تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم گنہگاروں کے لئے کتنی مشقتیں برداشت کیں ہیں۔ آج ہمیں ایمان کی دولت میسر آئی، خدا کی معرفت حاصل ہوئی، راہِ حق کا پتا چلا، قرآن ملا، ہماری ہرہر سانس پر سرکارِ دو عالم ﷺ کا احسان ہے۔ آپ کے احسانات ہیں تو امت پر بھی کچھ حقوق ہیں۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنیٰ لفظ ہے۔ ایک طرف سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتے ہیں۔

حضور ﷺ کے اپنی امت پر حقوق: ارشادِباری تعالیٰ ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

یہ آیتِ مبارکہ رسولِ کریم ﷺ کی عظمت و شان، مقام و منصب، امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح کے بیان پر مشتمل ہے۔

امت پر نبیِ کریم ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیتِ کریمہ کو دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ ﷺ کے حقوق بیان فرمائے ہیں۔

1۔ ایمان: محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یونہی اس چیز کو تسلیم کرنا بھی ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں، بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے، کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے اور آپ کے احسانات تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہیں۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں، اگرچہ وہ دیگر انبیاء کرام پر ایمان رکھتا ہو۔

2۔ رسول اللہ ﷺ کی نصرت و حمایت: اللہ پاک نے روزِ میثاق تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام سے اپنے حبیب ﷺ کی نصرت و مدد کا عہد لیا تھا۔ اور اب ہمیں بھی آپ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے آپ کی تائید و نصرت میں جان، مال، وطن، رشتے دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ ڈھال بن کر پروانوں کی طرح آپ پر نثار ہوتے رہے۔ فی زمانہ بھی آپ کی عزت وناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقاء و ترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور مسلمانوں پر لازم ہے۔

3۔ رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِ کریم ﷺ کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے، بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ نبیِ کریم ﷺ کے نعلین شریف، مدینہ طیبہ، مسجدِ نبوی، گنبدِ خضریٰ، اہلِ بیت، صحابۂ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا ﷺ کے قدم لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ ادب و تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظ رکھے۔ جیسے نام مبارک سنے تو درود و سلام کا نذرانہ پیش کرے۔ اسی ادب و تعظیم کا اہم تقاضا یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کے گستاخوں اور بےادبوں کو اپنے جانی دشمنوں سے بڑھ کر ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و تقریر نہ سنے، بلکہ سائے سے بھی دور بھاگے۔ اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں ادنی سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا استاد یا پیر ایا عالم ہو یا دنیوی وجاہت و الا کوئی شخص، اسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکتا ہے۔

4۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع: نبیِ کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضورِ پاک ﷺ کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز انحراف نہیں کرتے۔اس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور موکد و مستحب چیزیں بھی۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے۔ اسی لئے کتبِ احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں، بلکہ سنن و مستحبات اور آداب و معاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے۔

5۔ رسولِ پاک ﷺ سے سچی محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا، سید المرسلین ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔ہم پر یہ بھی حق ہے کہ سرورِ موجودات ﷺ کی مدح و ثناء، تعریف و توصیف، فضائل و کمالات، ذکرِ سیرت و سنن و احوال و خصائص و شمائلِ مصطفےٰﷺ اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند کرے اور اذکارِ مبارکہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔

اللہ پاک ہمیں نبیِ کریم ﷺ کے تمام حقوق بجالاتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین