تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اللہ کے پیارے رسول ﷺ  نے ہم گنہگاروں کے لیے کتنی مشقتیں برداشت کیں ہیں۔آج ہمیں جو ایمان کی دولت میسر آئی، خدا کی معرفت حاصل ہوئی، معبودِ برحق کی عبادت کا سلیقہ ملا، راہِ حق کا پتہ ملا، زندگی گزارنے کے قواعد و ضوابط ملے، قرآن ملا، قرآن کے احکام کو سمجھنے کا سلیقہ ملا، اللہ کے اوامر و نواہی کا پتہ چلا، حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں آئی، ہمیں آج جو زندگی ملی، لذتِ بندگی ملی حتّٰی کہ ہماری ہر ہر سانس پر سرکارِ دوعالم ﷺ کا احسان ہے۔ کیوں کہ آپ ہی کے صدقہ و طفیل دنیا و ما فیہا کی تخلیق ہوئی ہے۔جب اس قدر ہم پر آپ کے احسانات ہیں تو ہم امت پر بھی آپ کے کچھ حقوق ہیں:

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی واجب کرنا ہے۔حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔

ایمان بالرسول:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں اس بات کی مکمل طور پر وضاحت ہے کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگر چہ پوری زندگی خدا کی توحید کا اقرار کرتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لیے کہ بغیر ایمان بالرسالت کے ایمان بالتوحید معتبر ہی نہیں۔

اِتِّباع سنت:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ( اٰل عمران: 31)ترجمہ:اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو! اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیت میں سرکار دوعالم ﷺ کی اِتِّباع و پیروی کو محبتِ خداوندی کی دلیل قرار دی گئی ہے۔ گویا اِتِّباعِ رسول کے بغیر اگر کوئی شخص محبتِ خدا کا دعویٰ کرے تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔

محبتِ رسول: محبتِ رسول کے حوالے سے قرآنِ مقدس فرما رہا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ( التوبۃ:24) ترجمہ:تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ محبتِ رسول اسی طرح فرض ہے جس طرح محبتِ خدا فرض ہے۔حتی کہ دنیا کی کسی چیز کی محبت ایک مومن کے دل میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

تعظیمِ رسول: تعظیمِ رسول ﷺ کا حکم دیتے ہوئے قرآن مقدس میں فرمایا گیا:اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹) (الفتح:9)ترجمہ:بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔ مذکورہ آیت میں غور کریں تو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ تعظیمِ رسول کے لیے اللہ نے کسی وقت کا تعین نہ فرمایا لیکن تسبیح کے لیے صبح و شام کا تعین فرما دیا۔ گویا آیت کا خلاصہ یہ ہو گا کہ جہاں تک تم سے ممکن ہو اللہ کی حمد و ثنا کرو اور تسبیح و تہلیل کرو۔ لیکن تعظیمِ رسول ہر وقت، ہر لمحہ، ہر آن ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مولیٰ علی نے واری تِری نیند پر نماز وہ بھی نمازِ عصر جو اعلیٰ خطر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

درود شریف:درود شریف کے حوالے سے حکم فرماتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (الاحزاب:56) ترجمہ:بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے نبی پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔اس آیت میں اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ اللہ بھی اپنے نبی پر درودبھیجتا ہے۔ اس کے فرشتے بھی نبی پر درود بھیجتے ہیں۔پھر ایمان والو کو یہ حکم فرما رہا ہے کہ تم بھی میرے نبی پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرو۔ پتہ چلا کہ درود شریف پڑھنا کوئی بدعت نہیں بلکہ یہ خود اللہ پاک کی سنت ہے۔اللہ پاک ہم تمام کو مومن کامل اور عاشقِ صادق رہ کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقوق اللہ، حقوق الرسول اورحقوق العباد کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخری دم اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دیار میں دو گز زمین عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریمﷺ


ہمارےآخری نبی ﷺ  نے اپنی امت کی ہدایت واصلاح کے لیے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں وہ ہم سب پرعیاں ہیں۔ آپ ﷺ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اورامتیوں پر آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے۔ اس پر قرآن میں پارہ11،سورۂ توبہ آیت نمبر128میں ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

حق کے لغوی واصطلاحی معنی: حق کا لغوی معنی ہے:واجب کرنا۔(منجد)یعنی حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں اور بالخصوص قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شفاء شریف میں امتیوں پر نبیِ پاک ﷺکے جو آٹھ حقوق بیان فرمائے ہیں وہ اجمالاً اور ان میں سے پانچ حقوق تفصیلاً بیان کئے جاتے ہیں:

1۔ ایمان بالرسول:حضورﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 826)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر: ان (دونوں پر ایمان لانے) میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو وہ کافر ہے۔(تفسیرصراط الجنان)بندہ ساری زندگی لا الہ الا اللّٰه پڑھتا رہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک دل کی گہرائیوں سے اس کے بعد محمد رسول اللّٰه نہ کہے۔

2۔ اِتِّباع سنتِ رسول:حضور اقدسﷺکی سیرت ِمبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اِتِّباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ ( سیرتِ مصطفٰی، ص 827)اللہ پاک کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:ہر شخص کو حضور کی اِتِّباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔(صراط الجنان)انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کی اداؤں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حضورﷺکی سنتوں کو اپنایا جائے۔

3۔ اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ خداﷺ کا حق یہ ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور جس بات کا حکم فرمائیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے۔کیونکہ یہ ہر امتی کا فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 829)الله پاک فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4۔ محبتِ رسول: ہرامتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپﷺکی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔ (سیرتِ مصطفٰی، ص 831) احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ محبتِ رسول کے بغیر دعوی ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔

5۔ تعظیمِ رسول: اُمت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اَہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور اور آپ سے نسبت رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔رب کریم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ لہٰذا حضور ﷺ کے کمالِ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ہر گز ہرگز آپ کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کی جائے۔ اللہ کریم ہمیں حقوقِ مصطفٰےاحسن انداز میں اداکرنےکی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ


حضور سرورِ انبیا، محبوبِ کبریا ﷺ نے اپنی اُمت کے لیے جو مشقتیں اُٹھائیں ایک ایک اُمتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے ان کا تقاضا ہے کہ اُمت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

حق کی تعریف: لغت میں حق سے مراد واجب کرنا۔ (منجد) حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں: فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔ (معجم وسیط، ص 188)

حقوقِ مصطفٰے:

1۔ ایمان بِالرَّسُول: حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13) ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

2۔ اِتِّباع سنّتِ رسول: حضورِ اقدس ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اِتِّباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب کریم کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اسی لیے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ کی ہر سنتِ کریمہ کی اِتِّباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لیے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور اپنے پیارے آقا ﷺ کی مقدس سنتوں کا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔ (شفا،ص8-9 ملخصًا)

3۔ اطاعتِ رسول:یہ بھی ہر اُمتی پر رسولِ خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر اُمتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر ِتسلیم خم کر دینا ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے۔قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹) (پ 5، النساء: 69 ) ترجمہ کنزالایمان:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اُسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ اور یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔قرآنِ مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں ہی کے لیے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا و صدیقین اور شہداوصالحین کے ساتھ رہیں گے۔

4۔ محبتِ رسول: ہر اُمتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔اللہ کا فرمانِ عالیشان ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرضِ عین ہے اور اگر تم غیر کی محبت کو اللہ اور اس کے رسول کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذابِ الٰہی اور قہرِ خدا سے نہ بچ سکو گے۔

5۔ تعظیمِ رسول: اُمت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اَہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔اللہ پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ لہٰذا حضور ﷺ کے کمالِ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ہر گز ہرگز آپ کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کی جائے۔اللہ ہمیں اپنے پیارے پیارے آقا،مکی مدنی مصطفٰے ﷺ کے حقوق بجا لانے اور زندگی کے ہر معاملے میں پیارے آقا ﷺ کی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


دنیا میں ایک بحث ہوتی ہے کہ ہمارے حقوق کیا ہیں ؟اور حقوق حاصل کیسے کئے جائیں؟ جس طرح وطن میں رہنے والا اپنے وطن کے شہری ہونے کے لحاظ سے حقوق کی بات کرتا ہے، عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، بچوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، لیکن کیا ہم جانتی ہیں کہ جن کے صدقے میں کائنات بنی ہے، جن کے صدقے ہمیں سب کچھ ملا ہے،ان پیارے پیارے نبیﷺکے بھی ہم پر حقوق ہیں جن کو پورا کرنا امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے۔ ان حقوق کو جاننے سے پہلے جانتی ہیں کہ حق کیا ہے۔

حق کا معنی: حق کا لغوی معنی ہے:واجب کرنا۔(منجد)یعنی حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں اور بالخصوص قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شفا شریف میں امتیوں پر نبیِ پاک ﷺکے جو آٹھ حقوق بیان فرمائے ہیں وہ اجمالاً اور ان میں سے پانچ حقوق تفصیلاً بیان کئے جاتے ہیں:

1-ایمان بالرسول:حضورﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 826)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ: اور جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو بیشک ہم نےکافروں کے لیے بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (پ 26، الفتح:13)

تفسیر:ان (دونوں پر ایمان لانے) میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو وہ کافر ہے۔(صراط الجنان)بندہ ساری زندگی لا الہ الا اللّٰه پڑھتا رہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک دل کی گہرائیوں سے اس کے بعد محمد رسول اللّٰه نہ کہے۔

2-اِتِّباع سنتِ رسول:حضور اقدسﷺکی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اِتِّباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ ( سیرت مصطفٰی، ص 827)اللہ پاک کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

ہر شخص کو حضور کی اِتِّباع اور پیروی کرنا ضروری ہے(صراط الجنان)انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کی اداؤں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حضورﷺکی سنتوں کو اپنایا جائے۔

3-اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ خداﷺ کا حق یہ ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور جس بات کا حکم فرمائیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ یہ ہر امتی کا فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 829)الله پاک فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ لہٰذا جس نے حضور کی بات مان لی تو گویا یہ رب کائنات کی بات ماننا کہلائے گا۔

4-محبتِ رسول:

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے

ہرامتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپﷺکی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص831)احادیثِ مبارکہ میں بھی ہمیں یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ محبتِ رسول کے بغیر دعوی ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔

5-زیارتِ قبرِ انور:حضوراقدسﷺ کے روضۂ مقدسہ کی زیارت سنتِ مؤکدہ قریب بواجب ہے۔ (سیرت ِمصطفٰی، ص 848) الله پاک کا ارشادہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ امتی پر یہ حق ہے کہ وہ روضۂ رسول کی حاضری کے لئے جائے۔ لیکن اگر کوئی وسائل کی کمی وجہ سے نہیں جا پاتا تو اس کے دل میں تڑپ و آرزو ضرور ہواور دعاؤں اور خیالوں کے ذریعے مدینے شریف حاضر ہوتا رہے۔ اگر کوئی امتی مدینے نہیں جائےگا تو کدھر جائے گا! لہٰذا نہ صرف مدینے حاضر ہو بلکہ ہو سکے تو مدینے میں مرے۔

مزہ کیا خاک آئے دور رہ کر ایسے جینے میں کہ پروانہ یہاں تڑپے جلے شمع مدینے میں

یہ حقوقِ مصطفٰے مختصراً بیان کئے گئے۔ اللہ پاک ہمیں ہر قسم کے حقوق میں کوتاہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اِرشادِباری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)(پ26،الفتح: 8،9) ترجمہ:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا تاکہ (اے لوگو!)تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بیان کرو۔

حق کا مفہوم: حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔(معجم وسیط،ص188) حق کے لغوی معنی صحیح، مناسب، درست، ٹھیک، موزوں، بجا، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔علما و محدثین نے اپنی کتب میں دیگر ’’حقوقِ مصطفٰے‘‘ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہاں 5 حقوق ملاحظہ ہوں:

1۔ رسول ﷺکی رسالت پرایمان: محمد مصطفٰے ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اوریونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنابھی لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہےکیونکہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کےلیے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جویہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگرتمام انبیا علیہم السلام پرایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کی اِتِّباع: حدیثِ پاک میں ہے:(حضرت) موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو اُنہیں میری اِتِّباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔(شعب الایمان، 1/199، حدیث: 176) نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرناہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم ِ خداوندی ہے۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پر نور ﷺ کے طریقےپرچلنے کومقدم رکھتے اور اِتِّباع ِ نبوی سے ہرگز انحراف نہ کرتے۔اِس اِتِّباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور مؤکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اِتِّباع کیا کرتے تھے۔اسی لیے کتب ِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور آداب ومعاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔

3۔ رسول اللہ کی اطاعت:ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًاؕ(۶۹) ( النساء: 69)ترجمہ:اور جو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہرحکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات کاحکم ہو اسے بجالائیں، جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اُس سے رُکا جائے۔

4۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت: اللہ پاک کا ارشاد ہے: آپ کہہ دیجئے کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے لڑکے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے کنبے قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جسے تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور اس کی راہ کے جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ اپنا عذاب لے آئے، اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔ ( التوبۃ: 24 )امّتی پرحق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کراپنے آقا و مولیٰ ﷺ سے سچی محبت کرےکہ آپ ﷺ کی محبت روح ِ ایمان، جانِ ایمان اور اصل ِ ایمان ہے۔اعلیٰ حضرت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اَلَا لَا اِیمانَ لِمَنْ لَا مَحَبَّۃَ لَهٗیعنی خبردار جسے اللہ پاک اور رسول ﷺ سے محبت نہیں اُس کا ایمان نہیں۔ (خطباتِ رضویہ، ص 6 )

5۔ رسول اللہ کا ذکر مبارک و نعت:اللہ پاک نے قرآن مقدس میں فرمایا:وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴)(الم نشرح:4) ترجمہ:اور ہم نے تمہارے لیے تمہارا ذکر بلند کر دیا۔ ہم پر یہ بھی حق ہے کہ سرور ِ موجودات ﷺ کی مدح و ثنا،تعریف و توصیف، نعت و منقبت، نشر ِ فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت وسنن و احوال وخصائل و شمائل ِ مصطفٰے اوربیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند بھی کریں اوراِن اذکار ِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔ قرآنِ پاک رسولِ کریم ﷺ کےفضائل و محاسن اور شان و مرتبہ کے ذکر مبارک سے معمور ہے۔ تمام انبیا و مرسلین علیہم السلام حضور سیدالمرسلین ﷺ کی عظمت و فضیلت بیان فرماتے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےلیے ذکر و نعت ِ مصطفٰے وظیفۂ زندگی اور حرز ِ جان تھا۔ دورِ صحابہ سے آج تک یہ سلسلہ جاری و ساری ہے اورآپ ﷺ کے خوش نصیب مداحوں نے نظم ونثر کی صورت میں اتنی نعتیں لکھ دی ہیں کہ اگر انہیں ایک جگہ کتابی صورت میں جمع کیا جائے تو بلا مبالغہ یہ ہزاروں جلدوں پر مشتمل دنیا کی سب سے ضخیم کتاب ہو گی۔

درس:اے عاشقانِ رسول !وہ نبی جو ہماری خاطر رات بھر رویا کرتے تھے اور ہماری بخشش کے لیے گریہ و زاری کیا کرتے تھے، وہ نبی جنہوں نے اپنی پاکیزہ حیات کے لمحات امت کی خیر خواہی میں گزار دی، وہ نبی جنہوں نے ہم گناہ گاروں کے لیے کتنے مصائب و آلام برداشت کئے، ہم پر بھی ان کے مذکورہ بالا پانچ حقوق ہیں۔ہمیں اس بات کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے کہ کسی صورت میں ان پانچوں حقوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ اللہ پاک ہم تمام کو مومن کامل اور عاشقِ صادق رہ کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حقوق اللہ، حقوق الرسول اورحقوق العباد کی ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخری دم اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دیار میں دو گز زمین عطا فرمائے۔آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ


اللہ پاک نے ایمان والوں کو سب سے عظیم رسول عطا فرما کر ان پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے۔ اگر نبیِ پاک ﷺ نہ ہوتے تو کائنات نہ ہوتی۔ امت پر شفقت فرمانے والے آقا ﷺ اپنی ولادتِ مبارکہ سے وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے زمانوں میں امت پر رحمت اور شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہا رہے ہیں۔ ایمان جیسی نعمت اور بے شمار نعمتیں آپ کے صدقے نصیب ہوئیں۔ ہم آپ کے احسانات کو شمار نہیں کرسکتے۔ ان بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں، جن  کو ”حقوقِ مصطفےٰ“ کہا جاتا ہے۔ آپ ﷺ کے حقوق دیگر لوگوں کے حقوق پر فوقیت رکھتے ہیں۔

حقوق ”حق “کی جمع ہے، حق سے مراد وہ فرض یا ذمے داری جو بندے پر دوسرے بندوں کی نسبت عائد ہو۔

ان حقوق کا مختصر جائزہ پیشِ خدمت ہے:

1۔ ایمان بالرسول: رسولِ خدا ﷺ پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا مانناہر امتی پر فرضِ عین ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (الشفاء، 2/4 مفہوما)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: محمد رسول اللہ ﷺ کو ہر بات میں سچا جانے، حضور کی حقانیت کو صدقِ دل سے ماننا ایمان ہے۔ (فتاوی رضویہ، 29/254)

2۔ اطاعتِ رسول: ایک حق یہ بھی ہے کہ دین و دنیا کے ہر معاملے میں آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے۔ ہر انسان پر حضورِ اکرم ﷺ کی اطاعت فرض ہے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

نبیِ پاک ﷺ کی اطاعت کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں۔ اگر کوئی کام پہلے فرض نہ تھا تو اب اگر حضور ﷺ نے کسی کو اُس کا حکم دے دیا تو اب وہ کرنا فرض ہوگیا۔

3۔ محبتِ رسول: انسان کو چاہئے کہ سارے جہان سے بڑھ کر آقا ﷺ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ ﷺ کی محبت پر قربان کردے۔ آپ ﷺ کی محبت اصلِ ایمان ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسند احمد،6/303، حدیث: 18069)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور ﷺ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ ان کے احکام، ان کے اعمال، ان کی سنتوں سے، ان کے قرآن، ان کے فرمان، ان کے مدینے کی خاک سے محبت ہو۔ (مراۃ المناجیح، 6/603)

ہمیں صرف لفظوں ہی میں عشقِ رسول کا دعویٰ کرنے کی بجائے حقیقی عاشقِ رسول بننا چاہئے۔

4۔ اتباعِ سنتِ رسول: نبیِ پاک ﷺ کی سنت کی پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے۔ نبیِ پاک ﷺ کے ہر قول، فعل اور تقریر کو سنت کہتے ہیں۔ محبتِ رسول کا تقاضا ہے کہ انسان آپ کی سنتوں کی پیروی کرے۔ امیرِ اہلِ سنت فرماتے ہیں:سنت میں عظمت ہے۔ نبیِ پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (مشکوۃ، 1/175)

سینہ تیری سنت کا مدینہ بنے آقا جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

سنتوں کی معلومات کے لئے مکتبۃ المدینہ کی دو کتب ”550 سنتیں اور آداب“ اور ”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ فرمائیے۔

5۔ درود و سلام پڑھنا: حقوق میں سے ایک اہم حق آپ ﷺ پر درود و سلام پڑھنا بھی ہے۔ علمائے کرام فرماتے ہیں کہ زندگی میں ایک مرتبہ درود پڑھنا فرض ہے۔ کسی مجلس میں سرکارِ دو عالم ﷺ کا ذکر کیا جائے تو ذکر کرنے اور سننے والے کا ایک مرتبہ درود و سلام پڑھنا واجب ہے اور اس سے زیادہ مستحب ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، 8/84)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

درودِ پاک کے ذریعے ہم بارگاہِ الٰہی میں نبیِ کریم ﷺ کے لئے مزید در مزید قرب، رفعِ درجات اور اعلائے منزلت کی دعا کرتے ہیں، تاکہ آپ کا شکریہ ادا کریں کہ ہمارا درود آپ کے احسان کا بدلہ ہوجائے۔ 


حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ اللہ پاک کے محبوب رسول ہیں، جن کو اللہ پاک نے کائنات و دو عالم کا مالک و مختار اور رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجا۔ چنانچہ قرآن کریم اس کی وضاحت خود فرماتا ہے:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اے محبوب! ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کے بھیجا۔

رسولِ اکرم ﷺ کے احسانات قرآن مجید کی روشنی میں: ہمارا ایمان اور قرآن کا فرمان ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ وہ عظیم تر رسول ہیں، جنہوں نے اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اپنے امتیوں پر انگنت احسانات و معجزات کئے۔ اور سب سے بڑا معجزہ و احسان تو یہی ہے کہ ہماری سانسیں آپ ﷺ کے مبارک وجود سے برقرار ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری ہے:

لَقَدْ  مَنَّ  اللّٰهُ  عَلَى  الْمُؤْمِنِیْنَ  اِذْ  بَعَثَ  فِیْهِمْ  رَسُوْلًا  مِّنْ  اَنْفُسِهِمْ  یَتْلُوْا  عَلَیْهِمْ  اٰیٰتِهٖ  وَ  یُزَكِّیْهِمْ  وَ  یُعَلِّمُهُمُ  الْكِتٰبَ  وَ  الْحِكْمَةَۚ-وَ  اِنْ  كَانُوْا  مِنْ  قَبْلُ  لَفِیْ  ضَلٰلٍ  مُّبِیْنٍ(۱۶۴) (پ 4، اٰلِ عمران: 164)ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پراس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا اور انھیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

حقِ رسول اکرم ﷺ: حقوق حق کی جمع ہے اور حق سے مراد ذمے داری و فرائض ہے۔ اصطلاح میں اس سے مراد ایسے حقوق ہیں جو اللہ پاک کی طرف سے بندوں پر عائد ہوں۔ اور بات کی جائے حقِ مصطفےٰ ﷺ کی تو اللہ پاک نے تمام امتِ مسلمہ پر فرض قرار دیا ہے کہ وہ پیارے حبیب، حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کے حقوق کو بجالائیں۔

حقوقِ مصطفےٰ: ویسے تو حقوقِ مصطفےٰ ﷺ بےشمار ہیں، لیکن ہم مختصر یہاں 5 حقوق کو بیان کرتے ہیں:

1۔ رسولِ اکرم ﷺ پر ایمان: تمام مسلمانوں پر پہلا حق و ذمے داری یہ ہے کہ وہ رسولِ محترم ﷺ پر سچے دل و دماغ سے ایمان لائیں اور وہ ان کو اللہ پاک کا آخری نبی، آخری پیغمبر تسلیم کریں، کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ اب نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا اور یہ مذہبِ اسلام کی بنیاد ہے۔

قرآن کی روشنی میں ایمانِ رسول ﷺ: چنانچہ پارہ 26، سورۂ فتح، آیت نمبر 13 میں ہے:

وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

2۔ رسولِ اکرم ﷺ کی پیروی: ایمانِ رسول کے بعد تمام مسلمانوں پر دوسرا حق یہ ہے کہ وہ اللہ کے رسول کی پیروی کریں اور سنتوں کے عامل بنیں۔

قرآن میں ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ کی اطاعت: ہم مسلمانوں پر تیسرا حق یہ ہے کہ ہم رسولِ اکرم، نورِ مجسم ﷺ کی اطاعت کریں، جو وہ شریعت، احکامِ خدا وندی، اللہ کے حضور لائیں، ان کو سچے دل سے مانیں اور اطاعت کریں۔قرآن مجید رسولِ اکرم ﷺ کی اطاعت کے متعلق فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

4۔ رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت: رسولِ اکرم ﷺ کا حق ہے کہ ہم سب مسلمان ان سے سچی محبت کریں اور یہ ایمان کا تقاضا ہے کہ بغیر محبتِ رسول ایمان کی بنیاد مضبوط نہیں۔ چنانچہ حدیثِ شریف ہے: تم میں سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا، جب تک میں اسے اُس کے باپ، اُس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، 1/12، حدیث: 15)

5۔ رسول اللہ ﷺ پر درود پڑھنا: ہر مسلمان پر یہ حق عائد ہے کہ وہ حضورِ انور ﷺ پر درودِ گرامی بھیجے، جس سے ہم بارگاہِ الٰہی و حضور ﷺ کے نیک امتیوں میں شامل ہوجائیں اور قریب سے قریب تر مقام پائیں۔ قرآن مجید کی روشنی میں بھی اس کا ذکر یوں ہوا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔اس آیتِ مبارک سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کو اللہ پاک کی طرف سے حکم ہوا ہے کہ وہ رسولِ محبوب ﷺ پر درود و سلام بھیجا کرے، تاکہ محبت و بخشش کا باعث بنے۔

درس: حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے اپنی امت کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دیں۔ بطورِ مسلمان ہم پر یہ حقوق اللہ پاک کی طرف سے عائد ہوتے ہیں کہ ہم ان کو سچے دل، خلوص و محبت سےاپنائیں اور رسول اللہ و قربِ الٰہی کا قریب سے قریب تر مقام و درجہ حاصل کریں۔

ایمان کا ستون ہے نورِ محمد ﷺ ہر مسلمان کی شان و مان ہے نورِ محمد ﷺ


دنیا کا دستور ہے کہ جس کے جتنے احسان زیادہ ہوتے ہیں، اُس کے حقوق بھی اس قدر بڑھ جاتے ہیں۔ جانِ کائنات ﷺ تو اس کائنات کے وجود میں آنے کا سبب ہیں، آپ ﷺ رحمۃ للعلمین ہیں، مومنوں کے حق میں روف و رحیم ہیں۔ آپ ہی کی وجہ سے اس امت کو خیرِ امت کا لقب ملا، ولادت کے وقت بھی امت کو یاد فرمارہے تھے، شبِ معراج بھی امت کو یاد رکھا، حتی کہ ظاہری وصال شریف کے وقت بھی لبِ اقدس پر امتی امتی جاری تھا۔ اس عظیم محسن کے بےشمار حقوق میں سے صرف 5 کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

ایمان بالرسول:آخری نبی ﷺ پر ایمان لانا اور آپ کے لائے ہوئے احکامات کو حق جاننا فرضِ عین ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: محمد رسول اللہ ﷺ کو ہر بات میں سچا جانے، حضور ﷺ کی حقانیت کو صدقِ دل سے ماننا ایمان ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 29/254)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ علم القرآن کی اصطلاح میں ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور ﷺ کو اپنا حاکمِ مطلق جانے۔ (علم القرآن، ص39)

محبتِ رسول: ہر امتی پر یہ حق ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو سارے جہان سے بڑھ کر محبوب جانے۔ خود فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باب، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، ص 74، حدیث: 15)

اطاعتِ رسول: اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ بلکہ خود قرآن کریم میں اللہ پاک نے نبیِ کریم ﷺ کی اطاعت نہ کرنے والوں کے لئے وعید ارشاد فرمائی: وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶) (پ 22، الاحزاب، 36) ترجمہ کنز الایمان: اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا، وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔

تعظیمِ رسول: ایک امتی پر اس کے پیارے نبی ﷺ کا حق یہ ہے کہ وہ نہ صرف ان کی تعظیم کرے، بلکہ ان سے نسبت رکھنے والی ہر شے کی تعظیم کرے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ تعظیمِ رسول ہی کا جذبہ تھا، جس کی وجہ سے صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے غارِ ثور میں اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔ اسی مقدس جذبے نے ہی مولا علی رضی اللہُ عنہ کو صلوۃِ وسطیٰ (عصر) بھی ترک کرنے پر ابھارا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جان کی حفاظت اہم ترین فرض: نمازِ عصر کی اہمیت سے بھی انکار نہیں، مگر جب معاملہ میرے حضور ﷺ کا ہو تو سب قربان۔

مدحِ رسول: آپ ﷺ کے فضائل و محاسن کا ذکرِ جمیل ربّ العلمین اور تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام کا مقدس طریقہ ہے۔ ایک امتی پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے محبوب کی مدح و ثناء کرے، ان کے فضائل و کمالات کا ذکر کرے۔ وہ تو ربّ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور نعمت کا چرچا کرنے کا حکم خود رب ارشاد فرمارہا ہے: وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱) (پ30، الضحی: 11)ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

اجمالاً چار حقوق ذکر کئے گئے ہیں ورنہ

شکر ایک کرم کا بھی ہوسکتا نہیں ادا دل تم پہ فدا جانِ حسن تم پہ فدا ہو

آقا کریم ﷺ کے حقوق بالتفصیل جاننے کے لئے مدنی چینل کا سلسلہ درسِ شفاء شریف ملاحظہ فرمائیے۔ 


ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

تفسیر: یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریم ﷺ کی عظمت و شان، مقام و منصب، امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اے نبی ! ہم نے تمہیں امت کے اعمال پر گواہ، اہلِ ایمان و اطاعت کو خوشخبری دینے اور کافر و نافرمان کو اللہ پاک کی گرفت اور عذاب کا ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا ہے، تاکہ اے لوگو! تم اللہ پاک اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی نصرت و حمایت اور تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ پاک کی پاکی بیان کرو۔

امت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیتِ کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:

(1) ایمان، (2) نصرت و حمایت، (3) تعظیم و توقیر۔

1۔ ایمان: محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہےاور یونہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی لازم و ضروری ہے، جوآپ ﷺ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہیں، کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر تمام انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر ایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا۔ اور اب ہمیں بھی آپ ﷺ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ ﷺ پر نثار تے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ ﷺ کی عزت وناموس کی حفاظت، آپ ﷺ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے، بلکہ آپ ﷺ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کرنا چاہئے۔

مذکورہ بالا حقوق کے ساتھ ساتھ علماء و محدثین نے اپنی کتب میں مزید حقوقِ مصطفےٰ ﷺ کو بھی بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔

4۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع: نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضورِ پاک ﷺ کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز انحراف نہیں کرتے۔

5۔ رسولِ پاک ﷺ سے سچی محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا، سید المرسلین ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔

اللہ پاک ہمیں نبیِ پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ 


تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم گنہگاروں کے لئے کتنی مشقتیں برداشت کیں ہیں۔ آج ہمیں ایمان کی دولت میسر آئی، خدا کی معرفت حاصل ہوئی، راہِ حق کا پتا چلا، قرآن ملا، ہماری ہرہر سانس پر سرکارِ دو عالم ﷺ کا احسان ہے۔ آپ کے احسانات ہیں تو امت پر بھی کچھ حقوق ہیں۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنیٰ لفظ ہے۔ ایک طرف سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتے ہیں۔

حضور ﷺ کے اپنی امت پر حقوق: ارشادِباری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریم ﷺ کی عظمت و شان، مقام و منصب، امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح کے بیان پر مشتمل ہے۔

امت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیتِ کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔

1۔ ایمان: محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یونہی اس چیز کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے، کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر انبیاء کرام پر ایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا۔ اور اب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے آپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ کی عزت وناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے، بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ نبیِ کریم ﷺ کے نعلین شریف، مدینہ طیبہ، مسجدِ نبوی، گنبدِ خضریٰ، اہلِ بیت، صحابۂ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا ﷺ کے قدم لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے۔ جیسے نام مبارک سنے تو درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔ اسی ادب و تعظیم کا اہم تقاضا یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کے گستاخوں اور بےادبوں کو اپنے جانی دشمنوں سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے، بلکہ سائے سے بھی دور بھاگے۔ اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں ادنی سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استاد یا پیر ایا عالم ہو یا دنیوی وجاہت و الا کوئی شخص، اسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکتا ہے۔

4۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع: نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضورِ پاک ﷺ کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز انحراف نہیں کرتے۔اس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور موکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی لئے کتبِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں، بلکہ سنن و مستحبات اور آداب و معاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔

5۔ رسولِ پاک ﷺ سے سچی محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا، سید المرسلین ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔ہم پر یہ بھی حق ہے کہ سرورِ موجودات ﷺ کی مدح و ثناء، تعریف و توصیف، فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت و سنن و احوال و خصائص و شمائلِ مصطفےٰﷺ اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند کرے اور اذکارِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔

اللہ پاک ہمیں نبیِ کریم ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور کی ہر بات پر لبیک کہے۔ لہٰذا حضور جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ9، الانفال: 24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول کے بلانے پر حاضر ہو جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔ اس آیتِ مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کے بہت سے حقوق ہیں، ہر مسلمان کے لئے حضور کے تمام حقوق سب سے پہلے ہیں لہٰذا حضور کے حقوق ہر مسلمان پر فرضِ عین ہیں۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔

ہر نبی کے اپنے امتیوں پر حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ کے بھی اپنی امت پر بہت سے حقوق ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے حبیب ﷺ کی اتباع اور اطاعت اختیار کی جائے۔

(1) حضور ﷺ کا ایک حق یہ ہے کہ ان کی پیروی و اطاعت کی جائے، لہٰذا ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸) (پ 9، الاعراف: 158) ترجمہ: تم فرماؤ! اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جو نبی ہیں، (کسی سے ) یہ پڑھے ہوئے نہیں، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو، تاکہ تم ہدایت پالو۔

(2) ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

(3) ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کی تعظیم و توقیر کے ساتھ ساتھ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور حضور ﷺ کے تمام اہلِ بیت کی تعظیم و توقیر بھی ضروری ہے۔ حضور فرماتے ہیں: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اس کی جان و مال یہاں تک کہ ہر چیز سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔

(4) ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ کو آخری نبی مانا جائے۔ اس پر بہت سی احادیثِ مبارکہ اور آیتِ مبارکہ ملتی ہیں۔

ختمِ نبوت اور قرآنی آیات:

اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ (پ6، المائدہ:3) ترجمہ کنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب:40)ترجمہ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔

ختمِ نبوت اور احادیثِ مبارکہ: حضور ﷺ نے فرمایا: بےشک رسالت اور نبوت ختم ہوگئی۔ اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ کوئی نبی۔

حضور ﷺ نے فرمایا: بےشک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں، کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔

حضور ﷺ نے فرمایا: مجھے 6 وجوہ سے انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر فضیلت دی گئی ہے: (1) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں۔ (2) رعب سے میری مدد کی گئی ہے۔ (3) میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے نبیوں پر حلال نہ تھا۔ (4) تمام روئے زمین کو میرے لئے طہارت اور نما زکی جگہ بنادیا گیا ہے۔ (5) مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے۔ (6) اور مجھ پر نبیوں (کے سلسلے) کو ختم کردیا گیا ہے۔

(5) امتی پر حق ہے کہ وہ اپنے نبی سے محبت کرے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ساداتِ کرام کی تعظیم کریں، جو ساداتِ کرام کی توہین و گستاخی کرے، ان سے دشمنی رکھیں، آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ لباس ہو، جگہ ہو یا آپ کی آل و اولاد ہو، ان سب)کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ حضور ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ ﷺ کے اہلِ بیت سے بھی محبت کی جائے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو، میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہے۔

اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


حبیبِ خدا، مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربارِ باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے۔ یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ ﷺ کے پاؤں مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ چنانچہ آپ نے اپنی امت کے لئے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔ چنانچہ حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب شفاء شریف میں چند حقوقِ مصطفےٰ بیان فرمائے ہیں، جن میں سے پانچ حقوق یہاں بیان کئے جائیں گے۔

1۔ ایمان بالرسالت: محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی نبوت اور رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں، صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے تین باتوں کو حلاوتِ ایمانی کے حصول کی علامت قرار دیا ہے، جن میں سے ایک یہ ہےکہ بندے کی نظر میں اللہ پاک اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہوجائے۔ (بخاری، ص74، حدیث: 16 مفہوما)

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں

(سامانِ بخشش، ص102)

2۔ اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر حق ہے کہ ہرحال میں آپ ﷺ کا ہر حکم مان کر اس پر عمل کرے اور خلاف ورزی کا تصور نہ کرے، کیونکہ آپ ﷺ کی اطاعت ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ایک اور مقام پر ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ لہٰذا ہم پر لازم ہے کہ ہر قسم کے قول و فعل میں آپ ﷺ کی اطاعت کی جائے۔

3۔ محبتِ رسول: اسی طرح ہر امتی پر یہ بھی فرض ہے کہ ہر چیز سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے۔ حدیثِ پاک میں ہے: تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک میں اس کے نزدیک اس کی جان سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (اسد الغابہ، 7/223)

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

4۔ درود شریف: امتی پر واجب ہے کہ جب سرکارِ دوعالم ﷺ کا نام مبارک پڑھے یا سنے تو آپ پر درود بھیجے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔

5۔ قبرِ انور کی زیارت: بہارِ شریعت میں ہے کہ زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہُ شَفَاعَتِیْ یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔

اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ جب حرمین طیبین میں حاضری ہو تو روضۂ رسول ﷺ پر ضرور حاضری دیں اور اپنے قلب و جگر کو ٹھنڈا کریں۔

اللہ پاک ہمیں نبیِ پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین