ہمارےآخری نبی ﷺ  نے اپنی امت کی ہدایت واصلاح کے لیے جیسی جیسی تکلیفیں برداشت فرمائیں وہ ہم سب پرعیاں ہیں۔ آپ ﷺ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اورامتیوں پر آپ ﷺ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے۔ اس پر قرآن میں پارہ11،سورۂ توبہ آیت نمبر128میں ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

حق کے لغوی واصطلاحی معنی: حق کا لغوی معنی ہے:واجب کرنا۔(منجد)یعنی حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔علمائے کرام نے اپنی کتابوں میں اور بالخصوص قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب شفاء شریف میں امتیوں پر نبیِ پاک ﷺکے جو آٹھ حقوق بیان فرمائے ہیں وہ اجمالاً اور ان میں سے پانچ حقوق تفصیلاً بیان کئے جاتے ہیں:

1۔ ایمان بالرسول:حضورﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 826)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

تفسیر: ان (دونوں پر ایمان لانے) میں سے کسی ایک کا بھی منکر ہو وہ کافر ہے۔(تفسیرصراط الجنان)بندہ ساری زندگی لا الہ الا اللّٰه پڑھتا رہے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک دل کی گہرائیوں سے اس کے بعد محمد رسول اللّٰه نہ کہے۔

2۔ اِتِّباع سنتِ رسول:حضور اقدسﷺکی سیرت ِمبارکہ اور آپ کی سنتِ مقدسہ کی اِتِّباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ ( سیرتِ مصطفٰی، ص 827)اللہ پاک کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:ہر شخص کو حضور کی اِتِّباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔(صراط الجنان)انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے اس کی اداؤں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حضورﷺکی سنتوں کو اپنایا جائے۔

3۔ اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ خداﷺ کا حق یہ ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور جس بات کا حکم فرمائیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے۔کیونکہ یہ ہر امتی کا فرضِ عین ہے۔ (سیرتِ مصطفٰی،ص 829)الله پاک فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4۔ محبتِ رسول: ہرامتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپﷺکی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔ (سیرتِ مصطفٰی، ص 831) احادیث مبارکہ سے بھی ہمیں یہ درس حاصل ہوتا ہے کہ محبتِ رسول کے بغیر دعوی ایمان کامل نہیں ہو سکتا۔

5۔ تعظیمِ رسول: اُمت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اَہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر اُمتی پر فرضِ عین ہے کہ حضور اور آپ سے نسبت رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔رب کریم کا فرمانِ عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ لہٰذا حضور ﷺ کے کمالِ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی تعظیم و تکریم کی جائے اور ہر گز ہرگز آپ کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کی جائے۔ اللہ کریم ہمیں حقوقِ مصطفٰےاحسن انداز میں اداکرنےکی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ