جہاں پڑوسی سے حسن سلوک کا حکم ہے وہیں یہ بھی ہے کہ ہم اس کو اپنے شر سے محفوظ رکھیں اس کو اپنی ذات سے کوئی تکلیف و آزمائش نہ ہونے دیں چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی کا فرمان ہے: اللہ کی قسم! وہ مؤمن نہیں ہو سکتا،اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اُس کی شرارتوں سے مخفوظ نہ ہو۔(بخاری ،کتاب الادب،8/10، حدیث:6016)

پڑوسی ایک دوسرے کی خوشیوں میں شریک ہوں اور آپس میں غم با بانٹنے سے رابطے مضبوط ہوتے اور پڑوسیوں کا یہ حق ہے کہ ہم ان کی خوشی اور غم کے مواقعوں میں شریک ہوں اس بات کو حدیث مبارکہ میں اس انداز سے بیان کیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: جب تم کوئی سالن پکاؤ تو اس میں پانی زیادہ رکھو پھر اپنے پڑوسیوں کو دیکھو تو اس سے کچھ ان کو دے دو ( صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب الوصیۃ ،حديث: 2625 )

(1، 2، 3) پڑوسی کو اپنے شر سے محفوظ رکھنا، خوشی غمی میں شریک ہونا : ضرورت کے وقت کام آنا :انسان ہونے کے ناطے ہمیں روزانہ کی بنیاد پر ایک دوسرے کی حاجت ہوتی ہے بہترین انسان وہ ہے جو ضرورت کے وقت کام آئے یہی تقاضا پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے اور یہ ان کا حق ہے چنانچر امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : پڑوسی کا یہ حق ہے کہ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں ہماری ضرورت ہو اس میں ان کی راہنمائی کرے۔( حیاء العلوم ،مترجم ، ج 2،ص 72)

پڑوسی کی ایذا پر صبر کرنا : حجّۃ الاسلام حضرت سیّدنا امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ حقِ پڑوس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے ، بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی حقِ پڑوس میں شامل ہے ۔کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور وہ اس کے بدلے اسے تکلیف نہیں دیتا ہے ، حالانکہ اس طرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا ، لہٰذا صرف تکلیفوں کو برداشت کرنے پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے کے ساتھ پیش آئے ۔(احیاء العلوم ، کتاب آداب الالفت ۔الخ 2/267)

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق مجھے اور ادا کرنے کی توفیق عطا فرمانے اور بروز قیامت اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکا پڑوس نصیب فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الحمدللہ اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اچھے اور نیک پڑوسی کے ملنے کا بھی ہے جس طرح ہم پر والدین، اساتذہ، رشتہ دار، اور دوستوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح ہم پر پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں اور ان پر عمل کرنا ہم پر لازم ہے۔

پڑوسیوں کی عزت کرنا اور احترام کرنا یہ ان کا سب سے بڑا حق ہے اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آنا یہ بھی ان کا حق ہے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بدتمیزی زیادتی نہ کی جائے یہ بھی ان کا حق ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے انہوں نے فرمایا میں نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میرے دو پڑوسی ہیں ان میں سے میں کسے ہدیہ دیا کروں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کا دروازہ تم سے زیادہ قریب ہو ۔(مشکوۃ المصابیح جلد 3 ،حدیث : 1936)

اس حدیث سے چند چیزیں معلوم ہوئی ایک یہ کہ پڑوسیوں کو ہدیہ دینا سنت ہے کیونکہ اس سے محبت بڑھتی ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ پڑوسی کا قرب دروازے سے ہوتا ہے نہ کہ چھت اور دیوار سے۔ اگر ایک شخص کے مکان کی دیوار اور چھت تو ہمارے مکان سے ملی ہوئی ہو مگر دروازہ دور ہو اور دوسرے شخص کی نہ چھت ملی ہوئی ہو اور نہ ہی دیوار مگر دروازہ قریب ہو تو یہ پڑوسی زیادہ قریب ہے کیونکہ دروازے کی وجہ سے ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ایک دوسرے کے درد و غم میں شرکت کا زیادہ موقع ملتا ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ پڑوسی قرب کی وجہ سے حقدار ہے حضرت عمر بن شدید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اس فرمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے اس کی تفسیر میں شفعہ فرمایا یعنی پڑوسی قرب میں ہونے کی وجہ سے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے امن میں نہ ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4963)

افسوس یہ ہے کہ آج ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اس فرمان پر بالکل بھی عمل نہیں کرتے بلکہ اب تو حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہمارا پہلا شکار ہی ہمارا پڑوسی ہوتا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہو اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھا ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4987)

عبادت کی درستگی کے بعد پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں کیونکہ وہ ہر وقت آپ کے ساتھ ہی رہتا ہے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے ان کے بچوں کو اپنی اولاد کی طرح سمجھنا چاہیے ان کی عزت و ذلت کو اپنی عزت و ذلت سمجھنا چاہیے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن وہ نہیں جو خود سیر ہو جائے اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(مشکوۃ المصابیح جلد 6 ،حدیث : 4991)

اگر اسے اپنے پڑوسی کی بھوک اور محتاجی کی خبر ہو پھر بھی یہ اسے پورا نہ کرے تو تب تو یہ بے مروت ہے اور اگر خبر نہیں ہو تو یہ بہت لاپرواہ ہے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے محلہ داروں کی حالات سے واقف ہو اور اگر کسی کی حاجت مندی کا پتہ چلے تو ان کی حاجت کو پورا کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے جو میں نے لکھا اس کو اپنی پاک بارگاہ میں قبول فرمائے اور اس میں جو غلطی ہو گئی ہو اسے اپنی رحمت کے صدقے معاف فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایک ہی محلے یا سوسائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دُکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں ماں باپ اور عزیز و اقارب کے ساتھ حسنِ سلوک، ہمدردی و اخوت، پیار و محبت، اَمْن و سلامتی اور ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک ہونے کی تعلیم دی ہے وہیں مسلمانوں کے قرب و جوار میں بسنے والے دیگر اسلامی بھائیوں کو بھی محروم نہیں رکھا بلکہ ان کی جان و مال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا کہ اگر اُس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہو سکتے ہیں اور اِس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔

وہ مؤمن نہیں ہوسکتا : نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار ارشاد فرمایا: اللہ پاک کی قسم! وہ مؤمن نہيں ہو سکتا۔ صحابَۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی: يارسولَ اللہ! وہ کون ہے؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس کی برائيوں سے اس کا ”پڑوسی“ محفوظ نہ رہے۔(بخاری،4/104، حدیث: 6016)

اسلام میں ”پڑوسی“ کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بَد ہونے کا معیار اس کے ”پڑوسی“ کو مقرر فرمایا، چنانچہ ايک شخص نے عرض کی: يارسولَ اللہ! مجھے ايسا عمل بتایئے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہوجاؤں؟ تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نيک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی: مجھے اپنے نيک بن جانے کا عِلم کيسے ہوگا؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے ”پڑوسیوں“ سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہيں تو تم نیک ہو اور اگر وہ بُرا کہيں تو تم بُرے ہی ہو۔ (شعب الایمان، 7/85، حدیث: 9567)

اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں دیتے کہ جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“ میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر، 12/119، حدیث: 12741)

”پڑوسیوں“ سے حُسنِ سلوک تکمیلِ ایمان کا ذریعہ جبکہ انہیں ستانا، تکلیف پہنچانا، بَدسلوکی کے ذریعے ان کی زندگی کو اجیرن بنا دینا، دنیا و آخرت میں نقصان کا حقدار بننا اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کے شر سے اُس کا ”پڑوسی“ بے خوف نہ ہو وہ جنّت میں نہیں جائے گا۔(مسلم، ص 43، حدیث: 73) دوسری روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث: 3907)

”پڑوسی“ کے حقوق بیان فرماتے ہوئے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ بيمار ہو تو اس کی عِيادت کرو، اگر فوت ہوجائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہوجائے تو اس کی پَردہ پوشی کرو۔( معجمِ کبیر،19/419، حدیث: 1014)

ایک اور روایت میں یوں ارشاد فرمایا: اگر وہ تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں؟ ”پڑوسی“ کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔(الترغیب والترہیب،3/243، حدیث:3914 ) ايک اور روایت میں فرمایا: اگر وہ تنگدست ہوجائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اُسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزيت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے ميں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغير اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہَوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خريد کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ايسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور ”پڑوسی“ کے بچوں کو تکلیف دینے کے لیے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں۔ (شعب الایمان،7/83، حدیث: 9560)

بسا اوقات ”پڑوسی“ سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے ”پڑوسی“ کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637) مُعَاشَرے کو پُر سکون اور اَمْن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے ”پڑوسیوں“ کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

پڑوسی کے چند حقوق: قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔(پ5،النساء:36)

اور حدیث شریف میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ، حدیث:2664،ص 1413)

ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیہم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو۔ ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ امانت ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔(شعب الایمان ، باب فی تعظیم النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ... الخ ، 2/201،حدیث: 1533)

اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)

چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کرلیں۔

(1)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔

(2)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔

(3)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، ص1413، حدیث:2625)

(4)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان کی پردہ پوشی کرے ۔ اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا  ہے: پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے (کے ساتھ بھلائی کرو)۔ (پ5،النساء:36)

اور حدیث شریف میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ  : حضرت جبرائیل علیہ السّلام مجھ کو ہمیشہ پڑوسیوں کے حقوق کے بارے میں وصیت کرتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ شاید عنقریب پڑوسی کو اپنے پڑوسی کا وارث ٹھہرا دیں گے۔(صحیح مسلم ، کتاب البر والصلۃ ، باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ ، حدیث:2664،ص1413)

    ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ ایک دن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وضو فرما رہے تھے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان آپ کے وضو کے دھووَن کو لوٹ لوٹ کر اپنے چہروں پر ملنے لگے یہ منظر دیکھ کر آپ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ تم لوگ ایسا کیوں کرتے ہو ؟ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا کہ ہم لوگ اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کے جذبے میں یہ کر رہے ہیں۔ یہ سن کر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جس کو یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے۔ یا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس سے محبت کریں اس کو لازم ہے کہ وہ ہمیشہ ہر بات میں سچ بولے اور اس کو جب کسی چیز کا امین بنایا جائے تو وہ امانت  ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔( شعب الایمان ، 2/201،حدیث:1533)

اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ شخص کامل درجے کا مسلمان نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھالے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہ جائے۔( شعب الایمان، 3/225 ، حدیث: 3389)

چند مدنی پھول عرض کئے جاتے ہیں ان پر عمل کرنے کی نیت کر لیں۔

(1)اپنے پڑوسی کے دکھ سکھ میں  شریک رہے اور بوقت ضرورت ان کی بن مانگے بغیر احسان جتائے ہر قسم کی امداد بھی کرتا رہے۔

(2)اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری ، ان کی خیر خواہی اور بھلائی میں ہمیشہ لگا رہے۔

(3)کچھ تحفوں کا بھی لین دین رکھے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’  جب تم لوگ شوربا پکاؤ تو اس میں کچھ زیادہ پانی ڈال کر شوربے کو بڑھاؤ تاکہ تم لوگ اس کے ذریعہ اپنے پڑوسیوں کی خبر گیری اور ان کی مدد کر سکو۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجاروالاحسان الیہ، رقم ۲۶۲۵،ص۱۴۱۳)

(4)پڑوسی کے مال عزت آبرو کے معاملے میں بہت احتیاط برتے ان کی پردہ پوشی کرے ۔اپنی نگاہوں کو پڑوسی کی عورتوں سے دیکھنے سے خاص طور پر بچائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کا حق ادا کرنے والا بنائے ۔۔۔ آمین ۔


الحمدللہ ہم پر اللہ رب العزت کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں مسلمان بنایا اور دینِ اسلام اتنا پیارا مذہب ہے کہ جو نہ صرف ہمیں والدین رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی کا حکم دیتا ہے بلکہ یہ بھی سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے قریبی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھ کس طرح کا سلوک کرنا چاہیے۔ کئی احادیثِ مبارکہ میں کثرت کے ساتھ پڑوسیوں کی اہمیت، ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے اور ان کے حقوق کی بجاآوری کا ذہن دیا گیا ہے آئیے! اس ضمن میں ایک بہت ہی پیاری حدیث پاک سنتے ہیں:

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ (پھر خود ہی ارشاد فرمایا) کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے پوچھو اور اس کا خیال کرو اور جب بیمار ہو تو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو اسے صبر دلاؤ اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو کہ اس کی ہوا رک جائے اور اپنی ہانڈی کی خوشبو سے اس کو ایذا نہ دو بلکہ اس میں سے کچھ اس کے لئے بھی حصہ نکالو اور اگر کوئی پھل خریدو تو اسے بھی ہدیہ دو اور اگر کسی وجہ سے ایسا نہ کر سکو تو اس سے چھپا کر استعمال کرو بلکہ تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے! مکمل طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں، وہی ہیں جن پر اللہ پاک کی مہربانی ہے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑوسیوں کے متعلق مسلسل وصیت فرماتے رہے یہاں تک کہ لوگوں کو گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں : بعض کے تین حق ہیں بعض کے دو اور بعض کا ایک حق ہے، جو پڑوسی مسلم ہو اور رشتہ دار ہو اس کے تین حق ہیں۔حق جوار اور حق اسلام اور حق کے قرابت، مسلم پڑوسی کے دو حق ہیں، حق جوار اور حق اسلام اور غیر مسلم پڑوسی کا صرف ایک حق جوار ہے۔ (شعب الایمان،باب فی اکرام الجار )

بیان کردہ حدیثِ پاک سے ہر عقلمند شخص اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتا ہے کے پڑوسیوں کے حقوق کی بجاوری ان کی خبرگیری و حاجت روائی کرنے، ان کی دل جوئی کرنے، ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے انہیں خوش رکھنے اور انہیں تکلیف نہ پہنچانے کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کتنی شاندار ہیں کہ اگر آج مسلمان صحیح معنی میں ان حسین تعلیمات کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیں اور ان کے متعلق عمل پیرا ہو جائیں تو وہ دن دور نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حقیقی مدنی انقلاب برپا ہو جائے مگر افسوس کہ جیسے جیسے ہم زمانہ نبوی سے دور ہوتے جا رہے ہیں دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ پڑوسیوں کے حقوق کی ادائیگی کے معاملے میں بھی پستی کے گہرے گھڑے میں گرتے جا رہے ہیں ۔ ایک ہی گلی، محلے میں سالہا سال گزر جانے کے باوجود اپنے پڑوسی کی پہچان، اس کی موجودگی اور حقِ پڑوس سے غفلت کا یہ عالم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی عزیز سے ملنے آئے اور ہم سے اسی گلی یا محلے میں رہنے والے اپنے کسی عزیز کا پتہ معلوم کرے تو ہم بغلیں جھانکتے اور سر کھجاتے ہیں کیونکہ ہمیں بالکل خبر نہیں ہوتی کہ ہمارے پڑوس میں کون رہتا ہے۔ اس کا کیا نام ہے کیا کام کرتا ہے ہم تو بس اپنی مستی میں مست رہنے والے ہیں کہ ہمارے پڑوس میں میت ہو جائے، کوئی بیمار ہو یا کسی پریشانی کا شکار ہوجائے تو ہمیں تعزیت و عیادت کرنے کی توفیق بھی نصیب نہیں ہوتی۔

ہاں مالداروں، صاحبِ منصب لوگوں، مخصوص دوستوں، برادری والوں یا ایسے پڑوسی کہ جن سے ہمیں اپنا کام نکلوانا ہو ان کے یہاں تو ہم خوشی اور غم کے مواقع پر پیش پیش نظر آتے یا انہیں اپنے ہاں تقریبات میں بلاتے ہیں مگر غریب پڑوسیوں کی خیر خواہی کرنا یا ان کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا ہم اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور کسی قسم کا رنج یا تکلیف پہنچانے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین 


انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق بلکہ ہر وقت ملاقات، لین دین کا ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوشگواری و ناخوشگواری کا زندگی کے چین وسکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ تو چند پڑوسیوں کے حقوق درج ذیل ہیں۔

ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اسکے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اسکا شوربہ زیادہ کرلیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔ ( مسلم، كتاب البر والصلۃ ) نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن یا اسکے ھدیے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ اسکا بھیجا ہوا ہدیہ بکری کا کھر ہی ہو۔ ( بخاری، کتاب الادب )

ہر مسلمان عورت کو اپنی حیثیت کے مطابق پڑوسن کے یہاں ھدیہ بھیجتے رہنا چاہئے یہاں تک کہ وہ معمولی چیز کا ہدیہ بھیجنے میں بھی تامل نہ کرے اسی طرح کسی پڑوسن کے یہاں سے آئے ہوئے معمولی ہدیہ کو بھی حقیر نہ جانے بلکہ اسے خوش دلی سے قبول کرے اور ھدیہ دینے والی کاشکریہ ادا کرے اس سے نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور غصہ دور ہوجاتا ہے بلکہ وہ ایک دوسرے سے محبت کرنے لگتی ہیں اور ان کے باہمی تعلقات خوشگوار ہوجاتے ہیں ۔

اللہ اور اسکے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے۔( مسلم ، کتاب الایمان )

مطلب یہ ہےکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ہے کہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہوتو مبارک باد دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اسکے دین ودنیا کی درست رہنمائی کرو، اسکے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اسکی لغزشوں سے درگزر کرو، اسکی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اسکو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے کے تحت آتی ہیں۔

ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر حق ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کی قسم !وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہوسکتا، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول كون ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا وہ شخص جس کا پڑوسی اسکی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔( بخاری ،کتاب الادب ) اورایک روایت میں فرمایا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہوتو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ ( بخاری )

لفظ مؤمن کا مصدر ،ایمان امن سے ماخوذ ہے جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو وہ مفسد اور شر پسند نہیں ہو سکتا ہے اس سے یہ بات نکلتی ہے کہ مؤمن اپنے پڑوسی کو ایذا نہیں دیتا، اس پر ظلم نہیں کرتا، اس پر بہتان نہیں لگاتا، اسکی عزت و آبرو پر حملہ نہیں کرتا بلکہ وہ امن وسلامتی کا پیکر ہوتا ہے نہ صرف یہ کہ مؤمن پڑوسی اسکے شر، دست درازی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ غیر مسلم ہمسائے بھی اسکی،شرافت امانت اور اخلاق پر اعتماد کرتے ہیں جوشخص اپنی شرارتوں سے پڑوسی کو پریشان کرتا رہتا ہو اور اپنی فتنہ انگیزی سے اسکا چین چھین لیتا ہو وہ مؤمن نہیں ہے۔

اللہ پاک ہمیں پڑوسیوں اور اہل محلہ سے حسن سلوک کی توفیق عطا فرمائے۔


ایک ہی محلے یا سو سائٹی میں رہنے والے لوگ اگر ایک دوسرے سے میل جول نہ رکھیں، دکھ درد میں شریک نہ ہوں تو بہت سی مشقتیں اور پر پریشانیاں پیدا ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے جہاں والدین اور عزیز واقارب کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی و اخوت ، پیارو محبت اور امن و سلامتی کی تعلیم دی ہے وہیں ہمارے قرب و جوار میں بسنے والے پڑوسیوں کو بھی محروم نہیں رکھا۔ بلکہ ان کی جان ومال اور اہل و عیال کی حفاظت کا ایسا درس دیا ہے کہ اگر اس پر عمل کیا جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل حل ہوسکتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے جہاں ہر ایک دوسرے کے جان و مال، عزت و آبرو اور اہل و عیال کا محافظ ہوگا۔

(1) پڑوسی کے حقوق بیان کرتے ہوئے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر وہ (پڑوسی) بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ، اگر فوت ہو جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اگر قرض مانگے تو اسے قرض دے دو اور اگر وہ عیب دار ہو جائےتو اس کی پردہ پوشی کرو۔ ( معجم کبیر، ج 19 ، ص 419 ، حدیث : 1014 )

(2) ایک اور روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اگر وہ (پڑوسی) تم سے مدد طلب کرے تو اس کی مدد کرو اور اگر وہ محتاج ہو تو اسے عطا کرو، کیا تم سمجھ رہے ہو جو میں تمہیں کہہ رہا ہوں ؟ پڑوسی کا حق کم لوگ ہی ادا کرتے ہیں جن پر اللہ پاک کا رحم و کرم ہوتا ہے۔ (الترغیب والترہیب، ج 3، ص 243 ، حدیث:3914)

(3) پڑوسیوں کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اس کی خوشی وغمی میں شریک ہوں ، اسے تکلیف نہ پہنچائیں اور اپنے لیے جو پسند کریں اس میں سے کچھ حصہ پڑوسی کے گھر بھیج دیں۔

ایک روایت میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اگر وہ (پڑوسی ) تنگ دست ہو جائے تو اسے تسلی دو، اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارک باد دو، اگر اسے مصیبت پہنچے تو اس سے تعزیت کرو، اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں شرکت کرو، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے اونچی عمارت بنا کر اس سے ہوا نہ روکو، سالن کی خوشبو سے اسے تکلیف نہ پہنچاؤ ہاں! یہ کہ اسے بھی مٹھی بھر دے دو تو صحیح ہے، اگر پھل خرید کر لاؤ تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو اور ایسا نہ کر سکو تو اسے چھپا کر اپنے گھر لاؤ اور پڑوسی کے بچوں کو تکلیف دینے کیلئے تمہارے بچے پھل لے کر باہر نہ نکلیں ۔ (شعب الایمان، ج 7 ،ص 83 ، حدیث : 9560)

(4) کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیا جائے: حضرت سیدنا امام مجاہد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے. ہیں : میں حضرت سیدنا عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر تھا ان کا غلام بکری کی کھال اتار رہا تھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے غلام ! جب تو کھال اتارلے تو سب سے پہلے ہمارے یہودی پڑوسی کو دینا حتی کہ آپ نے یہ جملہ کئی بار فرمایا ، غلام نے کہا : آپ کتنی بار یہ کہیں گے؟ فرمایا : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں مسلسل پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتی کہ ہمیں خدشہ ہوا کہ کہیں پڑوسی کو وارث نہ بنا دیں ۔ (ترمذی، كتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فى حق الجوار، 3/379 ،حدیث:1949)

(5) اسلام میں پڑوسی کو اس قدر اہمیت حاصل ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی شخص کے کامل مؤمن ہونے اور نیک و بد ہونے کا معیار اس کے پڑوسی کو مقرر فرمایا چنانچہ ایک شخص نے عرض کی یارسولُ الله مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جس سے میں جنت میں داخل ہو جاؤں؟ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: نیک بن جاؤ۔ اس نے عرض کی : مجھے اپنے نیک بن جانے کا علم کیسے ہوگا ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے پڑوسیوں سے پوچھو اگر وہ تمہیں نیک کہیں تو تم نیک ہو اور اگر وہ برا کہیں تو تم بڑے ہی ہو۔(شعب الایمان ، ج 7، ص 85 ، حدیث : 9567)

پڑوسیوں کے چند عام حقوق بیان کئے جا رہے ہیں:

۱۔ پڑوسیوں کے ساتھ سلام میں پہل کرے ۔

٢۔ان کے ساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

۳۔ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے۔

۴۔ جب وہ بيمار ہو تو ان کی عیادت کرے۔

٥۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے ۔

٦۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے۔

۷۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔

۸۔ ان کے گھر میں مت جھانکے ۔

۹۔ اگر ان کے عیوب اس پر ظاہر ہوں تو انہیں چھپائے ۔

۱۰۔ ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔

١١۔ ان کی اولاد کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرے۔

١٢۔ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں ان کی رہنمائی کرے۔

معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کی تکمیل کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین 


انسان کا اپنے رشتہ داروں کے علاوہ ایک مستقل واسطہ اپنے پڑوسیوں کے ساتھ،ہوتاہے،اسلام نے اس تعلق کو بہت زیادہ اہمیت دی ہے جہاں ماں باپ ،میاں بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا گیا ہے ،وہیں پڑوسیوں کے بارے میں بھی اس کی تاکید اورہدایت فرمائی گئ ہے۔ قراٰنِ پاک میں دو قسم پڑوسیوں کے پڑوسیوں کا تذکرہ فرمایا گیا اور ان سے اچھا سلوک کرنے کی تاکید فرمائی گئی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے ۔ (پ5، النسآء:36)

قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہوا ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صر ف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: 36، ص275)

احادیث مبارکہ میں پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان فرمائے گئے جن میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں ۔

(1) جب وہ مدد طلب کرے تو اس کی مدد کی جائے: جیساکہ حدیث پاک میں ہے: جس نے مصیبت کے وقت اپنے مسلمان بھائی کی مدد کی تو اللہ پاک آخرت کی مصیبتوں میں سے ایک مصیبت میں اس کی مدد کر ے گا اور جو مسلمان کا عیب چھپائے اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کے عیب چھپائے گا اور اللہ پاک بندے کی مدد میں ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہے۔ (مسند احمد، جلد 2، ص 252)

(2) جب قرض طلب کرے اس کو قرض دیا جائے: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ہر قرض صدقہ ہے ۔ (شعب الايمان ، ج 3، ص 284 ، حدیث 3563)اسی طرح معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پرلکھا ہوا دیکھا کہ صدقے کا ہر درہم ،دس درہم کے برابر ہے اور قرض کاہردرہم اٹھارہ درہم کے برابر ہے ۔میں نے پوچھا جبرئیل!قرض ،صدقے سے کس وجہ سے افضل ہے؟عرض کی: سائل سوال کرتا ہے جب کہ اس کے پاس (مال)ہوتا ہے اور قرض طلب کرنے والا اپنی ضرورت کے لئے قرض طلب کرتا ہے ۔ (حليۃالاولياء، ج 8، ص 374 ، حدیث: 12549)

(3) جب بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے: فرمان مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کیلئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کیلئے استغفار کرتے ہیں اور اس کیلئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔ (ترمذی،ج 2،ص290، حدیث: 971)

(4) اور اگر اس کو کوئی نعمت ملے تو مبارک باد دو: (مثال کے طور پران کے ہاں اولاد ہونا، امتحان میں پاس ہونا، روزگار کا مل جانا، شادی بیاہ) تو ان کو مبارک باد دینا۔ یہاں بھی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ پڑوسی خوشی کے موقع پر غیر شرعی یا غیر اخلاقی پروگرام کرتا ہے تو اس میں بالکل شرکت نہ کی جائے اور نہ ہی اس موقع پر مبارک باد دی جائے تاکہ اس کو اپنی غلطی کا احساس ہو۔

(5) پڑوسی کوکھانے میں سے کچھ بھیج دینا: گھر میں کھانا تیار کرتے وقت اس بات کا خیال کیا جائے کہ کھانوں کی تیاری کے وقت پیدا ہونے والی خوشبُو سے پڑوسی کو تکلیف نہ دی جائے۔ اگر گھر میں کوئی اچھا سالن بنائیں تو اس میں بھی ہمسائیوں کو شریک کیا جائے جیساکہ حضرت سیدنا ابوذرغفاری بیان کرتے ہیں میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے یہ نصیحت کی تھی جب تم سالن بناؤ تو اس میں شوربہ زیادہ رکھو اور پھر اپنے پڑوسیوں میں سے کسی ایک کے ہاں اس میں سے کچھ بھیج دیا کرو۔(سنن دارمی، ج 1 ، حدیث: 1989)

ایک سچا مسلمان ہر لمحے اپنے پڑوسی کے حقوق پہچانتا ہے ، مصائب ومشکلات میں اس کی مدد کرتا ہے، اس کی خوش حالی میں خوشی ومسرت کا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے رنج وغم اور خوشی وسرور میں شریک ہوتا ہے۔ اگر اس کا پڑوسی ضرورت مند اور محتاج ہوتا ہے تو اس کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتا ہے اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ اگر اسے کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کی عیادت کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا اظہار کرتا ہے اور بوقت ِضرورت اس کے کام آتا ہے اگر اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے میں شریک ہوتا ہے۔ اس کے گھر والوں کو دلاسہ دیتا ہے اور اپنے خاندان کے احساسات کا لحاظ رکھتا ہے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں اپنے تمام پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اچھے اور نیک پڑوسیوں کا ملنا بھی ہے جس طرح ہم پر والدین و اساتذہ کرام ، رشتے داروں اور دوستوں کے حقوق ہیں اسی طرح حقوق الجیران یعنی پڑوسیوں کے بھی حقوق ہیں اور ان پر عمل کرنا ہماری اخلاقی ذمے داری ہے۔ پڑوسیوں کی عزت اور احترام کرنا یہ ان کا سب سے بڑا حق ہے ۔ یہ پڑوسیوں کا حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی اور بد تمیزی نہ کی جائے۔

حدیث مبارکہ ہے حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہیں جو اپنے ہمراہیوں کے لیے بہتر ہوں اور اللہ پاک کے نزدیک بہترین پڑوسی وہ ہیں جو اپنے پڑوسی کے لیے اچھے ہوں۔ (ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ما جاء فى حق الجوار،3/379،حدیث:1951)

پڑوسی کو اچھے کام کی ترغیب دینا اور برے کام سے روکنا اسکے حقوق میں سے ہے۔ اگر پڑوسی کسی غلط کام میں ملوث پایا جائے تو اسے نرم لہجے میں سمجھانے کی کوشش کرنا اور اگر اس سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے۔ تو عفو و درگزر سے کام لینا اخلاقیات میں ہے۔

پڑوسیوں کا حق یہ بھی ہے کہ اگر وہ بیمار ہو تو اس کی تیمارداری کی جائے اگر محتاج ہو تو اسکی مدد کی جائے اگر ضرورت مند ہو تو اسکی ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے اگر مصیبت میں ہو تو اسکے ساتھ ہمدردی کی جائے اگر غمگین ہو تو اسے دلاسہ دیا جائے پریشان ہو تو حوصلہ افزائی کی جائے ۔ حدیث مبارکہ ہے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ،تاجدار رسالت صلی علیہ سلم نے ارشاد فرمایا: جبرئیل علیہ السلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری ، کتاب الادب ، باب الوصیۃ بالجار، 4/104،حدیث:6014)

پڑوسیوں کا یہ بھی حق ہے کہ اس کی پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے اس سے حسد نہ کیا جائے اس کے متعلق بدگمانی نہ کی جائے اس کے کامیابی کے راستے میں بلاوجہ رکاوٹ نہ بنا جائے بلکہ اس کے حق میں کامیابی کے لئے ہمیشہ دعا گو رہا جائے۔پڑوسیوں کو ہر قسم کی تکالیف سے بچانا نہایت ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس کی ایذا رسانی سے اس کے پڑوسی محفوظ نہ ہوں ، وہ جنت میں نہیں جائے گا ۔(صحیح مسلم)

پڑوسی کی محنت کی تعریف کرنا اور ان کے حق میں منصفانہ عمل کرنا بھی ان کا حق ہے۔ پڑوسیوں کے امن و امان اور ان کی چیزوں کی حفاظت کرنا اور ان کی خوشیوں میں اور غموں میں شریک ہونا اور جب ضروری ہو تو ان کی معاونت کرنا یہ سب ان کے حقوق میں شامل ہیں۔

پڑوسیوں سے میل جول رکھنا ان کی عورتوں کا احترام کرنا اور ان کے بچوں کیساتھ شفقت کا معاملہ کرنا اہم ہے۔ ہمارا دین بھی اس بات کا درس دیتا ہے اور پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنے کی تاکید کرتا ہے تاکہ ہم ایک اچھا ماحول تخلیق کر سکیں، فضاؤں کو خوشگوار بنا سکیں، نفرتوں کو دور کر سکیں ، آپس میں محبت اور اتحاد بڑھا سکیں۔

آئیں یہ عزم کریں کہ پڑوسیوں کے ساتھ محبت و احترام اور تعاون کی روایات کو مستقل بنانے کی ہر ممکن کوشش کرینگے کیونکہ ہم پڑوسیوں کے حقوق کو عمل میں لاکر ایک خوبصورت و متحد اور بہتر معاشرہ تعمیر کر سکیں۔


اللہ پاک کا احسانِ عظیم ہے کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا اور اللہ پاک نے ہم پر بہت سے احکامات نافذ فرمائے ہیں ان میں سے ایک حکم پڑوسی کے حقوق کو ادا کرنا بھی ہے اسی ضمن میں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک فرمان سنتے ہیں چنانچہ ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی میں کیسے جانوں کہ جب میں بھلائی کروں یا جب میں برائی کروں تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو تم نے واقعی بھلائی کی اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 6 حدیث، 4988)

ہمیں تو اپنے سارے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی تو ہو کہ اچھے کام اور برے کام کی علامت کیا ہیں یہاں کام سے مراد معاملات ہیں عقائد و عبادات میں کسی بھی جہت سے اچھا برا کہنے کا اعتبار نہیں معاملات میں اچھائی یا برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پڑوسی تمہیں اچھا کہیں یا برا کہیں لیکن حال تو یہ ہے کہ ہمارے پڑوسیوں سے ہمارے تعلقات ہوتے ہی نہیں ہیں ہم کو پتہ ہی نہیں ہوتا ہمارے برابر میں کون رہتا ہے کوئی ہم سے پوچھ لے کسی کا گھر تو ہم تو اس کو جانتے بھی نہیں ہیں لیکن وہ ہمارے برابر میں کافی ٹائم سے رہتا ہے صرف اس بنا پر کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا کہ ہم کو ان کے بارے میں کچھ پتہ ہو۔ جہاں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کیا جاتا ہے اور جنت میں جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہیں پڑوسی کے حقوق ادا نہ کرنا ان کو پریشان کرنا جہنم میں جانے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ: مؤمن وہ نہیں کہ جو خود سیر ہو جائیں اور اس کے برابر میں اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔(مشکوٰۃ المصابیح ،جلد 6 ، حدیث: 4991)

یعنی اگر کسی شخص کو اپنے پڑوسی کی بھوک و محتاجی کی خبر ہو تب تو یہ بہت بے مروت ہے اور اگر خبر نہیں تو بہت لاپرواہ ہے مؤمن کو چاہیے کہ اپنے عزیزوں،قرابت داروں، پڑوسیوں اور محلے والوں کے حالات کی خبر رکھیں، اگر کسی کی حاجت مندی کا پتہ چلے تو ان کی حاجت روائی کو غنیمت جان کر کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں ایذا دینے سے محفوظ فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دینِ اسلام میں پڑوسیوں کے کئی حقوق بیان کئے گئے ہیں ۔اور انکے ساتھ اچھا سلوک رکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ چنانچہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس ہمسایہ کے تین حقوق ہیں وہ رشتہ دار مسلمان ہمسایہ ہے ۔ اور اسکا ہمسائیگی کا حق ۔ اسلام کا حق اور رشتہ داری کا حق ہے ۔ جس ہمسایہ کے دو حق ہیں وہ مسلمان ہمسایہ ہے اسکے لئے ہمسائیگی کا حق اور اسلام کا حق ہے اور جس ہمسایہ کا ایک حق ہے وہ مشرک ہمسایہ ہے ۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 585)

ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں ہمسایہ کی شکایت کی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم فرمایا کہ مسجد کے دروازہ پر کھڑے ہوکر اعلان کردو کہ ساتھ کے چالیس گھر ہمسائیگی میں داخل ہیں ۔(مکاشفۃ القلوب ،ص 586)زہری نے کہا :چالیس ادھر ، چالیس اُدھر چالیس ادھر اور چالیس ادھر اور چاروں سمتوں کی طرف اشارہ کیا ۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 586)

اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جانتے ہو ہمسایہ کا کیا حق ہے ؟ جب وہ تجھ سے مدد طلب کرے اس کی مدد کر اگر وہ تیری امداد کا طالب ہو اسکی امداد کر، اگر وہ تجھ سے قرض مانگے تو اسے قرض دے ، اگر وہ مفلس ہوجائے تو اسکی حاجت روائی کر اگر وہ بیمار ہوجائے تو اسکی عیادت کر اگر مرجائے تو اسکے جنازے میں شرکت کرے ۔ اگر اسے خوشی حاصل ہو تو مبارکباد کہے۔ اگر اسے مصیبت پیش ائے تو اسے صبر کی تلقین کرے، اسکے مکان سے اپنا مکان اونچا نہ بنا تاکہ اسکی ہوا نہ رکے اگر وہ اجازت دے دے تو کوئی حرج نہیں ۔اسے تکلیف نہ دے ۔جب میوے خرید کر لائے تو اسکے گھر بطورِ تحفہ بھیج دو ورنہ خفیہ لے کر آ ، میوے اپنی اولاد کے ہاتھ میں دے کر باہر نہ بھیج تاکہ اسکے بچے ناراض نہ ہوں ۔ ہانڈی کی خوشبو سے اپنے ہمسایہ کو ایذا نہ دے مگر یہ کہ ایک چلو شوربا اس بھیج دے ۔ پھر فرمایا : جانتے ہو ہمسایہ کا حق کیا ہے ؟ بخدا ! ہمسایہ کے حقوق کو کوئی پورا نہیں کر سکتا مگر جس پر اللہ پاک نے رحمت ہو ۔(مکاشفۃ القلوب ، صفحہ 588)

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھے میرے حبیب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب سالن پکائے تو اس میں پانی زیادہ ڈال لیا کر اور اس میں سے ہمسائے کو بھی بھیجا کر ۔(کیمیائے سعادت، صفحہ 316)

ہمسایہ کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ اسے تکلیف نہ دی جائے بلکہ اسکے ساتھ نیکی اور بھلائی کی جائے اسکے دکھ سکھ میں ساتھ دیا جائے ۔ہمسایہ سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آیا جائے اسکی غیبت نہ کی جائے نہ سنی جائے ۔ہمسایہ کی عدم موجودگی میں اسکے گھر کا خیال رکھا جائے ۔ اسکی غلطیوں سے درگرز کیا جائے ۔

اللہ کریم ہمیں اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اور دین اسلام کے احکامات پر عمل کرنے دوسروں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین


ہماری شریعت مطہرہ نے ہر کسی کے حقوق بیان کیے ہیں اور ان حقوق میں سے پڑوسیوں کے حقوق بھی ہیں۔ یاد رکھئے ! ہمسائیگی کچھ حقوق کا تقاضا کرتی ہے جو ان حقوق کے علاوہ ہیں جن کا اخوت اسلامی تقاضا کرتی ہے ۔ ایک مسلمان جن باتوں کا مستحق ہوتا ہے ان تمام کا اور ان سے کچھ زائد کا مسلمان ہمسایہ مستحق ہوتا ہے۔ آئیے ہم پڑوسیوں کے حقوق کو قراٰن و احادیث سے سمجھنے کی سعی کرتے ہیں کہ ہمیں قراٰن واحادیث پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے کی کیا تعلیم دے رہے ہیں۔ رب تعالیٰ قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرواور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36)

اب مذکورہ آیت مبارکہ میں غور کیا جائے تو اس میں اللہ پاک اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور اسکے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھرایا جائے۔ اور بندوں کے یہ حقوق بیان ہوئے اپنے ماں باپ، رشتہ داروں ، یتیموں ،رشتہ دارروں قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسیوں کے ساتھی ، راہ گیر، اور اپنی باندی غلام سے وغیرہ وغیرہ ۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں لفظ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ آیا جس کا ترجمہ قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی ہیں۔

آئیے ہم اس کو مزید سمجھنے کیلئے تفاسیر ملاحظہ کرتے ہیں: تفسیر مدارک میں ہے: (ذی القربی) الذى قرب جواره ( والجار الجنب) الذى جواره بعید او الجار: القريب النسیب، والجار الجنب : الأجنبى یعنی والجار ذی القربی سے مراد قریب پڑوسیوں سے نیک سلوک کرو ۔ جبکہ والجار الجنب سے مراد دور کے پڑوسی کیساتھنیک سلوک کرو یا قریب کے پڑوسی سے مراد قرابت و رشتہ کےاعتبار سے قریبی پڑوسی مراد ہے اور دور کے پڑوسی سے اجنبی پڑوسی مراد ہے۔ (تفسیر مدارک،1/357)

تفسیر نعیمی میں ہے کہ (والجار زی القرنی)سے مراد پڑوس میں رہنے والا یعنی جار پڑوسی ہے قربی سے مراد مکانی قرب نہ کہ رشتہ کا قرب یا دین و ایمانی قرب مرادہے بمعنی قریب کا پڑوسی جس کا گھر تم سے ملا ہوا ہو یا مسلمان پڑوسی۔ (والجار الجنب)سے مراد دوری قرابت کا مقابل یہاں دور والے پڑوسی سے مراد یا مکانی دور والا ہے جس کا گھر ہم سے کچھ فاصلہ پر ہو یا دینی دور یعنی کافر پڑوسی کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا ضروری ہے۔ خیال رہے کہ ہرطرف سے 40 گھر تک پڑوس ہے یعنی آگے پیچھے دائیں بائیں کہ چالیس چاہیں گھر پڑوسی ہیں ۔(تفسیر نعیمی، 5/76، 77) نعیمی کتب خانہ)

ایک تفسیر میں اس کا مفہوم کچھ بھی ہے کہ علامہ ابی مالکی متوفی828 ھ نے لکھا ہے کہ جس شخص کا گھر یا دوکان تمہارے گھر یا دوکان سے متصل ہو وہ تمہارا پڑوسی ہے بعض علما نے 40 گھروں تک اتصال کا اندازہ کیا ہے۔

اور تفسیرات احمدیہ میں اس بارے میں یوں ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہوں قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔ (تفسیرات احمدیہ،ص 275)

امید کی جاتی ہے کہ اگر ان تفاسیر کو بغور دیکھا جائے اور مطالعہ کیا جائے تو تو آفتاب کی طرح روشن ہو جائے گا کہ دور اور قریب کے پڑوسی سے کیا کیا مراد ہے اور ان کیساتھ حسن سلوک اور پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے میں اہم کردار و رہ نمائی رہے گی۔پڑوسیوں کے متعلق کے متعلق چند احادیث کریمہ آپ بھی پڑھئے:

( 1) اپنے پڑوسی کیساتھ حسن سلوک کر تو ( کامل ) مسلمان ہو جائے گا ۔ ( ابن ماجہ475/4، حدیث4217)

( 2) من کان یؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم جاره یعنی جو شخص اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے ۔ ( صحیح مسلم ، حدیث47)

( 3) ایک شخص نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں عرض کی یا رسولَ الله مجھے کیونکہ معلوم ہو کہ میں نے اچھا کیا یا برا کیا ؟ فرمایا: جب تم اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنو کہ تم نے اچھا کیاہے تو بیشک تم نے اچھا کیا اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بیشک تم نے برا کیا ہے۔ (سنن ابن ماجہ،4/489 ، حدیث: 4223)

(4) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے عائشہ پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ میں کچھ رکھ دو کہ اس سے محبت بڑھے گی : ( الفردوس بماثور الخطاب، 468/5،حدیث863)

(5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مرد مسلم کیلئے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے کہ اس کا پڑوسی صالح ہو اور مکان کشادہ ہو اور سواری اچھی ہو۔ (المستدرک،5/232،حدیث: 7386)

(6) اول خصمين يوم القيامة جاران یعنی قیامت کے دن سب سے پہلے جن دو آدمیوں کا جھگڑا پیش ہوگا وہ دو پڑوسی ہوں گے ۔ (المسند الامام احمد بن حنبل ، حدیث عقبۃ بن عامر الجھنی، 134/6 ،حدیث: 17377)

(7) لایؤمن عبد حتی با من جاره بوائقہ کوئی بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اسکا پڑوسی اس کے شر سے محفوظ نہ ہو جائے۔(مسند البزار،5/392،حدیث: 2026)

(8) حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہتے ہیں : میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا: مؤمن وہ نہیں جو خود پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے یعنی مؤمن کامل نہیں ۔ (شعب الایمان، 3/225، حدیث:3389)

(9)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : اللہ پاک نے تمہارے مابین اخلاق کی اسی طرح تقسیم فرمائی جس طرح رزق کی تقسیم فرمائی ، الله پاک دنیا اسے بھی دیتا ہے جو اسے محبوب ہو اور اسے بھی جو محبوب نہ ہو اور دین صرف اسی کو دیتا ہے جو اس کے نزدیک پیارا ہے، لہذا جس کو خدا نے دین دیا اسے محبوب بنا لیا ، قسم ہے اسکی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بندہ مسلمان نہیں جب تک اسکا دل اور زبان مسلمان نہ ہو یعنی جب تک دل میں تصدیق اور زبان سے اقرار نہ ہو اور مؤمن نہیں ہوتا جب تک اس کا پڑوسی اس کی آفتوں سے امن میں نہ ہو۔ (شعب الایمان،395،396/4، حدیث: 5524)

پڑوسی کو تکلیف نہ دیجئے: کوئی تکلیف دے تو اس کے شر سے بچنے کیلئے اس کے قریب سے اٹھا جا سکتا ہے، آئندہ اس سے ملنے سے بچا جا سکتا ہے، اس سے تعلقات ختم کئے جا سکتے ہیں مگر اگر پڑوسی ہی تکلیف دینے پر لگ جائے تو انسان کہاں پناہ ڈھونڈے ؟ کیونکہ اسکی تکلیف کا سامنا کرنا پڑے گا یا مکان بدلنا پڑ گیا جو کہ بہت دشوار ہے۔ اب ایسی چند احادیث مبارکہ پیش کی جائیں گی جس میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا اور ہمیں ان احادیث کو پڑھ کر غور کر لینا چاہئے کہ پڑوسی کو اذیت دینا کتنا برا عمل ہے اور عبرت حاصل کرنی چاہے چنانچہ

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی کون یارسولُ الله ، فرمایا وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اسکی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں یعنی جواپنےپڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہو ۔ (صحیح البخاری،4/154، حدیث:6016)

ایک شخص نے عرض کی، یارسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فلانی عورت کے متعلق ذکر کیا جاتا ہے کہ نمازو روزہ و صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے، فرمایا: وہ جہنم میں ہے۔ انہوں نے کہا: یارسول اللہ فلانی عورت کی نسبت زیادہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اس کے روزہ و صدقہ و نماز میں کمی ہے (یعنی نوافل) وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی، فرمایا:وہ جنت میں ہے۔ (مسند احمد ، مسند ابی ہریرہ ،حدیث:9681، 3،ص441۔ شعب الایمان، باب فی اکرام الجار ،7/78، 79، حدیث:9545)

تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک غزوہ پر تشریف لے گئے اور ارشاد فرمایا : آج وہ شخص ہمارے ساتھ نہ بیٹھے جس نے اپنے پڑوسی کو تکلیف دی ہو ۔ ایک شخص نے عرض : میں نے اپنے پڑوسی کی دیوار کے نیچے پیشاب کیا تھا ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: آج تم ہمارے ساتھ نہ بیٹھو۔ (المعجم الاوسط، 6/481، حدیث:9479)

ہمسائے کی بکری کو بھی تکلیف نہ دو: ام المؤمنین حضرت سیدتنا اُم سلمہ رضی اللہُ عنہا ارشاد فرماتی ہیں کہ ایک دن ہمسائے کی بکری گھر میں داخل ہو گئی ۔ جب اس نے روٹی اٹھائی تو میں اسکی طرف گئی اور روٹی کو اسکے جبڑے سے کھینچ لیا۔ یہ دیکھ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تجھے اس کو تکلیف دینا امان نہ دیتا کیونکہ یہ بھی ہمسائے کو تکلیف دینے سے کم نہیں۔( مکارم الاخلاق للطبرانی ، صفحہ 395 ، حدیث 239)

وہ جنت میں داخل نہ ہوگا :5- حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی : یا رسول اللہ میں نے فلاں قبیلے کے محلے میں رہائش اختیار کی ہے مگر ان میں سے جو مجھے سب سے زیادہ اذیت دیتا ہے وہ میرا سب سے زیادہ قریبی پڑوسی ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر اور حضرت علی المرتضی رضی اللہُ عنہم کو بھیجا وہ مسجد کے دروازے پر کھڑے ہو کر پکارنے لگے :بیشک چالیس گھر پڑوس میں داخل ہیں اور جس کے شر سے اس کا پڑوسی خوفزدہ ہو جنت میں داخل نہ ہوگا ۔(المعجم الکبیر، 73/19 ، حدیث:143)

حق پڑوس کیا ھے ؟ یاد رکھئے ! حق پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو اذیت دینے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کو برداشت کرنا بھی حق پڑوس میں شامل ہے ۔ کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے پڑوسی کو اذیت نہیں دیتا اور وہ اسکے بدلے اسے اذیت نہیں دیتا حالانکہ اسطرح پڑوس کا حق ادا نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ اسکے ساتھ نرمی اور اچھے طریقے سے پیش آئے۔

پڑوسی کے گھر کی دیوار کے سائے کا حق : ابن مقفع کو یہ خبر ملی کہ اسکا پڑوسی قرض کی ادائیگی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے چونکہ ابن مقفع اس کے گھر کی دیوار کے سائے میں بیٹھتا تھا کہنے لگا: اگر اس نے مفلس ہونے کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا جب تو میں نے اسکے گھر کے سائے کا بھی حق ادا نہ کیا۔ یہ کہہ کر ابن مقفع نے اس کے گھر کا ثمن ادا کیا اور کہا کہ گھر مت بیچو۔(احیاء العلوم،771/1 مکتبۃ المدينہ)

پڑوسیوں کو تکالیف دینے کی کون کونسی صورتیں ہیں ؟ آئیے جانتے ہیں:

1۔ اسکے دروازے کے سامنے کچرا ڈال دنیا۔

2۔ اس کے دروازے کے پاس شور کرنا۔

3۔ بچوں کا (بالخصوص سونے کے اوقات میں) شور کرنا ۔

4۔بے وقت کیل ٹھونکنا

5۔اس کے گھر میں جھانکنا ۔

6۔ایک ہی بلڈنگ میں رہنے کی صورت میں سیڑھیاں چڑھتے ہوئے زور زور سے پاؤں چٹخانا ۔

7۔اونچی آواز سے ٹیپ ریکارڈ یا ڈیک وغیرہ چلانا ( چاہے نعتیں ہیں کیوں نہ ہو اسکی آواز اپنے تک محدود رکھیں)

8۔ اپنے گھر کا فرش دھونے کے بعد پانی پڑوسیوں کے گھر کے سامنے چھوڑ دینا۔

9۔انکے بچوں کو مارنا جھاڑنا وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو محض چند صورتیں ذکر کی گئی اسکے علاوہ اور بہت کسی صورتیں ہیں جو پڑوسیوں کو تکالیف دینے کا باعث بنتی ہیں۔

پڑوسیوں کے عام حقوق :

پڑوسیوں کے عام حقوق کونسے ہیں آئیے جانتے ہیں :

1۔ پڑوسیوں کیساتھ سلام میں پہل کرے۔

2۔ ان کیساتھ طویل گفتگو نہ کرے۔

3۔ ان کے حالات کے بارے میں زیادہ سوال نہ کرے ۔

4۔ جب وہ بیمار ہو تو ان کی عیادت کرے۔

5۔ مصیبت کے وقت ان کی غمخواری کرے ۔

6۔ مشکل وقت میں ان کا ساتھ دے۔

7۔ خوشی میں ان کو مبارکباد دے ۔

8۔ ان کی خوشی میں شرکت کرے ۔

9۔ ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔

10۔ اپنے گھر کی چھت سے ان کے گھرمت جھانکے۔

11 ۔ ان کے گھر کے راستے کو تنگ نہ کرے۔

12 ۔جو کچھ وہ لے جارہے ہوں اس پر نظر نہ گاڑے۔

13۔ اگر ان کے عیوب ان پر ظاہر ہو تو انہیں چھپائے ۔

14۔ اگر انہیں کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً ان کی مدد کرے ۔

15 ۔ پڑوسیوں کی غیر موجودگی میں ان کے گھر کی حفاظت کرنےمیں غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔

16 ۔ ان کے خلاف کوئی بات نہ سنے۔

17- ان کی اولاد کیساتھ نرمی سے گفتگو کرے

18۔ دین و دنیا کے جس معاملے میں انہیں رہنمائی کی ضرورت ہو اس میں انکی رہنمائی کرے ۔ ( ماخوز ازاحیاء العلوم 2/ 773 ، مكتبۃ المدينۃ)

پڑوسی کا حق کیا ہے؟پڑوسی کے چند اور حقوق بیان کیے جاتے ہیں: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے؟ پھرارشاد فرمایا:اگر وہ تم سے مدد چاہے تو اسکی کی مدد کرو، اگر تم سے قرض مانگے تو قرض دو، اگر محتاج ہو تو اسکی حاجت پوری کرو، اگر بیمار ہو جائے تو اسکی عیادت کرو، اگر وہ فوت ہو جائے تو جنازے میں شرکت کرو، اگر اسے کوئی بھلائی پہنچے تو مبارکباد دو اور اگر کوئی مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو ، اسکی اجازت کے بغیر اسکے گھر سے اونچا گھر نہ بناؤ کہ ان کو ہوا نہ پہنچے، اسے تکلیف نہ پہنچاؤ، اگر تم کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس میں سے پڑوسی کے بچے اس پھل کی وجہ سے غمگین ہوں گے اور اپنی ہانڈیوں کی خوشبووں سے بھی پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچاؤ مگر یہ کہ کچھ سالن اسے بھی بھیج دو۔ یہ فرمانے کے ارشاد فرمایا : اتدرون ما حق الجار والذی نفسی بیدہ ما یبلغ حق الجار الا من رحمہ یعنی جانتے ہو پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے پڑوسی کا حق صرف وہی ادا کر سکتا ہے جس پر اللہ پاک رحم فرمائے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق ویسے ہی ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جیسا حقوق ادا کرنے کا حق ہے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم