ہمارے پیارے نبی ﷺ الله پاک کے آخری نبی ہیں۔حضور اقدس ﷺنے
اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لیے بہت تکلیفیں برداشت کی
ہیں۔ آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک
ایک امتی پر آپ کی شفقت اور حمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا
فرمان گواہ ہے: لَقَدْ
جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ
عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11،
التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن
پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔
پانچ حقوق:
ایمان بالر سول: حضور اقدس ﷺکی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور
جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر
فرض عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز
ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے: وَ
مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا
لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ
لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اس
آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول ﷺکی رسالت
پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں۔مگر وہ
کافر اور جہنمی ہی رہیں گے، اس لیے اسلام کا بنیادی کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہے یعنی مسلمان
ہونے کے لیے خدا کی توحید اور رسول ﷺکی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدس
ﷺ کی سیرت مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و
لازم ہے۔ رب العزت کا فرمان ہے کہ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ
اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
(پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے
گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
اس لئے آسمانِ امت
کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اللہ ورسولﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضی
اللہ عنہم آپ کی ہرسنت کریمہ کی اتباع وپیروی کو اپنی زندگی کے ہردم قدم پر اپنے
لیے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے
تھے اور بال بر ابر بھی کبھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسولﷺ کی مقدس سنتوں سے
انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔
اطاعتِ رسول: یہ بھی
ہر امتی پر رسولِ خد اﷺکاحق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے
اور آپ جس بات کا حکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا
تصور بھی نہ کرے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59) ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم
مانو رسول کا۔ مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80)
ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
قرآن ِمجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ
رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعتِ رسول کرنے والوں کے
لیے ایسےایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیا و صدیقین اور شہداو صالحین کے ساتھ
رہیں گے۔
محبتِ رسول:ہر امتی پر رسول اللہ ﷺکا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر
آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پہ قربان کر
دے۔ خداوند قدوس کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ
وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ
اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10،
التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور
تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ
سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ
اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر الله پاک اور اس کے
رسول ﷺ کی محبت فرض عین ہے۔نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہےکہ جس کے
دل میں اللہ ورسول کی محبت نہیں یقیناً اس
کے ایمان میں خلل ہے۔
میں سو جاؤں
یا مصطفٰےکہتے کہتے کھلے
آنکھ صَلِّ عَلٰی کہتے کہتے
تعظیمِ رسول:حضورﷺ
کے حقوق میں ایک نہایت اہم اوربہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہرا متی پر فرض عین ہے
کہ حضور اکرم ﷺاور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب اور احترام کرے اور ہرگز ہر گز
کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین کا فرمانِ عالی شان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
ہم غریبوں
کے آقا پہ بے حد درود
ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام