وہ ذات جو سببِ تخلیقِ کائنات بنی جب اس دنیا کو اپنی جلوہ گری سے شرف بخشا، تو پیدائش کے وقت بھی اپنی گنہگار اُمَّت کو یاد رکھا، جب معراج کا دولہا بنایا گیا تب بھی اپنے رب کے حضور اپنے غلاموں کو نہ بھولے، جب جانِ عالَم نے عالَم کو مُرده چھوڑ دیا تب بھی مبارک لبوں پر ایک ہی صدا "ربِّ ھَبْ لِي اُمَّتِي"(اے میرے رب میری امت کو میرے حوالے کردے)

جو نہ بھولا ہم غریبوں کو رضا یاد اُس کی اپنی عادت کیجئے

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے انہی بے انتہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں "رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق" کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے. مُلَاحَظَہ ہوں: (1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان: پہلا حق یہ ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اللہ پاک کے آخری نبی اور رسول ہونے پر صدقِ دل سے ایمان رکھا جائے، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض ہے، اور جو ایمان نہ لائے وہ مسلمان نہیں۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت: دوسرا حق یہ ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہر حکم مانا جائے جس بات کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کیا جائے اور جس بات سے مَنْعَ فرمائیں اس سے رُكاجائے کیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ پاک ہی کی اطاعت ہے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی اللہ پاک کی نافرمانی ہے۔(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سےعشق: اُمَّتی پر حق ہے کہ وہ ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے انتہا کی مَحبَّت کرے۔ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اُس وقت تک ایمان کے کمال کو نہ پہنچ سکے گا، جب تک میں اُسے اُس کے باپ،اُس کی اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (بخاری،جلد1،حدیث: 15)

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم: ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دارومدار ہے وہ یہ ہے کہ بندہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر شیٔ سے بڑھ کر تعظیم کرے اور دل سے تعظیم کرے کیونکہ اگر نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی تعظیم دل میں نہ ہو، عُمْر بھر(تمام زندگی) عبادتِ الٰہی میں گزرے، سب بے کار و مردود ہے۔(تمہید الایمان،ص53،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درودِ پاک پڑھنا: اُمَّتی پر ایک حق یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اُٹھتے، بیٹھتے، چلتے، پھرتے کثرت سے درودِ پاک پڑھے۔ درودِ پاک پڑھنے کے بے حد و بے شمار فضائل و بَرَكات ہیں قراٰنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)


حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت سے بے پناہ محبت کیا کرتے اور امت کی نجات کے بارے میں فکر مند رہتے ، پوری پوری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے ، امت کی مغفرت کی خاطر بارگاہِ خدا میں گریہ و زاری فرماتے ، یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر پاوں مبارک میں ورم آجاتا اور ظاہر ہے کہ آپ نے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر امتی پر واجب ہے یہاں 5 حقوق ذکر کیے جاتے ہیں ملاحظہ فرمائیے (1) اتباعِ سنتِ رسول: آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت اور سنت مبارکہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب ہے فرمان خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل عمرٰن:31) چنانچہ حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ رسولُ اللہ کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات حضور انور علیہ الصلاۃ و السّلام کی مبارک سنتوں کی مکمل اتباع کی ہے مرنے کے بعد اور وفات کے دن بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو۔ (بخاری،1/186)

(2) درود شریف: ہر مسلمان پر واجب ہے کہ درود شریف پڑھتا رہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56) (3) آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائیں ہیں سچے دل سے اس کو ماننا ہر ہر امتی پر فرض ِعین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ رسولُ اللہ پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ فرمانِ رحمٰن ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)

(4) روضۂ رسول کی زیارت: خدائے حنان نے سورہ نسا میں فرمایا : وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (پ5،النسآء :64) (5) اسی طرح ہر امتی پر رسولُ اللہ کا حق ہے کہ وہ تمام جہاں سے بڑھ کر ان سے عقیدت و محبت رکھے اور تمام دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کے مبارک قدموں پر قربان کردے۔

قارئینِ کرام ! آپ نے 5 حقوق ملاحظہ فرمائے اب عزم کیجیے کہ ان حقوق کو سچے دل سے ادا کروں گا ، آپ کے اسوۂ حسنہ پر عمل پیرا ہوکر زندگی بسر کروں گا ، درود و سلام کی کثرت اور روضۂ مبارکہ کی حاضری دوں گا ، ہر اس کام سے بچوں گا جو اللہ و رسول کو ناپسند ہوں۔ اللہ کریم ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات درپیش ہوئیں، نیز آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے اس پر خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے کہ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (پ11،التوبۃ:128)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

دنیا مزار حشر جہاں ہیں غفور ہیں ہر منزل اپنے چاند کی منزل غفر کی ہے

اور فرماتے ہیں :

مؤمن ہوں مؤمنوں پہ رؤف رحیم ہو سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نہر کی ہے

ظاہر ہے کہ حضور سرورِ انبیا محبوبِ کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی امت کے لیے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

5 حقوق مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں:۔(1) ایمان بالرسول (2) اتباعِ سنتِ رسول (3) اطاعتِ رسول (4) محبتِ رسول (5) تعظیمِ رسول۔

(1) ایمان بالرسول: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔(2) اتباعِ رسول: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے ، ہدایت کے چاند تارے، اللہ و رسول کے پیارے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر سنتِ کریمہ کی اتباع کو لازمُ الایمان اور واجبُ العمل سمجھتے تھے۔

(3) اطاعت رسول: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔(4) محبتِ رسول: اسی طرح ہر امتی پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔

(5)تعظیمِ رسول: امت پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ان تمام حقوق کو صحابۂ کرام تابعین اور تبع تابعین نے بخوبی انجام دیا۔ اللہ پاک ہمیں بھی ان حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ الله نے ہمیں سب سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ جو جانِ کائنات ہے، رب کی معرفت ہو یا رشد ہدایت کے لیے قراٰن ۔ سب انہی کے صدقے ہمیں ملی ہے۔ یہ کریم رسول ہم گناہگاروں کو کبھی نہ بھولا۔ چاہے وہ مولود کا وقت ہو یا معراج کی رات، محشر کا میدان ہو یا پل صراط۔ ہر جگہ بے سہاروں کے سہارا بنتے نظر آئے۔ یقیناً پیارے آقا علیہ السّلام کے احسانات اس قدر کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا ممکن نہیں۔ انہیں بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر "رسولُ اللہ کے حقوق" کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبۂ احسان سے ہے۔ علما نے ان حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ یہاں پر 5 حقوق ملاحظہ ہوں :۔ (1)رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا : پہلا حق یہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت ورسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ کی طرف نازل کیا گیا اسے تسلیم کیا جائے ۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام مخلوقات پر ہے ۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں ، اگر چہ وہ دیگر تمام باتوں پر یا تمام انبیا علیہم السّلام پر ایمان رکھتا ہو۔ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے۔اس امت میں کوئی بھی شخصی ایسا نہیں جو میری نبوت (کی خبر) سنے ، خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی ، پھر وہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مر جائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، تو وہ جہنمی ہوگا۔ (مسلم ص 134 ، حدیث:153)

(2) رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے نبی سے سچی محبت کرے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے ۔ مؤمن اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسے سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں ۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی شخصی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں اسے اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح البخاری ، 1/12 ، حدیث :15)

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ جس بات کا حکم ہو اسے بجا لائیں، جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے رکا جائے ۔ ارشاد باری ہے : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔(پ 5 ، النسآء : 59)

(4) رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک پڑھنا: حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درودِ پاک پڑھنا بھی مقتضائے ایمان ہے کہ اس کے ذریعے ہم بارگاہ الٰہی میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے مزید در مزید قرب ، رفع درجات اور اعلائے منزلت کی دعا کر کے آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ جیسے اذان کے بعد پڑھی جانے والی مسنون دعا میں ہے۔ درودِ پاک کے بارے میں حکم ربانی ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)

(5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نصرت و حمایت کرنا : حضور پُر نور صلی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اور آپ کی تعلیمات اور دینِ اسلام کو بچانے کی کوشش کرنا اسی نصرت و حمایت میں داخل ہے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دینا اور آپ کی شان بیان کرنا اللہ پاک کی سنت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَ مِنْهُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ هُوَ اُذُنٌؕ-قُلْ اُذُنُ خَیْرٍ لَّكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ یُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ رَحْمَةٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْؕ-وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ان میں کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ تو کان ہیں۔ تم فرماؤ: تمہاری بہتری کے لئے کان ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کی بات پر یقین کرتے ہیں اور تم میں جو مسلمان ہیں ان کیلئے رحمت ہیں اور جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(پ10،التوبۃ:61)

الله پاک ہمیں اپنے نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


اللہ پاک نے دین حق کی رہنمائی اور پاسداری کے لئے لاکھوں انبیاء کرام علیہم السّلام مبعوث فرمائے انہیں میں سے وہ جن کی اشارے سے چاند دو ٹکڑے ہوا، وہ جن کو خاتم المرسلین کہا جاتا ہے، ہمارے مکی مدنی آقا محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو ہر دم اپنی امت کی یاد میں تڑپتے رہے جنہوں نے پیدا ہوتے وقت بھی اپنی امت کو یاد کرتے ہوئے رَبّ ھب لی اُمَّتَی کہا اور وصالِ ظاہری کے وقت بھی رَبّ ھب لی اُمَّتَی کی دعا کی ایسے کریم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت یعنی ہمیں چاہئے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امتی ہونے پر فخر کریں اور خدا کا شکر کریں اور ایسے اعمال کریں جو اللہ پاک اور اس کے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو محبوب ہوں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کو بجا لائیں ۔

آئیے کچھ مسلمانوں پر حقوقِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں: ۔(1) ایمان بالرسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرض عین ہے۔ کیونکہ ہر مؤمن کا عقیدہ ہے کہ رسول پر ایمان لائے بغیر ہرگز ہرگز کوئی بھی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13) اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ اللہ کے ساتھ ساتھ رسول پر ایمان نہ لانے والے کو کافر قرار دیا ہے اور اس کے لئے سزا بھی بیان کردی ہے ۔

(2) اتباع سنت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی کرنا ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع میں ہی اللہ پاک کی محبت ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)

(3) اطاعتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری بھی ہر امتی پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کرنے کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ خم تسلیم کر دینا ہر مسلمان کے لئے اشد ضروری اور زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔(پ 5 ، النسآء : 59)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت میں ہی اطاعتِ الٰہی ہے جیسا کہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚترجمۂ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(پ5،النسآء:80)

(4) تعظیمِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: امت پر حقوقِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں سے نہایت ہی اہم اور ضروری حق یہ ہے کہ ہر مسلمان حضور آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ سے نسبت اور تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم توقیر کرے اور ادب بجالائے اور کبھی بھی ہرگز ہرگز ان کے شان میں بے ادبی نہ کرے کیونکہ یہ ایمان کا بنیادی اور اہم حصہ ہے اس کے بغیر ایمان کامل تو کیا ایمان کی ابتدا بھی نہیں ہوسکتی اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)

(5) صلاۃ و سلام بارگاہِ رسالتِ مآب محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : ہر مسلمان پر زندگی میں ایک بار حضور سیدِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ طیبہ پر درود پڑھنا فرض ہے۔ جیسا کہ خالقِ کائنات کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)

درود شریف کی تو اتنے فضائل و برکات ہیں کہ ان کے بارے میں باقاعدہ مصنفین و مؤلفین ( Writer's) نے مستقل مفصل و مطول کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں جن کا مختصر ذکر آپ امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے رسالے ، ضیاء درود و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ خداوند قدوس ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام حقوق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صدق دل سے اور خلوص و للہیت کے ساتھ بجالانے کی توفیق رفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین۔


اللہ ربّ العزت کا کروڑہاں کروڑ احسان عظیم ہے کہ اس نے ہمیں اپنے پیارے حبیب حبیبِ لبیب احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا کیونکہ ہمارا وجود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ سے ہے اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات نہ ہوتی ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیدائش سے ظاہری وصال تک ہم گناہ گار امت کو یاد فرماتے رہے اور بروزِ قیامت بھی اپنی امت کی شفاعت کرنے کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں گے، تو کبھی اپنی امتی کی نیکیوں کے پلے بھاری کر رہے ہوں گے، تو کبھی اپنی امت کو پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزار رہے ہوں گے، تو کبھی حوض کوثر پر جام کوثر سے سرفراز فرما رہے ہوں گے اور بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سارے احسانات ہیں جن کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔ اور بیشک ان بے شمار احسانات کے کچھ تقاضے جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبہ احسان ہے اور اسی تقاضے کو حقوق کہتے ہیں ۔(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم من جانب اللہ لائے اسے صدق دل سے تسلیم کیا جائے ۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر کیونکہ آپ کا احسان تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہے ۔(2) امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صدق دل سے محبت کرے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے ۔

(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے ۔(4) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم مان کر اس پر عمل کیا جائے جس چیز کا حکم فرمائے اسے بجالائے اور جو فیصلہ فرمائے اسے قبول کیا جائے اور جس چیز سے روکیں اس سے روکا جائے ۔( 5) حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود شریف پڑھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے ذریعے ہم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے مزید در مزید قرب رفع درجات اور اعلائے منزلت کی دعا کرکے آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

پیارے اسلامی بھائیو! وہ نبی ہوکر امتی امتی کہے تو ہم امتی ہوکر کیوں نہ یا رسولُ اللہ یا رسولُ اللہ کہے ہم پر ضروری ہے کہ ہم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صدق دل سے محبت کرنے کے ساتھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع بھی کریں اور روزانہ کے معمولات میں درود شریف پڑھنے کو بھی شامل کریں ۔

اللہ کریم ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سب سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے، ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ولادت مبارکہ سے وصال مبارک تک مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہاتے رہے اس طرح کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لبہائے مبارکہ پر امت کی یاد تھی۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محوِ استراحت (سویا) ہوتا، اس وقت حبیبِ کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنا بستر مبارک چھوڑ اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم گناہ‌گاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے۔ یقیناً پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات بےشمار ہیں۔ انہی بیش ‌بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبۂ احسان ہے۔

(1)پہلا حق یہ ہےکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ اسے صدق دل سے تسلیم کیا جائے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)

(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)محبوب رب العالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے۔(شرح السنه للبغوی، 1/98)

(3)امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا‌ و مولا، سید‌المرسلین، رحمة‌للعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے کہ آپ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے باپ، اس کی اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحيح البخاری، 1/12، حدیث:15)

(4)ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہےکہ دل و‌جان ، روح وبدن اور ظاہر وباطن ہر اعتبار سے نبی مکرم، رسول محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلی درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔(پ26،الفتح:9) اسی ادب و‌تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بےادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کرنا ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔

(5)حضور پرُنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک پڑھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔ رب‌العالمین فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)علامہ احمد سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ پاک کے حکم کی پیروی کر کے اس کا قرب حاصل کرنا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ادا کرنا ہے۔(القول البديع، ص 83)


الله پاک نے انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو وہ حقوق ہے جو الله پاک کی طرف سے بندے کے اوپر عائد ہوتے ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکاۃ۔ دوسرے وہ حقوق جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔ پہلے والے حقوق کو حقوق الله کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے کو حقوقُ العباد سے جانا جاتا ہے۔ حقوقُ العباد کے حوالے سے اسلام میں جو مقام واہمیت حاصل ہو ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ قراٰنِ کریم و احادیثِ نبویہ میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں غفلت برتنے والے کو موجب غضب قرار دیا گیا ہے۔ اور ان حقوقُ العباد میں سے جو حقوق انبیائے کرام کے اسلام نے بیان کیے ہیں اس کا مقام و مرتبہ سب سے برتر ہے خصوصاً رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کیونکہ ہمارا وجود بھی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے ہے۔ قراٰن، ایمان، خدا کا عرفان، بسیار نعمتیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے نصیب ہوئیں۔ یقیناً رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات اس قدر وسیع ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل سے ماوراء ہے۔ انہی احسانات کے کچھ تقاضے ہیں۔ جنہیں امت پر حقوقِ مصطفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان مطالبہ احسان ہے۔ اب میں قراٰن و احادیث کی روشنی میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق جو امتِ مسلمہ پر ہیں۔ ان میں سے پانچ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔

(1) سب سے پہلا حق تو یہ ہے کہ ان کی رسالت و نبوت پر ایمان رکھا جائے۔ اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اس کو صدق دل سے تسلیم کیا جائے یہ فقط مسلمان پر ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہیں۔ کیونکہ آپ کی رسالت تمام کے لیے عام ہے۔ تو اس پر اقرار کرنا فرضِ عین ہے۔ اب جو اقرار کر لیں وہ مسلمان ہے اور اس کے لیے بشارتِ عظمیٰ ہے اور جو اس سے اعراض کرے وہ کافر ہے اور رب جبار وقہار کے غضب کا حقدار ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)

(2) اور انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم وتکریم کرنا بھی امت پر ضروری ہے اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے مثلاً نعلینِ پاک، موئے مبارک خصوصاً مدینہ منورہ، و اہل بیت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ارشاد ربانی ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)امام اہل سنت اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: پھر جب تک نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی تعظیم نہ ہو عمر بھرعبادتِ الہٰی میں گزارے سب بیکارو مردود ہے، بہتیرے (یعنی بہت سے) جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکرو عبادتِ الہٰی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں مگر اَزانجاکہ مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم نہیں ،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل ِقبول بارگاہِ الہٰی نہیں ۔ اللہ ایسوں ہی کو فرماتا ہے: وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) جوکچھ اعمال انہوں نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔ ( تمہید الایمان، ص 53)

(3) تیسرا سب سے اہم ترین حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب سے آخری نبی تسلیم کیا جائے ۔ یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور آخری نبی ہونا قطعی یقینی بابِ عقائد میں سے ہے ۔ یہ قطعیَّت قراٰن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ22،الاحزاب:40)اس کے تحت امام اہل سنت فرماتے ہیں: یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قراٰن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ،15 رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، ص 630) یاد رہے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے اس پر امت کا اجماع ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ترجمہ : میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن أبي داود،4/98 ،حدیث: 4254)

(4) امت مسلمہ پر یہ بھی حق ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبت کرے کہ ان کی محبت مدارِ نجات ،جانِ ایمان، روحِ ایمان ،اصلِ ایمان ہے۔ ارشاد ربانی ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24) اس کے تحت اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ پاک اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، حدیث 14 / تمہید الایمان 55)

(5) پانچواں حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح وثنا، تعریف و توصیف نعت و منقبت و درود شریف پڑھنا بھی مطالبہ احسان و مقتضائے ایمان ہے۔ اور ان کے لیے اقبال منزلت، رفع درجات کی دعا کر کے محسن اعظم کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجَمۂ کنز الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

کعبہ کے بدرُالدُّجیٰ تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضُّحیٰ تم پہ کروڑوں درود

مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)

اللہ ہمیں حقوقِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین


اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے اس دارِ فانی میں پیدا کیا تو اس پر کچھ حقوق رکھ دئیے تاکہ یہ بندہ ان حقوق کی پاسداری کر کے اس کے ذریعے قربِ الٰہی حاصل کر سکے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات تمام مخلوق و کائنات پر ہیں خصوصاً اس امت پر تو بے شمار و لا تعداد احسانات ہیں ۔

آج ہر طرف حقوق و فرائض کے لئے آواز بلند کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے ۔ہر طبقہ ،جماعت اور فرد اپنے حقوق کی بازیابی اور بحالی کے لیے سراپا احتجاج ہے ۔ کہیں انسانی حقوق کی پامالی پر شور و غوغا ہے تو کہیں حقوقِ نسواں کے علم برداروں کا عجیب و غریب مطالبہ ۔ لیکن ان سب کے باوجود بحیثیت مسلمان کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ اس محسنِ انسانیت کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ جس نے نوعِ انسانی کو غلامی سے چھڑایا، مظلوم و بے بس عورتوں کو حقوق و مراعات سے نوازا ،جس نے آدابِ زندگی بھی سکھائے اور اصول بندگی سے بھی آگاہ کیا،جس نے غلاموں، مزدوروں اور غریبوں سمیت جانوروں کو بھی وہ تحفظات عطا کئے جس کی نظیر پیش کرنی مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم انہیں کے نام لیوا سپاس گزار اور منت کش ہوتے ہوئے ان کی ذات والا صفات کو فراموش کر بیٹھے ان کی تعلیمات و ہدایات کو بھلا بیٹھے نہ ہمیں انکے نام کا پاس رہا، نہ نسبت کا لحاظ ۔ نہ انکی قربانیاں یاد رہیں نہ جانثاروں کا خیال ۔المیہ یہ ہے کہ ہم رنگینی حیات اور فانی زندگی کے حصار سے باہر نہ آ سکے اپنے بندھے ٹکے نظام العمل سے وقت نہ پا سکے اپنی روز مرہ مصروفیت سے دامن نہ چھڑا سکے ۔ آج امت کے کتنے افراد ایسے ہیں جنہیں نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گھرانہ اور خانوادہ معلوم ہے ۔ کتنے ایسے ہیں جو بناتِ طاہرات کے نام جانتے ہیں نہ ازواج مطہرات کی صحیح تعداد ۔بلکہ بہت سے تیرہ بخت و بدقسمت ایسے بھی ہیں جنہیں کلمہ طیبہ اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نامِ نامی بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔

المختصر: آج مناسب محسوس ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق و آداب سے متعلق کچھ اہم معروضات پیش کیے جائیں ،تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے کہ انسانیت کے سب سے عظیم محسن اور ہمارے رہبرِ کامل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہم پر کیا حقوق ہیں ؟

پہلا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت آیاتِ واضحہ اور معجزاتِ ظاہرہ کے ذریعے ثابت ہو گیا تو محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان تمام احکام کی جن کو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حق تعالیٰ کی طرف سے لیکر تشریف لائے ان سب کی تصدیق کرنا فرض اور لازم ہو گیا۔ رب نے فرمایا: فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۸) ترجمہ کنزالایمان: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ28،التغابن:8)

وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)

مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض اور واجب ہے۔ ایمان باللہ بھی ایمان بالرسول کے بغیر معتبر نہیں اور جس شخص کا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان نہ ہو وہ کافر ہی ہے جس کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔

دوسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرنا۔ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ کی طرف سے نبی اور رسول مان لینے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے ہر ہر جز کو برحق اور منجانبِ اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے ،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جائے۔ اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اسے نہ پھرو۔(پ9، الانفال :20)در اصل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور آپ کے ارشادات پر عمل کرنا قراٰنِ پاک پر عمل کرنے کے مثل ہی ہے۔

تیسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے ۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے ۔ اس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور مؤکدہ و مستحب چیزیں بھی ۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے اسی لئے کتبِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب و معاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں، مبارک عادتوں، خصلتوں کی اتباع کے بارے قراٰنِ پاک میں ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل عمرٰن:31)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: تم میں کوئی کامل مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی (شریعت اور احکام) کے تابع نہ ہوجائے ۔( مشکوٰة شریف)

چوتھا حق : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہر امتی پر لازم ہے۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)آیت مبارکہ میں اس بات کی صاف دلیل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت کاملہ ہر امتی پر لازم ہے جو اولاد ،والدین ،خاندان، رشتہ دار، مال و دولت، تجارت مکانات سب کی محبت پر غالب ہے ۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کی اولاد اور اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

حدیث پاک سے بھی ثبوتِ ایمان کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے کامل محبت کا فرض ہونا ظاہر ہے ۔ محبت کے درجات مختلف ہو سکتے ہیں جس کی وجہ سے ایمان کے درجات بھی مختلف اور متفاوت ہو سکتے ہیں لیکن مطلوب یہی ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری پوری محبت دل میں جاگزیں ہو۔

پانچواں حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِّ مکرم، رسول ِ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیرکی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے۔ جیسے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ، مسجد ِ نبوی، گنبد خضریٰ، اہل ِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جھکا لے، اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استاد یا پیر یا عالم ہویا دنیوی وجاہت والا کوئی شخص ہو ،اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم ہر امتی پر فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے :اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالایمان: تو وہ جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔( پ9، الاعراف :157)

دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلا جاتا ہے تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی اور نے بنائے ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اور اس کے دربار کے آداب تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ، تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے ربِّ کریم نے نازل فرمائے ہیں ۔

الغرض مسلمان کی شان اور کمال یہ ہے کہ وہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محبت، اطاعت، تعظیم و تکریم بھی دل سے بجا لائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک امت کے ہر فرد کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین


پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں جو نعمتیں ملی ہیں وہ تمام پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کا صدقہ ہیں، آپ کے ہم پر بےشمار احسانات، لہٰذا ہم امتیوں پر بھی لازم ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق ادا کریں، چند حقوق ذیل میں لکھے گئے ہیں، ملاحظہ کیجئے:

(1)ایمان لانا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر۔(پ 5 ، النسآء : 136)حضرت قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ آپ علیہ السّلام کی نبوت اور رسالت کی تصدیق کرے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اس کی تصدیق کرے اور اس کا دل اس کی زبان کی موافقت کرے۔ (الشفا،2/3)

(2)اطاعتِ رسول:اللہ پاک فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ (پ 5، النسآء : 59) اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی۔(بخاری، 2 / 297، حدیث : 2957)

(3)سنتوں کی اتباع: اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ﴾ترجمۂ کنزُ العِرفان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو!اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ (پ3،اٰل عمرٰن: 31)اسی طرح اللہ پاک ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ﴾ ترجمۂ کنزُ العِرفان: بیشک تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ (پ21، الاحزاب: 21) محمد بن علی ترمذی فرماتے ہیں: اَلاُسوۃُ فِی الرَّسُوْل سے مراد آپ کی اقتدا کرنا ، سنتوں کی اتباع کرنا اور قول و فعل میں آپ علیہ السّلام کی مخالفت نہ کرنا ہے۔ (الشفا،2/6) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم پر میری سنت اور (میرے بعد) میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، ان (کے طریقے) کو مضبوطی سے تھام لو۔( ابو داؤد،4/267 حدیث:4607)

(4) محبتِ رسول:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی کامل مؤمن نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔ (بخاری، 1/17، حدیث:15) اسی طرح حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص میں تین باتیں ہوں گی اس نے ایمان کی حلاوت پائی (1)اللہ پاک اور اس کا رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (2)اللہ پاک ہی کے لئے کسی سے محبت کرے۔ (3) کفر کی طرف لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔(بخاری، 1 / 17،حدیث: 16)

(5)درود و سلام پڑھنا:جو نبی اپنی اُمّت کے لئے دعائیں کرتا رہا اور کسی موقع پر نہ بھولا تو امتیوں کو بھی چاہئے کہ اس نبی علیہ السّلام کی یاد کثرت سے کریں ،درود و سلام بھی حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یاد کا ایک اہم ذریعہ ہے اللہ پاک فرماتا ہے:﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)

پیارے اسلامی بھائیو!درود شریف پڑھنے کے بہت فضائل ہیں۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہوگا جس نے دنیامیں مجھ پرزیادہ درودِ پاک پڑھے ہوں گے۔ (ترمذی، 2 / 27، حدیث : 484)

محترم قارئین! ہم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند حقوق پڑھے لیکن ان کے علاوہ آپ کے اور بہت حقوق ہیں، ان کے مطالعے کے لئے کتبِ سیرت کی طرف رجوع کریں ۔

اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 اے عاشقانِ رسول اگر رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائےتو اس بات کا اندزہ ہوگا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمارے لئے کتنی تکالیف اور مصائب برداشت کئے ۔ جب آپ نے طائف والوں کو دعوتِ حق دی تو انہوں نے آپ کی دعوت کو جھٹلایا، آپ کے پیچھے اوباش لڑکے لگادئیے، یہاں تک کہ آپ پر پتھروں کا برساؤ بھی کیا گیاجس سے آپ کے قدمینِ مبارکہ لہو لہان ہوگئے، لیکن آپ نے ان مصیبتوں کو برداشت کیا،اب ہم پر بھی رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کچھ حقوق بنتے ہیں ان حقوق کو علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہنے شفاءشریف میں اور دیگر علماء نے اپنی کتابوں میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)ایمان بِالرّسول: مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اس کے بغیر وہ ہرگز مؤمن نہیں ہوسکتا،کیونکہ اللہ پاک نے اس بات کی خود قراٰن میں وضاحت فرمادی ہے اللہ رب العزت فرماتا ہے:﴿ وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) ﴾ترجَمۂ کنز الایمان : اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (پ26،الفتح:13)

وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا اُس کی ہوئی

وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا

(2)اتباعِ سنتِ رسول: حضور کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی سنّت کی اتباع کی جائے یعنی سنّتِ مبارکہ پر عمل کیا جائے، نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(ترمذی،4/309،حدیث:2687)

(3)اطاعتِ رسول:ہر اُمّتی پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین کی پیروی کرے کیونکہ حضور کی اطاعت کا حکم ہمیں خود اللہ پاک نے دیا ہے: ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ترجَمۂ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ ( پ 5 ،النسآء:59)

(4)درود و سلام پڑھنا: ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ حضور کی ذات پر درود و سلام بھی پڑھے کیونکہ اس کا حکم خود ربِّ کریم نے قراٰنِ کریم میں دیا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: مَنْ صَلّٰى عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا جس نے مجھ پر ایک بار دُرود پاک پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔(مسلم،ص172،حدیث:912)

(5) قبرِانور کی زیارت:صحابۂ کرام کے مقدس دَور سے تمام مسلمان قبرِ انور کی زیارت کرتے آئے ہیں اور قبرِ انور کی زیارت کرنا باعثِ برکت وشفاعت سمجھتے آئے ہیں کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دار قطنی،2/351،حدیث:2669)

بروزِ حشر شفاعت کریں گے چُن چُن کر

ہر اِک غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

اللہ ربُّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمسے سچی پکی محبت عطا فرمائے، آپ کے فرامین کے مطابق زندگی گزارنے،آپ کی ذات پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے اور آپ کے فضائل ومحاسن بیان کرتے رہنے کی توفیق وسعادت عطا فرمائے اور بروزِ قیامت آپ کی شفاعت نصیب فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم