حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور ان کی صلاح و فلاح کے لئے بہت سی تکلیفیں برداشت کیں،پھر آپ کو اپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اس کی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت  ورحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند کریم کا یہ فرمان گواہ ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ( التوبۃ:128)ترجمہ: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا نا گوار ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر بہت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔

پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے،یہاں تک کہ کھڑےکھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آجاتا تھا۔ظاہر ہے کہ حضور ﷺ نے اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

ایمان بالرسول:حضور اقدس ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرضِ عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہرگز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہوسکتا۔قرآن میں خداوند عالم کا فرمان ہے:وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔

درود شریف:ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے، چنانچہ خالقِ کائنات کا حکم ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ حضور کریم ﷺ کا ارشاد ہے:جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اللہ اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجتا ہے۔

اللہ اکبر! شہنشاہِ کونین کی شان محبوبیت کا کیا کہنا! ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر جمیل کی بارگاہ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوند جلیل اس کے بدلے میں دس رحمتیں اس بندے پر نازل فرماتا ہے۔

اتباعِ سنتِ رسول:حضور اقدس ﷺ کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔رب کائنات کا فرمان ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے،ہدایت کے چاند تارے،اللہ و رسول ﷺ کے پیارے صحابہ کرام آپ ﷺ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کسی معاملہ میں اپنے پیارے رسول ﷺ کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔

اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسول ﷺ کا یہ بھی حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے۔قرآنِ مجید میں ارشاد خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارے کو اپنے ہاتھ میں لے؟حضور ﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی کو اٹھالے اور اس سے نفع اٹھا تو اس نے جواب دیا:خدا کی قسم:جب رسول ﷺ نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھاسکتا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/78)

تعظیمِ رسول:امت پر حضور ﷺ کے حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے۔فرمانِ رحمٰن ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور کریم ﷺ سے کچھ پوچھنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر کمالِ ادب اور آپ کی ہیبت سے برسوں تک بھی نہ پوچھ سکا۔(شفاء،2/32)