حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے بہت سی تکلیفیں برداشت کیں،پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت  ورحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند کریم کا یہ فرمان گواہ ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ( التوبۃ:128)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا نا گوار ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بہت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔

پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے،یہاں تک کہ کھڑےکھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

ایمان بالرسول:حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے:وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔

درود شریف:ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے، چنانچہ خالقِ کائنات کا حکم ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ حضور کریم ﷺ کا ارشاد ہے:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہے۔

اللہ اکبر! شہنشاہِ کونین کی شان محبوبیت کا کیا کہنا! ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر جمیل کی بارگاہ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوند جلیل اس کے بدلے میں دس رحمتیں اس بندے پر نازل فرماتا ہے۔

اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدس ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔رب کائنات کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے،ہدایت کے چاند تارے،اللہ و رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔

اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسول ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے۔قرآنِ مجید میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارے کو اپنے ہاتھ میں لے؟حضور ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی کو اٹھالے اور اس سے نفع اٹھا تو اس نے جواب دیا:خدا کی قسم:جب رسول ﷺ نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھاسکتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/78)

تعظیمِ رسول:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔فرمانِ رحمٰن ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور کریم ﷺ سے کچھ پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر کمالِ ادب اور آپ کی ہیبت سے برسوں تک بھی نہ پوچھ سکا۔(شفاء،2/32)


ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔یہ آیت مبارکہ رسول اللہ ﷺ کی عظمت و شان،مقام و منصب،امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔(تفسیر خازن،4/103)

امت پر نبی پاک ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیت مبارکہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان،نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر۔یہاں ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کرکے مزید چند حقوق کے بارے میں ذکر کیا جائے گا تاکہ علم میں اضافہ ہو اور عمل کی توفیق ہو۔آئیے حق کی تعریف جانیے کہ حق کسے کہتے ہیں۔

حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

1-ایمان:حضور پاک ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یوں ہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمان پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کے احسانات تمام مخلوق پر ہیں۔جو آپ ﷺ پر ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں اگرچہ وہ دیگر تمام انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہو۔

2- رسول اللہ ﷺ کی نصرت وحمایت:اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیائے کرام و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اور اب ہمیں بھی آپ ﷺ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں جان،مال،وطن،رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ پروانوں کی طرح آپ ﷺ پر نثار ہوتے رہتے۔فی زمانہ بھی آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقا وترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3- رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر:ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان،روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر طرح سے نبی کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ادب وتعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن،اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھے جیسے نامِ مباک سنے تو درود پاک پڑھے۔سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جھکالے اور دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے۔ اسی ادب و تعظیم کا اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے اور ایسوں کی صحبت سے بھی دور رہے اور اگر کسی کو حضور ﷺ کی ادنیٰ سی بھی توہین کرتا پائے چاہے وہ استاد،باپ،عالم،پیر، غرض کوئی بھی ہو اسے دودھ سے مکھی کی طرح باہر پھینک دے۔

4- رسول اللہ ﷺ کی اطاعت:رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات کا حکم ہوا ہے اسے بجالائیں۔جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے رکا جائے۔

5-رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت:امتی پر حق ہے کہ وہ حضور پاک ﷺ کا ہر حکم ماننے کے ساتھ ساتھ ہر چیز سے بڑھ کر حضور پاک ﷺ سے سچی محبت کرےکہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان،جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ،دسمبر 2017،ص3-4)اس کے علاوہ بھی حضور پاک ﷺ کے ہم پر بے شمار حقوق ہیں۔اللہ پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ


امت مسلمہ کی یہ فضیلت ا ور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعت شان پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ اس قدر عظیم  و رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے ہیں جن کی ادائیگی امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازمی ہے،لیکن افسوس! اکثر لوگ اس بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔

1-رسول اللہ پر ایمان:امام محمد بن احمد الھروی الازھری فرماتے ہیں:لغت والوں اور ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔لیکن علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے مطابق عمل بھی لازمی ہے،کیونکہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے اور اللہ ا س کو اپنی امان میں لے لیتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:ترجمہ:جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے،ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ راست پر چل رہے ہیں۔

2-اطاعتِ رسول:آپ ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔یہ اللہ پاک کی طرف سے ہم پر لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3-اتباعِ رسول:اطاعت اور اتباع میں فرق ہے۔اطاعت سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا جائے اور اتباع کا مطلب ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری ہے:ترجمہ:کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ پاک تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔

4-اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے۔اگر اختلافی امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول نہیں ہوگا تو اختلافات و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری ہے:ترجمہ:پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف۔

5-رسولِ پاک ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے:آپ ﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ پاک نے فتنہ او ر عذابِ الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے:سنو جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔

اور یہاں صرف ڈرایا ہی نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت و آزمائش میں مبتلا کردیا۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور سنن کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ہو بہو پیروی کی جائے۔


امت مسلمہ کی یہ فضیلت ا ور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعت شان پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ ﷺ اس قدر عظیم و رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپ ﷺ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے ہیں جن کی ادائیگی امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازمی ہے،لیکن افسوس! اکثر لوگ اس بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔

ارشادِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔اس آیت مبارکہ میں آپ ﷺ کے تین حقوق بیان ہوئے:ایمان،نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر۔ ان تینوں کی تفصیل اور چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔ پہلے جان لیتی ہیں کہ حق کسے کہتے ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

1-رسول اللہ ﷺ پر ایمان:امام محمد بن احمد الھروی الازھری فرماتے ہیں:لغت والوں اور ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔لیکن علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے مطابق عمل بھی لازمی ہے،کیونکہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے اور اللہ ا س کو اپنی امان میں لے لیتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:ترجمہ:جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے،ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ راست پر چل رہے ہیں۔

2-اطاعتِ رسول:آپ ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔یہ اللہ پاک کی طرف سے ہم پر لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3-اتباعِ رسول:اطاعت اور اتباع میں فرق ہے۔اطاعت سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا جائے اور اتباع کا مطلب ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری ہے:ترجمہ:کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ پاک تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔

4-اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے۔اگر اختلافی امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول نہیں ہوگا تو اختلافات و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری ہے:ترجمہ:پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف۔

5-رسولِ پاک ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے:آپ ﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ پاک نے فتنہ او ر عذابِ الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے:سنو جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔

اور یہاں صرف ڈرایا ہی نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت و آزمائش میں مبتلا کردیا۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور سنن کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ہو بہو پیروی کی جائے۔


اللہ پاک نے رسولِ پاک ﷺ کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا اور ظاہر و  کھلے معجزات کے ذریعے ان کی تائید فرمائی۔آپ ﷺ نے پل صراط،میزان،حوض وغیرہ امورِ آخرت نیز برزخ،نکیرین کے سوالات اور قبر کے ثواب و عذاب وغیرہ کے متعلق جو بھی خبریں دیں وہ ان سب میں سچے ہیں۔(منہاج العابدین،ص17)

حق کی تعریف:حق کا مطلب ہے ایسی ذمہ داری جو اللہ پاک کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔اگر وہ ذات اللہ پاک کی ہے اور اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم پر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں تو انہیں حق اللہ کہتے ہیں جیسے نماز پڑھنا،روزہ رکھنا،گناہ نہ کرنا وغیرہ۔

حضور اکرم ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات درپیش ہوئیں ان کا کچھ حال آپ یہاں ملاحظہ فرمائیے۔آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ( التوبۃ:128)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا نا گوار ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بہت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔ (سیرتِ مصطفیٰ)

ہمارے پیارے نبی ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں۔

1-ایمان بالرسول:حضور اقدسﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کردیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔

2-اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدسﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب کریم کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ستارے،ہدایت کے چاند تارے، اللہ و رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع و پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرسکتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور بھنی ہوئی بکری:ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھنی ہوئی بکری رکھی ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئےبلایا تو آپ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کردیا کہ حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیونکر گوارا کرسکتا ہوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،1/446)

3-اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کےہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کریں کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

قرآنِ کریم کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا،صدیقین،شہدا اور صالحین کے ساتھ رہیں گے۔ہر امتی کے عمل اور گفتگو سے اطاعتِ رسول اور محبت کا اظہار ہونا چاہئے۔

4-محبتِ رسول:اسی طرح ہر امتی پر رسول ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کردے۔اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:ترجمہ:(اے رسول)آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔( التوبۃ)

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرضِ عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اللہ و رسول ﷺ کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہوجائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہرِ خداوندی سے نہ بچ سکوگے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 831)

5-تعظیمِ رسول:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔فرمانِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ (سیرتِ مصطفیٰ)

بڑا کون؟امیر المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضرت قباث بن اُشیم سے پوچھا:تم بڑے ہو یا رسول اللہ ﷺ؟انہوں نے کہا:بڑے تو رسول اللہ ﷺ ہی ہیں مگر میری پیدائش حضور ﷺ سے پہلے ہوئی ہے۔(سیرتِ مصطفیٰ)


آج  ہمیں جو ایمان کی دولت میسر آئی،یہ حضور ﷺ کی ہی بدولت ہے، خدا کی معرفت حاصل ہوئی،معبودِ بر حق کی عبادت کا سلیقہ ملا راہِ حق کا پتہ چلا،زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط ملے،قرآن ملا،قرآن کے احکام سمجھنے کا پتہ چلا،حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں آئی،ہمیں جو زندگی ملی،لذت بندگی ملی،حتی کہ ہماری ہر ہر سانس سرکا رﷺ کی ہی بدولت ہے،کیونکہ آپ ہی کے صدقہ و طفیل دنیا وما فیہا کی تخلیق ہوئی ہے۔دنیا کا دستور ہے کہ جو ایک احسان کرے ہم اس کے دیوانے ہوجاتے ہیں،پیروکار بن جاتے ہیں، تو وہ ذات جس کے ہم پر ایک نہیں،دو نہیں بلکہ لاکھوں احسانات ہیں۔جب اس قدر ہم پر آپ کے احسانات ہیں تو ہم پر بھی آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کی ادائیگی امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا،ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازمی ہے،لیکن اکثر لوگ اس سے غافل ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ، انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اسی طرح حق ذو معنی لفظ ہے۔ایک معنی سچائی اور دوسرا معنی اس چیز کی طرف اشارہ کرنا جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

حضور ﷺ کے حقوق:علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں حضور ﷺ کے حقوق بیان فرمائے ہیں جو مختصر اًبیان کئے جاتے ہیں:

1-ایمان بالرسول:حضورﷺ کی نبوت و رسالت اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے اس تمام پر ایمان لانا اور دل سے انہیں سچا جاننا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ایمان لائے بغیر کوئی شخص ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا۔ایمان بالرسول کے حوالے سے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

2-اتباعِ سنت:حضورﷺ کی پیروی اور آپ کی سنتوں کو اپنانا ہر امتی کی ذمہ داری اور فریضہ ہے، کیونکہ سرکارِ مدینہ ﷺ کی سنتوں پر عمل دارین میں فلاح و نجات کا سبب ہے۔اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

گویا جو اتباعِ رسول کے بغیر محبتِ خدا کا دعویٰ کرے گا تو وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔

3-اطاعتِ رسول:حکم ماننا آپ کی اطاعت ہے۔اطاعتِ رسول بھی ہر امتی پر لازم و ضروری ہے۔حضور ﷺ جس بات کا حکم فرمادیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے،کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگےسر تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4-محبتِ رسول:امتی پر حق ہے کہ نبی کریمﷺ کی محبت اس کے دل میں سارے جہاں سے بڑھ کر ہو،دنیا کی محبوب چیزیں اپنے نبی کی محبت پر قربان کردے۔محبتِ رسول کے حوالے سے حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میری محبت اس کے دل میں اس کے باپ، اس کے بیٹے اور تمام لوگوں کی محبت سے زیادہ نہ ہوجائے۔ (بخاری)

5-تعظیمِ رسول:تعظیمِ رسول امت مسلمہ کا ایسا فریضہ ہے کہ اس میں ذرہ برابر کوتاہی ہوجائے تو ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ہر امتی پر فرض ہے کہ سرکار ﷺ اور آپ سے تعلق رکھنے والی ساری چیزوں کی تعظیم و تکریم کرے۔تعظیمِ رسول کا حکم دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

اللہ پاک ہم سب کو مومن کامل،عاشقِ کامل رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔حقوق اللہ، حقوق الرسول اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اے عاشقانِ رسول !اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ حضور ﷺ نے ہمارے لیے کتنی کتنی تکالیف اور مصائب برداشت کیے۔ جب آپ ﷺ نے طائف والوں کو دعوتِ حق دی تو انہوں نے آپ کی دعوت کو جھٹلایا، آپ کے پیچھے اوباش لڑکے لگا دیئے یہاں تک کہ آپ پرپتھروں کی برسات بھی کی گئی جس سے آپ کے قدمانِ مبارک لہو لہان ہو گئے لیکن آپ نے ان سب مصیبتوں کو برداشت کیا۔ اب ہم پر بھی رسول اللہﷺ کے کچھ حقوق بنتے ہیں ان حقوق کو علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے شفا شریف میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

1-ایمان بالرسول: مسلمان ہونے کے لیے خدا کی توحید اور رسول ﷺکی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ہر مسلمان کا حضورﷺ کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، اس کے بغیر وہ ہرگز مومن نہیں ہو سکتا کیونکہ اللہ پاک نے اس بات کی خود قرآن ِ پاک میں وضاحت فرما دی۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

وہ کہ اس در کا ہوا خلقِ خدا اس کی ہوئی وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس سے پھر گیا

2-اتباعِ سنتِ رسول:حضورﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی سنت سے محبت کی جائے۔ نبی کریم ﷺ سےمحبت کرنا در اصل اللہ سے ہی محبت کرنا ہے کیونکہ اللہ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ اَحَبَّ سُنَّتِى فَقَدْ اَحَبَّنِی وَمَنْ اَحَبَّنِی كَانَ مَعِىَ فِی الْجَنَّةِجس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا۔(مشکاة المصابیح،حدیث:175)

شہا!ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں تری سنتیں سکھانا مدنی مدینے والے

اطاعتِ رسول:ہرامتی پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ حضور ﷺکے فرامین کی پیروی کرے، کیونکہ حضورﷺ کی اطاعت کا حکم ہمیں خوداللہ پاک نے دیا ہے۔قر آنِ پاک میں ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

کتاب ِالٰہی یہ فرما رہی ہے ہے اطاعت خدا کی اطاعت نبی کی

4-درود شریف پڑھنا: ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ حضور ﷺکی ذات پر درود شریف بھی پڑھے کیونکہ اس کا حکم خود اللہ پاک نے قرآن میں دیا ہے۔ فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ وَاحِدًا صَلَّى اللّٰهُ عَلَیهِ عَشْرًا جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف پڑھتا ہے اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ (مسلم، حدیث:408)

اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے

درودان پہ بھیجو سلام ان پہ بھیجو یہی مومنوں سے خدا چاہتا ہے

5 -قبر ِانور کی زیارت: صحابہ کرام کے مقدس دور سے لے کر آج تک دنیا کے تمام مسلمان قبرِ انور کی زیارت کرتے اور قبرِ انور کی زیارت کرنا باعثِ برکت و شفاعت سمجھتے آئے ہیں کیونکہ حضور ﷺنےخود ار شاد فرمایا:مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِی یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی،حدیث:2669)

بروزِ حشر شفاعت کریں گے چن چن کر کہ ہر غلام کا چہرہ حضور جانتے ہیں

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضورﷺ سے سچی پکی محبت عطا فرمائے۔ آپ کے فرامین کے مطابق زندگی گزار نے، آپ کی ذات پر کثرت سے درور شریف پڑھنے، آپ کے فضائل و محاسن بیان کرتے رہنے کی توفیق و سعادت عطا فرمائے اور بروزِ قیامت آپ کی شفاعت عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے ہمیں بلا کسی استحقاق کے محض اپنی عنایت سے جس عظیم الشان، جلیل المرتبت، رفیع المرتبت نبی ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا، اس کا شکر اور تقاضا ہے کہ اس نبی کے جو حقوق ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں ہم انہیں جانیں اور انہیں ادا کرنے کا مکمل اہتمام کریں۔حقوقِ مصطفٰے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہیں جانے اور ادا کئے بغیر ہمارے ایمان و اعمال میں کمال نہیں پیدا ہو سکتا۔ امت پر نبیﷺ کے حقوق کے پہلو سے اگر قرآنِ پاک کو دیکھا جائے تو اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں اپنے محبوب ﷺ کے کئی حقوق بیان فرمائے  ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ علما و محدثین نے بھی اپنی کتب میں”حقوقِ مصطفٰے “ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔یہاں اختصار کے ساتھ 5 حقوق ملاحظہ ہوں:

حق کسے کہتے ہیں؟ حق کے لغوی معنی صحیح،موزوں، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اسی طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسےقانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں۔

1-ایمان بالرسول: رسولِ خدا ﷺپر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں اس کو صدقِ دل سےسچا ماننا ہر مسلمان پر ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے لازم ہے کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ محض توحید و رسالت کی گواہی کافی نہیں بلکہ کامل ایمان کے لیے ایمان بالرسول ہی ضروری ہے۔

2- اطاعتِ رسول:یہ بھی ہر امتی پر آپ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے حکم کی اطاعت کرے۔ آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے اور آپ کے حکم کے آگے سر ِتسلیم خم کر دے۔ اگر حضور ﷺ کا اپنے امتی پر اس حق کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو ارشاد باری ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

وضاحت:اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو درحقیقت اللہ کی اطاعت فرمایا گیا تو جس نے ان کی اطاعت سے اعراض کیا اس کا وبال اسی پر ہے۔

3-محبتِ رسول:اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺکی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی پر رسول الله کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت کرے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کردے۔

4- درود شریف: حضور ﷺ کے اپنی امت پر اس حق کے تو کیا ہی کہنے ! کہ ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر کی بارگاہ میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے میں اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے نیز اس حق کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔

5- تعظیمِ رسول:حضور ﷺ کی تعظیم و توقیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کا حکم قرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

وضاحت:اس آیت میں اللہ نے رسول ﷺ کو مبعوث فرمانے کے مقاصد میں سے ایک مقصد بیان فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ آپ کی تعظیم و توقیر کریں۔ (تفسیرصراط الجنان) لہٰذا آپ کے ہر امتی پر آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کی تعظیم بجا لانا ضروری ہے۔الله پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


قرآن، ایمان، خدا کا عرفان اور بے شمار نعمتیں ہمیں آپ ﷺ کے صدقے ہی نصیب ہوئیں۔ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم ﷺ کے صدقے ہے، رحیم و کریم رسول اپنی ولادتِ مبارکہ  سےوصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے زمانوں میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہار ہے ہیں۔ یقیناً پیارے آقا ﷺ کے احسانات اس قدرکثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا ہی ممکن نہیں۔ انہی بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر” حقوقِ مصطفٰے“کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔

حق کی تعریف: حق عربی زبان کا لفظ ہے لیکن اس کا استعمال دیگر زبانوں میں بھی ہوتا ہے۔ حق کے لغوی معنی درست، سچ، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جیسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔چنانچہ پانچ حقوقِ مصطفٰے ملاحظہ ہوں۔

1۔ رسول اللہﷺ پر ایمان: پہلا حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اسے صدقِ دل سے تسلیم کیا جائے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانا فرض ہے، جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں۔ ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

2۔ رسول اللہﷺ کی پیروی:نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے۔ ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔حضور پر نورﷺنے ارشاد فرمایا: تم میں کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے۔(شرح السنۃ للبغوی،1/98)

3۔ رسول اللہ ﷺکی تعظیم:ایک انتہائی اہم حق یہ ہے کہ دل و جان،روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبی مکرم، رسولِ محتشم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

4۔ رسول اللہﷺسے سچی محبت:ہر امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ،سید المرسلین،رحمۃ للعالمین ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان، جان ِایمان اور اصل ِایمان ہے۔نبی کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا: تم میں کسی شخص کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک میں اُسے اُس کے باپ، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری، 1/12،حدیث:10)

5۔ رسول اللہ ﷺپر درود پاک پڑھنا:حضور پرنور ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ان پر درود پاک پڑھا جائے اور اس کی کثرت کی جائے۔ درود پاک کے بارے میں رب العالمین کا فرمان ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔


ہمارے پیارے نبی ﷺ الله پاک کے آخری نبی ہیں۔حضور اقدس ﷺنے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے بہت تکلیفیں برداشت کی ہیں۔ آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت اور حمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11، التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

پانچ حقوق:

ایمان بالر سول: حضور اقدس ﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول ﷺکی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں۔مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے، اس لیے اسلام کا بنیادی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی مسلمان ہونے کے لیے خدا کی توحید اور رسول ﷺکی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔

اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدس ﷺ کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اس لئے آسمانِ امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ ورسولﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ہرسنت کریمہ کی اتباع وپیروی کو اپنی زندگی کے ہردم قدم پر اپنے لیے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال بر ابر بھی کبھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسولﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔

اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خد اﷺکاحق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59) ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

قرآن ِمجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں کے لیے ایسےایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا و صدیقین اور شہداو صالحین کے ساتھ رہیں گے۔

محبتِ رسول:ہر امتی پر رسول اللہ ﷺکا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پہ قربان کر دے۔ خداوند قدوس کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر الله پاک اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرض عین ہے۔نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ جس کے دل میں اللہ ورسول کی محبت نہیں یقیناً اس کے ایمان میں خلل ہے۔

میں سو جاؤں یا مصطفٰےکہتے کہتے کھلے آنکھ صَلِّ عَلٰی کہتے کہتے

تعظیمِ رسول:حضورﷺ کے حقوق میں ایک نہایت اہم اوربہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہرا متی پر فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺاور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب اور احترام کرے اور ہرگز ہر گز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین کا فرمانِ عالی شان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام


پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کریں     سب کی کھائے کیوں دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

محسنِ انسانیت،رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ جنہوں نے حیوانِ ناطق کو انسان بنایا، جنہوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا،جنہوں نے عورتوں کو معاشرے میں ایک چیز سے بڑھ کر گھر کی ملکہ کے شرف سے نوازا، جنہوں نے بڑوں کا ادب و احترام کرنا سکھایا اور جنہوں نے مخلوق سے خالق کا تعارف کروایا۔ تو امت پر بھی رسول ﷺ کے کچھ حقوق لازم ہیں۔

1۔ آپ پر ایمان لانا:آپ ﷺ پر ایمان لانا ارکانِ ایمان میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے لیکن آپ کی رسالت کا انکار کرے توا سے مومن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ( پ 5، النساء: 136)اے ایمان والو!ایمان لاؤ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: رسول ﷺ کی اطاعت واجب ہے یعنی آپ کا ہر حکم مانا جائے۔

حدیثِ مبارکہ:رسول ﷺ نے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی۔ جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی۔ (مسلم) الله پاک نے ارشاد فرمایا: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3۔ آپ کا ادب واحترام کرنا: رسول ﷺکانہایت ادب و احترام لازم و ضروری ہے،کیونکہ یہ ایمان کا حصہ ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

4۔ آپ سے محبت:آپ ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور محبت بھی ایسی جو ہر چیز سے بڑھ کر ہو۔ ارشاد باری ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ( پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ: نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔

حدیث مبارکہ:تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نز دیک اس کی اولاد اور اس کے ماں باپ اور تمام انسانوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)

5۔ آپ کا دفاع کرنا:تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ رسول ﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرے۔اللہ پاک نے حضور کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ارشاد ربانی ہے: فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(۱۳۷) (پ 1، البقرۃ: 137) ترجمہ: پس اللہ کافی ہے آپ کی طرف سے اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

جان ہے عشق ِمصطفےروز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز ِدوا اٹھائے کیوں


حضور نبی کریم ﷺ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و محبت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گو اہ ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11، التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لیے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک میں ورم آجاتا، لہٰذا حضور نبی کر یم ﷺ نے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

حق کی تعریف:حق کا معنی اصل میں مطابقت اور ہم آہنگی ہے۔اسی لیے جو چیز واقعیت سے مطابقت رکھتی ہے اُسے حق کہتےہیں۔

حضور ﷺ کے حقوق: حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ﷺ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب شفاء شریف میں بہت ہی مفصل طور پر بیان فرمایا ہے۔ یہاں چند کا ذکر کیاگیا ہے:

1-ایمان بالرسول: حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہےکہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ فرمان خداوندی ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا !جو لوگ اللہ پاک پر ایمان لائیں اور عمر بھر اس کا ڈنکا بجاتےر ہیں لیکن حضور ﷺ کی رسالت کا انکار کریں تودہ کا فر ہی رہیں گے۔ (الشفاء،2/3-2 ملخصاً)

ایمان ہے قالِ مصطفائی قرآن ہے حالِ مصطفائی

2-اتباعِ سنتِ رسول: حضور ﷺ کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ فرمان خداوندی: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس لیے آسمان امت کے چمکتے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ ورسول کے پیارے صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنت کو اپناتے تھے۔

صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہم کی آخری تمنا:امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے چند گھنٹے پہلے ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی ؟اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمناتھی کہ زندگی کے تمام لمحات میں اور تمام معاملات میں حضور ﷺ کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپﷺکی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔( بخاری، 1/186 )

دہن میں زباں تمہارے لیے بدن میں ہے جاں تمہارے لیے

ہم آئے یہاں تمہارے لیے اٹھیں بھی وہاں تمہارے لیے

3۔ درود شریف پڑھنا:ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ حضور نبیِ کریم ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے۔ خالقِ کا ئنات کا حکم ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ فرمانِ مصطفٰے ﷺ:جو مجھ پر ایک بار درود شریف بھیجتا ہے اللہ پاک اس پر دس مرتبہ درود شریف (رحمت) بھیجتا ہے۔(مسلم، ص 216)

اور کوئی غیب کیا تم سے نہاں ہو بھلا جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروروں درود

4۔ مدحِ رسول:ہم پر یہ بھی حق ہے کہ حضور باعثِ تخلیقِ کائناتﷺ کی مدح و ثنا،تعریف و توصیف، نعت و منقبت،ذکرِ سیرت و سنن و احوال و خصائص و شمائل ِمصطفٰے اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے زیادہ پسند کریں۔تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام نے حضور کی عظمت و شان بیان فرمائی۔اللہ پاک نے حضور کی مدح بیان فرمائی ہے۔ امامِ عشق و محبت اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

ہے کلامِ الٰہی میں شمس وضحیٰ ترے چہرۂ نور فزا کی قسم قسمِ شب ِتار میں راز یہ تھا کہ حبیب کی زُلفِ دوتا کی قسم

یہی بولے سدرہ والے چمنِ جہاں کے تھالے سبھی میں نے چھان ڈالے ترے پائے کا نہ پایا

تجھےیک نے یک بنایا

اے رضا خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ حضور تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی

4۔ محبتِ رسول: ہرامتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ،سید المرسلین، رحمۃ للعالمین ﷺ سے سچی محبت کرے کہ حضور ﷺکی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصل ِایمان ہے۔

جان ہے عشقِ مصطفٰے روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ نازِ دواا ُ ٹھائے کیوں

عشقِ على المرتضیٰ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو رسول ﷺ سے کتنی محبت ہے؟ تو آپ نے فرمایا:خدا کی قسم!حضور ﷺ ہمارے حال، ہماری اولاد،ہمارے باپ،ہماری ماں اور سخت پیاس کے وقت پانی سے بڑھ کر ہمارے نزدیک محبوب ہیں۔(شفاء، 3/ 18)

کروں تیرے نام پہ جاں فدا نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا کروں کیا کر وڑوں جہاں نہیں

اللہ پاک ہمیں اپنے حبیب ﷺ کا حقیقی عشق عطا فرمائے اور ہمارا جینا اور مرنا اللہ و رسول کے لیے ہو اور اپنے حبیب کی غلامی میں ایمان پر خاتمہ نصیب فرمائے۔

بخدا خدا کا یہی ہے در نہیں اور کوئی مفر مقر جو وہاں سے ہو یہیں آ کے ہو جو یہاں نہیں وہ وہاں نہیں