13نومبر 2023 ء بروز سوموار(پیر) فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز کی جہلم برانچ میں مدرسین کا ماہانہ مدنی مشورہ ہوا جس میں جہلم برانچ وہوم مدرسین نے شرکت کی ۔

تعلیمی امور ذمہ دار حافظ جواد عطاری نے نیو طلبہ کوپڑھانےکےتعلق سے اوردیگرتعلیمی معاملات میں بہتری اورطلبہ کی نفسیات کےمطابق پڑھانے کےحوالےسےمدنی پھول دئیےاور ساتھ ساتھ تجوید وقرأت کےتعلق سےآگےبڑھنےکاذہن دیا۔ اس موقع پر شرکا نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔ (رپورٹ: محمد وقار یعقوب عطاری مدنی،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پڑوسی وہ ہے جو ہمارے گھر کے قریب ہو۔ ان کا ہم پر بہت بڑا حق ہے اگر وہ نسب میں ہم سے قریب ہو اور مسلمان بھی ہو تو اسکے تین حق ہیں: پڑوسی کا حق قرابت داری کا حق اور اسلام کا حق ۔ اور رشتہ میں دور ہے اور مسلمان بھی نہیں تو اس کا ایک حق ہے یعنی پڑوسی کا حق۔ اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے امت کو جن باتوں کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہیکہ پڑوسیوں کی رعایت کی جائے اور انکے حقوق پہچانے اور ادا کئے جائیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36)

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے اپنے پڑوسی سے نیک سلوک کرنا چاہئے ۔(مسلم کتاب الایمان )

اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کا مطلب یہ ھیکہ مؤمن ہونے کی حیثیت سے تم پر پڑوسی کا حق یہ ھیکہ جب وہ بیمار پڑے تو عیادت کرو، قرض طلب کرے تو اسے قرض دو، خوشی میں ہو تو مبارک باد ،دو مصیبت زدہ ہو تو تسلی دو، اسے سلام میں پہل کرو، بات نرمی سے کرو، اس کے دین و دنیا کی درستگی ، رہنمائی کرو، اس کے عیوب کی تلاش میں نہ رہو، اس کی لغزشوں سے درگزر کرو، اس کی طرف کوڑا کرکٹ پھینک کر اس کو ایذا نہ دو۔ یہ سب باتیں ہمسایہ کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کے ذیل میں آتی اس کی میں ہے ۔

پڑوسی کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے۔ اپنے پڑوسی کے ساتھ خواہ کتنا بھی احسان کرو اس کو زیادہ نہ سمجھو کیونکہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے سے اللہ کی جانب سے اجر عظیم اور بلند درجات حاصل ہوتے ہیں۔ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وحی الہی کی تعمیل میں پڑوسی کے حقوق کی اتنی تاکید فرمائی ھیکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے :جبرئیل مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر تاکید و تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ اسے یقیناً وارث قرار دے دیں گے ۔ (مسلم کتاب الادب)

ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ھیکہ جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ بھلائی کرے اور تحفہ تحائف کا تبادلہ کرے۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو ۔(مسلم کتاب البر والصلہ )

نیز رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کوئی: پڑوسن اپنی پڑوسن یا اس کے ہدیے کو حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔ (بخاری کتاب الادب )


شعبہ ہفتہ وار اجتماع دعوت ِاسلامی کی جانب سے 12 نومبر 2023ء بروز اتوار میکلوڈ گنج میں مدنی مشورے کا سلسلہ ہوا۔ اس مدنی مشورے میں تحصیل منچن آباد میں منعقد ہونے والے ہفتہ وار اجتماعات(منڈی صادق گنج ، باریکا ، منچن آباد ، اور میکلوڈگنج) کی چار رکنی مجلس کے ذمہ داران نے شرکت کی ۔

ڈویژن ذمہ دار محمد شوال عطاری نے ہفتہ وار اجتماع کی تعداد اور انتظامات کی مضبوطی کے حوالے سے گفتگوکی اور تحصیل مشاورت کے نگران اسلامی بھائی نے بھی رہنمائی کی ۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


اللہ کا احسان کہ اس نے ہمیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔ اللہ نے ہم پر بہت سے احکامات نافذ فرمایا ہے ان میں سے ایک حکم اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو بھی ادا کرنا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق کو بہت ہی خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے۔ صرف فرمایا ہی نہیں بلکہ اس پر عمل کر کے دکھایا ہے اور ہمیں بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی کہ اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھیں۔

ابن مسعود سے روایت ہے فرماتے ہیں ایک شخص نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے عرض کی میں کیسے جانو کہ جب میں بھلائی کروں یا جب میں برائی کروں، تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم نے بھلائی کی تو تم نے واقعی بھلائی کی اور جب یہ کہتے سنو کہ تم نے برائی کی تو واقعی تم نے برائی کی۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 6 حدیث، 4988)

ہمیں تو اپنے سارے کام اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر ہمیں معلوم بھی تو ہو کہ اچھے کام یا برے کام کی علامت کیا ہے۔ یہاں کام سے مراد معاملات ہیں عقائد و عبادات میں کسی بھی بہت سے اچھا برا کہنے کا اعتبار نہیں معاملات میں اچھائی یا برائی کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پڑوسی تمہیں اچھا نہیں یا برا کہیں ۔

جہاں پڑوسیوں کے حقوق کو ادا کیا جاتا ہے اور جنت میں جانے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے وہی پڑوسیوں کے حقوق ادا نہ کرنا، انکو پریشان کرنا جہنم میں جانے کا حق دار بھی بن سکتا ہے ۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔

نیک صالحین اور نجات پانے والے کے ساتھ جنت میں جائے گا اگرچہ سزا پا کر بہت عرصہ کے بعد وہاں پہنچ جائے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے آج کے ہمارے مسلمان بھول چکے ہیں اب تو ان کے شر کا پہلا شکار پڑوسی ہوتا ہے۔

جہاں ہم اپنے معاملات کو اچھے انداز میں پورا کرتے ہیں اسی طرح اپنے پڑوسی کا بھی خیال رکھیں نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بیان فرمائیں ہے:

(1) اپنے پڑوسی کی مدد کریں (2) غریب ہو تو اس کا خیال رکھیں یا قرض مانگے تو قرض دیں۔ (4) پھل فروٹ لائیں تو اس میں سے پڑوسی کو بھی دیں ۔ (5) اپنی عمارت اس سے اونچی نہ کر لیں کہ اس کے گھر کی ہوا رک جائیں ، اللہ ہمیں اپنے پڑوسیوں کے حقوق کو پورا کرنے کی توفیق عطا فر مائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دعوتِ اسلامی  کے معاونت برائے اسلامی بہنیں ڈیپارٹمنٹ کے زیرِ اہتمام 11 نومبر2023ء کو حویلیاں ڈویژن ہزارہ میں مدنی مشورہ منعقد تھا جس میں ڈویژن نگران اور ڈویژن ذمہ دار معاونت برائے اسلامی بہنیں نے شرکت کی ۔

مدنی مشورے میں فیضان صحابیات میں اسلامی بہنوں کا دینی کام بڑھانے کے حوالے سے مشاورت ہوئی جس میں نگران مجلس غلام الیاس عطاری نے فیضان صحابیات کی تعداد میں اضافہ، گلی گلی مدرسۃالمدینہ گرلز کی پلاننگ اور معاونت ذمہ داران کے دینی کام اور آئندہ کے اہداف پر گفتگو کی۔(رپورٹ :رمضان رضا عطاری)


عاشقانِ رسول  کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے تحت 10 نومبر 2023ء کو نارتھ ناظم آباد کراچی میں کفن دفن کورس کاانعقاد کیاگیا جس میں بطحہ مسجد کے نمازی اور انتظامیہ نے شرکت کی ۔

شعبہ کفن دفن ایسٹ ڈسٹرکٹ ذمہ دارعزیر عطاری نے اسلامی بھائیوں کو غسلِ میت دینے اورکفن کاٹنے/ پہنانے کا طریقہ سکھایا نیز تدفین سے متعلق دینِ اسلام کی تعلیمات سے آگاہ کیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔ (کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں  کے حوالے سے ساہیوال ڈویژن میں مدنی مشورہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار ڈاکٹر عدنان عطاری وڈویژن ذمہ دار محمد فہیم عطاری نے ڈسٹرکٹ ذمہ دار اور محافظ اوراق مقدسہ کا مشورہ لیا۔

مدنی مشورے میں ذمہ داران نے اسلامی بھائیوں سے سابقہ دینی کاموں کے اہداف کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور نیو اہداف دیئے نیز اچھی کارکردگی پر اسلامی بھائیوں کو تحفے بھی پیش کئے۔(رپورٹ: حافظ نسیم عطاری سوشل میڈیا آف ڈیپارٹمنٹ پاکستان،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دین اسلام دین حق ہے اور یہ ہماری ہر معاملہ میں رہنمائی کرتا ہے، چاہے وہ دینی معاملہ ہو، دنیاوی معاملہ ہو یا معاشرتی معاملہ ہو۔ اگر ہم معاشرتی معاملات میں نظر کریں تو مختلف طبقہ ہوتے ہیں جن کے ہم پر حقوق ہوتے ہیں ان میں سے ایک طبقہ پڑوسیوں کا بھی ہوتا ہے۔ اچھے پڑوسی اللہ پاک کی طرف سے بڑی نعمت ہیں۔ اللہ پاک اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق بھی ذکر فرمائے ہیں:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ترجمۂ کنزالایمان: اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے ۔ (پ5، النسآء:36) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسیوں کے(حقوق کے) بارے میں میرے پاس جبریل علیہ السّلام اتنی بار تشریف لائے کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ پڑوسی کو دوسرے پڑوسی کی میراث سے وارث قرار دے دیا جائے گا ۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب،باب الوصاۃ بالجار)

ویسے تو پڑوسیوں کے بہت سے حقوق ہیں جن میں سے چند تحریر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:۔

(1)ان کی مدد کرنا: پڑوسیوں کا ایک بنیادی حق یہ بھی ہے کہ جب وہ آپ سے جانی یا مالی مدد مانگیں تو اپنی استطاعت اور پڑوسیوں کی ضرورت کو ملحوظ رکھ کر ان کی مدد کریں۔

(2) ان کی عزت کرنا: اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن کو تسلیم کرنے والا ہے اسے چاہیے کہ وہ پڑوسیوں کی عزت کرے۔ (صحیح البخاری،کتاب الادب )

(3) پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچانا: پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اسے کسی طرح کی قولی یا فعلی تکلیف نہ پہنچائی جائے۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا، اللہ کی قسم وہ مؤمن نہیں ہو سکتا۔ عرض کی گئی کہ کون؟ فرمایا: وہ شخص جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(صحیح البخاری،کتب الادب )

(4) خوشی یا غمی میں شریک ہونا: پڑوسیوں کے ہاں اگر کوئی خوشی کا موقع ہو تو انہیں مبارکباد دینا یا اگر کوئی غمی کا موقع ہو تو ان سے تعزیت کرنا۔

(5) پڑوسیوں کے ساتھ بھلائی اور تحائف کا تبادلہ: ایک پڑوسی کا دوسرے پڑوسی پر یہ حق ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: اور تحفہ تحائف کا تبادلہ ہے۔ (سورۃ النساء)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم شوربے والا سالن پکاؤ تو اس کا شوربہ زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھا کرو۔(صحیح مسلم،کتاب البر والصلۃ و الآداب)

(6) پڑوسی کے تحفہ کو حقیر نہ سمجھنا: ہمیں چاہیے کہ اگر ہمیں ہمارا پڑوسی کوئی تحفہ دے تو اسے قبول کرلیں اسے حقیر نہ جانیں۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی پڑوسن اپنی پڑوسن (یا اس کے ھدیہ کو)حقیر نہ سمجھے اگرچہ(اس کا بھیجا ہوا ھدیہ ) بکری کا کھر ہی ہو۔(صحیح البخاری،کتاب الھبۃ و فضلھا و التحریض علیھا)

ان تمام احادیث سے اندازہ کیجیے کہ شریعت میں پڑوسی کی کس قدر عزت و منزلت اور اس کا کس قدر احترام ہے؟ اگر معاشرتی طور پر ہم پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا شروع کردیں تو ہمارا معاشرہ کتنا خوبصورت اور پُرامن معاشرہ بن جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بالخصوص پڑوسیوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسانی حقوق کے بارے میں اسلام کا تصور بنیادی طور پر بنی نوع انسان کے احترام و قار اور مساوات پر مبنی ہے قراٰنِ کریم کی رو سے اللہ پاک نے نوع انسانی کو دیگر تمام مخلوق پر فضیلت و تکریم عطا فرمائی ہے۔ قراٰنِ کریم میں شرفِ انسانیت كو وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ تخلیق آدم (علیہ الصلاة والسلام) کے وقت فرشتوں کا حضرتِ آدم (علیہ الصلاة والسلام) کو سجدہ کروا کر انسان کو تمام مخلوق پر فضیلت عطا کی گئی ۔اسلامی تعلیمات میں حقوقُ العباد کا خاص خیال رکھا گیا ہے ۔ انسان کا اپنے والدین، اپنی اولاد اور قریبی رشتہ داروں کے علاوہ سب سے زیادہ واسطہ و تعلق ہر وقت ہر ملاقات، لین دین کا سابقہ ہمسایوں اور پڑوسیوں سے بھی ہوتا ہے اور اس کی خوش گواری اور ناخوشگواری کا زندگی کے چین و سکون اور اخلاق کے اصلاح و فساد اور بناؤ بگاڑ پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ اسی وجہ سے پڑوسیوں سے حسنِ سلوک کے بارے میں اللہ پاک فرماتا ہے۔

﴿وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی۔ (پ5، النسآء:36) قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو اور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو۔ یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور جو پڑوسی ہونے کے ساتھ رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ۔ یا پڑوسی ہونے کے ساتھ جو مسلمان ہو وہ قریب کا ہمسایہ اور جو عکس ہو وہ دور کا ہمسایہ ( تفسیرات احمديہ ،تحت ھذہ الآیۃ ،ص275)

اس کے علاوہ احادیث مبارکہ میں بھی بڑی تاکید آئی ہے ۔

چنانچہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے قال رسولُ الله صلى الله عليه وسلم : ما زال جبريل يوصيني بالجار، حتى ظننت أنه سيورِّثه ترجمہ: تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔ جبرئیل امین علیہ السّلام مجھے پڑوسی کے متعلق برابر وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہوا کہ پڑوسی کو وارث بنا دیں گے۔ (بخاری، کتاب الادب، با الوصاة بالجار 4/104 ،حدیث :6014)

ایک جگہ ارشاد فرمایا: يا أبا ذَرٍّ إذا طَبَخْتَ مَرَقَةً، فأكْثِرْ ماءَها، وتَعاهَدْ جِيرانَكَ ترجمہ : اے ابوذر (رضی اللہ عنہ ) ! جب تمھارے گھر میں شوربا پکایا جائے تو اس کا پانی زیادہ کر لیا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھا کرو۔ (مسلم ، باب الوصية بالجار والاحسان إليه حديث 2625)

وہ حدیث مبارکہ جس میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پڑوسیوں کے حقوق تفصیلاً بیان فرمائے ۔ آقائے دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جانتے ہو کہ پڑوسی کا حق کیا ہے ؟ جب وہ تم سے مدد طلب کرے تو تم اس کی مدد کرو ۔ جب وہ تم سے قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ اگر وہ ضرورت مند ہو تو اس کا خیال کرو۔ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو ۔ اسے کوئی خوشی نصیب ہو تو مبارکباد دو۔ اسے کوئی مصیبت پہنچے کو تسلی دو۔ وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں جاؤ۔ اپنی عمارت اتنی اونچی نہ بناؤ جو اس تک ہوا پہنچنے میں رکاوٹ ہو مگر یہ کہ اس سے اجازت حاصل کرلو۔اگر تمہارے گھر کوئی خوشبودار چیز ہو جس کی مہک اس کے گھر تک پہنچے تو اسے بھی اس میں سے کچھ تحفہ بھیجو۔ اگر کوئی پھل خرید کر لاؤ تو اس کے گھر بھی کچھ نہ کچھ بھیجو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو پھل چھپا کر لاؤ اور تمہارا بچہ پھل لے کر باہر نہ نکلے تاکہ اس کے بچے کا دل نہ دکھے۔ (الترغیب والترھیب، 3/357 ، و مجمع الزوائد، 8/165)

اتنے فضائل جو قراٰنِ پاک اور احادیث مبارکہ میں آئے۔ ان پر نظر ڈالنے کے بعد ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر پڑوسی برا ہو اور وہ برا سلوک کرتا ہو تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے ہمیں بھی اس کے ساتھ برا سلوک کرنا چاہیے۔

دیکھیئے بسا اوقات "پڑوسی" سے کتنا ہی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے۔ ایسے میں اسلام برے کے ساتھ برا بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ صبر اور حسین تدبیر کے ساتھ اس برے پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا ہے ۔ اور اس برے سلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الہی کی نوید سناتا ہے۔

جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: الله پاک تین طرح کے لوگوں سے محبت فرماتا ہے ان میں سے ایک وہ ہے جس کا برا پڑوسی اسے تکلیف دے تو وہ اس کے تکلیف دینے پر صبر کرے یہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی یا موت کے ذریعے کفایت فرمائے۔( معجم کبیر ،2/112 حدیث : 152)

معاشرے کو پر سکون اور امن و سلامتی کا گہوارہ بنانے کے لیے پڑوسیوں کے متعلق اسلام کے احکامات پر عمل کیا جائے تو ہر ایک اپنی عزت و آبرو اور جان و مال کو محفوظ سمجھنے لگے گا۔

اللہ پاک اپنے حبیب کے صدقے ہم کو اسلامی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اسلام اللہ پاک کے نزدیک سب سے مقبول و معزز دین ہے اور دین اسلام ہی دینِ فطرت ہے اور انسان کے لئے ایک مکمل ضابطۂ حیات اور سفر و حضر میں مثلِ مشعلِ راہ ہے انسان کی زندگی کے تمام معاملات اور لوازمات کو ہر لحاظ سے اس میں بیان کیا گیا ہے۔

اس دین کی بے شمار و لامحدود خصوصیات میں سے ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں حقوق العباد کو بڑے التزام سے بیان کیا گیا تاکہ معاشرہ پر امن رہے اور تاکید کے ساتھ ان کی پاسداری کا حکم بھی دیا ہے۔

والدین کے اولاد کے متعلق اولاد کے والدین کے متعلق زوجین کے باہم اتفاق و اتحاد وغیرہ کے متعلق حقوق ترغیب و ترھیب کے ساتھ انتہائی نفیس طریقے سے بیان ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایک مسلمان کو اس کے رہن ، سہن اور اس کے پڑوسی کی اہمیت و حقوق کو بھی انتہائی احسن انداز میں بیان کیا گیا ہے کیونکہ انسان تادمِ حیات کہیں نہ کہیں رہائش اختیار کرتا ہے اور جہاں بھی یہ سکونت اختیار کرے گا تو کسی نہ کسی کا پڑوس تو ضرور ملے گا۔ پڑوسیوں کے متعلق اللہ پاک قراٰنِ پاک کی سورۃُ النساء کی آیت نمبر 36 میں فرماتاہے: ﴿وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے پڑوسی اور دور کے پڑوسی اورپاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔) (پ5، النسآء:36)

تفسیرِ احمدیہ میں الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ کے تحت لکھا ہے کہ قریب کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا ہو ور دور کے ہمسائے سے مراد وہ ہے جو محلہ دار تو ہو مگر اس کا گھر اپنے گھر سے ملا ہوا نہ ہو یا جو پڑوسی بھی ہو اور رشتہ دار بھی وہ قریب کا ہمسایہ ہے اور وہ جو صرف پڑوسی ہو، رشتہ دار نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ یا جو پڑوسی بھی ہو اور مسلمان بھی وہ قریب کا ہمسایہ اور وہ جو صرف پڑوسی ہو مسلمان نہ ہو وہ دور کا ہمسایہ ہے۔(تفسیرات احمدیہ، النساء، تحت الآیۃ: 36، ص275)

یاد رکھیئے! کسی بھی مقام پر رہائش اختیار کرنے سے قبل وہاں کے پڑوس کے متعلق ضرور معلومات لے لی جائے کیونکہ اس کی تعلیم پڑوسیوں میں سے بہترین پڑوسی سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی ہمیں ارشاد فرمائی ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: التمسوا الجار قبل الدار، والرفيق قبل الطريق یعنی گھر سے پہلے پڑوسی اور راستہ سے پہلے ہم سفر تلاش کرو۔ (کنزالعمال)

رہائش اختیار کرتے وقت اچھے پڑوسیوں کا انتخاب کیا جائے کہ سعادت مندی ہے سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مردِ مسلم کے لیے دنیا میں یہ بات سعادت میں سے ہے، کہ اس کا پڑوسی صالح ہو ۔(المستدرک،کتاب البر والصلۃ، باب ان اللہ لایعطی الإیمان الا من یحب،5/232،حدیث: 7386)

اور برے پڑوسیوں سے اللہ پاک کی پناہ مانگنی چاہیے کیونکہ پڑوسیوں کے اچھا برا ہونے کا اثر صاحب خانہ اور اس کے تمام اہل خانہ پر پڑتا ہے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی برے پڑوسی کے بارے میں یوں دعا مانگتے ۔ حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا فرمائی! اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں رہنے کے گھر میں برے پڑوسی سے، اس لیے کہ گاؤں کا پڑوسی بدلتا رہتا ہے۔( ابن ابی شیبہ، کتاب الادب)

اور ارشاد فرمایا : مستقل جائے قیام میں برے پڑوسی سے اللہ پاک کی پناہ مانگو۔( کنزالعمال، کتاب الصحبۃ ، فصل في الترهيب عن صحبۃ السوء )

اسی طرح حضرت لقمان رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے بیٹے کو کچھ یوں نصیحت فرمائی : فرمایا: اے میرے بیٹے! میں نے پتھر اور لوہا اٹھایا ہے، مگر برے پڑوسی سے زیادہ وزنی (یعنی تکلیف دہ) چیز کوئی نہیں دیکھی۔ ( شعب الایمان، الرابع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔ الخ، آثار وحکایات فی فضل الصدق۔۔۔ الخ، 4/ 231، روایت: 4891)

البتہ کسی بھی جگہ رہائش اختیار کرنے کے بعد اپنے پڑوسیوں کا خیال ضرور رکھا جائے اگرچہ وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ حدیث پاک ہے ۔

پڑوسیوں کی اقسام: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پڑوسی تین قسم کے اور تین درجے کے ہوتے ہیں ایک وہ پڑوسی جس کا صرف ایک ہی حق ہو اور وہ (حق کے لحاظ سے) سب سے کم درجہ کا پڑوسی ہے، اور دوسرا وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوں اور تیسرا وہ جس کے تین حق ہوں۔ تو ایک حق والا وہ مشرک (غیر مسلم) پڑوسی ہے جس سے کوئی رشتہ داری بھی نہ ہو (تو اس کا صرف پڑوسی ہونے کا حق ہے) اور دو حق والا وہ پڑوسی ہے، جو پڑوسی ہونے کے ساتھ مسلم (یعنی دینی بھائی) بھی ہو، اس کا ایک حق مسلمان ہونے کی وجہ سے ہو گا اور دوسرا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اور تین حق والا پڑوسی وہ ہے، جو پڑوسی بھی ہو، مسلم بھی ہو اور رشتہ دار بھی ہو۔ تو اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہو گا دوسرا حق پڑوسی ہونے کا اور تیسرا رشتہ داری کا ہو گا۔ (حليۃ الاولياء ،5/235)

لہذا پڑوسی جیسا بھی ہو اس کے معاملے میں اللہ پاک سے ڈرتے رہنا چاہیے اور ان کا خیال رکھنا چاہیے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے ۔

کہیں پڑوسیوں کو وارث نہ بنا دیا جائے: چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا عبدُاللہ اِبنِ عُمَر رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ باقرینہ ہے: حضرتِ جبریل عَلَیْہِ السَّلام مجھے پڑوسی کے بارے میں وصِیَّت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ وہ پڑوسی کو وراثت کا حقدار بنا دیں گے۔ (صحیح البخاری، کتاب الادب ،باب الوصاۃ بالجار، ص1500، حدیث:6015)

ان کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے اور ان کے حقوق کی پاسداری کے متعلق ہمیشہ محتاط رہنا چاہیے ۔ حدیثِ پاک میں ہے للجار حقٌّ یعنی: پڑوسی کا بہت بڑا حق ہے۔ (کنزالعمال، کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)

اس مناسبت سے یہاں پڑوسیوں کے چند حقوق احادیث کی روشنی میں بیان کیے جاتے ہیں جن کو پورہ کرنا سعادت مندی کا ذریعہ جبکہ ان سے دست برداری بہت بڑی محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔

پڑوسیوں کے عام حقوق بزبانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اپنی تمام تر ضروریات کے ساتھ ساتھ اپنے پڑوسی کی عام ضروریات کی طرف بھی خاص توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک پڑوسوں کی کیا اہمیت تھی اور آپ نے کس اہتمام سے ان کو بیان بھی فرمایا اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے ۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے فرمایا: تمھیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ یہ کہ جب وہ تم سے مدد مانگے مدد کرو اور جب قرض مانگے قرض دو اور جب محتاج ہو تو اسے دو اور جب بیمار ہو عیادت کرو اور جب اسے خیر پہنچے تو مبارک باد دو اور جب مصیبت پہنچے تو تعزیت کرو اور مرجائے تو جنازہ کے ساتھ جاؤ اور بغیر اجازت اپنی عمارت بلند نہ کرو، کہ اس کی ہوا روک دو اور اپنی ہانڈی سے اس کو ایذا نہ دو، مگر اس میں سے کچھ اسے بھی دو اور میوے خریدو تو اس کے پاس بھی ہدیہ کرو اور اگر ہدیہ نہ کرنا ہو تو چھپا کر مکان میں لاؤ اور تمہارے بچے اسے لے کر باہر نہ نکلیں کہ پڑوسی کے بچوں کو رنج ہوگا۔ تمہیں معلوم ہے کہ پڑوسی کا کیا حق ہے؟ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! پوری طور پر پڑوسی کا حق ادا کرنے والے تھوڑے ہیں ، وہی ہیں جن پر اللہ (پاک) کی مہربانی ہے۔ (شعب الإیمان ، باب في اکرام الجار، 7/83،حدیث: 9560 )

(2)پڑوسیوں کے ساتھ کھانے کا ایثار: گھر میں جب کوئی چیز پکائی جائے تو اپنے پڑوسیوں کو بھی اس میں سے کچھ نہ کچھ بھیج دینا چاہیے کہ سب سے بڑھ کر ایثار فرمانے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جب کوئی شخص ہانڈی پکائے تو شوربا زیادہ کرے اور پڑوسی کو بھی اس میں سے کچھ دے۔ (المعجم الأوسط ‘‘ ، باب الراء،2/379،حدیث: 3591 )

(3)پڑوسیوں کے بچے کو بھی خالی ہاتھ نہ لوٹاؤ: اگر پڑوسیوں کا بچہ کھبی گھر آئے تو اسے خالی ہاتھ واپس لوٹانے کی بجائے کچھ نہ کچھ دے دیا جائے ۔ کہ اس سے باہم محبت میں اضافہ ہو گا جیسا کہ سرکارِ عالی وقارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: اے عائشہ جب تمہارے پاس پڑوسی کا بچہ آئے اس کے ہاتھ میں کوئی چیز رکھ دو چونکہ ایسا کرنے سے محبت بڑھتی ہے۔(کنزالعمال،کتاب الصحبة، فصل فی حق الجار)

(4)چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا چہرہ: اپنی کمائی میں سے کچھ نہ کچھ پڑوسیوں کی معاونت کرنی چاہیے ۔سرکار عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس نے اس نیّت سے دنیا کی کمائی کی کہ حلال مال حاصل کرے لوگوں کی محتاجی سے بچے، گھر والوں کی ضروریات بخیر و خوبی پوری کرے اور پڑوسی کے ساتھ مہربانی کرے تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن اس طرح اٹھائے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی مانند چمکتا ہوگا۔ (کنز العمال ،الفصل الأول في فضائل الكسب الحلال)

(5)پڑوسیوں کے احترام کا حکم: اسی طرح پڑوسیوں کی دل سے عزت کرنا کمالِ ایمان سے ہے ۔ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهٗ یعنی جو اللہ پاک اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج:6 حدیث:4243)

(6) پڑوسیوں کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف پر صبر کی فضیلت: یاد رکھئے! حقِ پڑوس صرف یہ نہیں کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے اجتناب کیا جائے بلکہ پڑوسی کی طرف سے پہنچنے والی تکالیف کو برداشت کرنا بھی پڑوسی کے حقوق میں شامل ہے بسا اوقات پڑوسی کے ساتھ جتنا بھی اچھا سلوک کیا جائے وہ احسان ماننے کے بجائے پریشان ہی کرتا رہتا ہے ایسے میں اسلام بُرے کے ساتھ بُرا بننے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ صبر اور حُسنِ تدبیر کے ساتھ اُس بُرے پڑوسی کے ساتھ حُسنِ سلوک کی ترغیب ارشاد فرماتا اور اس بُرے سُلوک پر صبر کرنے والے کو رضائے الٰہی کی نوید بھی سناتا ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک تین طرح کے لوگوں سے مَحبّت فرماتا ہے(ان میں سے ایک وہ ہے) جس کا بُرا ”پڑوسی“ اسے تکلیف دے تو وہ اُس کے تکلیف دینے پر صبر کرے يہاں تک کہ اللہ پاک اس کی زندگی يا موت کے ذريعے کفايت فرمائے۔(معجمِ کبیر،2/152، حدیث: 1637)

(7) سب سے بہتر پڑوسی: عبداﷲ بن عَمْرْو رضی اللہ عنہما سے روایت کی، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک ساتھیوں میں وہ بہتر ہے، جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اللہ (پاک) کے نزدیک وہ بہتر ہے، جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔ (سنن الترمذي ،کتاب البر والصلۃ، باب ماجاء في حق الجوار،3/379،حدیث: 1951)

پڑوسیوں کے معاملہ میں ہمارے اسلاف کا کیا طرزِ عمل تھا جس کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں:

خواجہ پیا کا پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک: حضرت سَیِّدُنا خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوسیوں کا بہت خیال رکھا کرتے ،ان کی خبر گیری فرماتے، اگر کسی پڑوسی کا انتقال ہو جاتا تو اس کے جنازے کے ساتھ ضرور تشریف لے جاتے ، اس کی تدفین کے بعد جب لوگ واپس ہو جاتے تو آپ تنہا اس کی قبر کے پاس تشریف فرما ہوکر اس کے حق میں مغفرت ونَجات کی دُعا فرماتے نیز اس کے اہلِ خانہ کو صبر کی تلقین کرتے اور انہیں تسلّی دیا کرتے ۔ (معین الارواح ،ص 188،بتغیر)

پڑوس کے چالیس چالیس گھروں کا بھی خیال کرنے والے بزرگ: فی زمانہ تو اپنے گھر کے ساتھ متصل پڑوسیوں کا خیال رکھنا بھی دشوار سے دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے جبکہ حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن ابی بکر رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے پڑوس کے گھروں میں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے کے چالیس چالیس گھروں کے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے،عید کے موقع پر انہیں قربانی کا گوشت(Meat) اور کپڑے بھیجتے اور ہر عید پر سو100 غلام آزاد کیا کرتے تھے۔(المستطرف ،1/276)

پڑوسیوں تکلیف پہنچانے کی عام مثالیں: جہاں پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک سعادتِ دارین کا سبب ہے وہی ان کے ساتھ بدسلوکی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی اور بربادئ دارین کا سبب ہے لیکن افسوس لوگ اس سے یکسر غافل ہیں کیونکہ آج کل کی صورتِ حال یہ ہے کہ اپنے پڑوسیوں کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے ، کبھی ڈسٹ بن سے کچرے کی تھیلی اُٹھا کر چپکے سے اس کے دَروازے کے آگے رکھ کر بھاگ جاتے ہیں ، کبھی اس کے دَروازے کے آگے پانی بہا کر تکلیف دیتے ہیں ، اگر چند منزلہ عمارت ہے تو آرام کے وقت میز کُرسیاں گھسیٹ کر آرام میں خَلل ڈالتے ہیں یا بچے زور زور سے شور شرابا کرتے ہوئے کھیلیں گے ، چیزیں پھینکیں گے تو دِیگر گھر والے انہیں روکیں گے نہیں اور دوسری منزل والے کی آنکھ کھل جائے گی ، کبھی اس بے چارے کا پانی بند کر دیں گے تو کبھی بارش کے پانی کا رُخ اس کی طرف کر دیں گے ، کوئی چیز جھاڑیں گے تو دھول اس بے چارے کے گھر میں جانے دیں گے ، نہ جانے پڑوسیوں کو کیسی کیسی تکلیفیں دیں گے اور جب وہ بے چارہ فریاد لے کر آئے گا تو اس کی کوئی شنوائی بھی نہیں ہو گی غور کر لیجیے! پڑوسی کو تکلیف دینے کی کتنی بڑی خرابی اور بَدنصیبی ہے۔

ان فرامینِ مصطفٰی کو پڑھئے اور پڑوسیوں کے حقوق کے معاملے میں اللہ سے ہر دم ڈرتے رہیے۔

(1)پڑوسیوں کو تکلیف پہنچانے والا مؤمن نہیں: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تکمیل ایمان کا دار و مدار پڑوسیوں کو تکلیف نہ پہنچانے پر رکھا۔ چنانچہ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: خدا کی قسم! وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں ۔ عرض کی گئی، کو ن یا رسولَ اللہ ! ( صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) فرمایا: وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔ (صحیح البخاري ،کتاب الأدب، باب اثم من لایأ من جارہ بوائقہ،4/104،حدیث: 6016)

اس حدیث پاک میں میر ے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے تین بار قسم اِرشاد فرمائی اور تاکیداً فرمایا کہ وہ مؤمن نہیں ہے۔ اِس کا مَطلب ہے جو شخص پڑوسیوں کو تکلیف دے اور وہ اس سے محفوظ نہ ہوں تو یہ شخص کامل اِیمان والا نہیں ہے۔

(2)پڑوسی کو تکلیف دینے والا گویا اللہ پاک کو ایذا دینے والا ہے: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے اپنے ”پڑوسی“ کو تکلیف دی بے شک اُس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اُس نے اللہ پاک کو ايذا دی، نیز جس نے اپنے ”پڑوسی“ سے جھگڑا کيا اس نے مجھ سے جھگڑا کیا اور جس نے مجھ سے لڑائی کی بے شک اس نے اللہ پاک سے لڑائی کی۔(الترغیب والترہیب،3/286، حدیث: 3907)

(3)نماز روزہ بھی کام نہ آئے:

پڑوسیوں کو ایذا دینے والی عورت کے متعلق جب سوال ہوا تو فرمایا:۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرْض کیا، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! فلاں عورت نماز و روزہ، صدَقہ کثرت سے کرتی ہے مگر اپنے پڑوسیوں کو زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے۔ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ جہنّم میں ہے۔(مُسْنَد اَحمَد، 4/635، حدیث:9926)

(4)پڑوسیوں کو دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں: سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس کسی نے کسی مسلمان کو اس کے گھر والوں کے بارے اور اپنے پڑوسی کو دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (کنزالعمال ، کتاب البر، فصل في الأخلاق والأفعال المذمومة،حدیث:7830)

(5) جنت سے محرومی کی وعید : مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہ ہو۔(کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار )

(6)پڑوسی کی خیر خبر نہ لینے والا پڑوسی : قیامت کے دن پڑوسی اپنے پڑوسی سے چمٹ جائے گا اور کہے گا: اے میرے پروردگار اس سے سوال کر اس نے میرے اوپر اپنا دروازہ کیوں بند کیا اور اپنا کھانا کیوں مجھ سے روکے رکھا۔ (کنزالعمال، کتاب الصحبت، فصل فی حق الجار)

(7)وہ ایمان دار نہیں: اسلام کی پاکیزہ تعلیمات میں ایسے شخص کو کامل ایمان والا قرار نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر سو جائے اور اُس کے ”پڑوس“ میں بچے بھوک و پیاس سے بِلبلاتے رہیں، چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو خود شکم سير ہو اور اس کا ”پڑوسی“ بھوکا ہو وہ ایمان دار نہيں۔(معجمِ کبیر،ج12/119، حدیث: 12741)

قراٰنِ کریم و آحادیث طیبات کے فرامین اور بزرگانِ دین کے طرزِ عمل کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں چاہئے کہ ہم بھی اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ اور پڑوسیوں کی ناراضیوں سے ہر دم بچتے رہیں تاکہ اس معاشرے میں محبت کی فضا قائم رہے۔

اللہ پاک ہمیں بھی دینِ اسلام اور شریعتِ مطّہرہ کے عین مطابق اپنے پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے، دنیا و آخرت میں بہتر پڑوس عطا فرمائے۔

پڑوسی خُلد میں یارَب بنا دے اپنے پیارے کا

یہی ہے آرزو میری یِہی دِل سے دعا نکلے( وسائل بخشش)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! روز مرہ کے مختلف معاملات میں جن افراد کے ساتھ بندے کا تعلق ہوتا ہے ان میں ایک پڑوسی بھی ہے، اللہ پاک نے رشتہ داروں اور دوستوں ،ساتھیوں کے علاوہ پڑوسیوں سے بھی نیک اور اچھے برتاؤ کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ ان کے ساتھ نیک سلوک کرنا یہ جنت میں لے جانے والا عمل ہے اور ان کے ساتھ بدسلوکی و ایذا رسانی کرنا حرام و گناہ اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔پڑوسی کو بڑی اہمیت حاصل ہے، اسی لیے اسلام میں تفصیل کے ساتھ پڑوسیوں کے حقوق بیان کیے گئے ہیں، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابہ کرام علیہمُ الرضوان اور بزرگان دین کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اپنے مسلمان پڑوسیوں کے حُسن سلوک کی وجہ سے کئی غیر مسلم دائرہ اسلام میں داخل ہوئے، ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ بھلائی کرے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام سے (پ 5، النسآء : 36)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جبریل (علیہ السّلام) مجھے پڑوسی کے بارے میں مسلسل تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا کہ وہ پڑوسی کو وارث ہی بنادیں گے۔( بخاری ، کتاب الادب، 4/104، حدیث : 6015)

سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر !جب تم شور بہ پکاؤ تو اس کا پانی زیادہ رکھو اور اپنے پڑوسی کا خیال رکھو۔( مسلم، كتاب البر والصلة والآداب، باب الوصية بالجار و الاحسان ، ص 1413، حدیث:2625)

حدیث پاک میں سالن کے دیگر اجزاء کے بجائے شوربہ بڑھانے کا فرمایا گیا کیونکہ شوربہ بڑھانا ہر ایک کے لئے آسان ہوتا ہے جبکہ گوشت اور مصالحہ وغیرہ بڑھانا سب کے لیے آسان نہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ مستحب کاموں میں سے جو آسان ہو اسے کرنے کی ترغیب دینی چاہیے تاکہ بندہ آسانی سے عمل کر کے زیادہ اجر و ثواب کما سکے ۔

مذکورہ حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لذت پر الفت و محبت کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ شور بے میں گھی اور مصالحہ بڑھانے کے بجائے صرف پانی بڑھانے سے اگر چہ اس کا مزہ کم ہو جائے گا لیکن پڑوسیوں کو دینے کی برکت سے ان کے ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں گے اور باہمی محبت بڑھے گی کیونکہ تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہوتی ہے۔ افسوس ہمارے معاشرے میں صورت حال اس کے بر عکس ہے الفت و محبت پر مزے کو ترجیح دی جاتی ہے۔(فیضان ریاض الصالحین، 3/481 تحت الحدیث 304،مکتبۃ المدینہ)

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے۔ " اگلی حدیث پاک میں فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے پڑوسی کے ساتھ احسان کرنا چاہیے۔(مسلم کتاب الایمان ، باب الحث علی اکرام الجار و الضیف۔۔۔الخ،ص43،حدیث:47،48)

علامہ محمد بن عَلان شافعی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں: ” مصنف یعنی امام نووی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے ان دونوں احادیث کو جمع کر کے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ کامل ایمان اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک دونوں چیزوں کو جمع نہ کیا جائے یعنی پڑوسی کو اذیت دینے سے بھی بچا جائے اور اپنی قدرت کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک بھی کیا جائے۔(دليل الفالحين ، باب في حق الجار والوصيۃ،2/140 ،تحت الحديث : 310)

اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں کا احساس کرنے ،اور انہیں ہدیہ دینے، اور انہیں تکلیف و اذیت پہنچانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کامیاب زندگی گزارنے اور آخرت کے اچھے گھر کے حصول کے لئے ایک اہم چیز اخلاقِ حسنہ بھی ہیں کہ آدمی اپنے کردار اور اخلاق سے معاشرے میں پہچانا جاتا ہے اور ہمارا اسلام تو باقاعدہ ہمیں معاشرے میں رہنے کے اصول بیان کرتا ہے جن میں سے ایک چیز پڑوسی کے حقوق بھی ہیں۔

یوں تو پڑوسیوں کے کئی حقوق ہیں لیکن یہاں بعض بیان کیے جاتے ہیں:

(1) تکلیف نہ دینا: پڑوسی کے حقوق سے ہے آپ انہیں کسی بھی طرح پریشان نہ کریں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں، خدا کی قسم وہ مؤمن نہیں۔ عرض کی گئی کون یا رسولَ اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) فرمایا:وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ ہوں۔( صحیح البخاری، کتاب الأدبب،باب اثم من لایأ من جارہ بوائقہ، 4/ 104،حدیث: 4014 )

(2) مدد کرنا: پڑوسی کے حقوق سے ہے کہ جب اسے مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد کرو کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اللہ کے نزدیک ساتھیوں میں بہتر وہ ساتھی ہے جو اپنے ساتھی کا خیر خواہ ہو اور پڑوسیوں میں اللہ کے نزدیک وہ بہتر ہے جو اپنے پڑوسی کا خیر خواہ ہو۔(بہار شریعت،حصہ،16)

(3) تحفہ دینا: پڑوسی کے حقوق سے یہ بھی ہے کہ اس سے موالات رکھیں جائیں اور انہیں تحفہ دیا جائے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:اے عائشہ پڑوسی کا بچہ آجائے تو اس کے ہاتھ پر کچھ رکھ دو کہ اس سے باہم محبت بڑھے گی۔(بہار شریعت،حصہ،16)

(4) عزت کرنا : پڑوسی کے حقوق سے ہے کہ اس کی عزت کی جائے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے:جو شخص اللہ (پاک) اور پچھلے دن (قیامت) پر ایمان رکھتا ہے، وہ اپنے پڑوسی کا اِکرام کرے۔(بہار شریعت،حصہ،16)

(5) عیادت کرنا: پڑوسی کے حقوق سے ایک بات یہ بھی ہے جب کبھی وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کی جائے کیونکہ ایک حدیث پاک میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے پڑوسی کا حق بیان فرمایا کہ آپ علیہ السّلام نے فرمایا: اور جب بیمار ہو عیادت کرو۔(بہار شریعت،حصہ16)

اس بیان کے بعد ہمیں چاہیے کہ اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھیں ان کے خوشی و سوگ میں شریک ہوں اور انہیں ستائے نہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے پڑوسیوں سے اچھا برتاؤ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم