رسول الله ﷺ نے اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں نیز آپ کی اپنی امت کی نجات و مغفرت کی فکر اور اس پر آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے، چنانچہ پارہ 11 سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 128 میں ارشاد ہوتا ہے۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے کچھ حقوق ہیں جن کو اداکرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائر مطالبہ کے ہیں، ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے، دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانونا اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں وہ اصول جو ایک فرد کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔

امت پر حقوقِ مصطفیٰ: حضور ﷺ کے اپنے امتیوں پر جو حقوق ہیں ان میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں؛

1۔ اتباع سنت رسول: سرور کائنات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

2۔ اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسول خدا ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے، کیونکہ آپ کی اطاعت کرنا ہر امتی پر فرض عین ہے، چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لیے بلند درجات ہیں۔

3۔ تعظیمِ رسول: امت پر ایک بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام بجالائے، جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان عالیشان ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

4۔ درود شریف: اللہ پاک نے ہمیں اپنے محبوب ﷺ پر درود پاک پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسارِ اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔ جو بندہ پیارے آقا ﷺ پر درود پاک کا ہدیہ بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے میں اس بندے پر رحمتیں نازل فرماتا ہے۔

5۔ قبر انور کی زیارت: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: زیارتِ اقدس قریب بواجب ہے۔ (بہار شریعت،1/22) جبکہ شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سیرتِ مصطفےٰ میں فرماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ کے روضہ مقدسہ کی زیارت سنت مؤکدہ قریب بواجب ہے، چنانچہ رب تعالیٰ پارہ 5 سورۃ النساء آیت نمبر 64 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔