امت کے غم خوار آقا ﷺنے انسانیت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کیلئے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں۔ آپ ﷺ امت کی مغفرت کیلئے دربار الٰہی میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گر یہ وزاری فرماتے رہتے۔ حضور ﷺ نے اپنی امت کیلئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ  نےآپ کے مقدس حقوق اپنی کتاب شفاء شریف میں بہت تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔ ان میں سے5حقوق کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں:

1-ایمان بالرسول: نبی کریم ﷺ کا سب سے بڑا حق امت پر یہ ہے کہ امت حضورﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لائے اور جو کچھ آپ اپنے رب کے پاس سے لائے ہیں اس پر ایمان لائے۔ ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول ﷺ پر ایمان لائے کوئی ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن ِپاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26، الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ بیان فرما دیا کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگر چہ خداکی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر ہیں۔ ( سیرتِ مصطفیٰ ماخوذا)

یہ بھی جان لیں کہ ایمان کی اصل حضور ﷺ کو جان و دل سے ماننا ہے جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب”علم القرآن “میں فرماتے ہیں کہ اصطلاحِ قرآن میں ایمان کی اصل جس پر تمام عقیدوں کا دار و مدار ہے وہ یہ ہے کہ بندہ حضور کو دل سے اپنا حاکمِ مطلق مانے، اپنے کو ان کا غلام تسلیم کرے کہ مومن کی جان، اولاد، مال سب حضور کی ملک ہیں۔(علم القرآن، ص 23)

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

2-اتباعِ سنتِ رسول:دوسرا حق اتباعِ سنتِ رسول ہے۔آپ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتِ مقدمہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ اس کا شاہد قرآنِ پاک ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

صحابہ کرام آپ کی ہر سنتِ کریمہ کی اتباع فرماتے اور بال برابر بھی اپنے پیارے آقا ﷺ کی سنتوں سے انحراف نہ فرماتے چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبدُ الله بن عمر رضی اللہ عنہما ایک جگہ اپنی اونٹنی کو چکر لگوا رہے تھے؛ لوگوں نے ان سے اس کا سبب پوچھا تو فرمایا: میں (ا س کی حکمت) نہیں جانتا مگر حضور ﷺ کو میں نے اس جگہ ایسا کرتے دیکھا تھا۔ اس لیے میں بھی ایسا کر رہا ہوں۔(شفاء)

کاش !ہمارا بھی اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا جاگنا الغرض ہر کام سنتِ مصطفٰے کے مطابق ہو جائے۔ آمین

3- محبتِ رسول: تیسرا حق محبتِ رسول ہے۔ہرامتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کے قدموں تلے قربان کردے نیز ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرضِ عین ہے۔(از سیرتِ مصطفیٰ،ص549)چنانچہ حضور ﷺنے فرمایا:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے باپ،اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری،1/7)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور ﷺ سے بے پناہ محبت تھی چنانچہ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا پاؤں مبارک سُن ہو گیا ؛لوگوں نے بطور علاج انہیں بتایا کہ تمام دنیا میں آپ کو سب سے زیادہ جس سے محبت ہے اسے پکاریے تویہ مرض جاتا رہے گا۔ یہ سن کر آپ نے ”یا محمد ﷺ،یا محمد ﷺ کا نعرہ بلند کیا اور آپ کا پاؤں اچھا ہو گیا۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

4-تعظیمِ رسول: اُمت پر ایک نہایت ہی اہم اور بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرضِ عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کی تعظیم و توقیر کرے۔ دنیا کے شہنشاہوں کا اصول ہے کہ وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتے ہیں۔لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالم ہی نرالہ ہے۔ ا س کی تعظیم اور اس کی بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول نہ تو خود اُس نے بنائے، نہ مخلوق میں کسی اور نے بلکہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ رب کریم نے نازل فرمائے ہیں۔ وہ عظیم شہنشاہ، مالک و مختار ﷺ ہیں۔چنانچہ ارشادِ باری ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-(پ 18، النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:(اے لوگو )رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جب آپ ﷺ سے کلام کرتے تو سلام کے بعد یوں کہتے” میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں “یا کہتے ” میری جان آپ پر نثار ہے۔“ صحابہ کرام حضور ﷺ کی بارگاہ میں یوں بیٹھتے گویا کہ اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہوں۔ الفرض صحابہ کرام آپ کی شاہکار تعظیم اور بے مثال ادب و احترام فرماتے۔ اللہ پاک اُن کے صدقے ہمیں بھی حضور ﷺ کا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (صراط الجنان،9/347مفہوماً)

5-درود شریف:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق آپ ﷺپر درودِ پاک پڑھنا بھی ہے۔چنانچہ رب کریم خود قرآنِ پاک میں اپنے حبیب ﷺپر درود پاک پڑھنے کا حکم فرماتا ہے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ حضور ﷺنے فرمایا: جو مجھ پر ایک مرتبہ درودِ پاک پڑھتا ہے اللہ پاک اُس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

پیارے آقاﷺ کی شانِ محبوبیت کا کیا کہنا! ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پاک پیغمبر ﷺ کی بارگاہ میں درودِ پاک کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔اللہ ہمیں بھی کثرت کے ساتھ درودِ پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

کعبہ کے بدرُ الدُّجی ٰتم پہ کروروں درود طیبہ کے شمس ُالضحیٰ تم پر کروروں درود