ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔یہ آیت مبارکہ
رسول اللہ ﷺ کی عظمت و شان،مقام و منصب،امت پر لازم حقوق اور اللہ پاک کی تسبیح و
عبادت کے بیان پر مشتمل ہے۔(تفسیر خازن،4/103)
امت پر نبی پاک ﷺ کے حقوق کے پہلو سے اس آیت مبارکہ کو
دیکھا جائے تو اس میں اللہ پاک نے آپ کے تین حقوق بیان فرمائے ہیں:ایمان،نصرت و
حمایت اور تعظیم و توقیر۔یہاں ان تینوں حقوق کو کچھ تفصیل سے بیان کرکے مزید چند حقوق کے بارے میں ذکر
کیا جائے گا تاکہ علم میں اضافہ ہو اور عمل کی توفیق ہو۔آئیے حق کی تعریف جانیے کہ حق کسے کہتے ہیں۔
حق کے لغوی معنی
صحیح،مناسب،درست،ٹھیک،موزوں،بجا،واجب،سچ،انصاف،جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اس
طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب
اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر اپنا کہہ سکتی ہیں یا اس کی بابت
اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔
1-ایمان:حضور پاک
ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھنا فرض ہے اور یوں ہی ہر اس چیز کو تسلیم کرنا بھی
لازم و ضروری ہے جو آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔یہ حق صرف مسلمان پر نہیں بلکہ
تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپ تمام
انسانوں کے لئے رسول ہیں اور آپ کے احسانات تمام مخلوق پر ہیں۔جو آپ ﷺ پر ایمان نہ
رکھے وہ مسلمان نہیں اگرچہ وہ دیگر تمام
انبیائے کرام علیہم السلام پر ایمان رکھتا ہو۔
2- رسول اللہ ﷺ کی نصرت وحمایت:اللہ
پاک نے روزِ میثاق تمام انبیائے کرام و مرسلین علیہم السلام سے اپنے حبیب ﷺ کی
نصرت و مدد کا عہد لیا تھا اور اب ہمیں بھی آپ ﷺ کی نصرت و حمایت کا حکم دیا
ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ ﷺ کی تائید و نصرت میں جان،مال،وطن،رشتے
دار سب کچھ قربان کردیا۔ دورانِ جنگ پروانوں کی طرح آپ ﷺ پر نثار ہوتے رہتے۔فی
زمانہ بھی آپ کی عزت و ناموس کی حفاظت، آپ کی تعلیمات و دین کی بقا وترویج کی کوشش اسی نصرت و حمایت میں داخل اور
مسلمانوں پر لازم ہے۔
3- رسول اللہ ﷺ کی تعظیم و توقیر:ایک
انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان،روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر طرح سے نبی
کریم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و
احترام کیا جائے۔ادب وتعظیم میں یہ بھی
داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن،اقوال و افعال میں امورِ تعظیم کو ملحوظِ خاطر رکھے جیسے نامِ مباک سنے تو درود پاک پڑھے۔سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو
آنکھیں جھکالے اور دل کو خیالِ غیر سے پاک رکھے۔ اسی ادب و تعظیم کا اہم
تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے گستاخوں اور
بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر ناپسند کرے اور ایسوں کی صحبت سے بھی دور
رہے اور اگر کسی کو حضور ﷺ کی ادنیٰ سی بھی توہین کرتا پائے چاہے وہ استاد،باپ،عالم،پیر،
غرض کوئی بھی ہو اسے دودھ سے مکھی کی طرح باہر پھینک دے۔
4- رسول اللہ ﷺ کی اطاعت:رسول
اللہ ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات
کا حکم ہوا ہے اسے بجالائیں۔جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے
روکیں اس سے رکا جائے۔
5-رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت:امتی
پر حق ہے کہ وہ حضور پاک ﷺ کا ہر حکم ماننے کے ساتھ ساتھ ہر چیز سے بڑھ کر حضور
پاک ﷺ سے سچی محبت کرےکہ آپ ﷺ کی محبت روحِ ایمان،جانِ ایمان اور اصلِ ایمان
ہے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ،دسمبر 2017،ص3-4)اس کے علاوہ بھی حضور پاک ﷺ کے ہم پر بے
شمار حقوق ہیں۔اللہ پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا
فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریم ﷺ