محسنِ انسانیت ﷺ نے ہی حیوانِ ناطق کو انسان بنایا۔ آپ نے ہی بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا، عورتوں کو معاشرے میں عزت دینا، مظلوموں کی مدد کرنا، انصاف کے تقاضے پورے کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، ضعیفوں، کمزوروں، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا سکھایا۔ آپ نے ہی لوگوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دی اور اپنے کلام و افعال سے اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ ہمارے پیارے آقا، ہمارے محسن ﷺبھی اپنے امتیوں پر حقوق رکھتے ہیں، جن کا ادا کرنا نہایت ضروری، بلکہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ پانچ حقوق کو مندرجہ ذیل میں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ سچ، لائق، فرض ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں حق کے کئی معانی بیان کئے جاتے ہیں، جن میں ایک فرض (ذمہ داری) بھی ہے۔ زیادہ تر کسی کے احسانات کی وجہ سے اس کی طرف نسبت کو بھی حق کہتے ہیں۔

1۔ آپ پر ایمان لانا: قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (پ 5، النساء: 136) اے ایمان والو!ایمان لاؤ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ رسولوں پر ایمان لانا ایمان کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے صدقِ دل سے تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اب اگر کوئی رسولوں پر تو ایمان لائے، مگر آپ ﷺ کی رسالت کا انکار کرے تو وہ مسلمان نہ ہوا۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: قرآن پاک میں سورۂ نساء کی آیت نمبر 59 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو مستقل طور پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کا ہر حکم مانا جائے، خواہ اس کی اصل قرآن سے معلوم ہوسکے یا نہ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہی کافی نہیں، بلکہ اطاعت بھی واجب ہے۔

3۔ آپ کو آخری نبی ماننا:قرآن کریم میں سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ (پ6، المائدہ:3) ترجمہ کنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ اس آیت کے تحت مفسرین فرماتے ہیں: دین کا مکمل کرنا یہ ہے کہ یہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا، بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبیِ کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا، کیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ سورج نکل آنے کے بعد چراغ کی ضرورت نہیں۔ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

آپ ﷺ اپنے امتیوں پر یہ حق رکھتے ہیں کہ آپ کے امتی آپ کو سچے دل سے آخری نبی تسلیم کریں۔

4۔ آپ سے محبت کرنا:

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نامکمل ہے

پیارے آقا ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور ایسی محبت کرنا ضروری ہے، جو انسان کے اپنے اہل و عیال، مال و دولت، بلکہ اپنے نفس پر غالب ہو۔ قرآن پاک میں ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ( پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ: نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد سے زیادہ، اس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری)

5۔ آپ کے اہلِ بیت سے محبت کرنا: قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (پ21، الاحزاب: 6)ترجمہ: مومنین کے لئے نبی کی ذات، ان کے اپنے نفس پر مقدم ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ آپ ﷺ کی آل و اہلِ بیت سے محبت کرنا حقوق النبی ﷺ میں سے ہے۔ نیز مسلم شریف میں روایت ہے:

نبیِ کریم ﷺ ایک دن تشریف فرمائے ہوئے۔ آپ پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی منقش چادر تھی۔ اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہُ عنہ تشریف لائے، آپ ﷺ نے ان کو چادر میں لے لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہُ عنہ آئے، ان کو بھی چادر میں لے لیا، پھر فاطمہ رضی اللہُ عنہا تشریف لے آئیں تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر مبارک میں داخل فرمالیا۔ پھر حضرت علی ﷺ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اہلِ بیت! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے ہر بری چیز کو دور فرماکر تمہیں خوب پاک صاف کردے۔ (مسلم)

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ رسول نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

اللہ پاک ہماری حقوق النبی ﷺ کی ادائیگی میں ہونے والی کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور درست ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ 


حبیبِ خدا، مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کے لئے بےشمار تکالیف برداشت فرمائیں۔ نیز آپ کے اپنی امت کی نجات و مغفرت کی فکر اور اس پر مشقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11، التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں، ان کاتقاضا ہے کہ امت پر آپ ﷺ کے کچھ حقوق ہیں، جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔ حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ نے درج ذیل آٹھ حقوق اپنی کتاب شفاء شریف میں تفصیل سے بیان فرمائے ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:

(1)ایمان بالرسول، (2) اتباعِ سنتِ رسول، (3) اطاعتِ رسول، (4) محبتِ رسول، (5) درود شریف۔

1۔ ایمان بالرسول: رسولِ خدا ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا مانناہر امتی پر فرضِ عین ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔لہذا یاد رکھئے کہ محض توحید و رسالت کی گواہی کافی نہیں، بلکہ کسی کا بھی ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہوسکتا، جب تک اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کو اپنی جان و مال، بلکہ سب سے زیادہ محبوب نہ بنالیا جائے۔

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے تین باتوں کو حلاوتِ ایمانی کے حصول کی علامت قرار دیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہےکہ بندے کی نظر میں اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوجائے۔ (بخاری، ص74، حدیث: 16 مفہوما)

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں

2۔ اتباعِ رسول ﷺ: سرورِ کائنات، فخرِ موجودات ﷺ کی سیرتِ مبارکہ، سنتِ مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ پاک اور اس کے رسول کے پیارے صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم و صحابیاتِ طیبات رضی اللہُ عَنہُنَّ آپ کی ہر سنتِ کریمہ کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے اور بال برابر بھی کسی معاملے میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی سنتوں سے انحراف گوارا نہیں کرتے تھے۔

3۔ اطاعتِ رسول: ارشادِخداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق یہ ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے۔ کیونکہ آپ ﷺ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔

ایک اور مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لئے بلند درجات ہیں۔ ہم پر لازم ہے کہ ہر قسم کے قول و فعل میں آپ ﷺ کی سیرتِ طیبہ سے رہنمائی لی جائے اور آپ کی بیان کردہ شرعی حدود سے تجاوز نہ کیا جائے۔

4۔ محبتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے۔ جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہُ عنہ کی خالہ جان حضرت فاطمہ بنتِ عتبہ رضی اللہُ عنہا ایک بار سرکارِ مدینہ، قرارِ قلب و سینہ ﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئیں تو عرض کی: یا رسول اللہ! ایک وقت میں چاہتی تھی کہ آپ کے علاوہ دنیا بھر میں کسی کا مکان نہ گرے، مگر اے اللہ کے رسول! اب میری خواہش ہے کہ دنیا میں کسی کا مکان رہے یا نہ رہے، مگر آپ کا مکان ضرور سلامت رہے۔ ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (اسد الغابہ، 7/223)

اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں، بلکہ ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کو آپ ﷺ کی محبت پر قربان کردے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی

(صحابہ کرام کا عشقِ رسول، ص 22)

5۔ درود شریف:اللہ پاک نے ہمیں اپنے حبیب ﷺ پر درود پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ22، الاحزاب:56)ترجمہ کنزا لایمان: ترجمہ: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر، اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔

اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنّت،مُجَدّدِ دِىن و ملّت مولانا شاہ اِمام احمد رَضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ میں اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اِرشَاد فرماتے ہیں:نامِ پاکِ حُضُور پُرنُور سَیِّدِ عَالَم مختلف جلسوں میں جتنی بار لے یا سُنے ہر بار دُرُود شریف پڑھنا واجِب ہے، اگر نہ پڑھے گا گنہگار ہو گا اور سَخْت سَخْت وَعِیدوں میں گِرِفتار، ہاں ا س میں اِخْتِلاف ہے کہ اگر ایک ہی جَلْسَہ میں چند بار نامِ پاک لیا یا سنا تو ہر بار واجِب ہے یا ایک بار کافی اور ہر بار مُسْتَحَب ہے، بَہُت عُلَما قَولِ اَوّل کی طرف گئے، ان کے نزدیک ایک جَلْسَہ میں ہزار بار کلمہ شریف پڑھے تو ہر بار دُرُود شریف بھی پڑھتا جائے اگر ایک بار بھی چھوڑا گنہگار ہوا۔

حبیبِ خدا، مکی مدنی مصطفےٰﷺ کی شانِ محبوبیت کا کیا کہنا۔ ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبرِ جمیل کی بارگاہِ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوندِ جلیل اس کے بدلے اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 


اللہ پاک کی ا ربوں، کھربوں رحمتیں نازل ہوں اُس ذات پر جن کے سبب سے انسانیت کو وجود ملا، جن کے صدقے انبیاء کرام علیہمُ السّلام  کو نبوت ملی، جن کے طفیل ہدایت ملی، جن کی بدولت نجات ملے گی اور جن کی وجہ سے ربّ کی رضا نصیب ہوگی۔ انسانیت کو اب تک جو کچھ بھلائی، نعمتیں ملیں اور جو کچھ آئندہ ملیں گی، وہ سب آپ ﷺ کے دم قدم سے ہے۔ اور نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم ایمان کی شرطِ اول ہے۔ جب تک نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم دل سے نہ کی جائے تب تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے نبیِ کریم ﷺ کے بہت سارے حقوق ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، درست، ٹھیک، واجب، سچ، عدل و انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

1۔ نبیِ کریم پر ایمان لانا: امت پر نبیِ کریم ﷺ کا پہلا حق یہ ہے کہ آپ پر ایمان لائے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید سورۂ فتح آیت نمبر 8 اور 9 میں ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

2۔ نبیِ کریم سے سب سے زیادہ محبت کرنا: نبیِ کریم ﷺ کی محبت میں آپ کی جس قدر تعظیم و تکریم کی جاسکتی ہے، کی جائے کہ یہ ایمان کا جزء ہے اور جس کا دل آپ ﷺ کی محبت، ادب اور تعظیم سے خالی ہے، وہ ایمان سے محروم ہے۔ یہی قرآن و حدیث کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ پارہ 10 سورۂ توبہ آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

حدیث ِ مبارکہ: بخاری شریف کی مشہور حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے ماں باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 15)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مومنِ کامل کے لئے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن کے نزدیک رسولِ خدا ﷺ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و معظم ہوں۔ اس حدیث میں حضورﷺ کے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں حضور کو اونچا مانے، اس طرح کہ آپ کے لائے ہوئے دین کو تسلیم کرے، حضور کی سنتوں کی پیروی کرے، تعظیم و ادب بجالائے اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے ماں باپ، اپنے عزیز و اقارب اور اپنے مال و اسباب پر حضور ﷺ کی رضا و خوشی کو مقدم رکھے۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جانے پر بھی راضی رہے۔ لیکن حضور ﷺ کےحق کو دبتا ہوا گورا نہ کرے۔ (اشعۃ اللمعات، 1/50)

3۔نبیِ کریم کو سیدُ البشر مانے: امت پر نبیِ کریم ﷺ کو محض بشر ہونے کا نہیں، بلکہ سیدُ البشر ہونے کا اور سب سےا فضل ہونے کا عقیدہ رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا۔ میں وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی قبر کھلے گی۔ سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہی ہوں گا اور میں ہی وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔

4۔ نبیِ کریم ﷺ کو افضل الانبیاء ماننا: امت پر نبیِ کریم ﷺ کا حق یہ ہے کہ آپ کے افضل الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے۔ امام ِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بےشک ہمارے نبی ﷺ کا تمام جہانوں سے افضل ہونا اجماعی قطعی ہے، بلکہ قریب تھا کہ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہوتا۔ آپ کے بعد سب سے اونچا مقام بقیہ انبیاء اور رسولوں کا ہے۔ صلوات اللہ و سلام علیہم اجمعین(دس اسلامی عقیدے، ص 74-75)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے رایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ پاک نے چھ چیزیں عطا کرکے مجھے باقی انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر فضیلت دی ہے: (1) اللہ پاک نے مجھے جوامع الکلم دئے، (2) رعب عطا فرماکے میری مدد کی، (3) مالِ غنیمت کو میرے لئے حلال کیا ہے، (4) پوری زمین کو میرے لئے (طہور) پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا، (5) پوری زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ بنادیا ہے، (6) مجھے پوری مخلوق کا نبی بنادیا یعنی مجھے اللہ نے آخری نبی بنادیا ہے۔ (مسلم، حدیث: 52)

5۔ نبیِ کریم ﷺ کو خاتم الانبیاء ماننا: ایک حق یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو خاتم الانبیاء مانے، نبیِ کریم ﷺ کو آخری نبی مانے اور یہ عقیدہ رکھے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سورۂ احزاب آیت نمبر 40 میں ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب:40)ترجمہ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔

حدیثِ مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی، 2/5)

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآن وہی فرقان وہی یٰسین وہی طٰہ


حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کی ہر بات پر لبیک کہے۔ لہٰذا حضورِ اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ، جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔ اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور کے بہت سے حقوق ہیں، ہر مسلمان کے لئے حضور کے تمام حقوق سب سے پہلے ہیں لہٰذا حضور کے حقوق ہر مسلمان پر فرضِ عین ہیں۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔

حقوقِ مصطفیٰ:ہر نبی کے اپنے امتیوں پر حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ کے بھی اپنی امت پر بہت سے حقوق ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(پ3، اٰلِ عمرن: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے حبیب ﷺ کی اتباع اور اطاعت اختیار کی جائے۔

حضور ﷺ کا ایک حق یہ ہے کہ ان کی پیروی و اطاعت کی جائے، لہٰذا ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸) (پ 9، الاعراف: 158) ترجمہ: تم فرماؤ! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جو نبی ہیں، (کسی سے ) یہ پڑھے ہوئے نہیں، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو، تاکہ تم ہدایت پالو۔

ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو آخری نبی مانا جائے۔ اس پر بہت سی احادیثِ مبارکہ اور آیتِ مبارکہ ملتی ہیں۔

ختمِ نبوت اور قرآنی آیات:

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ (پ6، المائدہ: 3)ترجمہ کنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔

ختمِ نبوت اور احادیثِ مبارکہ:

(1) اور بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(2) حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے لئے حضرت ہارون علیہ السّلام، البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔

(3) بےشک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں، کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

(4) مجھے 6 وجوہ سے انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر فضیلت دی گئی ہے: (1) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں، (2) رعب سے میری مدد کی گئی ہے، (3) میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے نبیوں پر حلال نہ تھا، (4) تمام روئے زمین کو میرے لئے طہارت اور نما زکی جگہ بنادیا گیا ہے، (5) مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے، (6) اور مجھ پر نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کردیا گیا ہے۔

4۔ حضور ﷺ سے محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ اپنے نبی سے محبت کرے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ساداتِ کرام کی تعظیم کریں، جو ساداتِ کرام کی توہین و گستاخی کرے، ان سے دشمنی رکھے، آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ حضور کی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کے اہلِ بیت سے بھی محبت کی جائے۔ حضور نے ارشاد فرمایا: اللہ کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین 


اللہ پاک قرآن مجید، فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا گواہ اور خوشی اور ڈر سناتا کہ جو تمہاری تعظیم کرے اسے فضلِ عظیم کی بشارت دو اور جو مَعاذَ اللہ بے تعظیمی سے پیش آئے اسے عذابِ الیم کا ڈر سناؤ۔

اس آیتِ کریمہ میں حضور ﷺ کی عظمت و شان، مقام و منصب، رفعتِ مقام، اللہ پاک کی تسبیح و عبادت اور امت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کو بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کو اگر امت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے دیکھا جائے تو اس آیت میں اللہ پاک نے تین حقوقِ مصطفےٰ ﷺ بیان فرمائے ہیں:

(1) ایمان، (2)نصرت و حمایت، (3) تعظیم و توقیر۔

پہلا حق: محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہےاور یونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی لازم و ضروری ہے، جوآپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہیں، کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر تمام انبیاءئے کرام علیہمُ السّلام پر ایمان رکھتا ہو۔

دوسرا حق: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا۔ اور اب ہمیں بھی آپ ﷺ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ ﷺ پر نثار ہوتے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ ﷺ کی عزت وناموس کی حفاظت، آپ ﷺ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

تیسرا حق: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے، بلکہ آپ ﷺ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کرنا چاہئے۔بلکہ آپ ﷺ سے تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب ضروری ہے۔ تعظیم کا پہلو یہ بھی ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں بھی امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے۔ جیسے نام مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو ادباً نگاہوں کو جھکائے دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے، اگر کسی کو ذرا سی بے ادبی کرتا پائے اگرچہ وہ باپ، استاد، پیر، کوئی مذہبی و دنیوی وجاہت والی شخصیت ہی کیوں نہ ہو، اس کے سائے سے بھی دور بھاگے، کیونکہ ایسے کی صحبت سارقِ ایمان ہے۔

چوتھا حق: نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضورِ پاک ﷺ کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے۔ اب اتباعِ رسول میں کچھ امور فرض، واجب اور کچھ سنت و مستحب ہیں، ہمارے بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے۔

پانچواں حق: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا، سید المرسلین، رحمۃ للعلمین ﷺ سے سچی اور ٹوٹ کر محبت کرے اور آپ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے


سید الانبیاء، احمدِ مجتبیٰ، حبیبِ خدا، محمدِ مصطفےٰ ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند صفحات میں ممکن نہیں، بلکہ اس کے لئے ہزاروں صفحات بھی ناکافی ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آپ ﷺ کے والدِ ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ ہے۔ حضور ﷺ کے والدین کا نسب نامہ کلاب بن مرہ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہوجاتے ہیں۔ عدنان تک کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے۔ اس کے بعد ناموں میں بہت اختلاف ہے۔

حضور ﷺ جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو عدنان تک ہی ذکر فرماتے تھے۔

آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت سے متعلق مختلف اقوال ہیں، ان میں سے مشہور قول یہی ہے کہ اصحابِ فیل کے واقعے سے 5 5 دن بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 ء کو آپ ﷺ پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے اور خوشبو میں بسے ہوئے پیدا ہوئے۔

سب سے پہلے حضور ﷺ نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دوھ نوش فرمایا۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے۔ پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہُ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلے میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ ﷺ کے دودھ پینے کازمانہ گزرا۔

رسول اللہ ﷺ کے حقوق:

(1) جب حضور ﷺ کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو آپ ﷺ کا مزاج مبارک خلوت پسند ہوگیا اور آپ ﷺ تنہائی میں جاکر خدا کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگے، تفکر و تدبر بڑھ گیا نیز آپ ﷺ کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبحِ صادق کی طرح روشت ہوکر ظاہر ہوجایا کرتی تھی۔ (سیرت انبیاء، ص 846)

(2) آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے قبولِ اسلام سے دینِ اسلام کو بہت تقویت ملی، لیکن پھر بھی کفار کی مخالفت ختم نہ ہوتی بلکہ دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ اعلانِ نبوت کے ساتویں سال کفار نے آپ کےخاندان کا مکمل بائیکاٹ کردیا، جسے شعبِ ابی طالب کہا جاتا ہے، مسلسل تین سال تک حضور ﷺ اور خاندانِ بنو ہاشم ہوش ربا مصائب کوجھیلتے رہے، یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پر رحم آگیا اور ان لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی جس کی مخالفت ابو جہل نے کی۔ آخر میں حضور ﷺ کی دی ہوئی غیبی خبر پر اس معاملے کا فیصلہ ہوا اور بنو ہاشم کو اس محصوری سے نجات ملی۔ (سیرتِ انبیاء، ص 848)

(3) حج کے موقع پر آپ ﷺ مختلف علاقوں سے آتے ہوئے قبائل کو دعوت دیتے اور ہر سال کچھ لوگ اسلام قبول کرلیتے۔ اعلانِ نبوت کے گیارہویں سال خزرج قبیلے کے 6 افراد نے اسلام قبول کیا۔ بارہویں سال 12 اشخاص نے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی اور حضور ﷺ سے بیعت ہوئے۔ تاریخِ اسلام میں اس بیعت کا نام بیعتِ عقبۂ اولیٰ ہے۔ تیرہویں سال مدینے سے آئے ہوئے 72 افراد نے اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ اسے بیعتِ عقبۂ ثانیہ کہتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں نے واپس جاکر اپنے یہاں دعوتِ اسلام دینا شروع کردی اور رفتہ رفتہ شمعِ اسلام کی روشنی مدینے سے قباء تک گھر گھر پھیل گئی۔ (سیرتِ انبیاء، ص849-850)

(4) حضورِ اقدس ﷺ کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ ﷺ کا شباب مجسم حیا اور چال چلن، عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا مجموعہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتے داروں سے محبت، رحم و سخاوت، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، غریبوں اور مفلسوں کی خبر گیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوقِ خدا کی خیر خواہی، عرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ ﷺ اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوتے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کے لئے وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ کم بولنا، فضول باتوں سے بچنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دشمنوں سے ملنا ہر معاملے میں سادگی اور صفائی حضور ﷺ کا خاص شیوہ تھا۔ (سیرتِ انبیاء، ص845)

(5)آپ ﷺ کا جھولا فرشتوں کے ہلانے اور جھولے میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔

چاند جھک جاتا جدھر اٹھتی تھی انگلی مہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ ﷺ نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفعِ حاجت فرماتے۔ جب آپ ﷺ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شرکت نہ کرتے۔ لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے: مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ (سیرتِ انبیاء، ص 843-844)


ہم پر نبیِ کریم ﷺ کے بہت سے حقوق اور احسانات ہیں، جس کے احسانات ہوں اس کے حقوق بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں، جس کا ادا کرنا امتِ مسلمہ پر فرض و واجب ہے۔

اسی طرح کسی شاعر نے کیا خوب کہا:

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

حق کی تعریف: حق کا لغوی معنی سچائی، انصاف، واجب حق کا مطالبہ وغیرہ ہے۔ اور اصطلاح میں اس چیز کی طرف اشارہ کرنا جسے قانون اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

سیرتِ مصطفےٰ میں نبیِ کریم ﷺ کے بہت سے حقوق درج ہیں، جن میں سے درج ذیل یہ ہیں:

ایمان الرسول: حضورِ اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کردیا کہ جو لوگ رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے تو وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں، مگر وہ کافر اور جہنمی رہیں گے۔

اطاعتِ رسول: رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ جس بات کا حکم ہوا اسے بجالائے، جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کرے اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جائے۔ اللہ پاک نے سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔

رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا۔ اور اب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے آپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ کی عزت وناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

درود شریف: ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے، اس پر دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔

سورۂ احزاب میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اور اے مومنو! تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور ان پر سلام بھیجتے رہو جیسا کہ سلام بھیجنے کا حق ہے۔

مدحِ رسول: ہر امتی پر حق ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کی مدح و ثناء کرتا رہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم کو اپنے حبیب کی مدح و ثناء کے قسم قسم کے گلہائے رنگارنگ کا ایک گلدستہ بناکے نازل فرمایا۔ اسی طرح حضرت حسان بن ثابت، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، کعب بن زہیر وغیرہ رضی اللہُ عنہم نے دربارِ نبوت کے شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی ایسی نعتِ پاک کی مثالیں پیش کیں کہ بڑے بڑے شعرا ء ان کو سن کر سر دھنتے ہیں۔ جیسے:

وَ اَحْسَنُ مِنْکَ لَمْ تَرَ قَطُّ عَیْنِی وَ اَجْمَلُ مِنْکَ لَمْ تَلِدِ النِّسَاءُ

خُلِقْتَ مُبَرَّاً مِّنْ کُلِّ عَیْبٍ کَاَنَّکَ قَدْ خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق الرسول ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


فرمان مصطفیٰ:مجھ پر درود پاک کی کثرت کرو بے شک یہ تمہارے لیے طہارت ہے۔

جس طرح دنیا میں ہر شخص مثلا والدین، استاد اور پیر وغیرہ کے حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امتِ مصطفیٰ ﷺ پر بھی نبی کے کچھ حقوق ہوتے ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے محبوب باری ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور اپنے امتیوں کے لیے مغفرت کی خاطر دربارِ باری تعالیٰ میں بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری کرتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ کا وصال ہوا تب بھی آپ کے لبوں پر امتی امتی کی صدائیں تھیں امت کو بھی آقا ﷺ کے حقوق ادا کرنے چاہئیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

حق کی تعریف: حق کا لغوی معنیٰ صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائز مطالبہ کے ہیں ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانونا اور با ضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

1۔اتباعِ سنتِ رسول: سرور کائنات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت قدیمہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات طیبات آپ کی ہر سنت کی پیروی کو ضروری اور لازم جانتی تھیں ہمیں بھی رسول کی ہر سنت کریمہ کی پیروی کرنی چاہیے اور آپ کی سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرنا چاہیے۔

2۔اطاعتِ رسول: اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں کے لیے بلند درجات ہیں۔ اطاعتِ رسول بھی ہر امتی پر رسول کریمﷺ کا حق ہے آپ کی اطاعت کرنا ہر امتی پر فرض عین ہے اس لیے ہم پر لازم ہے کہ آپ کی اطاعت کریں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے۔

آیت مبارکہ: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3۔درودشریف: جب بھی حضورﷺ کا ذکر آئے تو کمال خشوع و خضوع کے ساتھ سنے اور نام پاک سنتے ہی درود شریف پڑھے۔ خدا کی شانِ محبوبیت کا کیا کہنا کہ حقیر بندہ بھی خدا کے پیغمبر کی بارگاہ میں درود کا ہدیہ بھیجے تو اس کے بدلے میں خدا اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے اللہ ہمیں زیادہ سے زیادہ درود پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

4۔محبت رسول:دوسرے حقوق کی طرح یہ بھی رسولِ خدا کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت کرے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کردے۔ رسول اللہ ﷺ کی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی پر حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے۔

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

5۔ مدحِ رسول:صاحبِ قرآن کے ہر امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ آپ کی مدح و ثنا کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا ر ہے اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرے اللہ پاک نے قرآن پاک کو اپنے محبوب ﷺ کی مدح و ثنا کے مختلف رنگا رنگ پھولوں کا ایک حسین گلدستہ بناکر نازل فرمایا۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف)


حبیبِ خدا مکی مدنی  مصطفیٰ ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کیلئے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں۔ نیز آپ کے اپنی امت کی نجات و مغفرت کی فکر اور اس امت پہ آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی گواہ ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11، التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

آپ ﷺ نے اپنی امت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضہ ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہرامتی پر فرض ہے واجب ہے، چنانچہ حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے درج ذیل حقوق اپنی کتاب شریف میں بیان فرمائے ہیں۔

1۔ ایمان بالرسول: آپ ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ الله پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور اس میں شک نہیں کہ بغیر رسول اللہ پر ایمان لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ آپ ﷺ نے حلاوتِ ایمانی کو تین باتوں میں فرمایا جن میں ایک یہ ہے کہ بندے کی نظر میں اللہ پاک اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو جائے۔

خاک ہو کے عشق میں آرام سے سونا ملا جان کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی

2۔اتباعِ سنتِ رسول: سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب ہے اور لازم ہے، جیسا کہ فرمان باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

3۔ اطاعتِ رسول: ہر امتی پر یہ بھی رسول خدا ﷺ کا حق ہے کہ آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے۔ ارشادِ خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4۔ محبت رسول: الله پاک کے پیارے حبیب ﷺ کی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی پر رسول کا یہ حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کو آپ کی محبت پر قربان کر دے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامنِ توحید میں آباد ہونے کی

5۔مدحِ رسول: صاحب قرآن ﷺ کا ہر امتی پر یہ حق بھی ہے کہ وہ آپ کی مدح و ثناء کا ہمیشہ اعلان و چرچا کرتا رہے اوران کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرے، آپ ﷺ کے فضائل و محاسن کا ذکر حمیل رب الانام اور تمام انبیائے کرام کا مقدس طریقہ ہے۔اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

اے رضا خود صاحب قرآں ہے مداح حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی


جس طرح دنیا میں ہر شخص  مثلا والدین،استاد اور پیر و مرشد وغیرہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امت مصطفیٰ پر بھی نبی کریم ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ہم پر فرض و واجب ہے کہ وہ مدینے والے آقا ﷺ تو اپنی امت سے اس قدر محبت فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں تشریف لائے تو بھی آپ کو اپنی امت نہ بھولی اور آپ کے لبوں پر امتی امتی کی صدا تھی اور جب اس دنیا سے ظاہری وصال شریف فرمایا تو بھی آپ کے لبوں امتی امتی کی صدا تھی تو پھر ہم کیوں نہ ان نبی ﷺ کے حقوق ادا کریں کہ جو دن رات اپنی امت کے لیے اتنا روئے ہیں۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

نبی کریم ﷺ کے اس امت پر بہت حقوق ہیں جن میں سے کچھ یہاں ذکر کیے جائیں گے:

1۔ ایمان بالرسول: رسول اللہ ﷺ پر اس طرح ایمان لانا کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس پر اور آپ ﷺ پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ یاد رہے کہ اگر حضور کو اپنی جان ومال سے زیادہ محبوب نہ مانا اور ایمان کا اقرار کرے تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 75)

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملے جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

2۔ اطاعت رسول: ہر امتی پر فرض عین ہے کہ وہ ہر حال میں نبی ﷺ کے حکم کی اطاعت کرے اور آ پ کی کسی بھی بات میں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کہ سورۂ نساء آیت نمبر 59 میں ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 76)

3۔ اتباع سنت رسول: سرور کائنات، فخر موجودات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اسی لیے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور صحابیات طیبات رضی اللہ عنہن آپ کی ہر سنت کریمہ کی پیروی کو لازم و ضروری جانتے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی سنتوں سے انحراف یا ترک گوار نہیں کرتے تھے۔

4۔ مدحِ رسول: صاحبِ قرآن محبوب رحمٰن ﷺ کا ہر امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ آپ کی مدح و ثناء کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا رہے اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرے آپ کے فضائل و محاسن کا ذکر جمیل رب العالمین اور تمام انبیاء و مرسلین کا مقدس طریقہ ہے۔ اللہ پاک نے قرآن کریم کو اپنے حبیب ﷺ کی مدح و ثنا کے مختلف رنگا رنگ پھولوں کا ایک حسین گلدستہ بناکر نازل فرمایا ہے اور پورے قرآن کریم میں آپ کی نعت وصفات و آیات بینات اس طرح جگمگا رہی ہیں جیسے آسمان پر ستارے جگمگاتے ہیں اور گزشتہ آسمانی کتابیں بھی اعلان کر رہی ہیں کہ ہر نبی ورسول، اللہ کے حبیب کا مداح و ثناء خواں اور ان کے فضائل و محاسن کا خطیب بن کر فضائل مصطفیٰ کے فضل و کمال اور ان کے جاہ و جلال كا ڈنکا بجا رہا۔

5۔ درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے حبیب ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

بہار شریعت جلد اول صفحہ 75 پر ہے: جب حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمالِ خشوع وخضوع و انکسارِ ادب سنے اور نام پاک سنتے ہی درود شریف پڑھنا واجب ہے۔ اعلیٰ حضرت، امام اہلسنت، مولانا شاہ امام احمدرضاخان رحمۃ الله علیہ فتاویٰ رضویہ میں اس مسئلہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور پاک کا نام مبارک مختلف جلسوں میں جتنی بار لے یا سنے ہر بار درود شریف پڑھنا واجب ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔


 رسول الله ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں نیز آپ کی اپنی امت کی نجات و مغفرت کی فکر اور اس پر آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے، چنانچہ پارہ 11 سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 128 میں ارشاد ہوتا ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو اداکرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائر مطالبہ کے ہیں، ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانونا اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں وہ اصول جو ایک فرد کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔

امت پر حقوقِ مصطفیٰ: حضور ﷺ کے اپنے امتیوں پر جو حقوق ہیں ان میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں؛

1۔ اتباع سنت رسول: سرور کائنات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

2۔ اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسول خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے، کیونکہ آپ کی اطاعت کرنا ہر امتی پر فرض عین ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لیے بلند درجات ہیں۔

3۔ تعظیمِ رسول: امت پر ایک بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجالائے، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

4۔ درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے محبوب ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسارِ اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔ جو بندہ پیارے آقا ﷺ پر درود پاک کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے میں اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

5۔ قبر انور کی زیارت: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے۔ (بہار شریعت،1/22) جبکہ شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سیرتِ مصطفےٰ میں فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے، چنانچہ رب تعالیٰ پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 64 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔


حبیب خدا مکی مدنی  مصطفیٰ ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح کیلئے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں محبوب باری ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کیلئے دربارِ باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ وزاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا، چنانچہ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

رسول ﷺ کے امت پر حقوق:

1۔ایمان بالرسول: رسول ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ حضور ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزد یک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف)

2۔ اتباع سنت رسول: سرور کائنات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے، فرمان باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

3۔ اطاعت رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ ﷺ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے، کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان: حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4۔ تعظیم رسول: امت پر نہایت ہی اہم اور بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجالائے اور ہرگز ہرگز ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ فرمان عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

5۔ درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے نبی کریم ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔