حضور ﷺ کے اپنی امت پر بے شمار احسانات کے ساتھ ساتھ حقوق بھی ہیں۔ اگر چہ آقا ﷺ کے حقوق پورے کرنا انسان کے بس کی بات  نہیں مگر اپنی طرف سے ہمیں کو تا ہی نہیں کرنی چاہیے۔ اگر بندہ آقا ﷺ پر اپنی سانسو ں کی تعداد کے برابر درودِ پاک پڑھے تو بھی آپ کا حق ادا نہ کر سکے گا۔

حق: کسی کو وہ چیز دینا جو اس چیز کا مستحق ہو حق کہلاتا ہے۔حضورﷺ کے جو اپنی امت پر حقوق ہیں وہ پیشِ خدمت ہیں:

ایمان بالرسول: آپ ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ جو کچھ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اس کی تصدیق فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں کہلا سکتا۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔اس آیت میں بتا دیا گیا ہے کہ جو ایمان با للہ اور ایمان بالرسول کا جامع نہ ہو وہ کافر ہے۔

اطاعتِ رسول:حضور ﷺ کی اطاعت واجب ہے۔ آپ کے احکامات کی تعمیل اور جن سے آپ نے منع فرمایا ہے،ان سے اجتناب لازم ہے۔ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:اور جو کچھ رسول تمہیں عطا فر مائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔ اسے چاہیے کہ بے چون و چراں آقاﷺ کی اطاعت کرے۔

اتباعِ رسول: حضور ﷺ کی اقتداء و اِتِّباع واجب ہے۔ قرآنِ مجید آپ کی اتباع کی تائید یوں فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31) ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت سےظاہر کہ آپ کسی کام کی طرف بلائیں تو آپ کی اتباع لازم ہے کیونکہ آپ جس کام کی طرف بلاتے ہیں وہ ہمارے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اس میں ہماری نجات ہے۔ اس لیے واجب ہے کہ آپ کی اتباع کی جائے۔

عشقِ رسول: رسول الله ﷺکے حقوق میں سے ایک حق آپ سے محبت کرنا ہے۔آپ سے محبت واجب قرار دی گئی ہے نیز آپ کی محبت کے بغیر ایمان کی تکمیل ممکن نہیں۔ قرآنِ مجید آپ کی محبت کا یوں اقرار کرتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24) ترجمہ: (اے رسول )آپ فرما دیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ اللہ و رسول ﷺکی محبت واجب ہے اور ان کی محبت پر غیر کی محبت کو تر جیح نہیں دینی چاہیے۔ آیت کے اخیر حصے سے ظاہر ہے کہ جس کو اللہ و رسولﷺ سے محبت نہیں وہ فاسق ہے۔

تعظیم ِرسول: تعظیم بھی آقا ﷺ کے حقوق میں سے ہے۔قرآنِ پاک میں آپ کی تعظیم کایوں ذکر ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات:1) اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک الله سننے والا جاننے والا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر واجب ہے۔ حضورﷺکی تعظیم کوئی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے سیکھے۔ صحابہ کرام آپ کی مجلس میں اس طرح بیٹھتے گویا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔ یہ حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ کے ادب کی حد تھی کہ انہوں نے آپ کے بغیر عمرہ کرنا مناسب نہ سمجھا اور کہا کہ میں آقا ﷺ کے بغیر عمرہ نہ کروں گا۔ نیز جس ہاتھ سے رسول ﷺ سے بیعت کی وہ ہاتھ بھی اپنی شرمگاہ پر نہ رکھا۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان اس قدر با ادب تھے کہ اگر انہیں غسل کی حاجت ہوتی تو وہ بغیر غسل کیے آپ کی خدمت میں حاضر نہ ہوتے۔صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صدقے اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی تعظیم کرنے اور آپ کے حقوق پورے کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین