امت مسلمہ کی یہ فضیلت ا ور اونچا مقام نبی کریم ﷺ کی رفعت شان پر دلالت کرتا ہے۔جب آپ ﷺ اس قدر عظیم و رفیع شان و منزلت کے حامل ہیں تو اللہ پاک نے آپ ﷺ کے کچھ حقوق و واجبات بھی رکھے ہیں جن کی ادائیگی امتِ مسلمہ پر فرض ہے۔لہٰذا ہر کلمہ گو پر ان حقوق و واجبات کو پہچاننا،سمجھنا اور پھر ان پر قولی و عملی اعتقاد رکھنا لازمی ہے،لیکن افسوس! اکثر لوگ اس بارے میں جہالت کا شکار ہیں اور جن لوگوں کو ان حقوق و واجبات کی معرفت و پہچان ہے وہ بھی ان کی ادائیگی میں کوشاں نظر نہیں آتے۔

ارشادِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔اس آیت مبارکہ میں آپ ﷺ کے تین حقوق بیان ہوئے:ایمان،نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر۔ ان تینوں کی تفصیل اور چند حقوق بیان کیے جاتے ہیں۔ پہلے جان لیتی ہیں کہ حق کسے کہتے ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔

1-رسول اللہ ﷺ پر ایمان:امام محمد بن احمد الھروی الازھری فرماتے ہیں:لغت والوں اور ان کے علاوہ اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایمان کا معنی تصدیق ہے۔لیکن علمائے سلف کے ہاں اس کے معنی اکیلے تصدیق کے نہیں بلکہ تصدیق کے ساتھ ساتھ اقرار اور اس کے مطابق عمل بھی لازمی ہے،کیونکہ انسان جب ایمان لے آتا ہے تو وہ امن میں آجاتا ہے اور اللہ ا س کو اپنی امان میں لے لیتا ہے جیسا کہ قرآنِ حکیم میں ہے:ترجمہ:جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے،ایسوں ہی کے لئے امن ہے اور وہی راہِ راست پر چل رہے ہیں۔

2-اطاعتِ رسول:آپ ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔یہ اللہ پاک کی طرف سے ہم پر لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3-اتباعِ رسول:اطاعت اور اتباع میں فرق ہے۔اطاعت سے مراد یہ ہے کہ آپ ﷺ کے فرامین کو مانا جائے اور عمل کیا جائے اور اتباع کا مطلب ہے کہ جو کام آپ ﷺ کریں اس کے مطابق عمل کیا جائے۔فرمانِ باری ہے:ترجمہ:کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ پاک سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ پاک تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرمادے گا۔

4-اختلافی امور میں نبی کریم ﷺ کی طرف رجوع:نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اختلافی امور میں رسول اللہ ﷺ کی طرف رجوع کیا جائے۔اگر اختلافی امور میں رجوع الی اللہ اور رجوع الی الرسول نہیں ہوگا تو اختلافات و تنازعات ختم کرنا خام خیالی ہے،جیسا کہ فرمانِ باری ہے:ترجمہ:پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ اور رسول کی طرف۔

5-رسولِ پاک ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے:آپ ﷺ کے حقوق میں سے پانچواں حق یہ ہے کہ کسی بھی معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی مخالفت نہ کی جائے،کیونکہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اللہ پاک نے فتنہ او ر عذابِ الیم سے ڈرایا ہے۔فرمانِ باری ہے:سنو جو لوگ حکمِ رسول کی مخالفت کرتے ہیں انہیں ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان پر کوئی زبردست آفت نہ آپڑے یا انہیں درد ناک عذاب نہ پہنچے۔

اور یہاں صرف ڈرایا ہی نہیں بلکہ فی الواقع ایسا ہوا بھی ہے کہ آپ ﷺ کی مخالفت کرنے والوں کو اسی دنیا میں اللہ پاک نے کسی مصیبت و آزمائش میں مبتلا کردیا۔لہٰذا رسول اللہ ﷺ کے فرامین اور سنن کی مخالفت نہ کی جائے بلکہ ہو بہو پیروی کی جائے۔