دنیا کا دستور ہے کہ جس کے جتنے احسان زیادہ ہوتے ہیں، اُس کے حقوق بھی اس قدر بڑھ جاتے ہیں۔ جانِ کائنات ﷺ تو اس کائنات کے وجود میں آنے کا سبب ہیں، آپ ﷺ رحمۃ للعلمین ہیں، مومنوں کے حق میں روف و رحیم ہیں۔ آپ ہی کی وجہ سے اس امت کو خیرِ امت کا لقب ملا، ولادت کے وقت بھی امت کو یاد فرمارہے تھے، شبِ معراج بھی امت کو یاد رکھا، حتی کہ ظاہری وصال شریف کے وقت بھی لبِ اقدس پر امتی امتی جاری تھا۔ اس عظیم محسن کے بےشمار حقوق میں سے صرف 5 کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے۔

ایمان بالرسول:آخری نبی ﷺ پر ایمان لانا اور آپ کے لائے ہوئے احکامات کو حق جاننا فرضِ عین ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: محمد رسول اللہ ﷺ کو ہر بات میں سچا جانے، حضور ﷺ کی حقانیت کو صدقِ دل سے ماننا ایمان ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 29/254)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ علم القرآن کی اصطلاح میں ایمان کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضور ﷺ کو اپنا حاکمِ مطلق جانے۔ (علم القرآن، ص39)

محبتِ رسول: ہر امتی پر یہ حق ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو سارے جہان سے بڑھ کر محبوب جانے۔ خود فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باب، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، ص 74، حدیث: 15)

اطاعتِ رسول: اللہ پاک قرآن کریم میں فرماتا ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔ بلکہ خود قرآن کریم میں اللہ پاک نے نبیِ کریم ﷺ کی اطاعت نہ کرنے والوں کے لئے وعید ارشاد فرمائی: وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًاؕ(۳۶) (پ 22، الاحزاب، 36) ترجمہ کنز الایمان: اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا، وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔

تعظیمِ رسول: ایک امتی پر اس کے پیارے نبی ﷺ کا حق یہ ہے کہ وہ نہ صرف ان کی تعظیم کرے، بلکہ ان سے نسبت رکھنے والی ہر شے کی تعظیم کرے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ تعظیمِ رسول ہی کا جذبہ تھا، جس کی وجہ سے صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے غارِ ثور میں اپنی جان کی بھی پروا نہ کی۔ اسی مقدس جذبے نے ہی مولا علی رضی اللہُ عنہ کو صلوۃِ وسطیٰ (عصر) بھی ترک کرنے پر ابھارا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

جان کی حفاظت اہم ترین فرض: نمازِ عصر کی اہمیت سے بھی انکار نہیں، مگر جب معاملہ میرے حضور ﷺ کا ہو تو سب قربان۔

مدحِ رسول: آپ ﷺ کے فضائل و محاسن کا ذکرِ جمیل ربّ العلمین اور تمام انبیاء و مرسلین علیہمُ السّلام کا مقدس طریقہ ہے۔ ایک امتی پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے محبوب کی مدح و ثناء کرے، ان کے فضائل و کمالات کا ذکر کرے۔ وہ تو ربّ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہیں اور نعمت کا چرچا کرنے کا حکم خود رب ارشاد فرمارہا ہے: وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۠(۱۱) (پ30، الضحی: 11)ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

اجمالاً چار حقوق ذکر کئے گئے ہیں ورنہ

شکر ایک کرم کا بھی ہوسکتا نہیں ادا دل تم پہ فدا جانِ حسن تم پہ فدا ہو

آقا کریم ﷺ کے حقوق بالتفصیل جاننے کے لئے مدنی چینل کا سلسلہ درسِ شفاء شریف ملاحظہ فرمائیے۔