اللہ پاک نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو اپنی صفات کا مظہر بنایا جیسے اس کی صفتِ تکوین ہے۔ اللہ پاک نے پیارے آقا ﷺ کو بہت ساری صفات سے نوازا ہے، جس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ اللہ پاک کا حکم پاتے ہی کسی چیز کا معرضِ وجود میں آجانا۔ چنانچہ بحکمِ قرآنی وہ ربّ کریم حرفِ کُن ارشاد فرماتا ہے وہ چیز ہوجاتی ہے۔ تو وہ ذات جسے اللہ پاک نے اپنا محبوب بنایا، اسے اپنی صفتِ تکوین کا مظہر بھی بنایا یعنی اللہ کی عطا سے محبوب کی بھی یہ شانیں ہیں، کہ جب کبھی جو کچھ فرماتے ہیں ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ جیسے مدینے پاک میں آپ ﷺ کی دعا سے مسلسل بارش کا برسنا۔

قرآن پاک نبیِ کریم ﷺ کی نعت و صفات کی آیاتِ بینات اسی طرح جگمگارہی ہیں جیسے سارا آسمان ستاروں سے روشن ہے۔ ان میں سے چند آیاتِ مبارکہ ملاحظہ کریں:

(1) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26، الفتح: 29) ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں۔

(2) وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب:40) ترجمہ: ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔

وضاحت: ہمارے پیارے آقا ﷺ سب سے آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

(3) ہمارے آقا ﷺ کا نام احمد ہے۔

اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ (پ28، الصف: 6) ترجمہ: ان کا نام احمد ہے۔

(4) ہمارے آقا ﷺ سراجِ منیر اور داعی ہیں۔

وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔

(5) ہمارے آقا ﷺ گواہ ہیں۔

وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2، البقرۃ: 143) ترجمہ: اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہیں۔

(6) ہمارے آقا ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔

(7) ہمارے آقا ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب: 21) ترجمہ: بےشک تمہیں رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

(8) ہمارے آقا ﷺ شاہد (حاضرو ناظر) اور مبشر و نذیر ہیں۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ22، الاحزاب: 45) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) ! بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈرسناتا۔

(9) اللہ پاک نے آقا ﷺ کو زمین و آسمان میں قدرت و اختیارات عطا فرمائے، جس کے لئے جو چاہیں حلال فرمائیں جو چاہیں حرام۔

یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ (پ9، الاعراف: 157) ترجمہ: اور ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کو اللہ پاک کی طرف سے اختیار دیا گیا، آپ شارع یعنی صاحبِ شریعت اور مالکِ شریعت ہیں۔

آقا ﷺ کے اوصاف بہت ہیں، جو اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو عطا فرمائے، ان میں سے چند کا ذکر کیا گیا۔ 

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء کرام علیہمُ السّلام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے سب سے پہلے آپ کا نور پیدا کیا۔

حضرت علامہ نور بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب سیرتِ رسولِ عربی میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بلاو اسطہ اپنے حبیب محمد ﷺ کا نور پیدا کیا، پھر اسی نور کو خلق ِعالم کا واسطہ ٹھہرایا۔ اور عالم ِ اَرواح ہی میں اس رُوح سراپا نور کو وَصف نبوت سے سر فراز فرمایا، چنانچہ ایک روز صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے حضورِ انور ﷺ سے پو چھا کہ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی آپ نے فرمایا: کُنْتُ نَبِیًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ یعنی میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم کی روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا۔

ہمارے نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف کا مکمل تذکرہ نہ کوئی کرسکا ہے نہ کوئی کرسکے گا۔

ایک شاعر لکھتے ہیں:

شان مصطفیٰ کروں کیا میں بیان کہ نظام کائنات رک گیا اک ملاقات کے واسطے

نبیِ کریم ﷺ کے چند اوصاف کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے۔

(1) صبر و عفو درگزر: آپ معاف کرنے والے، صبر کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے حق کے لئے کبھی انتقام نہ لیا۔

سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

(2)عدل و انصاف: آپ ﷺ عدل و انصاف کےپیکر ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص سے کچھ کھجوریں ادھار لیں، جب اس نے تقاضا کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ کچھ آجائے تو ادا کروں۔ یہ سن کر وہ بولا: آہ! بے وفائی۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کو غصہ آگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عمر جانے دو،صاحبِ حق ایسا ویسا کرسکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت خولہ بنتِ حکیم انصاری رضی اللہُ عنہا سے کچھ کھجوریں منگوا کر اس کے حوالہ کیں۔

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

(3) سخاوت و بہادری: آپ ﷺ بہت زیادہ سخی اور بہادر تھے۔ حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر حسین، تمام لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ کسی آواز سے گھبرا گئے، لوگ آواز کی جانب لپکے، نبیﷺ تمام لوگوں سے پہلے آواز کی جانب پہنچ گئے اور فرمانے لگے: ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ آپ ﷺ ابو طلحہ رضی اللہُ عنہ کے گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ﷺ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ (بخاری، مسلم)

(4) آپ کی گفتگو: نبیِ کریم ﷺ بہت ہی خوبصورت انداز میں گفتگو فرماتے۔ آپ سب سے زیادہ شیریں یعنی میٹھی گفتگو فرماتے تھے۔ مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسالہ حسن و جمالِ مصطفیٰ صفحہ نمبر 38 پر ہے: پیارے آقا مختلف علاقوں سے حاضر ہونے والے لوگوں سے انہیں کی زبان میں بلاتکلف گفتگو فرماتے۔ آپ کی گفتگو شریف دلوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی اور دلوں کو موہ لیتی یعنی اپنی گرفت میں لے لیتی۔

اس کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں درود اس کےخطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام

(5) تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے: ہمارے پیارے نبی ﷺ کسی ایک قوم یا کسی ایک مخلوق کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے، جیسا کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم)

(6) آپ ﷺ کے اعضاءِ مبارک: اللہ پاک نے پیارے آقا ﷺ کے اعضائے مبارکہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ آپ ﷺ کے مبارک چہرے کے بارے میں فرمایا: قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ (پ2، البقرۃ: 144) ترجمہ کنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔

آپ کےچشمِ مبارک کے بارے میں فرمایا: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) (پ27، النجم: 17) ترجمہ کنز الایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔

قلبِ اطہر کے بارے میں فرمایا: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) (پ27، النجم: 11) ترجمہ کنز الایمان: دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔

سینۂ مبارکہ کے بارے میں فرمایا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم نشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔

یہاں پر چند عضو کا ذکر کیا گیا ہے، یہ آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کی شانِ اقدس خود بیان فرمائی۔ اعلیٰ حضرت بھی کیا خوب لکھتے ہیں:

خلق سے اولیا اولیا سے رسل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

(7) دیدارِ الٰہی: ہمارے آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ ﷺ نے اللہ پاک کا دیدار کیا اور یہ شرف ہمارے آقا کو جاگتی آنکھوں سے ہوا۔ حضرت امام احمد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور ِ اقدس ﷺنے اپنے ربّ کو دیکھا، اُس کو دیکھا، اُس کو دیکھا۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا۔ (تفسیرِ خازن)

بیاں کیوں کر ثنائے مصطفےٰ ہو خدا جب ان کا خود مدحت سرا ہو

(8) شقِ صدر: آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا۔ کتاب سیرتِ رسول عربی، باب تعددِ شقِ صدر میں علامہ نور محمد بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: واضح رہے کہ حضور کا شقِ صدر چار مرتبہ ہوا۔ یہ آپ کا بہت بڑا وصف ہے۔

(9) آپ کا ذکر بلند: پیارے آقا ﷺ کا ذکر بلند کیا گیا۔ میرے ربّ کو گوارا ہی نہ ہوا کہ آپ کو کوئی بھلائے اور ایسا ممکن بھی نہیں، اس لئے اذان اور خطبے اور تشہد میں اللہ پاک کے ساتھ آپ کا ذکر بھی ہے۔

سورۂ الم نشرح میں وارد ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الشرح: 4) ترجمہ: اور ہم نے تیرا نام بلند کیا۔

رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے چرچا تیرا

(10) اسمائے مبارکہ: میرے آقا ﷺ کو اللہ پاک نے بہت سے ناموں سے پکارا، کبھی یسین کہا تو کبھی مزمل کہا، کبھی مدثر کہا تو کبھی طٰہ کہا، کبھی محمد کہہ کر پکارا تو کبھی احمد کہہ کر پکارا۔ حضرت علامہ محمد نور بخش توکلی فرماتے ہیں: حضور ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے تقریباً ستر نام وہی ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔

دئیے معجزے انبیا کو خدا نے ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا

ہمارے آقا و مولیٰ دو جہاں کے داتا محمدِ عربی ﷺ کی شان و عظمت بہت بلند و بالا ہے، اس قدر ہے کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پڑھنے سمجھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے۔

سرکار کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم پہ بھی کرم سیدِ ابرار کریں گے


ہمارے سب سے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا وہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ اللہ پاک نے ہر نبی کو مختلف معجزے اور اوصاف عطا فرمائے مگر نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف کی کوئی حد نہیں۔ اگر ہم ان کے اوصاف بیان کرنے لگیں اور لکھنے لگیں تو سمندر کے پانی کے برابر سیاہی اور ساری زندگی صرف کرنے کے بعد ان کے اوصاف کا ایک حصہ بھی نہ بیان کرسکیں گے۔

(1) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث روایت کی: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا حالانکہ حضرت آدم علیہ السّلام کا خمیر تیار ہورہا تھا۔ میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں، جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور ان کے لئے ایک بلند نور ظاہر ہوا جس سے ملکِ شام کے ایوان اور محلات روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، 7/13، حدیث: 3520)

(2) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے چاندنی رات میں نبیِ کریم ﷺ کو دیکھا، حضور سرخ حلہ پہنے ہوئے تھے یعنی اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ میں کبھی حضور کو دیکھتا اور کبھی چاند کو، حضور میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔ (ترمذی، حدیث:2820)

(3) رسولِ کریم ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرۂ مبارک کھل اٹھتا تھا اور ایسے معلوم ہوتا کہ آپ کا چہرۂ مبارک چاند کا ٹکڑا ہے۔ (مشکوۃ، حدیث: 5549)

(4) علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور کا پورا جمال ظاہر نہیں کیا گیا ورنہ آدمی حضور ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتے۔ (شمائلِ ترمذی)

(5) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے اسی طرح میری سیرت بھی ا چھی کردے۔ (مسند احمد، حدیث: 3823)

(6) پیکر ِ عظمت و شرافت، محسنِ انسانیت ﷺ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بیک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 571)

(7) رسول اللہ ﷺ کا رنگ کھلا ہوا چمکدار تھا، آپ کا پسینہ جیسے موتی ہوں، جب چلتے تو جھکاؤ آگے کو ہوتا، میں نے کبھی کوئی ریشم، کوئی دیباج نہیں چھوا جو رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و ملائم ہو، نہ کسی کستوری اور عنبر ہی کو سونگھا جو رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے زیادہ عمدہ اور پاکیزہ ہو۔(بخاری، حدیث: 1973)

(8)رسول اللہ ﷺ کا کامل حسن ہمارے لئے ظاہر نہیں ہوا، کیونکہ اگر ظاہر ہوجاتا تو ہماری آنکھیں آپ ﷺ کے دیدار کی تاب نہ لاسکتیں۔ (سیرت رسولِ عربی، ص 248)

(9) حضورِ اکرم ﷺ اور آپ کے گھر والے کئی کئی رات پے درپے بھوکے گزاردیتے تھے کہ رات کو کھانے کے لئے کچھ موجود نہیں ہوتا تھا۔ اکثر غذا آپ ﷺ کی جو کی روٹی ہوتی تھی اور کبھی کبھی گیہوں کی روٹی بھی مل جاتی تھی۔ (شمائلِ ترمذی، حدیث: 136)

(10) حدیثِ روزِ محشر میں ہے: اللہ پاک اولین و آخرین کو جمع کرکے حضورِا قدس ﷺ سے فرمائے گا:یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اور اے محبوب! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔سبحان اللہ(فتاویٰ رضویہ، 14/275)

تمہید: پیارے آقا ﷺ کے بےشمار اوصافِ کریمہ ہیں۔ پورا قرآن پیارے آقا ﷺ کی شان بیان کررہا ہے۔ ہم آپ کے جتنے اوصاف ہیں انہیں کبھی گن نہیں سکیں گے۔

قرآن پاک کی روشنی میں: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم نشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

(1) جسمِ اطہر: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے جسمِ اقدس کا رنگ گورا سپید تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ ﷺ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (شمائل ترمذی، ص 2)

آپ ﷺ کے رخِ انور پر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور ﷺ کے جسمِ اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔ (بخاری، 4/182، حدیث: 6281)

(2) جسمِ انور کا سایہ نہ تھا: آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے جسمِ انور کا سایہ نہیں تھا۔ آپ نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ امام ابنِ سبع رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (سیرِ ت مصطفےٰ، ص 565)

(3) قدِ مبارک: حضرت انس رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ انور ﷺ نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پست قد، بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا بدنِ مقدس انتہائی خوبصورت تھا، جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہوکر چلتے تھے۔ (سیرِ ت مصطفےٰ، ص 567)

(4) سرِ اقدس: حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے آپ ﷺ کا حلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: منحم الراس یعنی آپ ﷺ کا سرمبارک بڑا تھا جو شان دار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔

جس کے آگے سر سروراں خم رہیں اس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام

(سیرِ ت مصطفےٰ، ص 568)

(5) مقدس بال: حضورِ انور ﷺ کے موئے مبارک نہ گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا تو صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں بطورِ تبرک تقسیم ہوئے۔

حضرت بی بی امِ سلمہ رضی اللہُ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا، جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو ان بالوں کے دھوون سے شفا حاصل ہوتی تھی۔ (بخاری، 2/875)

(6)رخِ انور: حضورِ اقدس ﷺ کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ،پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا، میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اورایک مرتبہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 569)

(7) نورانی آنکھ: آپ ﷺ کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں، پلکیں گھنی اور دراز تھیں، پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔ (شمائل ترمذی صو دلائل النبوۃ ص54)

یہ سب آپ ﷺ کے اوصافِ کریمہ ہیں، یہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ (سیرت مصطفے، ص 571)

(8)زبانِ اقدس: آپ ﷺ کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات ومخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (سیرت مصطفے، ص575)

(9) نعلینِ اقدس: حضور ﷺ کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں۔ (سیرت مصطفے، ص582)

(10) پائے اقدس: آپ کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا۔ (سیرت مصطفے، ص580)

محدث ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس ر ات حضور کا نورِ نبوت حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہ کی پشتِ اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے بطنِ مقدس میں منتقل ہوا، روئے زمین کے تمام چوپایوں خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ پاک نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ پاک کا وہ مقدس رسول شکمِ مادر میں جلوہ گرہوگیا، جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے، جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔

حضرت بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: جب حضورِ اقدس ﷺ پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی بدلی آئی، اس کے بعد وہ بادل چھٹ گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ ریشم کے سبز کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اب میں نے چہرۂ انور دیکھا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور بدن سے پاکیزہ مشک کی خوشبو آرہی تھی۔

ولادتِ باسعادت: حضورِ اکرم ﷺ کی ولاادتِ باسعادت اصحابِ فیل سے پچپن دن کے بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ماویٰ، ضعیفوں کا ملجا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ

حضور ِ اکرم ﷺ کے اوصاف کی تو کیا ہی بات ہے، چند اوصاف کا ذکر پیشِ خدمت ہے:

(1) حضرت حلیمہ رضی اللہُ عنہا کا بیان ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔

(2)جب نبیِ کریم ﷺ کی زبان کھلی تو سب سے اول کلام جو آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا وہ یہ تھا: اللہ اکبر اللہ اکبر، الحمد للّٰہ رب العالمین و سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا

(3) حضرت ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضورِ اقدس ﷺ کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکا دیا ہو، یا کبھی کسی کو ایذا پہنچائی ہو، یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجے کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔

(4) کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا، ہر معاملے میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضورِ اکرم ﷺ کا خاص شیوہ تھا۔

(5) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرمایا کرتے تھے: حضورِ اکرم ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔

(6) نبیِ کریم ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔

(7)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ نے کسی سائل کے جواب میں خواہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے، آپ ﷺ نے کبھی نہیں کا لفظ نہیں فرمایا۔ (الشفاء، 1/65)

(8) آپ ﷺ کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا۔

(9) نبیِ پاک ﷺ کو معراج کاشرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لئے براق پیدا کیا گیا۔

(10 )آپ ﷺ کے منبر اور قبرِ انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی نبیِ پاک ﷺ کے اوصافِ کریمہ سے حصہ عطا فرمائے اور ہمیں نبیِ پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


آیتِ مبارکہ: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس سورت کا شانِ نزول یہ ہےکہ ایک روز سرورِ عالَم ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ ! تو نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد علیہ السّلام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا: اے حبیب! اگر ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کاسینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے،اللہ پاک کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے۔

اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد علیہ السّلام اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔ (تفسیر روح البیان، 10/465)

آیتِ مبارکہ: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔علامہ علی بن محمد خازن فرماتے ہیں: یہ آیت گویا کہ ’’مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ تاجدارِ رسالت ﷺ کے قابلِ تعریف اَخلاق اور پسندیدہ اَفعال آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر تھے اور جس کی ایسی شان ہو اس کی طرف جنون کی نسبت کرنا درست نہیں۔ (تفسیرِ خازن، 4/294)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا، تیری جوخصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں پہنچتے، پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/164-165)

اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں:

(1) ایک ماہ کی مسافت کے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔

(2) میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔

(3) میرے لئے تمام زمین کو سجدہ گاہ اور مٹی کو پاک بنایا گیا، لہذا میرے کسی امتی کو نماز کا وقت ہوجائے تو وہیں نماز پڑھ لے۔

(4) مجھے منصبِ شفاعت عطا کیا گیا۔

ہر نبی کو ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا۔ (مسلم، ص 265، حدیث: 522)

اوصافِ نبوی: اوصافِ نبوی سے مراد ہے: نبیِ کریم ﷺ کی خوبیاں اور کمالات۔

سرکار کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم پہ بھی کرم، سیدِ ابرار کریں گے

(1)اللہ پاک نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے دیگر مخلوق کی تخلیق فرمائی۔ (مصنف عبد الرزاق، ص 63، حدیث: 18)

خدا نے نورِ مولیٰ سے کیا مخلوق کو پیدا سبھی کون و مکاں ہوئے اس ایک مصدر سے

(2) سرکارِ مدینہ ﷺ کا مبارک نام عرش کے پائے پر ہر ایک آسمان پر جنت کے درختوں اور محلات پر حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔ (خصائصِ کبری، 1/ 12)

مالک تجھے بنایا ہر چیز کا خدا نے اس واسطے لکھا ہے ہر شے پہ نام تیرا

(3) بدن تو بدن آپ کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ سر میں کبھی جوئیں پڑیں اور نہ ہی کبھی بھڑ نے آپ ﷺ کو کاٹا۔ (الشفاء، ص 368، خصائص کبری، 1/ 177)

مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا، گندگی، بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ ﷺ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک جسمِ اطہر خوشبو دار تھا، اس لئے بھی آپ ﷺ ان چیزوں سے محفوظ تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 566)

اللہ کی سرتابقدم شان ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انساں ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ

(4) حضرت آدم علیہ السّلام اور دیگر تمام مخلوقات سرکارِ دو عالم ﷺ کے لئے ہی پیدا کئے گئے۔ (مواہب للدنیہ، 1/86)

زمین و زماں تمہارے لئے مکین و مکاں تمہارے لئے

چنین و چناں تمہارے لئے بنے دو جہاں تمہارے لئے

(5) اللہ پاک نے اذان و اقامت اور خطبہ و تشہد میں اپنے محبوب ﷺ کے ذکر کو اپنے سے ملادیا۔ (الکلام الاوضح، ص 179)

(6) اظہارِ نبوت سے پہلے دھوپ کے وقت بادل اکثر سرکارِ مدینہ ﷺ پر سایہ کیا کرتا اور درخت کا سایہ آپ کی طرف آجاتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/42-143)

سایۂ عرشِ الٰہی میں کھڑا کرنا مجھے ہیں سیہ عصیاں سے دفتر رحمۃ للعلین

گزشتہ آسمانی کتابوں میں حبیب ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی گئی (خصائص کبری، 1/18)

(7) سرکارِ نامدار ﷺ نور ہیں، اس لئے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں آپ ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/144)

اس قدِ پاک کا سایہ نظر آتا کیونکر نور ہی نور ہیں اعضائے رسولِ عربی

پیارے آقا ﷺ کا مبارک سینہ کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ (مواہبِ لدنیہ، 7/199)

اسی سے ہوئے عنبر و مشک مشتق ہے خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا

(8) سفرِ معراج میں اللہ پاک دنیا والوں کو پہلے انبیاء کرام علیہمُ السّلام اور تمام آسمانوں کے فرشتوں کو اپنے محبوب کے وہ اوصاف و کمالات دکھانا اور بتانا چاہتا تھا جو اس نے اپنے حبیب کو عطا کئے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا(بنی اسرائیل:1) ترجمہ کنز العرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کروائی۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما کہتے ہیں کہ تم تعجب کرتے ہو اس بات سے کہ خلعت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لئے ہو اور کلام حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے لئے اور اللہ پاک کو دیکھنا حضرت محمد ﷺ کے لئے۔ (مواہب اللدنیہ)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے ربّ کو دیکھا۔ (مواہب اللدنیہ)

(9) بےشک اللہ پاک نے معراج کی رات نبیِ کریم ﷺ پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، لیکن اپنے محبوب ﷺ کی رضا کے لئے پانچ فرض کیں۔ نمازوں میں سے پینتالیس نمازیں معاف کرکے ثابت کردیا کہ میں اپنی طرف سے خود فرض کی گئی پچاس نمازوں میں سے اپنے محبوب کی رضا کے لئے معاف کرسکتا ہوں۔ (فلسفہ معراج، ص 72)

انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی گئیں، کسی کو بےمثال حسن و جمال عطا فرمایا گیا، کسی کو یدِ بیضاء (چمکتا ہوا ہاتھ) عطا فرمایا گیا، کسی کی پھونک مردے کو جلادیتی تو کسی کے مسح سے کوڑھی شفاء پاتے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بڑی شانوں والے ہیں مگر جانِ عالم ﷺ ایک یا دو نہیں بلکہ جملہ اوصافِ حمیدہ کے جامع ہیں، کہ تمام اوصاف کا بیان ناممکن ہے۔ یہ تو وہی جانے کہ جس نے اپنے محبوب کو کامل و اکمل بنایا۔ روزِ اول سے اب تک اور قیامت تک ان کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی، مگر حق یہ ہے کہ

زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گئے مگر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

(1) اعلیٰ اخلاق: حضور نبیِ کریم ﷺ تمام اخلاقِ حسنہ کے جامع ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ: اور بےشک آپ یقیناً عظیم اخلاق پر ہیں۔

پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اخلاق کے کمالات پورے کرنے کے لئے مجھے بھیجا۔ (تفسیر صراط الجنان)

(2) نور: اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6، المائدہ: 15) ترجمہ: بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نور سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ ﷺ کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ (تفسیرِ خازن، 1/477)

(3) رحمت: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

ابو بکر محمد بن طاہر رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: حضور کو اللہ پاک نے رحمت کے ساتھ مزین کیا۔ (الشفاء، 1)

پیارے آقا ﷺ مومنین، منافقین، کافرین تمام کے لئے رحمت ہیں۔ اور آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ حیاتِ ظاہری میں بھی رحمت ہے اور حیاتِ باطنی (وفات) میں بھی رحمت ہے۔

(4) نرمی: قرآنِ عظیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ: (اے حبیب!) خد کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ کہیں بد اخلاق ہوتے اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (اٰلِ عمران:109)

(5) اللہ پاک کا ارشاد ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ (پ9، الاعراف: 157) ترجمہ: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی۔

امی سے مراد ہے وہ جس نے دنیا میں کسی سے نہ پڑھا ہو۔ پیارے آقا ﷺ نے دنیا میں کسی سے نہیں پڑھا بلکہ آپ کو تو خود اللہ پاک نے علم سکھایا جیسا کہ فرمایا: اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) (الرحمٰن: 1-2) ترجمہ کنز الایمان: رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔

(6) داعیا الی اللہ: یعنی اللہ کی طرف بلانے والے۔ حضور نبیِ کریم ﷺ نافرمانوں کو توحیدِ الٰہی اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ فرمایا اللہ پاک نے: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ: اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا۔

(7) بھلائی چاہنے والے: حضور نبیِ کریم ﷺ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ (11، التوبہ: 128) ترجمہ: ان پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔

(8) مہربان: پیارے آقا ﷺ اپنی امت پر نہایت مہربان ہیں۔ آپ دنیا و آخرت دونوں میں رؤفٌ رحیم ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (11، التوبہ: 128) ترجمہ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

(9) حیاء دار: حضورِ جانِ عالم ﷺ کی حیاء کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔

(10) بشیر و نذیر: جانِ جاناں ﷺ فرمانبرداروں کو جنت اور اللہ کی رضا کی خوشخبری دینے والے اور نافرمانوں کو اللہ پاک کے عذاب و ناراضی کا ڈرسنانے والے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹) (پ2، البقرۃ:119) ترجمہ: اے حبیب! بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا۔

محبوبِ جانِ جاناں ﷺ کی تعریف کا احاطہ ناممکن ہے۔

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ، خلق کا آقا کہوں تجھے


قرآن پاک میں اللہ پاک نے 100 سے زائد مقامات پر حضور ﷺ کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ کیا ہے ربِّ کونین نے آپ کو اپنی صفات کا رنگ عطا کیا اور اپنے حبیب مکرم ﷺ کی عظمتوں کا ذکر اس جہاں میں نہیں بلکہ تمام جہانوں میں بلند فرمایا اور آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔اللہ رب العزت نے آپ کی شان میں محفل عالم ارواح میں سجائی اور سامعین کے لیے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیائے کرام کو منتخب فرمایا اور قرآن میں اس میثاق النبیین کو بیان فرمایا: وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ- (اٰل عمران: 81) ترجمہ کنز العرفان: اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والا رسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہوگا تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ اس آیت مبارکہ پر انتہائی نفیس کلام پڑھنے کے لیے فتاویٰ رضویہ کی 30 ویں جلد میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین“ کا مطالعہ فرمائیں۔

مکی مدنی آقا ﷺ کی رسالت کو اللہ پاک نے اپنے کلا م پاک قرآن کی قسم کھا کر بیان فرمایا: یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳) (یٰس:1-3 ) ترجمہ کنز العرفان: یٰسٓ حکمت والے قرآن کی قسم بیشک تم رسولوں میں سے ہو۔ اور یہ خصوصیت آپ ﷺ کے علاوہ اور کسی نبی کو حاصل نہ ہوئی، محمد ﷺ کے اوصاف میں یہ وصف خاص آپ کو ہی عطا ہوا ہے کہ رب کریم نے اپنے حبیب کے ذکر کی بلندی کو اپنے حبیب کو خوش کرنے کے لیے کیا: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم نشرح:4)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔

صراط الجنان میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ کو تمام مخلوق پر افضل کیا آپ کو حسن ظاہر، باطن، نسب، مال، نبوت، کتاب، حکمت، قلم، شفاعت، حوض کوثر، مقام محمود، امت کی کثرت، دین کے دشمنوں پر غلبہ، فتوحات اور نعمتوں اور فضیلتوں کی انتہائیں اور قرآن میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1)ترجمہ: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ اور اس عطا کو ایک ہی دفعہ میں عطا نہیں فرمایا بلکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) (پ 30، الضحی: 4) ترجمہ:اے محبوب آپ کی آنے والی ہر گھڑی آپ کی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔اور اس آیت کی تفسیر رب ذو الجلال نے سورۂ بنی اسرائیل میں کی کہ مقام محمود پر آپ کو فائز فرمائے جو میدان حشر میں مقامِ شفاعت ہے۔ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۷۹) (بنی اسرائیل: 79) ترجمہ:قریب ہے کہ تہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔

رحمٰن رب نے محبت کی انتہا فرما دی۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔جبکہ نماز میں رکوع اور سجود میں امت محمدی رب پاک کو عظیم ہونے کی تکرار کرتی ہے کہ بے شک اللہ پاک نے اپنے حبیب کو اپنی صفات کا رنگ چڑھایا ہے۔ قرآن پاک میں حضور کے ہر عضو کا ذکر کمال محبت سے فرمایا سیرت رسول عربی صفحہ 562 میں تمام سورۂ مبارکہ کے حوالہ جات کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور تو اور آپ ﷺ کا دیکھنا بھی رب غفور بیان فرما رہا ہے: قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ (پ2، البقرۃ: 144) ترجمہ کنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔رب کریم کی صفات اول و آخر میں بھی اپنے حبیب کو رنگ چڑھایا آپ کو عالم ارواح میں امام الانبیا بنایا تو اس جہان میں خاتم النبیین بن کر تشریف لائے۔ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ آخری نبی ہونے کے دلائل کے لیے فتاویٰ رضویہ کی جلد 14 اور 15 مطالعہ فرمائیں۔

ہمارے معاشرے میں جو برائیاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ایک بڑی برائی وعدہ خلافی بھی ہے، ہمارے معاشرے میں وعدہ خلافی کا اظہار زندگی کے بہت سے شعبوں میں ہوتا ہے، خواہ وہ کاروباری معاملات ہوں یا کوئی ادھار چیز لینی ہو، شادی وغیرہ کا معاملہ ہو یا پھر سیاسی معاملات ہوں گویا کہ طرح طرح کے معاملات میں جھوٹا وعدہ کیا جاتا ہے اور پھر مقصد پورا ہو جانے کے بعد اپنے اس کیے ہوئے جھوٹے وعدے کو بھول جاتے ہیں اور یوں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتے ہیں۔

وعدہ خلافی کی تعریف: وعدہ کرتے وقت ہی نیت یہ ہو کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ نہیں کروں گا یہ وعدہ خلافی ہے۔

مثالیں: کسی شخص سے مقررہ وقت پر آنے کا وعدہ کیا لیکن دل میں یہ نیت ہے کہ نہیں آؤں گا۔ وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا۔

وعدہ خلافی کے متعلق احکام: وعدہ خلافی یعنی پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا ہے جو کہ حرام کام ہے، اس نیت سے وعدہ کیا کہ اس کو پورا کروں گا ایسا وعدہ کرنا جائز ہے اور اس کو پورا کرنا مستحب ہے، جب وعدے کو کسی چیز کے حاصل ہونے یا حاصل نہ ہونے کے ساتھ معلق کیا گیا ہو تو جب وہ شرط پائی جائے گی وعدہ پورا کرنا لازم ہوگا، مثلا کسی سے کہا کہ یہ چیز فلاں شخص کو بیچ دو اگر اس نے قیمت ادا نہیں کی تو میں ادا کروں گا پھر خریدار نے قیمت ادا نہیں کی تو اب اس پر قیمت ادا کرنا لازم ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 34)

آیت مبارکہ: اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: وَ اَوْفُوْا بِالْعَهْدِۚ-اِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْـٴُـوْلًا (۳۴) (پ 15، بنی اسرائیل: 34) ترجمہ کنز الایمان: اور عہد پورا کرو بے شک عہد سے سوال ہونا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔منافق کی 3 نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

2۔ جو مسلمان عہد شکنی اور وعدہ خلافی کرے اس پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا نہ کوئی فرض قبول ہوگا اور نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

وعدہ خلافی کے اسباب و علاج: وعدہ خلافی کا سبب قلت خشیت ہے کہ جب اللہ کا خوف ہی نہ ہو تو بندہ کوئی بھی گناہ کرنے سے باز نہیں آتا۔ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ فکر آخرت کا ذہن بنائے، اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے اپنی موت کو یاد کرے، یہ مدنی ذہن بنائے کہ کل بروز قیامت خدانخواستہ اس عذر یعنی بد عہدی کے سبب رب ناراض ہو گیا تو میرا کیا بنے گا؟

وعدہ خلافی کا دوسرا سبب حبِّ دنیا ہے کہ بندہ کسی نہ کسی دنیوی غرض سے بدعہدی جیسے قبیح فعل کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ حب دنیا کی مذمت پر غور کرے کہ دنیا کی محبت کئی برائیوں کی جڑ ہے جو شخص حب دنیا جیسے موذی مرض کا شکار ہو جاتا ہے اس کے لیے دیگر کئی گناہوں کے دروازے کھل جاتے ہیں، یقینا سمجھدار وہی ہے جو جتنا دنیا میں رہنا ہے اتنا ہی دنیا میں مشغولیت رکھے فقط اپنی اخروی زندگی کی تیاری کرتا رہے۔

وعدہ خلافی کا تیسرا سبب دھوکا بھی ہے، اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ دھوکے جیسے قبیح فعل کی مذمت پر غور کرے کہ جو لوگ دھوکا دیتے ہیں ان کے بارے میں احادیث مبارکہ میں یہ وارد ہے کہ وہ ہم میں سے نہیں، یقینا دھوکا دینا کسی مسلمان کی شان نہیں، جب لوگوں پر اس کی دھوکا دہی کا پردہ چاک ہو جاتا ہے وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا، دھوکا دہی سے کام لینے والا بالآخر ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے، دھوکا دینے والا رب کی بارگاہ میں بھی ندامت و شرمندگی سے دوچار ہوگا۔

وعدہ خلافی کا چوتھا سبب جہالت ہے کہ جب بندہ غدر جیسی موذی بیماری کے وبال سے واقف نہ ہوگا تو اس سے بچے گا کیسے؟ اس کا علاج یہ ہے کہ بندہ غدر کی تباہ کاریوں پر غور کرے کہ بد عہدی کرنا مومنوں کی شان نہیں ہے۔ حضور ﷺ صحابہ کرام اور دیگر بزرگان دین نے کبھی کسی کے ساتھ بد عہدی نہیں کی، بد عہدی نہایت ہی ذلت و رسوائی کا سبب ہے، بدعہدی کرنے والے شخص کے لیے کل بروز قیامت اس کی بد عہدی کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا، بد عہدی کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ بندہ اللہ کی بارگاہ میں یوں دعا کرے: اللہ مجھے بد عہدی جیسے موذی مرض سے نجات دے کہ میں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بدعہدی نہ کروں۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 173 تا 175)

وہ بات جسے پورا کرنا انسان خود پر لازم کرے وعدہ کہلاتی ہے، وعدے کے لیے لفظ وعدہ کہنا ضروری نہیں بلکہ ویسے ہی الفاظ سے اپنی بات کا پختہ ہونا ظاہر کیا یہ بھی وعدہ ہے۔

وعدہ خلافی کی تعریف: وعدہ کرتے وقت ہی یہ نیت ہو جو میں کہہ رہا ہوں نہیں کروں گا یہ وعدہ خلافی ہے۔(شیطان کے بعض ہتھیار، ص 42) مثلا وعدہ کیا کہ فلاں تاریخ کو تمہیں رقم ادا کردوں گا لیکن دل میں ہے کہ نہیں کروں گا تو یہ وعدہ خلافی ہے، اگرچہ اس تاریخ کو رقم ادا ہی کیوں نہ کر دے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔

وعدہ خلافی کا حکم: پورا نہ کرنے کی نیت سے وعدہ کرنا جان بوجھ کر جھوٹ بولنا حرام کام ہے۔(ظاہری گناہوں کے بارے میں معلومات، ص 34)

وعدہ خلافی کی مذمت پر درج ذیل احادیث پیش خدمت ہیں:

1۔ اس شخص کا کوئی دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)

2۔ وعدہ قرض کی مثل ہے بلکہ اس سے بھی سخت ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 457)

3۔ وعدہ کرنا عطیہ ہے۔ (موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 7/267، حدیث: 456) یعنی جس طرح عطیہ دے کر واپس لینا مناسب نہیں اس طرح وعدہ کر کے بھی اس کا خلاف نہیں کرنا چاہیے۔ (احیاء العلوم، 3/403) بے شک زبان وعدہ کرنے میں بہت سبقت کرتی ہے پھر نفس اس کو پورا نہیں کرتا یوں وعدہ خلافی ہو جاتی ہے۔

4۔ منافق کی 3 نشانیاں ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خلاف کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

5۔ جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے وعدے پر نہ آ سکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995) مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: جائز وعدہ پورا کرنا عام علما کے نزدیک مستحب ہے، وعدہ خلافی مکروہ، بعض علما کے نزدیک ایفائے عہد واجب ہے اور وعدہ خلافی حرام ہے، اگر وعدہ کرنے والا پورا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو مگر کسی عذر یا مجبوری کی وجہ سے پورا نہ کر سکے تو وہ گنہگار نہیں، یوں ہی اگر کسی کی نیت وعدہ خلافی کی ہو مگر اتفاقا پورا کر دے تو گنہگار ہے اس بدنیتی کی وجہ سے ہر وعدہ میں نیت کو بڑا دخل ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 6/ 492)

حضرت ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا کہ ایک شخص کسی سے مقررہ مدت پر آنے کا وعدہ کرے پھر نہ آئے تو اس کا کتنی دیر انتظار کرنا چاہیے ارشاد فرمایا: وہ آئندہ نماز کا وقت داخل ہونے تک انتظار کرے۔

22 دن تک انتظار: اللہ پاک نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعریف کرتے ہوئے سورۂ مریم میں ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ (مریم: 54) ترجمہ کنز العرفان: بے شک وہ وعدے کا سچا تھا۔ منقول ہے کہ حضرت اسماعیل نے کسی شخص سے ایک جگہ آنے کا وعدہ فرمایا تو وہ نہیں آیا، آپ 22 دن تک اسی جگہ اس کے انتظار میں کھڑے رہے۔ (احیاء العلوم، 3/403)

نبی کریم ﷺ کی وعدہ وفائی: حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی، میں نے وعدہ کیا اسی جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا میں گیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تونے مجھے تکلیف دی ہے، میں 3 دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4996)

فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عہد شکنی اور وعدہ خلافی سے نفاق پیدا ہو جاتا ہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ ان باتوں سے احتراز کرے اور عہد پورا کرنے اور وعدہ وفا کرنے میں پوری کوشش کرے۔(تفسیر کبیر، التوبۃ، 6/108-109) وعدے کو معمولی مت سمجھیے، وعدہ پورا کرنے سے بندے کی عزت اور وقار میں اضافہ ہوتا ہے، لوگ اس کی بات پر اعتماد کرتے ہیں، وعدے کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے۔


معاہدہ کرنے کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنا غدر یعنی بد عہدی کہلاتا ہے، کسی سے وعدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کرنا وعدہ خلافی کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 170)

وعدہ خلافی کے متعلق آیات و احادیث مبارکہ:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)

وَ بِعَهْدِ اللّٰهِ اَوْفُوْاؕ-ذٰلِكُمْ وَصّٰىكُمْ بِهٖ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَۙ(۱۵۲) (الانعام: 152) ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ ہی کا عہد پورا کرو یہ تمہیں تاکید فرمائی کہ کہیں تم نصیحت مانو۔

وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْكِیْدِهَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰهَ عَلَیْكُمْ كَفِیْلًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱) (النحل: 91) ترجمہ: اور اللہ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم نے اس سے کوئی عہد باندھا ہو اور اپنی قسمیں پختہ کرنے کے بعد توڑ نہ ڈالو جب کہ تم اللہ کو اپنے اوپر گواہ بنا چکے ہو اللہ تمہارے سب اعمال سے با خبر ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۬ؕ- (پ 6، المائدۃ: 1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! وعدوں کو پورا کرو۔

وعدہ پورا کرنے کی اہمیت: ایفائے عہد بندے کی عزت و وقار میں اضافے کا سبب ہے جبکہ قول و اقرار سے روگردانی اور عہد کی خلاف ورزی بندے کو دوسروں کی نظروں میں گرا دیتی ہے، نبی صادق و امین ﷺ کا ارشاد ہے: اس شخص کا کچھ دین نہیں جو وعدہ پورا نہیں کرتا۔(معجم کبیر، 10/227، حدیث: 10553)

غوث پاک اور ایفائے عہد: غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک سفر میں کوئی شخص میرا رفیق بنا، ایک بار اس نے مجھے ایک جگہ بٹھایا اور اپنے انتظار کا وعدہ لے کر چلا گیا، میں ایک سال تک وہاں بیٹھا رہا پھر وہ لوٹا اور یہی وعدہ لے کر چلا گیا، ایسا تین بار ہوا آخری بار وہ آیا اور کہا: میں خضر ہوں۔ (اخبار الاخیار، ص 12)

وعدہ خلافی حرام ہے: بد عہدی یعنی وعدہ پورا نہ کرنے کی نیت سے فقط ٹالنے کے لیے جھوٹا وعدہ کرنا نا جائز و حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ حدیث شریف میں ہے: جو کسی مسلمان سے عہد شکنی کرے اس پر اللہ فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور اس کا کوئی فرض قبول نہ ہوگا نہ نفل۔ (بخاری، 2/370، حدیث: 3179)

بد عہدی کے اسباب: بدعہدی کے چار اسباب ہیں: قلتِ خشیت، حب دنیا، دھوکا اور جہالت۔

بد عہدی کے نقصانات: بدعہدی یعنی وعدہ خلافی کرنے والے شخص پر بھروسا نہیں کیا جاتا، بد عہدی کرنے والے کو ذلت و رسوائی سہنی پڑتی ہے، بد عہدی کرنے والے شخص سے لوگ بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے، بد عہدی کرنے والے کے لیے دنیا و آخرت میں سخت عذاب ہے۔

بد عہدی کے علاج: بد عہدی کرنے والے شخص کو فکر آخرت کا ذہن بنانا چاہیے، اپنے آپ کو رب کی بے نیازی سے ڈرائے، اپنی موت کو یاد کرے، وعدہ پورا کرنا ہمارے پیارے آقا ﷺ کی سنت ہے، ہمیں چاہیے کہ ہم حضور کی اس سنت پر دل و جان سے عمل کریں، بد عہدی کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ بندے کو چاہیے کہ وہ سچے دل سے اللہ کی بارگاہ میں یوں دعا کرے: اے اللہ! مجھے بد عہدی جیسے موذی مرض سے نجات عطا فرما میں کبھی بھی کسی مسلمان کے ساتھ بد عہدی نہ کروں۔ آمین