دینِ اسلام میں حقوق العباد کی ادائیگی کی بے حد تاکید فرمائی گئی ہے۔ہر شخص
پر اس کے والدین،استاد، حاکم، پیر اور بزرگوں کے کچھ حقوق ہوتے ہیں، جن کو ادا
کرنا اس کے لیے ضروری بھی ہوتا ہے اور دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بھی۔ اسی
طرح ہر امت پر اپنے نبی کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں۔حضور خاتم النبیین، رحمۃ
للعالمین ﷺ کے حقوق اپنی امت پر سب سے زیادہ ہیں، کیونکہ آپ کے احسانات بھی امت پر
بےحد و بےشمار ہیں۔درحقیقت امت کی انفرادی اور اجتماعی کامیابی و کامرانی آپ ﷺ کے
حقوق کی ادائیگی پر ہی موقوف ہے۔ (مقالات قادری،ص 124 تا 126 ملتقطاً) رسول اللہ کے 5 حقوق درج ذیل ہیں:
1-ایمان بالرسول: آپ ﷺ کی نبوت
و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اس کی تصدیق
کرنا فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا۔ (سیرتِ رسولِ
عربی، ص 633) قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ
لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
2-اطاعتِ رسول اور سنت پر عمل: حضور
ﷺ کی اطاعت، آپ کے احکامات کی تعمیل، جن کاموں سے آپ نے منع فرمایا ان سے اجتناب
کرنا اور آپ کی سیرت و سنت کی پیروی کرنا واجب ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص 633) قرآنِ
کریم میں بہت سے مقامات پر رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا گیا
ہے۔جیساکہ ارشادِ ربانی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ نیز اِتِّباع سنت کے متعلق ارشاد
فرمایا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ
رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ 21، الاحزاب: 21) ترجمہ:
بیشک تمہارے لیےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے:عبادات، معاملات، اخلاقیات،
سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں اور نعمتوں پر اللہ پاک
کا شکر ادا کرنے میں، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور
ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت ﷺ کی مبارک زندگی اور سیرت
میں ایک کامل نمونہ موجود ہے۔ لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص
مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اَقوال،اَفعال،اَخلاق اور اپنے دیگر احوال میں سیّد
المرسلین ﷺ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا
ہوں اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سیّد العلَمین ﷺ کی پیروی کریں۔ (تفسیر صراط الجنان)
3-محبتِ رسول:آپ ﷺ کی
محبت واجب ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:تم میں سے کوئی مومن(کامل)نہیں ہوسکتا، جب تک میں
اُسے اس کے باپ، اس کی اولاد اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں۔ (بخاری،1/17،
حدیث:15) رسول اللہ ﷺ کی محبت میں وہ سچا ہے جس پر اس کی علامتیں ظاہر ہوں۔وہ
علامتیں یہ ہیں: آپ کے احکامات کو اپنی خواہشات پر ترجیح دے۔ آپ کا بکثرت ذکر کرے۔
آپ کی زیارت کا شوق رکھے۔آپ سے محبت کی وجہ سے اہلِ بیت اور تمام صحابہ کرام علیہم
الرضوان سے محبت رکھے۔ آپ کی پسند کو پسند کرے اور ناپسند کو ناپسند۔ آپ کی امت کے
ساتھ خیرخواہی کرے۔(شفاملتقطاً)
4-تعظیمِ رسول اور آثار شریفہ کی تعظیم:آپ
ﷺ کے ذکر کے وقت، آپ کی حدیث و سنت، آپ کے اسمِ گرامی اور سیرتِ مبارکہ، آپ کے صحابہ و اہلِ بیت کا ذکر
سنتے وقت تعظیم و توقیر واجب ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص 334) قرآنِ کریم میں ارشادِ
باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ پاک کی
بارگاہ میں حضور پُرنور ﷺ کی تعظیم اور توقیر انتہائی مطلوب اور بے
انتہا اہمیت کی حامل ہے۔ کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی تسبیح پر اپنے
حبیب ﷺ کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان) آپ
ﷺ کے ادب و احترام میں سے یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی محافلِ مقدسہ، مقاماتِ مکہ مکرمہ
و مدینہ منورہ اور دیگر جگہیں نیز وہ تمام
تبرکات جو آپ ﷺ سے منسوب ہوں، ان کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ (شفا، ص 346 ملتقطا)
5-روضۂ مبارکہ کی زیارت: آپ
ﷺ کے روضہ شریف کی زیارت بِالاِجماع سنت اور فضیلتِ عظیمہ ہے۔ (سیرتِ رسول عربی، ص
696)حدیثِ مبارکہ میں ہے:جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی، اس نے گویا میری
زندگی میں میری زیارت کی۔ (دار قطنی،3،حدیث: 2694)اللہ پاک ہمیں اپنے رسول ﷺ کے
حقوق ادا کرنے والا بنائے،حقیقی عشقِ رسول عطا فرمائے اور آپ ﷺ کے وسیلۂ جلیلہ سے
دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ