حضور ﷺ کے اپنی امت پر بے شمار احسانات کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ہیں۔ اگر چہ آقا ﷺ کے حقوق پورے کرنا انسان کے بس کی بات  نہیں مگر اپنی طرف سے ہمیں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر بندہ آقا ﷺ پر اپنی سانسو ں کی تعداد کے برابر درودِ پاک پڑھے تو بھی آپ کا حق ادا نہ کر سکے گا۔

حق: کسی کو وہ چیز دینا جو اس چیز کا مستحق ہو حق کہلاتا ہے۔حضورﷺ کے جو اپنی امت پر حقوق ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں:

ایمان بالرسول: آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ جو کچھ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اس کی تصدیق فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ جو ایمان با للہ اور ایمان بالرسول کا جامع نہ ہو وہ کافر ہے۔

اطاعتِ رسول:حضور ﷺ کی اطاعت واجب ہے۔ آپ کے احکامات کی تعمیل اور جن سے آپ نے منع فرمایا ہے،ان سے اجتناب لازم ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فر مائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔ اسے چاہیے کہ بے چون و چراں آقاﷺ کی اطاعت کرے۔

اتباعِ رسول: حضور ﷺ کی اقتداء و اِتِّباع واجب ہے۔ قرآنِ مجید آپ کی اتباع کی تائید یوں فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت سےظاہر کہ آپ کسی کام کی طرف بلائیں تو آپ کی اتباع لازم ہے کیونکہ آپ جس کام کی طرف بلاتے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اس میں ہماری نجات ہے۔ اس لیے واجب ہے کہ آپ کی اتباع کی جائے۔

عشقِ رسول: رسول الله ﷺکے حقوق میں سے ایک حق آپ سے محبت کرنا ہے۔آپ سے محبت واجب قرار دی گئی ہے نیز آپ کی محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ قرآنِ مجید آپ کی محبت کا یوں اقرار کرتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24) ترجمہ: (اے رسول )آپ فرما دیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ و رسول ﷺکی محبت واجب ہے اور ان کی محبت پر غیر کی محبت کو تر جیح نہیں دینی چاہیے۔ آیت کے اخیر حصے سے ظاہر ہے کہ جس کو اللہ و رسولﷺ سے محبت نہیں وہ فاسق ہے۔

تعظیم ِرسول: تعظیم بھی آقا ﷺ کے حقوق میں سے ہے۔قرآنِ پاک میں آپ کی تعظیم کایوں ذکر ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات:1) اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر واجب ہے۔ حضورﷺکی تعظیم کوئی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے سیکھے۔ صحابہ کرام آپ کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ یہ حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ کے ادب کی حد تھی کہ انہوں نے آپ کے بغیر عمرہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور کہا کہ میں آقا ﷺ کے بغیر عمرہ نہ کروں گا۔ نیز جس ہاتھ سے رسول ﷺ سے بیعت کی وہ ہاتھ بھی اپنی شرمگاہ پر نہ رکھا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اس قدر با ادب تھے کہ اگر انہیں غسل کی حاجت ہوتی تو وہ بغیر غسل کیے آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی تعظیم کرنے اور آپ کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین 


امت کے غم خوار آقا ﷺنے انسانیت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کیلئے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں۔ آپ ﷺ امت کی مغفرت کیلئے دربار الٰہی میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گر یہ وزاری فرماتے رہتے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ  نےآپ کے مقدس حقوق اپنی کتاب شفاء شریف میں بہت تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے5حقوق کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں:

1-ایمان بالرسول: نبی کریم ﷺ کا سب سے بڑا حق امت پر یہ ہے کہ امت حضورﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ اپنے رب کے پاس سے لائے ہیں اس پر ایمان لائے۔ ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول ﷺ پر ایمان لائے کوئی ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن ِپاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26، الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگر چہ خداکی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر ہیں۔ ( سیرتِ مصطفیٰ ماخوذا)

یہ بھی جان لیں کہ ایمان کی اصل حضور ﷺ کو جان و دل سے ماننا ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب”علم القرآن “میں فرماتے ہیں کہ اصطلاحِ قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دار و مدار ہے وہ یہ ہے کہ بندہ حضور کو دل سے اپنا حاکمِ مطلق مانے، اپنے کو ان کا غلام تسلیم کرے کہ مومن کی جان، اولاد، مال سب حضور کی ملک ہیں۔(علم القرآن، ص 23)

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

2-اتباعِ سنتِ رسول:دوسرا حق اتباعِ سنتِ رسول ہے۔آپ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتِ مقدمہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ اس کا شاہد قرآنِ پاک ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

صحابہ کرام آپ کی ہر سنتِ کریمہ کی اتباع فرماتے اور بال برابر بھی اپنے پیارے آقا ﷺ کی سنتوں سے انحراف نہ فرماتے چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبدُ الله بن عمر رضی اللہ عنہما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے؛ لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں (ا س کی حکمت) نہیں جانتا مگر حضور ﷺ کو میں نے اس جگہ ایسا کرتے دیکھا تھا۔ اس لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔(شفاء)

کاش !ہمارا بھی اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا جاگنا الغرض ہر کام سنتِ مصطفٰے کے مطابق ہو جائے۔ آمین

3- محبتِ رسول: تیسرا حق محبتِ رسول ہے۔ہرامتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کے قدموں تلے قربان کردے نیز ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرضِ عین ہے۔(از سیرتِ مصطفیٰ،ص549)چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری،1/7)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور ﷺ سے بے پناہ محبت تھی چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں مبارک سُن ہو گیا ؛لوگوں نے بطور علاج انہیں بتایا کہ تمام دنیا میں آپ کو سب سے زیادہ جس سے محبت ہے اسے پکاریے تویہ مرض جاتا رہے گا۔ یہ سن کر آپ نے ”یا محمد ﷺ،یا محمد ﷺ کا نعرہ بلند کیا اور آپ کا پاؤں اچھا ہو گیا۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

4-تعظیمِ رسول: اُمت پر ایک نہایت ہی اہم اور بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کی تعظیم و توقیر کرے۔ دنیا کے شہنشاہوں کا اصول ہے کہ وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتے ہیں۔لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالم ہی نرالہ ہے۔ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول نہ تو خود اُس نے بنائے، نہ مخلوق میں کسی اور نے بلکہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ رب کریم نے نازل فرمائے ہیں۔ وہ عظیم شہنشاہ، مالک و مختار ﷺ ہیں۔چنانچہ ارشادِ باری ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-(پ 18، النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:(اے لوگو )رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب آپ ﷺ سے کلام کرتے تو سلام کے بعد یوں کہتے” میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں “یا کہتے ” میری جان آپ پر نثار ہے۔“ صحابہ کرام حضور ﷺ کی بارگاہ میں یوں بیٹھتے گویا کہ اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔ الفرض صحابہ کرام آپ کی شاہکار تعظیم اور بے مثال ادب و احترام فرماتے۔ اللہ پاک اُن کے صدقے ہمیں بھی حضور ﷺ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط الجنان،9/347مفہوماً)

5-درود شریف:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق آپ ﷺپر درودِ پاک پڑھنا بھی ہے۔چنانچہ رب کریم خود قرآنِ پاک میں اپنے حبیب ﷺپر درود پاک پڑھنے کا حکم فرماتا ہے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ حضور ﷺنے فرمایا: جو مجھ پر ایک مرتبہ درودِ پاک پڑھتا ہے اللہ پاک اُس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

پیارے آقاﷺ کی شانِ محبوبیت کا کیا کہنا! ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پاک پیغمبر ﷺ کی بارگاہ میں درودِ پاک کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔اللہ ہمیں بھی کثرت کے ساتھ درودِ پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

کعبہ کے بدرُ الدُّجی ٰتم پہ کروروں درود طیبہ کے شمس ُالضحیٰ تم پر کروروں درود


الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ہم پیارے آقا  محمد مصطفٰے ﷺ کے امتی ہیں۔ پیارے آقا محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کی ہم آخری امت ہیں۔ امتی ہونے پر جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ پیدا ہوتے ہی امت کی بخشش کی دعائیں کیں تو ہم امتیوں پر بھی تو بہت سارے حق ہیں۔اگر یہ کہا جائےکہ ہماری زندگی، ہماری سانسیں، ہمارے ہر ہر لمحے انہی کی عنایت ہیں تو بالکل بھی غلط نہیں ہوگا۔ ہم پیارے آقاﷺ کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کر کے کچھ تو حق ادا کر سکتی ہیں۔ راہِ حق دکھانے والے پیارے آقاﷺ ہی ہیں۔ قبر و حشر کا ڈر سنانے والے اور اللہ پاک کی معرفت کروانے والے بھی پیارے آقاﷺ ہی ہیں۔ اللہ پاک رحمن و رحیم ہے، یہ بھی بتانے والے اور اللہ پاک قہار و جبار ہے، یہ بھی بتانے والے پیارے آقا ﷺہی ہیں۔ ہمیں ڈر و خوشخبری سنانے والے ہمارے آقا، مدنی مصطفٰے ﷺ ہی ہیں۔ارشادِباری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

تفسیر:یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریم ﷺ کی عظمت و شان،مقام و منصب، امّت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی!ہم نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ، اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و نافرمان کو اللہ پاک کی گرفت اور عذاب کا ڈر سنانے والابنا کر بھیجا ہےتاکہ اے لوگو!تم اللہ پاک اور ا س کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرو۔(تفسیر خازن،4/103)

امّت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اِس آیتِ کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان،نصرت و حمایت اورتعظیم و توقیر۔یہاں ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کرکے مزید چند حقوق بیان کئے جائیں گے تاکہ علم میں اضافہ اور عمل کی توفیق ہو:

1۔ ایمان:محمدِ مصطفٰے ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اوریونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنابھی لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے،کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کےلیے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جویہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگرتمام انبیا علیہم السلام پرایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ کی نصرت و حمایت:اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اوراب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےآپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دارسب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کرپروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔فی زمانہ بھی آپ کی عزّت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقا و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3۔ رسول اللہ کی تعظیم و توقیر: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم و توقیرکی جائے،بلکہ آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے جیسے نبیِ کریم ﷺ کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ، مسجد ِ نبوی، گنبد ِ خضریٰ، اہل ِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا ﷺ کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جھکالے اور دل کو خیال ِ غیر سے پاک رکھے، گنبد ِ خضری پر نگاہ اٹھے تو فوراً ہاتھ باندھ کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے، بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔اگر کسی کو بارگاہِ نبوی میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استادیا پیر یا عالم ہویا دنیوی وجاہت والاکوئی شخص، اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔

مذکورہ بالا حقوق کے ساتھ ساتھ علما و محدثین نے اپنی کتب میں دیگر ’’حقوقِ مصطفٰے‘‘ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، یہاں اختصار کے ساتھ مزید4حقوق ملاحظہ ہوں:

(1)رسول اللہ کی اِتِّباع:نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرناہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم ِ خداوندی ہے۔آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پُر نور ﷺ کے طریقےپرچلنے کومقدم رکھتے اوراِتِّباع ِ نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے۔ اِس اِتِّباع میں فرض و واجب امور بھی داخل ہیں اور مؤکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اِتِّباع کیا کرتے تھے، اسی لیے کتب ِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔

(2)رسول اللہ کی اطاعت: رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہرحکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے، جس بات کاحکم ہو اسے بجائے لائیں،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُکا جائے۔

(3)رسول اللہ سے سچی محبت:امّتی پرحق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کراپنے آقا و مولیٰ ﷺ سے سچی محبت کرےکہ آپ ﷺ کی محبت روح ِ ایمان، جانِ ایمان اور اصل ِ ایمان ہے۔

(4)رسول اللہ کا ذکرِ مبارک و نعت:ہم پر یہ بھی حق ہے کہ سرور ِ موجوداتﷺ کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف،نعت و منقبت، نشر ِ فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت وسنن و احوال وخصائل و شمائل ِ مصطفٰے اوربیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اوراِن اذکار ِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔ قرآنِ پاک رسولِ کریم ﷺ کےفضائل و محاسن اور شان و مرتبہ کے ذکرِ مبارک سے معمور ہے۔تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام حضور سیدالمرسلین ﷺ کی عظمت و فضیلت بیان فرماتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ذکر و نعت ِ مصطفٰے وظیفۂ زندگی اور حرز ِ جان تھا۔دورِ صحابہ سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور آپ ﷺ کے خوش نصیب مداحوں نے نظم ونثر کی صورت میں اتنی نعتیں لکھ دی ہیں کہ اگر انہیں ایک جگہ کتابی صورت میں جمع کیا جائے تو بلا مبالغہ یہ ہزاروں جلدوں پر مشتمل دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ہو گی۔ اللہ پاک ہمیں نبیِ پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطافرمائے۔


مصطفٰے جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام                    شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام

حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح و فلاح کے لیے بہت سی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو بہت سی مشکلات درپیش ہوئیں، مگر آپ کی اپنی امت سے بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت تو دیکھئے کہ ساری ساری رات جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور اپنی امت کی بخشش و مغفرت کے لیے دربار باری میں گریہ و زاری فرماتے رہتے یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔

اشک شب بھر انتظارِ عفوِ اُمّت میں بہیں میں فِدا چاند اور یُوں اختر شماری واہ واہ

حق کے لغوی معنی صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس طرح حق ایک ذومعنی لفظ ہے۔ ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر حضور اقدس ﷺ کے کچھ حقوق ہیں اور حضور ﷺ کے ہم پر جو بھی احسانات ہیں ان کے پیش ِنظر ان حقوق کا ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب شفا شریف میں تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان میں سے چند حقوق درج ذیل ہیں:

1۔ ایمان بالرسول: حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی جانب سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے، قرآن پاک میں خداوند ِعالم کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔

2۔ اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے، کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر ِتسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ خداوندی ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹) (پ 5، النساء: 69 ) ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔قرآنِ مجید کی یہ مقدس آیت اعلان کر رہی ہے کہ اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لیے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا و صدیقین اور شہدا و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔

3۔ محبتِ رسول: اسی طرح ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کردے۔ خداوند قدوس کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو،وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے، اسے اللہ پاک اپنی طرف راہ نہ دے گا، اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہِ ہمارے پیارے نبی ﷺفرماتے ہیں:تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ،اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری،1/ 17، حدیث: 15) اس نے تو بات صاف فرمادی کہ جو حضورِ اقدس ﷺ سے زیادہ کسی کو عزیز رکھے ہرگز مسلمان نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/310-309)

4۔ تعظیمِ رسول: امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔اللہ پاک کا فرمانِ والا شان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب ﷺ کا ادب و تعظیم انتہائی مطلوب ہے اور ان کا ادب و تعظیم نہ کرنا اللہ پاک کی بارگاہ میں  انتہائی سخت ناپسندیدہ ہے حتّٰی کہ اس پر سخت وعیدیں بھی ارشاد فرمائی ہیں۔اسی سے معلوم ہوا کہ سیّد المرسلین ﷺ کا ادب وتعظیم کرنا شرک ہر گز نہیں  ہے۔ جو لوگ اسے شرک کہتے ہیں  ان کا یہ کہنا مردود ہے۔اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

شرک ٹھہرے جس میں  تعظیمِ حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجئے

5۔ درود شریف: ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے۔ چنانچہ خالقِ کائنات کا حکم ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

ابن ِعربی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ پر دُرود بھیجنے کا فائدہ درود بھیجنے والے کی طرف لوٹتا ہے، کیونکہ ا س کا درود پڑھنا اس بات کی دلیل ہے کہ درود شریف پڑھنے والے کا عقیدہ صاف ہے۔اس کی نیت خالص ہے۔اس کے دل میں نبیِ کریم ﷺ کی محبت ہے۔اسے اللہ پاک کی طرف سے نیکی پر مددحاصل ہے نیز اس کے اور اس کے آقا و مولیٰ،دو عالَم کے دولہا ﷺ کے درمیان ایک مبارک اور مُقَدّس نسبت موجود ہے۔(القول البدیع،ص83ملخصاً)

ذات ہوئی انتخاب وصف ہوئے لاجواب نام ہوا مصطفٰے تم پہ کروروں درود

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقوقِ مصطفٰے سمجھنے اور ان پر صحیح معنی میں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاهِ خاتم النبیین ﷺ


حق کی لغوی معنی صحیح،مناسب، درست، ٹھیک،موزوں، بجا، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔

1-ایمان بالرسول:حضورﷺ کی نبوت و رسالت اور جو کچھ آپ ﷺ اللہ کی طرف سے لائےہیں، ان تمام پر ایمان لانا اور دل سے انہیں سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔رسول پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اللہ فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں اس بات کی مکمل طور پر وضاحت ہے کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ پوری زندگی خدا کی توحید کا اقرار کرتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لیے کہ ایمان با لرسالت کے بغیر ایمان بالتوحید معتبر ہی نہیں۔

2-اِتِّباع سنت:آقا ﷺ کی پیروی اور آپ کی سنتوں کو اپنانا ہر امتی کی ذمہ داری اور فریضہ ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

3-اطاعتِ رسول: آقاﷺ کا حکم ماننا آپ کی اطاعت ہے۔ اطاعت ِرسول بھی ہر امتی پر لازم و ضروری ہے۔اللہ فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ دوسرے مقام پر ارشاد ہوا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

4-محبتِ رسول:امتی کا یہ بھی فریضہ ہے کہ نبی پاکﷺ کی محبت اس کے دل میں سارے جہاں سے بڑھ کر ہو۔ اس حوالے سے قرآن ِکریم فرماتا ہے:ترجمہ: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

مدحِ رسول: سرکارِ دو عالم ﷺ کی مدح و ثنا، آپ کے محاسن کا ذکر کرنا اور آپ کے فضائل و کمالات کا علی الاعلان بیان کرنا بھی ہر امتی پر فرض ہے۔ اللہ فرماتا ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) ( الم نشرح: 4 )ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔ 


دینِ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بے حد تاکید فرمائی گئی ہے۔ہر شخص پر اس کے والدین،استاد، حاکم، پیر اور بزرگوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں، جن کو ادا کرنا اس کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بھی۔ اسی طرح ہر امت پر اپنے نبی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔حضور خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین ﷺ کے حقوق اپنی امت پر سب سے زیادہ ہیں، کیونکہ آپ کے احسانات بھی امت پر بےحد و بےشمار ہیں۔درحقیقت امت کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی و کامرانی آپ ﷺ کے حقوق کی ادائیگی پر ہی موقوف ہے۔ (مقالات قادری،ص 124 تا 126 ملتقطاً)  رسول اللہ کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:

1-ایمان بالرسول: آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اس کی تصدیق کرنا فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (سیرتِ رسولِ عربی، ص 633) قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

2-اطاعتِ رسول اور سنت پر عمل: حضور ﷺ کی اطاعت، آپ کے احکامات کی تعمیل، جن کاموں سے آپ نے منع فرمایا ان سے اجتناب کرنا اور آپ کی سیرت و سنت کی پیروی کرنا واجب ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص 633) قرآنِ کریم میں بہت سے مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا ہے۔جیساکہ ارشادِ ربانی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ نیز اِتِّباع سنت کے متعلق ارشاد فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ 21، الاحزاب: 21) ترجمہ: بیشک تمہارے لیےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:عبادات، معاملات، اخلاقیات، سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں اور نعمتوں پر اللہ پاک کا شکر ادا کرنے میں، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت ﷺ کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔ لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اَقوال،اَفعال،اَخلاق اور اپنے دیگر احوال میں سیّد المرسلین ﷺ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سیّد العلَمین ﷺ کی پیروی کریں۔ (تفسیر صراط الجنان)

3-محبتِ رسول:آپ ﷺ کی محبت واجب ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:تم میں سے کوئی مومن(کامل)نہیں ہوسکتا، جب تک میں اُسے اس کے باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں۔ (بخاری،1/17، حدیث:15) رسول اللہ ﷺ کی محبت میں وہ سچا ہے جس پر اس کی علامتیں ظاہر ہوں۔وہ علامتیں یہ ہیں: آپ کے احکامات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دے۔ آپ کا بکثرت ذکر کرے۔ آپ کی زیارت کا شوق رکھے۔آپ سے محبت کی وجہ سے اہلِ بیت اور تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت رکھے۔ آپ کی پسند کو پسند کرے اور ناپسند کو ناپسند۔ آپ کی امت کے ساتھ خیرخواہی کرے۔(شفاملتقطاً)

4-تعظیمِ رسول اور آثار شریفہ کی تعظیم:آپ ﷺ کے ذکر کے وقت، آپ کی حدیث و سنت، آپ کے اسمِ گرامی اور سیرتِ مبارکہ، آپ کے صحابہ و اہلِ بیت کا ذکر سنتے وقت تعظیم و توقیر واجب ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص 334) قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور ﷺ کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہا اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے حبیب ﷺ کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان) آپ ﷺ کے ادب و احترام میں سے یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی محافلِ مقدسہ، مقاماتِ مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ اور دیگر جگہیں نیز وہ تمام تبرکات جو آپ ﷺ سے منسوب ہوں، ان کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ (شفا، ص 346 ملتقطا)

5-روضۂ مبارکہ کی زیارت: آپ ﷺ کے روضہ شریف کی زیارت بِالاِجماع سنت اور فضیلتِ عظیمہ ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص 696)حدیثِ مبارکہ میں ہے:جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری زندگی میں میری زیارت کی۔ (دار قطنی،3،حدیث: 2694)اللہ پاک ہمیں اپنے رسول ﷺ کے حقوق ادا کرنے والا بنائے،حقیقی عشقِ رسول عطا فرمائے اور آپ ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ سے دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ 


اِرشادِباری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (پ26،الفتح: 8-9)ترجمہ کنزالایمان: بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔

تفسیر: یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریمﷺ کی عظمت و شان، مقام و منصب، امّت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی!ہم نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ، اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و نافرمان کو اللہ پاک کی گرفت اور عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے تاکہ اے لوگو! تم اللہ پاک اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لاؤ اور رسولﷺ کی نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرو۔(تفسیرخازن،4/103)

حق کا لغوی و اصطلاحی معنی:حق کا مادہ ”ح، ق، ق“ ہے۔ کسی چیز کا اس طرح موجود ہو جانا، واقع ہو جانا اور ثابت ہو جانا کہ اس کے واقع ہونے پر اس کے وجود سے انکار نہ کیا جا سکے، اسے حق کہتے ہیں۔

امّت پر نبیِ کریمﷺ کے حقوق کے پہلو سے اِس آیت کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپﷺ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان، نصرت و حمایت اورتعظیم و توقیر۔یہاں ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کر کے مزید چند حقوق بیان کئے جائیں گے تاکہ علم میں اضافہ اور عمل کی توفیق ہو۔

1۔ ایمان: محمدِ مصطفٰےﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی لازم و ضروری ہے جو آپﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپﷺ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور آپﷺ کی رحمت تمام جہانوں کے لیے اور آپﷺ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر تمام انبیا علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ کی نصرت و حمایت: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیبﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اور اب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ کی عزّت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقا و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3۔رسول اللہ کی تعظیم و توقیر:ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان،روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبی پاک ﷺ کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ بلکہ آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے جیسے نبیِ کریم ﷺ کے ملبوسات،نعلین شریفین،مدینہ طیبہ،مسجدِ نبوی،گنبدِ خضریٰ،اہلِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا ﷺ کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نامِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جُھکا لے اور دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے،گنبدِ خضری پر نگاہ اٹھے تو فوراً ہاتھ باندھ کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبیِ کریمﷺ کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے،ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے،ان کا کلام و تقریر نہ سنے، بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔اگر کسی کو بارگاہِ نبوی میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استاد یا پیر یا عالم ہو یا دنیوی وجاہت والا کوئی شخص، اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال کو باہر پھینکا جاتا ہے۔مذکورہ بالا حقوق کے ساتھ ساتھ علما و محدثین نے اپنی کتب میں دیگر ’’حقوقِ مصطفٰے‘‘ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

4۔ رسول اللہ کی اِتِّباع: نبیِ کریمﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پُر نورﷺ کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اِتِّباع نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے۔ اِس اِتِّباع میں فرض و واجب امور بھی داخل ہیں اور مؤکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اِتِّباع کیا کرتے تھے۔اسی لیے کتب ِاحادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں، بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔

5۔رسول اللہ کی اطاعت: رسول اللہﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے، جس بات کا حکم ہو اسے بجائے لائیں،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُکا جائے۔ رسول اللہﷺ سے سچی محبت کریں بلکہ امّتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقاﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔ہم پر حق ہے کہ سرورِ موجوداتﷺ کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف، نعت، کمالات، ذکرِ سیرت و سنن و احوال وخصائل و شمائلِ مصطفٰے اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اور اِن اذکار مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔قرآنِ پاک رسولِ کریمﷺ کے فضائل و محاسن اور شان و مرتبہ کے ذکر مبارک سے معمور ہے۔تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام حضورﷺ کی عظمت و فضیلت بیان فرماتے رہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ذکر و نعتِ مصطفٰے وظیفۂ زندگی اور حرزِ جان تھا۔دورِ صحابہ سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور آپ کے خوش نصیب مداحوں نے نظم و نثر کی صورت میں اتنی نعتیں لکھ دی ہیں کہ اگر انہیں ایک جگہ کتابی صورت میں جمع کیا جائے تو بلا مبالغہ یہ ہزاروں جلدوں پر مشتمل دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ہو گی۔اللہ پاک ہمیں نبیِ پاکﷺ کے تمام حقوق بجا لاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 


حضور ﷺ کی تصدیق کا وجوب اور آپ کی سنت کی اِتِّباع وفرمانبرداری اور آپ کی محبت و خیرخواہی اور آپ کی عزت وتکریم اور آپ کے ساتھ بھلائی لازم ہے۔آپ ﷺپر صلوۃ وسلام پڑھنا اور آپ کی قبرِ انور، روضہِ مقدسہ، گنبدِ خضریٰ کی زیارت ہر مسلمان کا اخلاقی فرض ہے۔جن کے صَدَقے ہمیں سب کچھ مِلا، اس پیاری ہستی، نبیِ کریم ﷺ  کے ہم پر حقوق ہیں جن کا پورا کرنا اُمت پر فرض ہے تو حقوق معلوم کرنے سے پہلے ہم اِس بات کا علم حاصل کرتی ہیں کہ حق کہتے کسے ہیں؟

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی واجب کرنے کے ہیں۔ (منجد)حقوق حق کی جمع ہے جس کے معنی فرد یا جماعت کا ضروری حصہ ہے۔ (معجم وسیط،ص188)

رسولِ کریم ﷺ کے 5 حقوق:

1۔ رسول اللہ پر ایمان لانا: نبیِ کریم ﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا اور جوکچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اُس کو سچا ماننا ہر ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے۔ پارہ 28،سورۂ تغابن،آیت نمبر8 میں ارشادِ رحمٰن ہے: فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ- ترجمہ:پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پراور اُس نور پر جو ہم نے نازل کیا۔

ایمان ہے قالِ مصطفائی قرآن ہے حالِ مصطفائی

2۔ رسول اللہ کی مدح کرنا:ہر اُمتی پر یہ بھی حق ہے کہ ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کی مدح وثنا کا اعلان اور چرچا کرتے رہیں اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرتے رہیں۔

رہے گا یوں ہی اُن کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہو جائیں جَل جانے والے

پارہ 30،سورۂ الم نشرح، آیت نمبر4 میں فرمانِ رب کریم ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) ترجمہ کنز الایمان: اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کردیا۔

رِفعت ذِکر ہے تیرا حصّہ دونوں عالم میں ہے تیرا چرچا

مرغِ فردَوس پس اَز حمدِ خدا تیری ہی مَدْح و ثنا کرتے ہیں

3۔ رسول اللہ کی اطاعت کرنا: پارہ5،سورۃ النساء، آیت نمبر59 میں فرمانِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ یہاں آیتِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺکی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، کیونکہ رسول اللہ کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لیے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ انبیا و صدیقین اور شہدا و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔

4۔ رسول اللہ کی بارگاہ میں درود پیش کرنا: پارہ22،سورۂ احزاب،آیت نمبر56میں فرمانِ باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اس آیتِ مبارکہ میں سیّد المرسلین، خاتم النبیینﷺ کی صریح نعت ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ اپنے حبیب پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے بھی آپ کے حق میں دعائے رحمت کرتے ہیں اور اے مسلمانو! تم بھی ان پر درود بھیجو یعنی رحمت وسلامتی کی دعائیں کرو۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے انتہائی عقیدت و محبت میں اشعار کی صورت میں بارگاہِ رسالت میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے انہی کے الفاظ میں ہم بھی عرض کر لیتی ہیں:

کعبہ کے بَدرُ الدُّجی تم پہ کروڑوں درود طیبہ کے شمس ُالضحی ٰتم پہ کروڑوں درود

شافعِ روزِ جزا تم پہ کروڑوں درود دافعِ جملہ بَلا تم پہ کروڑوں درود

5۔ رسول اللہ کی قبرِ انور کی زیارت کرنا:رسول اللہ ﷺکی قبرِ انور کی زیارت کرنا،سلام عرض کرنا تمام اہلِ اسلام کے لیے باعثِ نجات ہے۔فرامینِ مصطفٰے ﷺ:1:جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔(معجم اوسط، 4/2)2:جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اُس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی اور جو حرمینِ شریفین میں سے ایک میں مَر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اُٹھایا جائے گا۔(دارقطنى،2/351،حدیث: 2668)

میں ہوں سُنّی رہوں سُنّی مَروں سُنّی مدینے میں بقیعِ پاک میں بَن جائے تُربَت یا رسول اللہ ﷺ

اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کی سیرت کو اپنانے اور حقوق کو احسن انداز میں بجا لانے کی توفیق سے نوازے۔ آمین


تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ  نے ہم گنہگاروں کے لیے کتنی مشقتیں برداشت کیں ہیں۔آج ہمیں جو ایمان کی دولت میسر آئی،خدا کی معرفت حاصل ہوئی،معبودِ برحق کی عبادت کا سلیقہ ملا، راہِ حق کا پتہ ملا،زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط ملے،قرآن ملا،قرآن کے احکام کو سمجھنے کا سلیقہ ملا،اللہ کے اوامر و نواہی کا پتہ چلا،حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں آئی،ہمیں آج جو زندگی ملی،لذتِ بندگی ملی حتّٰی کہ ہماری ہر ہر سانس پر سرکارِ دوعالم ﷺ کا احسان ہے۔ کیوں کہ آپ ہی کے صدقہ و طفیل دنیا و ما فیہا کی تخلیق ہوئی ہے۔جب اس قدر ہم پر آپ کے احسانات ہیں تو ہم امت پر بھی آپ کے کچھ حقوق ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی واجب کرنا ہے۔حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔

ایمان بالرسول:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26، الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو یقیناً ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں اس بات کی مکمل طور پر وضاحت ہے کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگر چہ پوری زندگی خدا کی توحید کا اقرار کرتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لیے کہ بغیر ایمان بالرسالت کے ایمان بالتوحید معتبر ہی نہیں۔

اِتِّباع سنت:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ( اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت میں سرکار دوعالم ﷺ کی اِتِّباع و پیروی کو محبتِ خداوندی کی دلیل قرار دیا گیا ہے۔گویا اِتِّباع رسول کے بغیر اگر کوئی شخص محبتِ خدا کا دعویٰ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔

محبتِ رسول:محبتِ رسول کے حوالے سے قرآنِ مقدس فرما رہا ہے:قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (التوبۃ:24) ترجمہ:تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ محبتِ رسول اسی طرح فرض ہے جس طرح محبتِ خدا فرض ہے۔حتی کہ دنیا کی کسی چیز کی محبت ایک مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

تعظیم ِرسول: تعظیمِ رسول کا حکم دیتے ہوئے قرآنِ مقدس میں فرمایا گیا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (الفتح:9)ترجمہ: بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔

مذکورہ آیت میں غور کریں تو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ تعظیمِ رسول کے لیے اللہ نے کسی وقت کا تعین نہ فرمایا، لیکن تسبیح کے لیے صبح و شام کا تعین فرما دیا۔ گو آیت کا خلاصہ یہ ہو گا کہ جہاں تک تم سے ممکن ہو اللہ کی حمد و ثنا کرو اور تسبیح و تہلیل کرو۔ لیکن تعظیمِ رسول ہر وقت، ہر لمحہ، ہر آن ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز وہ بھی نمازِ عصر جو اعلیٰ خطر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصلُ الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

درود شریف:درود شریف کے حوالے سے حکم فرماتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (الاحزاب:56)ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔اس آیت میں اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ اللہ بھی اپنے نبی پر درودبھیجتا ہے، اس کے فرشتے بھی نبی پر درود بھیجتے ہیں۔پھر ایمان والو کو یہ حکم فرما رہا ہے کہ تم بھی میرے نبی پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرو۔ پتہ چلا کہ درود شریف پڑھنا کوئی بدعت نہیں بلکہ رب خود آپ پر درود بھیجتا ہے۔اللہ پاک ہم تمام کو مومن کامل اور عاشقِ صادق رہ کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقوق اللہ، حقوق الرسول اورحقوق العباد کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخری دم اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دیار میں دو گز زمین عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریمﷺ


حضوراقدس ﷺنے اپنی امت کی ہدایت واصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں اور اس راہ میں آپ کو جو جو مشکلات درپیش ہوئیں، آپ نے ان کا سامنا کیا۔ آپﷺکی امت ہونے کی حیثیت سے ہم پر بھی کچھ حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہم پر واجب ہے۔

حقوق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے جس کے معنی فردیا جماعت کا ضروری حصہ ہے۔ (معجم وسیط،ص 188) رسول اللہ ﷺ کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

1-رسول الله کی اِتِّباع سنت:حضور اقدسﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اِتِّباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

2-رسول اللہ کی محبت:امت پرآپ ﷺکی محبت لازم و واجب ہے۔قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ۔حضورﷺ کی محبت یہ ہے کہ آپ کی نصرت و مدد کو لازم جانے اور مخالفینِ سنت کو مٹائے اور سنت کی پیروی کرے اور سنت کی مخالفت سے خوفزدہ رہے۔

3-سول اللہ پر درودپاک پڑھنا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ یہ آیتِ مبارکہ سیدالمرسلینﷺ کی صریح نعت ہے جس میں بتایا گیا کہ اللہ پاک اپنے حبیبﷺپر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے بھی آپﷺکے حق میں دعائے رحمت کرتے ہیں اور اے مسلمانو!تم بھی ان پر سلام بھیجو یعنی رحمت و سلامتی کی دعائیں کرو۔

کعبہ کے بدرُ الدُّجیٰ تم پہ کروڑوں درود طیبہ کے شمسُ الضحیٰ تم پہ کروڑوں درود

4-رسول اللہ کی قبر ِانور کی زیارت:حضور اقدس ﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنتِ مؤکدہ قریب بواجب ہے۔ ترجمہ:اور اگر یہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آ جاتے اور خدا سے بخشش مانگتے اور رسول ان کے لیے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ خدا کو بہت زیادہ بخشنے والا مہربان پاتے۔حضورﷺ کے دربار کا فیض آپ کی وفاتِ اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے، اس لیے جو گنہگار قبرِانور کے پاس حاضر ہو جائے، وہاں خدا سے استغفار کرے اور حضورﷺ تو اپنی قبرِ انور میں اپنی امت کے لیے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں۔

2فرامینِ مصطفٰےﷺ:(1)جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔(دار قطنی،2/351، حدیث:2669) (2)جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی۔(دارقطنی، 2/51،حدیث:2668)

5-رسول اللہ کی تعظیم:امت پر حضورﷺکے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہےکہ حضور انورﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں تمام حقوق ادا کرنے کی سعادت نصیب فرمائے اور ہمیں اچھا امتی بننے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین


حضور اقدس ﷺ  نے اپنی امت کی ہدایت واصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں وہ ہم سب کو معلوم ہیں۔آپ ﷺ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے۔ اس پر قرآن میں اللہ پاک کا فرمان گواہ ہے: ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر نہایت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔

آپ ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لیے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گر یہ وزاری فرماتے رہتے۔یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ ﷺ کے پائے مبارک پرورم آجاتا تھا۔ آج ہم اپنے آپ پر غور کریں کہ کیا ہم اپنے اُمتی ہونے کا فرض پورا کر رہی ہیں؟تو جواب میں ”نا“ یعنی ”نہیں“ ہی آئے گا یعنی بالکل بھی نہیں کر رہیں۔نبی پاک ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے آپ ﷺ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب شفا شریف میں بہت ہی مفصل طور پر بیان فرمایا ہے۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ پڑھتی ہیں:

حضورﷺ کے امت پر آٹھ حقوق ہیں:1-ایمان بالرسول۔2- اِتِّباع سنتِ رسول۔ 3-اطاعتِ رسول۔4-محبتِ رسول۔5-تعظیمِ رسول۔ 6-مدحِ رسول۔ 7-درودشریف۔ 8- قبرِ انور کی زیارت۔

ہم سب کو چاہیے کہ ان حقوق کی سچے دل سے پیروی کریں۔ کیونکہ حضورﷺ نے ہمارے لیے کیا کچھ نہیں کیا، پتھر بھی بر سائے گئے۔ آپ ﷺ پر بہت کچھ کیا گیا۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے بڑی مشکلوں، مصیبتوں کا سامنا کیا۔کیا ہم اپنے آقا ﷺ کے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ روزانہ کم از کم 1200 دفعہ ورنہ کم از کم 313 دفعہ ہی درود پاک پڑھ لیں۔

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا عشقِ رسول:صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کے عشقِ رسول سے متعلق سنئے اور جھوم جائیے۔ امیرالمؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: رسول الله ﷺ کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضور اکرم ﷺ کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے، مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن بھی مجھے آپ کی اتباع ِسنت نصیب ہوجائے۔ (بخاری، 1/ 468، حدیث: 1387)

یہ بھی ہر امتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے۔ کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر ِتسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ارشاد باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ ترجمہ: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

آپ نے سنا صدیق ِاکبر کا عشقِ مصطفٰے!صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عشقِ مصطفٰےمرحبا!صحیح عشقِ مصطفٰےصحابہ کرام علیہم الرضوان کی زندگیوں سے ملتا ہے۔ پیارے آقا ﷺکی اطاعت کرنا قرآن وحدیث سے ثابت ہے۔ ہمیں آقاﷺ کی ہر حالت میں اطاعت کرنی چاہیے۔ اے کاش! الله پاک ہمیں صحیح معنی میں حقیقی طور پر پیارے آقا، مکی مدنی مصطفٰے ﷺ کا عشق نصیب فرمائے اور آپ کی اطاعت کرنے والی بنا ئے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


حضور سید عالم ﷺ پر ایمان لانا فرض اور آپ کی اطاعت و سنت  کی اِتِّباع واجب ہے۔آپ ﷺپر ایمان لانا اور جو شریعت آپ لائے ہیں اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی واجب کرنا ہے۔ حق سے مراد وہ کام ہے جو تمہارے لائق ہو یا اس کا کرنا واجب ہو۔

1)اطاعتِ رسول:اطاعتِ رسول کا حکم فرماتے ہوئے قرآنِ مقدس میں اللہ پاک نے فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ( النساء: 58)ترجمہ: اے ایمان والو! حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

2)تعظیمِ رسول: تعظیمِ رسول کا حکم دیتے ہوئے قرآنِ مقدس میں فرمایا گیا:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (الفتح:9)ترجمہ:بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔

3)مدحِ رسول: سرکارِ دوعالمﷺ کی مدح و ثنا، آپ کے محاسن کا ذکر کرنا اور آپ کے فضائل و کمالات علی الاعلان بیان کرنا بھی ہر امتی پر لازم ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ مقدس میں فرمایا:وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (الم نشرح:4)ترجمہ:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔

4)زیارتِ روضۂ رسول:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ( النساء: 4)ترجمہ:اور اگرجب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب! تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اورمہربان پائیں۔

5)درود شریف: درود شریف کے حوالے سے حکم فرماتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (الاحزاب: 56) ترجمہ:بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اللہ پاک ہمیں سچا عاشقِ رسول بنائے اور ہمیں آقا ﷺ کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین