تاریخ کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ اللہ کے
پیارے رسول ﷺ نے ہم گنہگاروں کے لیے کتنی
مشقتیں برداشت کیں ہیں۔آج ہمیں جو ایمان کی دولت میسر آئی،خدا کی معرفت حاصل
ہوئی،معبودِ برحق کی عبادت کا سلیقہ ملا، راہِ حق کا پتہ ملا،زندگی گزارنے کے
قواعد و ضوابط ملے،قرآن ملا،قرآن کے احکام کو سمجھنے کا سلیقہ ملا،اللہ کے اوامر
و نواہی کا پتہ چلا،حلال و حرام کی تمیز سمجھ میں آئی،ہمیں آج جو زندگی ملی،لذتِ
بندگی ملی حتّٰی کہ ہماری ہر ہر سانس پر سرکارِ دوعالم ﷺ کا احسان ہے۔ کیوں کہ آپ ہی کے صدقہ و طفیل
دنیا و ما فیہا کی تخلیق ہوئی ہے۔جب اس قدر ہم پر آپ کے احسانات ہیں تو ہم امت پر
بھی آپ کے کچھ حقوق ہیں۔
حق کی تعریف:حق کے
لغوی معنی واجب کرنا ہے۔حق وہ کام ہے جس کا کرنا تمہارے لائق ہو یا تم پر واجب ہو۔
ایمان بالرسول:اللہ
پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ
بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)
(پ26، الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لایا تو یقیناً ہم نے
کافروں کے لیے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں اس بات کی مکمل طور پر
وضاحت ہے کہ جو لوگ رسول کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگر چہ پوری زندگی
خدا کی توحید کا اقرار کرتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لیے کہ
بغیر ایمان بالرسالت کے ایمان بالتوحید معتبر ہی نہیں۔
اِتِّباع سنت:اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ
یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۳۱) ( اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے محبوب! تم فرمادو کہ لوگو! اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت میں سرکار دوعالم ﷺ کی اِتِّباع و پیروی کو محبتِ خداوندی کی دلیل
قرار دیا گیا ہے۔گویا اِتِّباع رسول کے بغیر اگر کوئی شخص محبتِ خدا کا دعویٰ کرے
تو وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے۔
محبتِ رسول:محبتِ رسول
کے حوالے سے قرآنِ مقدس فرما رہا ہے:قُلْ اِنْ كَانَ
اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (التوبۃ:24) ترجمہ:تم فرماؤ
اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ
اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے
پسندیدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری
ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں
دیتا۔ اس آیت میں اس بات کی صراحت ہے کہ محبتِ رسول اسی طرح فرض ہے جس طرح محبتِ
خدا فرض ہے۔حتی کہ دنیا کی کسی چیز کی محبت ایک مومن کے دل میں اللہ اور اس کے
رسول کی محبت سے زیادہ نہیں ہونی چاہئے۔
محمد کی
محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نا مکمل ہے
تعظیم ِرسول: تعظیمِ رسول کا حکم
دیتے ہوئے قرآنِ مقدس میں فرمایا گیا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ
مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللہ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)
(الفتح:9)ترجمہ: بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ
اے لوگو! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور
صبح و شام اللہ کی پاکی بولو۔
مذکورہ آیت میں غور کریں تو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ تعظیمِ
رسول کے لیے اللہ نے کسی وقت کا تعین نہ فرمایا، لیکن تسبیح کے لیے صبح و شام کا تعین فرما دیا۔ گو آیت کا خلاصہ یہ ہو
گا کہ جہاں تک تم سے ممکن ہو اللہ کی حمد و ثنا کرو اور تسبیح و تہلیل کرو۔ لیکن
تعظیمِ رسول ہر وقت، ہر لمحہ، ہر آن ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مولیٰ علی
نے واری تِری نیند پر نماز وہ
بھی نمازِ عصر جو اعلیٰ خطر کی ہے
ثابت ہوا
کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصلُ
الاصول بندگی اس تاجور کی ہے
درود شریف:درود شریف
کے حوالے سے حکم فرماتے ہوئے اللہ پاک نے
ارشاد فرمایا:اِنَّ
اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)
(الاحزاب:56)ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے
نبی پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔اس آیت میں اللہ پاک نے اس بات کا ذکر فرمایا کہ اللہ بھی اپنے نبی
پر درودبھیجتا ہے، اس کے فرشتے بھی نبی پر درود بھیجتے ہیں۔پھر ایمان والو کو یہ
حکم فرما رہا ہے کہ تم بھی میرے نبی پر درود و سلام کا نذرانہ پیش کرو۔ پتہ چلا کہ
درود شریف پڑھنا کوئی بدعت نہیں بلکہ رب خود آپ پر درود بھیجتا ہے۔اللہ پاک ہم تمام کو مومن کامل اور عاشقِ صادق رہ
کرزندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور حقوق اللہ، حقوق الرسول اورحقوق العباد کی
ادائیگی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آخری دم اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دیار میں دو گز زمین عطا فرمائے۔آمین بجاہ
النبی الکریمﷺ