پھر کے گلی گلی تباہ ٹھو کریں     سب کی کھائے کیوں دل کو جو عقل دے خدا تیری گلی سے جائے کیوں

محسنِ انسانیت،رحمۃ للعالمین حضرت محمد ﷺ جنہوں نے حیوانِ ناطق کو انسان بنایا، جنہوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا،جنہوں نے عورتوں کو معاشرے میں ایک چیز سے بڑھ کر گھر کی ملکہ کے شرف سے نوازا، جنہوں نے بڑوں کا ادب و احترام کرنا سکھایا اور جنہوں نے مخلوق سے خالق کا تعارف کروایا۔ تو امت پر بھی رسول ﷺ کے کچھ حقوق لازم ہیں۔

1۔ آپ پر ایمان لانا:آپ ﷺ پر ایمان لانا ارکانِ ایمان میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے لیکن آپ کی رسالت کا انکار کرے توا سے مومن قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ( پ 5، النساء: 136)اے ایمان والو!ایمان لاؤ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: رسول ﷺ کی اطاعت واجب ہے یعنی آپ کا ہر حکم مانا جائے۔

حدیثِ مبارکہ:رسول ﷺ نے فرمایا:جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ پاک کی اطاعت کی۔ جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی۔ (مسلم) الله پاک نے ارشاد فرمایا: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3۔ آپ کا ادب واحترام کرنا: رسول ﷺکانہایت ادب و احترام لازم و ضروری ہے،کیونکہ یہ ایمان کا حصہ ہے۔اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

4۔ آپ سے محبت:آپ ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور محبت بھی ایسی جو ہر چیز سے بڑھ کر ہو۔ ارشاد باری ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ( پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ: نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔

حدیث مبارکہ:تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نز دیک اس کی اولاد اور اس کے ماں باپ اور تمام انسانوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)

5۔ آپ کا دفاع کرنا:تمام اہل ایمان پر لازم ہے کہ رسول ﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرے۔اللہ پاک نے حضور کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی ہے۔ارشاد ربانی ہے: فَسَیَكْفِیْكَهُمُ اللّٰهُۚ-وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُؕ(۱۳۷) (پ 1، البقرۃ: 137) ترجمہ: پس اللہ کافی ہے آپ کی طرف سے اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔

جان ہے عشق ِمصطفےروز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز ِدوا اٹھائے کیوں