڑھائے گا اور جس نے مال دیکھ کر شادی کی اس کے فقر کو بڑھائے گا اور جو آدمی شادی میں خاندان کو بنیاد بنائے گا اللہ اس کی کمینگی کو بڑھائے گا اور جس کی نیت آنکھوں اور شرمگاہ کی حفاظت ہو یا صلہ رحمی کرنے کے لئے کی اللہ شادی میں برکت پیدا کرے گا۔

دوسرا حق: مہر کی ادائیگی: مہر عورت کا حق ہے اس سے عورت کی شرافت اور عزت بڑھ جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ نکاح کے دوران اگرچہ اس کا تذکرہ کیا جائے یا نہ کیا جائے بہر صورت شوہر پر واجب ہوتا ہے معاف اسی صورت ہوسکتا ہے جب عورت اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے معاف کردے۔ اگر نہیں ادا کرے گا تو گناہ گار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص شادی کرے اور تھوڑا مہر متعین کرے یا بہت زیادہ اور اسکو ادا نہ کرے تو اس نے بیوی کے ساتھ دھوکہ کیا اور ادا کیے بغیر موت آگئی تو زنا کے جرم میں گرفتار کردیا جائے گا۔

تیسرا حق: بیوی کے ساتھ حسن سلوک: بیوی کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا بھی بیوی کا حق ہے، نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: تم میں سے مکمل ایمان والے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق بہترین ہو اور تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں۔ (ترمذی، 2/387، حدیث: 1165)

چوتھا حق:حیاء اور پردے کی تعلیم: مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو ہمیشہ نیک باتوں حیاء اور پردے کی تعلیم دے، بے حیائی اور فیشن سے بھر پور کپڑے پہننے سے منع کرے جن سے ان کے جسم کی ہیئت اور رنگ واضح ہو۔ فرمان مصطفیٰ ﷺ: تین شخص کبھی جنت میں داخل نہ ہوں گے ان میں ایک دیوث ہے۔ (مسند امام احمد، 2/351، حدیث: 5372)

جو مرد باوجود قدرت اپنی بیوی اور گھر کی عورتوں کو بے پردگی سے منع نہ کرے وہ دیوث ہے مرد اپنی عورت کو نیکی کی دعوت دیتا رہے اس کو ضروری مسائل زندگی سکھاتا رہے۔

پانچواں حق: بیوی کی ہر بات ماننا جو خلاف شرح نہ ہو: بیشک یہ حق نہیں ہے لیکن میاں بیوی کے ازدواجی تعلق کو خوشحال بنانے میں مفید ہے۔ بیوی کو جتنا خوش رکھ سکتا ہے رکھے کیونکہ اگر بیوی خوش رہے گی تو اس کو خوش رکھے گی اگر کبھی بیوی غمگین یا رنجیدہ ہو تو اس کا غم ہلکا کرنے کی کوشش کرے اگر بیوی ناراض ہو تو اسے شریعت کے دائرے میں رہ کر منائے، کیونکہ روٹھنا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی سنت ہے اور منانا پیارے آقا ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔