الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور بہت ہی خوش قسمت ہیں کہ ہم
پیارے آقا محمد مصطفٰے ﷺ کے امتی ہیں۔ پیارے آقا محمد ﷺ
اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کی ہم آخری امت ہیں۔ امتی ہونے پر
جتنا شکر ادا کریں کم ہے۔ پیدا ہوتے ہی امت کی بخشش کی دعائیں کیں
تو ہم امتیوں پر بھی تو بہت سارے حق ہیں۔اگر یہ کہا جائےکہ
ہماری زندگی، ہماری سانسیں، ہمارے ہر ہر لمحے انہی کی عنایت ہیں تو بالکل بھی غلط
نہیں ہوگا۔ ہم پیارے آقاﷺ کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کر کے کچھ تو حق ادا کر
سکتی ہیں۔ راہِ حق دکھانے والے پیارے آقاﷺ ہی ہیں۔ قبر و حشر کا ڈر سنانے والے اور
اللہ پاک کی معرفت کروانے والے بھی پیارے آقاﷺ ہی ہیں۔ اللہ پاک رحمن و رحیم ہے،
یہ بھی بتانے والے اور اللہ پاک قہار و جبار ہے، یہ بھی بتانے والے پیارے آقا ﷺہی
ہیں۔ ہمیں ڈر و خوشخبری سنانے والے ہمارے آقا، مدنی مصطفٰے ﷺ ہی ہیں۔ارشادِباری
ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
تفسیر:یہ آیتِ
مبارکہ رسولِ کریم ﷺ کی عظمت و شان،مقام و منصب، امّت پر لازم
حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی!ہم
نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ، اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و
نافرمان کو اللہ پاک کی گرفت اور عذاب کا ڈر سنانے والابنا کر بھیجا ہےتاکہ اے
لوگو!تم اللہ پاک اور ا س کے رسول پر ایمان لاؤاور رسول کی نصرت و حمایت اور تعظیم
و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرو۔(تفسیر خازن،4/103)
امّت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اِس آیتِ
کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک
نے آپ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان،نصرت و حمایت اورتعظیم و توقیر۔یہاں ان
تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان
کرکے مزید چند حقوق بیان کئے جائیں گے
تاکہ علم میں اضافہ اور عمل کی توفیق ہو:
1۔ ایمان:محمدِ
مصطفٰے ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا
فرض ہے اوریونہی ہر اس چیز کو تسلیم
کرنابھی لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک
کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم
ہے،کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں
کےلیے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں
بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جویہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگرتمام
انبیا علیہم السلام پرایمان رکھتا ہو۔
2۔ رسول اللہ کی نصرت و حمایت:اللہ
پاک نے روزِ میثاق تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیب ﷺ کی
نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اوراب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نےآپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے
دارسب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کرپروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔فی زمانہ بھی آپ کی عزّت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و
دین کی بقا و ترویج کی کوشش اسی نصرت و
حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔
3۔ رسول اللہ کی تعظیم و توقیر: ایک
انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے
نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم و توقیرکی جائے،بلکہ آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا
ادب و احترام کیا جائے جیسے نبیِ کریم ﷺ کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ،
مسجد ِ نبوی، گنبد ِ خضریٰ، اہل ِ
بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا ﷺ کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان
سب کی تعظیم کی جائے۔ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال
و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری
جالیوں کے سامنے ہو تو آنکھیں جھکالے اور دل کو خیال ِ غیر سے پاک رکھے، گنبد ِ
خضری پر نگاہ اٹھے تو فوراً ہاتھ باندھ کر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔اسی ادب
و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن
سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان
کا کلام و تقریر نہ سنے، بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔اگر کسی کو بارگاہِ
نبوی میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استادیا پیر یا عالم ہویا دنیوی وجاہت والاکوئی شخص، اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے
جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا حقوق
کے ساتھ ساتھ علما و محدثین نے اپنی کتب میں دیگر ’’حقوقِ مصطفٰے‘‘ کو بھی بڑی
تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے، یہاں اختصار
کے ساتھ مزید4حقوق ملاحظہ ہوں:
(1)رسول اللہ کی اِتِّباع:نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرناہر
مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم ِ خداوندی ہے۔آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے
یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پُر
نور ﷺ کے طریقےپرچلنے کومقدم رکھتے اوراِتِّباع ِ نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے۔ اِس
اِتِّباع میں فرض و واجب امور بھی داخل
ہیں اور مؤکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اِتِّباع
کیا کرتے تھے، اسی لیے کتب ِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی
نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا
ہے۔
(2)رسول اللہ کی اطاعت: رسول اللہ ﷺ کا یہ
بھی حق ہے کہ آپ کا ہرحکم مان کر اس کے
مطابق عمل کیا جائے، جس بات کاحکم ہو اسے بجائے لائیں،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے
قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُکا جائے۔
(3)رسول اللہ سے سچی محبت:امّتی
پرحق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کراپنے آقا و مولیٰ ﷺ سے سچی محبت کرےکہ
آپ ﷺ کی محبت روح ِ ایمان، جانِ ایمان اور اصل ِ ایمان ہے۔
(4)رسول اللہ کا ذکرِ مبارک و نعت:ہم پر یہ بھی حق ہے
کہ سرور ِ موجوداتﷺ کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف،نعت و منقبت، نشر ِ فضائل و
کمالات، ذکرِ سیرت وسنن و احوال وخصائل و
شمائل ِ مصطفٰے اوربیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اوراِن اذکار ِ
مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔ قرآنِ
پاک رسولِ کریم ﷺ کےفضائل و محاسن اور شان و مرتبہ کے ذکرِ مبارک سے معمور
ہے۔تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام حضور سیدالمرسلین ﷺ کی عظمت و
فضیلت بیان فرماتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ذکر و نعت ِ مصطفٰے وظیفۂ زندگی اور حرز ِ جان تھا۔دورِ صحابہ
سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اور
آپ ﷺ کے خوش نصیب مداحوں نے نظم ونثر کی صورت میں اتنی نعتیں لکھ دی ہیں کہ
اگر انہیں ایک جگہ کتابی صورت میں جمع کیا
جائے تو بلا مبالغہ یہ ہزاروں جلدوں پر
مشتمل دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ہو گی۔ اللہ پاک ہمیں نبیِ پاک
ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطافرمائے۔