اللہ پاک نے رسولِ پاک ﷺ کو ساری مخلوق کی طرف مبعوث فرمایا
اور ظاہر و کھلے معجزات کے ذریعے ان کی
تائید فرمائی۔آپ ﷺ نے پل صراط،میزان،حوض وغیرہ امورِ آخرت نیز برزخ،نکیرین کے
سوالات اور قبر کے ثواب و عذاب وغیرہ کے
متعلق جو بھی خبریں دیں وہ ان سب میں سچے ہیں۔(منہاج العابدین،ص17)
حق کی تعریف:حق کا
مطلب ہے ایسی ذمہ داری جو اللہ پاک کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے
میں لازم کی گئی ہو۔اگر وہ ذات اللہ پاک کی ہے اور اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم
پر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں تو انہیں حق اللہ کہتے ہیں جیسے نماز پڑھنا،روزہ رکھنا،گناہ نہ کرنا وغیرہ۔
حضور اکرم ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و
فلاح کے لئے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات
درپیش ہوئیں ان کا کچھ حال آپ یہاں ملاحظہ فرمائیے۔آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ
محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو
کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے: لَقَدْ
جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ
عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (
التوبۃ:128)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا نا گوار ہے تمہاری بھلائی
کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بہت ہی
رحم فرمانے والے ہیں۔ (سیرتِ مصطفیٰ)
ہمارے پیارے نبی ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف
رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و
زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے
اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو
جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کا ادا
کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔پانچ حقوق مندرجہ ذیل ہیں۔
1-ایمان بالرسول:حضور اقدسﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل
سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر
رسول پر ایمان لائے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان
نہیں ہوسکتا۔قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ
لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس
آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کردیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی
رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے
رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔اس
لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی
مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
2-اتباعِ سنتِ رسول:حضور
اقدسﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب
و لازم ہے۔ رب کریم کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اسی لئے آسمانِ امت کے چمکتے ستارے،ہدایت کے چاند تارے، اللہ
و رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع و پیروی کو اپنی
زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ
میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرسکتے تھے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور بھنی ہوئی
بکری:ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا گزر ایک ایسی
جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھنی ہوئی بکری رکھی ہوئی تھی۔لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئےبلایا تو آپ رضی اللہ عنہ
نے یہ کہہ کر کھانے سے انکار کردیا کہ حضور ﷺ دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا
کیونکر گوارا کرسکتا ہوں۔(مشکوٰۃ المصابیح،1/446)
3-اطاعتِ رسول: ہر امتی
پر رسولِ خدا ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کےہر حکم کی اطاعت کرے
اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا
تصور بھی نہ کریں کیونکہ آپ کی اطاعت اور
آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کردینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔قرآنِ مجید میں
ارشادِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا
بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
قرآنِ کریم کی یہ مقدس آیات اعلان کر
رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا اور اطاعتِ رسول
کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا،صدیقین،شہدا اور
صالحین کے ساتھ رہیں گے۔ہر امتی کے عمل اور گفتگو سے اطاعتِ رسول اور محبت کا اظہار ہونا چاہئے۔
4-محبتِ رسول:اسی طرح
ہر امتی پر رسول ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے
اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کردے۔اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے:ترجمہ:(اے رسول)آپ
فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور
تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور
تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے
زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک
کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔( التوبۃ)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے
رسول ﷺ کی محبت فرضِ عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب
تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو
اللہ و رسول ﷺ کی محبت پر ترجیح دو گے تو
خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول ﷺ کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہوجائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہرِ خداوندی سے نہ بچ سکوگے۔(سیرت
مصطفیٰ، ص 831)
5-تعظیمِ رسول:امت پر
حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے
نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے
اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔فرمانِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ (سیرتِ
مصطفیٰ)
بڑا کون؟امیر
المومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے حضرت قباث بن اُشیم سے پوچھا:تم بڑے ہو یا رسول اللہ
ﷺ؟انہوں نے کہا:بڑے تو رسول اللہ ﷺ ہی ہیں مگر میری پیدائش حضور ﷺ سے پہلے ہوئی ہے۔(سیرتِ مصطفیٰ)