اللہ پاک نے ہمیں بلا کسی استحقاق کے محض اپنی عنایت سے جس عظیم الشان، جلیل المرتبت، رفیع المرتبت نبی ﷺ کی امت میں پیدا فرمایا، اس کا شکر اور تقاضا ہے کہ اس نبی کے جو حقوق ایک امتی ہونے کی حیثیت سے ہم پر عائد ہوتے ہیں ہم انہیں جانیں اور انہیں ادا کرنے کا مکمل اہتمام کریں۔حقوقِ مصطفٰے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہیں جانے اور ادا کئے بغیر ہمارے ایمان و اعمال میں کمال نہیں پیدا ہو سکتا۔ امت پر نبیﷺ کے حقوق کے پہلو سے اگر قرآنِ پاک کو دیکھا جائے تو اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں اپنے محبوب ﷺ کے کئی حقوق بیان فرمائے  ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ علما و محدثین نے بھی اپنی کتب میں”حقوقِ مصطفٰے “ کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔یہاں اختصار کے ساتھ 5 حقوق ملاحظہ ہوں:

حق کسے کہتے ہیں؟ حق کے لغوی معنی صحیح،موزوں، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔اسی طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسےقانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتی ہیں۔

1-ایمان بالرسول: رسولِ خدا ﷺپر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں اس کو صدقِ دل سےسچا ماننا ہر مسلمان پر ہی نہیں بلکہ ہر انسان کے لیے لازم ہے کیونکہ آپ تمام انسانوں کے لیے رسول ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہر گز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا کیونکہ محض توحید و رسالت کی گواہی کافی نہیں بلکہ کامل ایمان کے لیے ایمان بالرسول ہی ضروری ہے۔

2- اطاعتِ رسول:یہ بھی ہر امتی پر آپ ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے حکم کی اطاعت کرے۔ آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے اور آپ کے حکم کے آگے سر ِتسلیم خم کر دے۔ اگر حضور ﷺ کا اپنے امتی پر اس حق کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے تو ارشاد باری ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

وضاحت:اس آیت میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو درحقیقت اللہ کی اطاعت فرمایا گیا تو جس نے ان کی اطاعت سے اعراض کیا اس کا وبال اسی پر ہے۔

3-محبتِ رسول:اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺکی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی پر رسول الله کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت کرے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کردے۔

4- درود شریف: حضور ﷺ کے اپنی امت پر اس حق کے تو کیا ہی کہنے ! کہ ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر کی بارگاہ میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے میں اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے نیز اس حق کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔

5- تعظیمِ رسول:حضور ﷺ کی تعظیم و توقیر انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اللہ پاک نے اس کا حکم قرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

وضاحت:اس آیت میں اللہ نے رسول ﷺ کو مبعوث فرمانے کے مقاصد میں سے ایک مقصد بیان فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ لوگ آپ کی تعظیم و توقیر کریں۔ (تفسیرصراط الجنان) لہٰذا آپ کے ہر امتی پر آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کی تعظیم بجا لانا ضروری ہے۔الله پاک ہمیں نبی پاک ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین