میاں بیوی کا تعلق ایک باہمی معاہدہ یعنی نکاح سے
قائم ہوتا ہے نکاح کا مقصد اور مطلب یہ ہے کہ دو گواہوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کے
نام پر ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کرنے اور ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہونے
کا عہد کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے شوہر اور بیوی دونوں کے کچھ فرائض اور حقوق مقرر
فرمائے ہیں اور دونوں کو ان کے ادا کرنے کا حکم فرمایا ہے چونکہ عورت کی خوشگوار
اور پرسکون زندگی کا دارومدار اکثر و بیشتر شوہر کے طرز عمل پر ہوتا ہے اس لیے
اللہ تعالیٰ نے قران پاک میں ارشاد فرمایا: وَ
عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِۚ- (پ 4، النساء:19) ترجمہ کنز الایمان: اور
ان سے اچھا برتاؤ کرو۔
آقا جان ﷺ نے بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن سلوک
کی تاکید فرمائی، آئیے اس حوالے سے چار فرامین مصطفی ﷺ ملاحظہ کرتے ہیں:
1۔ ارشاد فرمایا: کوئی ایمان والا شوہر اپنی مومنہ
بیوی کو دشمن نہ جانے اگر اس کی کسی عادت سے ناراض ہو تو دوسری خصلت سے راضی ہوگا(مسلم،
ص 595، حدیث: 1469)
2۔ عورت پسلی سےپیدا کی گئی وہ روش میں سیدھی ہر گز
نہ ہوگی تو اگر تم اس سے نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس سے نفع حاصل کرو حالانکہ اس
میں ٹیڑھ ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اس کا توڑنا اس کا طلاق
ہے۔ (مسلم، ص 595،
حدیث: 1468)
3۔ تم میں سےبہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ
اچھا ہو اور میں اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہوں اور جب تمہارا ساتھی مر جائے تو اسے
چھوڑ دو۔ اس کا مطلب کہ جب کوئی مر جائے تو دوسرا اسے اچھائی سے یاد کرے برائیاں
بیان نہ کرے۔
4۔ بیوی کے متعلق نیکی کی وصیت قبول کرو کیونکہ وہ پسلی
سے پیدا کی گئی ہیں اور یقینا پسلی کا ٹیڑھا حصہ اس کا اوپر کا ہے تو اگر اسے
سیدھا کرنے لگو تو توڑ دو گے اور اگر چھوڑ دو تو ٹیڑھا رہے گا لہذا عورتوں کے
متعلق وصیت قبول کرو۔ (بخاری، 3 /457،
حدیث: 5185)
معلوم ہوا کہ گھر کو خوشگوار ماحول کے لیے ضروری ہے
کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں خوش خلقی کا معاملہ کریں نرمی اور شیریں
زبان اختیار کریں اور اگر کوئی ناگوار بات پیش ائے تو اس کو برداشت کرلیں خصوصا مرد کو صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے
عورت فطرتاً کمزور اور جذباتی ہوتی ہے اس کی کمزوری کی رعایت کرے آقا جان ﷺ نے
خطبہ حجتہ الوداع میں عورتوں کے بارے میں خصوصی تاکید اور وصیت فرمائی اس کا لحاظ رکھے،
اگر شوہر کے مالی حالات ناگفتہ ہو تو بیوی کا فرض ہے کہ ان کے ساتھ تعاون کرے اور
سادہ زندگی پر اکتفا کرے۔