جس طرح دنیا میں ہر شخص  مثلا والدین،استاد اور پیر و مرشد وغیرہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امت مصطفیٰ پر بھی نبی کریم ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ہم پر فرض و واجب ہے کہ وہ مدینے والے آقا ﷺ تو اپنی امت سے اس قدر محبت فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں تشریف لائے تو بھی آپ کو اپنی امت نہ بھولی اور آپ کے لبوں پر امتی امتی کی صدا تھی اور جب اس دنیا سے ظاہری وصال شریف فرمایا تو بھی آپ کے لبوں امتی امتی کی صدا تھی تو پھر ہم کیوں نہ ان نبی ﷺ کے حقوق ادا کریں کہ جو دن رات اپنی امت کے لیے اتنا روئے ہیں۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

نبی کریم ﷺ کے اس امت پر بہت حقوق ہیں جن میں سے کچھ یہاں ذکر کیے جائیں گے لیکن اس سے پہلے سن لیتے ہیں کہ حق کہتے کسے ہیں؟

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائر مطالبہ کے ہیں، ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانونا اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں وہ اصول جو ایک فرد کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔

حق کی تعریف پڑھ لینے کے بعد سنتے ہیں کہ ہم پر حضور ﷺ کے کیا حقوق ہیں۔

1۔ ایمان بالرسول: رسول اللہ ﷺ پر اس طرح ایمان لانا کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس پر اور آپ ﷺ پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ یاد رہے کہ اگر حضور کو اپنی جان ومال سے زیادہ محبوب نہ مانا اور ایمان کا اقرار کرے تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 75)

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملے جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

2۔ اطاعت رسول: ہر امتی پر فرض عین ہے کہ وہ ہر حال میں نبی ﷺ کے حکم کی اطاعت کرے اور آ پ کی کسی بھی بات میں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کہ سورۂ نساء آیت نمبر 59 میں ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3۔ محبت رسول: اللہ پاک کےپیارے حبیبﷺکی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں ہے بلکہ ہر امتی پر رسول اللہ ﷺکایہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کوآپ کی محبت پر قربان کر دے۔

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی

4۔ درود شریف: بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔ اور اس حق کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ سورۂ احزاب آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

5۔ مدحِ رسول: محبوب رحمٰن ﷺ کا ہر امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ آپﷺ کی مدح و ثنا کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا رہے اور ان کے فضائل و کمالات کوعلی اعلان بیان کرتا رہے اور آپ ﷺ کی مدح و ثنا کرنااللہ تعالیٰ، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کامقدس طریقہ رہا ہے۔اللہ کریم ہمیں یہ حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


والدین استاد بہن بھائی وغیرہ کے ہم پر حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح سرکار دو عالم ﷺ کے بھی امت پر حقوق ہیں کہ آپ نے تو اپنی امت کی ہدایت و اصلاح اور فلاح کے لیے بے شمار تکالیف برداشت فرمائیں، اپنی اُمت کی نجات و مغفرت کی فکر اور اس پر آپ کی شفقت و رحمت کی اس کیفیت پر قرآن بھی شاہد ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (پ 11، التوبۃ:128) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔آپ ﷺ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر آپ کے بھی حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر اُمتی پر فرض اور واجب ہے، حقوقِ مصطفی بیان کرنے سے پہلے حق کی تعریف بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائز مطالبہ کے ہیں، ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور با ضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر سکتے ہیں، ویسے تو آپ ﷺ کے امت پر بہت زیادہ حقوق ہے، لیکن یہاں صرف پانچ ذکر کیے جا رہے ہیں:

1۔ ایمان بالرسول: رسول پر ایمان لانا جو کچھ آپ اللہ کی طرف سے لائے ہیں صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر رسول پر ایمان لائے کوئی مسلماں نہیں ہو سکتا۔

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملے جان کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی

2۔ اتباعِ سنتِ رسول: سرور کائنات فخر موجودات ﷺ کی سیرت مبارکہ اور سنت مقدسہ کی پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

3۔ اطاعتِ رسول: یہ بھی ہر امتی پر رسول الله ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور نہ کرے، کیونکہ آپ کی اطاعت اور احکام کے آگے سر تسلیم خم کرنا ہر امتی پر فرض عین ہے۔

4۔ محبتِ رسول: اسی طرح ہر امتی پر رسول اللہ ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت کرے ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت پر قربان کر دے، اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کی محبت ایمان کی علامت ہی نہیں بلکہ ہر امتی پر آپ کا یہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کو آپ کی محبت پر قربان کر دے۔

5۔ تعظیمِ رسول: امت پر ایک نہایت اہم اور بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والے تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر و ادب و احترام بجالائے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ اللہ کریم ہمیں حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


آج لوگ کہتے ہیں ہمارے پاکستانی ہونے کی وجہ سے ہمارے ملک میں حقوق ہیں، عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، مزدوروں کے حقوق کی بات ہوتی ہے، ہر بندہ اپنے حقوق (Rights) پر گفتگو کرتا ہے۔ کیا ہمیں یہ معلوم ہے کہ نبی پاک ﷺ کا امتی ہونے کی حیثیت سے کچھ حقوق ایسے ہیں جو مسلمان پر فرض و واجب ہیں۔ ان حقوق کو جاننے سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ حق کہتے کسے ہیں۔

حق کی تعریف: حقوق جمع ہے حق کی اور حق کا لغوی معنی واجب کرنا ہے یعنی وہ کام جو کسی کے ذمے واجب ہو اسے حق کہتے ہیں۔

حضرت علامہ قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ میں بہت وضاحت سے تحریر فرمایا، یہاں اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے 5 حقوق کا ذکر کرتے ہیں۔

1۔ ایمان بالرسول: یعنی نبی کریم ﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ رب کی طرف سے لائے صدقِ دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے:فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ (پ 9، الاعراف: 158) ترجمہ: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جو نبی ہیں، (کسی سے ) یہ پڑھے ہوئے نہیں۔

2۔ تعظیمِ رسول: امت پر نبی کریم ﷺ کے حقوق میں ایک بہت اہم حق یہ بھی ہے کہ آپ سے تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب و احترام کیا جائے۔ رب کریم کا ارشاد ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

3۔ درود شریف: ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اللہ ﷺ پر درود شریف پڑھتا رہے۔ رب کریم کا ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ کسی خاص وقت کے ساتھ معین نہیں ہے کہ اس وقت درود پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے، کیونکہ اللہ پاک نے نبی کریم ﷺ پر علی الاطلاق یعنی بنا کسی وقت کو خاص کیے درود بھیجنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ احادیث میں درود پڑھنے کی ترغیب اور فضائل موجود ہیں، لیکن درود نہ پڑھنے والوں کے لئے بھی وعیدات ہیں۔ اللہ کریم ہمیں کثرت سے درود پاک پڑھنے والا بنائے۔

4۔ محبتِ رسول:ا سی طرح ہر امتی پر نبی کریم ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کردے۔رب کریم کا ارشاد ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

5۔ اطاعتِ رسول: ہر امتی پر رسولِ کریم ﷺ کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں اس پر دل و جان سے عمل کرے۔رب کریم کا ارشادہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔اللہ پاک ہمیں حقوقِ مصطفیٰ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اس پوری دنیا پر اگر کسی کا سب سے بڑا احسان ہے تو وہ رب کا ہے کہ اس نے اپنا محبوب اس دنیا میں بھیجا اور حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس جہان فانی پر جہالت کا سیاہ ترین اندھیرا چھایا ہوا تھا، آپ ﷺ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور جہالت و کفر میں ڈوبی انسانیت کو حق کا راستہ بتایا۔ حضور ﷺ کے ذریعے ہی ہمیں ایمان ملا، قرآن ملا، ہر نعمت ہی حضور کی وجہ سے نصیب ہوئی، لہٰذا ہر ایمان والے کو چاہیے کہ وہ حضور کی سیرت کے ساتھ ساتھ محسن انسانیت ﷺ کے حقوق کو معلوم کرے اور ان کی تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے، حقوق کیا ہیں اور حق کسے کہتے ہیں؟  چنانچہ

حق کی تعریف: ایک ایسی ذمہ داری جو رب تعالیٰ کی طرف سے ایک ذات پر دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔

ہم پر حضور ﷺ کے اتنے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں، البتہ ان میں سے چند درج ہیں؛

1۔ درود پاک: جس پر کسی شخص کا احسان ہوتا ہے تو وہ اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولتا، اس کا ذکر اکثر و بیشتر اپنی زبان پر رکھتا ہے اور ہمارے سب سے بڑے محسن ہی پیارے آقا ﷺ ہیں تو حضور کا حق یہ ہے کہ ہم اپنے محسن اعظم ﷺ کا ذکر کثرت سے کریں، درود پاک وہ عمل ہے کہ جس کا حکم خود رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں رب کریم ایمان والوں کو حکم ارشاد فرما رہا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے آقا ﷺ پر درود و سلام بھیجیں۔

2۔ حضور کی احادیث کا ادب: حضور کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے فرمان کا بھی ادب کریں، دوران درس جب حدیث مبارکہ پڑھی جا رہی ہو تو حدیث کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا ایسا ہے جیسے حضور کی حیات مبارکہ میں آپ کی آواز پر آواز بلند کرنا اور یہ درست نہیں، جب حدیث مبارکہ پڑھنی ہو تو حتی الامکان نیا لباس اور خوشبو کا استعمال کیا جائے اور حدیث مبارکہ پڑھنے والا کسی اونچی جگہ بیٹھے۔

3۔ حضور کے اہل بیت کا اکرام و احترام: ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے اہل بیت کا احترام کریں ان سے بھی محبت کی جائے، کیونکہ محبوب کی ہر چیز جو محبوب سے منسلک ہو وہ محب کو پیاری ہوتی ہے لہٰذا اہل بیت کی تعظیم لازم ہے۔

4۔ اطاعت: ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور کے افعال اور حضور کے دیئے گئے امر و نہی (حکم اور منع) سے باز رہیں اور حتی المقدور سنتوں پر بھی عمل کریں یہ بھی اطاعت کا ذریعہ ہے۔

5۔ حضور سے عشق اور ایمان بالرسول: ایمان بالرسول ضروری ہے کہ حضور جو حکم رب کی طرف سے لائے ان پر ایمان فرض ہے اور ان سب کی تصدیق ضروری ہے، حضور ﷺ سے عشق کرنا ہی اصل ایمان کی نشانی ہے اور حضور سے عشق و محبت واجب ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری اے جان جاں میں جان تجلیّٰ کہوں تجھے

لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ جو ہم پر حقوق لازم کیے گئے ہیں ہم ان حقوق کر بجا لائیں اور خوب چرچا کرتے رہیں۔ رب کریم ہم سے حقوق میں کوتاہی کو معاف فرمائے اور حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


رحمۃ للعالمین حضور پرنور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ جنہوں نے حیوان ناطق کو انسان بنایا، جہالت کے اندھیروں سے دنیا کو نکال کر اسلام کی شمع کو روشن کیا، جنہوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا، جنہوں نے عورتوں کو معاشرے میں ”ایک چیز“ سے بڑھا کر گھر کی ملکہ کے شرف سے نوازا، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت و محبت، بزرگوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور آپس میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا سکھایا، جنہوں نے مخلوق سے خالق کا تعارف کروایا، افسوس! آج ہم انہیں کے حقوق کو بھول بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو زبانی عاشقِ رسول کہتے ہوئے ایک بار ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم ان کے حقوق ادا کرنے میں کامیاب ہیں؟ آقا کریم ﷺ کے اپنی امت پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں؛

1۔ آپ سے محبت کرنا: رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز ہے وہ بھی ایسی محبت جو انسان کے اپنے اہل و عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو، آپ اسی محبت کے حق دار ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے نزدیک اس کی اولاد سے زیادہ اس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ میں محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)

نبی کی ذات مؤمنوں کے لیے اپنی جانوں سے مقدم ہے، خود اپنے نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے، البتہ محبتِ رسول میں حد سے بڑھنا بھی نا مناسب ہے یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت فرض ہے اس کے بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ پاک کے برابر کر دینا گمراہی اور شرک ہے۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: رسول کی حیثیت اسلام میں محض پیامبر کی نہیں بلکہ اس کی اطاعت مستقلا واجب ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ یہ حکم خود اللہ کریم کا ہے، اس لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ اصلا اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔

3۔ آپ کا ادب و احترام کرنا: ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کرو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔رسول اکرم ﷺ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا یہ آپ کی ظاہری حیات مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب و احترام باقی ہے اور اس کے کرنے کا حکم ہے، رسول اکرم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے، بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ کی تعظیم و توقیر کے بر خلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے ادبی اور توہین کی نیت ہو یہ کفر ہے۔

4۔ آپ کے دین کی مدد کرنا: رسول اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہلِ ایمان پر ہر دم واجب ہے، امت کو جو رسول اللہ ﷺ کے دفاع کا حکم دیا گیا ہے یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی کا سبب ہے ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے، رسول اللہ ﷺ کی بھرپور مدد و نصرت کرنا بھی ہر ایمان والے پر رسول کا حق ہے اب آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مؤمنین پر لازم ہے کہ وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں رسول ﷺ کی مدد و نصرت کریں؛ طعن پرستوں کے طعن اور گستاخوں کی گستاخی سے دفاع کرنا، سنتوں کو اپنانا، روز مرہ کی زندگی میں سنتوں کو عام کرنا، لوگوں میں نیکی کی دعوت کو عام کرنا، حضور کی سنت گھر گھر پہنچانا۔

5۔ آپ کے اہل بیت اور صحابہ سے محبت کرنا: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو میرے صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ اس کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنا لینا، کیونکہ جو شخص ان سے محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے وہ در حقیقت مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔ رسول ﷺ کا ایک حق اہلِ ایمان پر یہ ہے کہ آپ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے، ظاہر ہے کہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی گلی کوچوں اور در و دیوار سے بھی محبت ہوتی ہے، اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ سے محبت کرنے والوں سے محبت کا اور دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی کا معاملہ کیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے نبی ﷺ کے حقوق ادا کرنے والا اور آپ کی ذاتِ والا صفات سے اپنا تعلق استوار بلکہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارے آقا ﷺ اپنی اس گنہگار امت پر اتنے مہربان و شفیق ہیں جیسے ایک شفیق باپ اپنی اولاد پر مہربان ہوتا ہے، آپ اتنے کریم ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں پھر آپ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہوں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

تعریف: حق کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو اللہ کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔

1۔ ایمان بالرسول: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔

وضاحت: آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ رب کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو آپ کی رسالت پر ایمان نہ لائے وہ کافر و جہنمی ہے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 826)

2۔ اتباعِ سنتِ رسول: قرآن کریم میں ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

وضاحت: آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے، اس لیے صحابہ کرام آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع و پیروی کو اپنے اوپر لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور اس سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 827)

3۔ اطاعتِ رسول: ارشاد خداوندی ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80) ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔

وضاحت: آپ کی اطاعت ہر امتی پر آپ کا حق ہے ہر امتی کو چاہیے ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ (سیرت مصطفیٰ، ص 829)

4۔ محبتِ رسول: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10، التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

وضاحت: ہر امتی پر رسول کریم ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔

اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت فرض عین ہے، کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اللہ و رسول کی محبت پر ترجیح دوگے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 831)

5۔ تعظیمِ رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

وضاحت: امت پر حضور کے حقوق میں ایک نہایت اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر کرے اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔(سیرت مصطفی، ص 837)


اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب محمد عربی ﷺ کو رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا، حیوانات و نبادات و جمادات، شجر و حجر، شمس و قمر زمین و آسماں الغرض کائنات کی ہر ہر چیز کے لیے نبی کریم  ﷺ کی ذات با برکات رحمت ہے تو جب آپکی رحیمی و کریمی ان تمام چیزوں کو محیط ہے تو اللہ رب العزت نےجس مخلوق کو اشر ف المخلوقات ہونے کا شرف عطا فرمایا اس پر آپ کی رحمت و شفقت کا کیا عالم ہوگا! رب کائنات خود قرآن کریم پارہ11 سورۂ توبہ کی آیت 128 میں ارشاد فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہار ا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

آپ ﷺ نے اپنی اس کمال شفقت کا اظہار بے شمار مواقع پر رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی کی صداؤں کے ساتھ فرمایا، کبھی راتوں کو جاگ کر امت کے لیے دعائیں فرماتے ہوئے، کبھی تنہائیوں میں سجدہ ریز ہو کر، کبھی شب معراج میں رب ذوالجلال کی بارگاہ میں محوِ التجا ہو کر، کبھی غار ثور میں دن رات گزار کر اور بروز قیامت بھی آپ پل صراط پر رَبِّ سَلِّمْ اُمَّتِی پکار رہے ہوں گے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ایسے کریم آقا کے بندوں پر کیسے کیسے حقوق ہوں گے، علمائے کرام نے حقوقِ مصطفیٰ بیان فرمائے ہیں ، جو مصطفیٰ ﷺ کے دیوانوں اور محبتِ رسول کا دعویٰ کرنے والوں پر پورے کرنا لازم اور عین ایمان ہے، ان میں سے 5 درج ذیل ہیں:

1۔ ایمان بالرسول: رسول اللہ ﷺ کی نبوّت و رسالت اور جو کچھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا اس کو سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ان سب میں سے کسی کا بھی انکار دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے۔

2۔ اتباعِ سنتِ رسول: سرکار دوعالم نور مجسم ﷺ کی سنت کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب ہے اللہ کریم قرآن عظیم میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔صحابہ کرام کی زندگی اس بارے میں بہترین مشعل راہ ہے جو بال برابر بھی سنت مصطفی بلکہ کسی بھی ادائے مصطفی کا ترک گوارا نہ فرماتے ۔ اے کاش ان کے صدقےہمیں بھی یہ جذبہ نصیب ہو جائے ۔

3۔ اطاعتِ رسول:اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔چنانچہ ہر امتی پر مصطفی کریم ﷺ کا یہ حق اور فرض عین ہے ان کے ہر ہر حکم پر سر تسلیم خم کرے اور حکم کی خلاف ورزی کرنا تو کجا اسکا تصور بھی کبھی اپنے دل میں نہ لائے۔

4۔ محبت رسول : ایسے ہی ہر امتی پر فرض ہے کہ اپنے مال ،جان ،اولاد ،عزت و آبرواور تمام لوگوں سے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے محبت کرے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے والدین اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ (بخاری)

5۔ تعظیمِ رسول:ہر امتی رسول اللہ ﷺ کا ایک بہت بڑا حق یہ بھی ہے کہ آپ اور آپ سے نسبت رکھنے والی ہر ہر چیز کی عزت و تکریم بجالائے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

6۔ مدح رسول :رسول اللہ ﷺ کا ایک حق امتی پر یہ بھی ہے جس کا ادا کرنا لازم ہے اور وہ یہ کہ ہمیشہ اپنے آقا و مولا ﷺ کی حمد و ثنا کا پرچار کرتا رہے اور آپ کی تعریف و توصیف میں اپنی زندگی کے لمحات گزارے اوراپنی آخرت کےلیے گراں قدر خزانہ اکٹھا کرتا رہے اور یہ وہ حمدو ثنا ہے جس کی ایک واضح مثال خود اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید ہے۔

7۔ درود شریف پڑھنا: ہر مسلمان کو چاہیے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات با برکات پر درود پاک کے تحفے نچھاور کرتا رہے،اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔لہذا یہ اللہ و فرشتوں کی سنت بھی ہے لہذا ہمیں بھی ایک مقررہ تعداد میں روزانہ درود پاک پڑھنے کی عادت بنانی چاہیے ان شاءاللہ عزوجل دنیا اور آخرت میں اسکی بے شمار برکات کا باعث ہو گا ۔

8۔ قبر انور کی زیارت : رسول خدا ﷺ کی قبر انور کی زیارت کو جانا یہ ہر امتی پر سنت مؤکدہ قریب بہ واجب ہے ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ خود رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گی۔ اللہ پاک تمام عشاقان رسول کورسول کریم ﷺ کی مبارک بارگاہ کی ذوق و شوق رقت و سوز بھری حاضریاں عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سب سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے ۔ ہمارا تو وجود بھی حضور سید دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے سے ہے کہ اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ولادتِ مبارکہ سے وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے زمانوں میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہا رہے ہیں اور یونہی قیامت کے دن ہماری آسانی و مسرت کا سامان کریں گے۔ قراٰن، ایمان ، خدا کا عرفان اور بے شمار نعمتیں ہمیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی نصیب ہوئیں۔ انہیں بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر حقوق مصطفے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام سے ذکر کیا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضہ ٔ ایمان اور مطالبۂ احسان ہے ۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے۔ اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ اسے صِدق دل سے تسلیم کیا جائے۔ ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) کی جان ہے۔ اس امت میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں جو میری نبوت سنے خواہ وہ یہودی ہو یا عیسائی پھر وہ اس (دین) پر ایمان لائے بغیر مر جائے جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے تو وہ جہنمی ہوگا۔ (صحیح مسلم ، ص 134 ، حدیث: 153 )

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی: نبی کریم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے ۔(شرح السنہ للبغوی،1/98)(3) رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرنا : امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے ۔ اللہ پاک فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کسی کا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا ، جب تک میں اسے اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ ( صحیح بخاری ، 1/ 12 ، حدیث: 15)

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم : ایک انتہائی اہم حق یہ ہے کہ دل و جان ، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبی مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8) (5) رسولُ الله پر درودِ پاک پڑھنا: حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک پڑھنا بھی مقتضائے ایمان ہے کہ اس کے ذریعے ہم بارگاہ الٰہی میں نبی کریم کیلئے مزید در مزید قرب، رفع درجات اور اعلائے منزلت کی دعا کرے آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ الله پاک فرماتا ہے : اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)علامہ احمد سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : نبی کریم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ پاک کے حکم کی پیروی کر کے اس کا قرب حاصل کرنا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ادا کرنا ہے ۔ (القول البدیع ، ص 83)


پیارے اسلامی بھائیوں! اللہ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اس دنیا میں مبعوث فرما کر احسانِ عظیم کیا ہے ان کے ذریعے سے ایمان ملا ۔آپ کے بے شمار حقوق ہیں جن میں سے چند بیان کئے جاتے ہیں:۔(1) ایمان و اتباع: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا فرض ہے۔ آپ جو کچھ الله پاک کی طرف سے لائے ہیں اُس کی تصدیق فرض ہے۔ ایمان بالرسول کے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہو سکتا۔ ارشاد باری ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِۘ(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔(پ28،الحشر:7) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت واجب ہے، آپ کے احکامات کی تکمیل اور وہ چیزیں جو آپ نے منع فرمائی ہیں اُن سے بچنا ضروری ہے۔

(2) محبت و عشق: رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت واجب ہے۔ جنانچہ الله پاک ارشاد فرماتا ہے : قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)اس آیت سے ثابت ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ پاک اور اس کے رسول کی محبت واجب ہے کیونکہ اس میں بتا دیا گیا کہ تمہیں اللہ پاک اور اس کے رسول کی محبت کا دعویٰ ہے اس لئے کہ تم ایمان لائے ہو پس اگر تم غیر کی محبت کو اللہ اور رسول کی محبت پر ترجیح دیتے ہو تو تم اپنے دعوی میں صادق نہیں ہو اور اگر تم اس طرح محبت غیر سے اپنے دعوے کی تکذیب کرتے رہو گے تو خدا کے قہر سے ڈرو۔

(3) تعظیم و توقیر: ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8) اس آیت میں اللہ پاک نے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر واجب کی ہے۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری ہے: ترجمۂ کنزالایمان: بے شک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں ۔( پ26،الحجرات:5) ایک دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو حجروں کے باہر سے یا محمد کہہ کر پکارا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع اسباب النزول) اس میں بتایا گیا کہ اس طرح پکارنا بے ادبی ہے ایسی جرات وہ لوگ کرتے ہیں جن کو عقل نہیں۔

(4) درود شریف پڑھنا: اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)اس آیت میں اللہ پاک فرماتا ہے میں اور میرے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ اے مؤمنوں تم بھی اس وظیفے میں میری اور میرے فرشتوں کی پیروی کرو۔ یہاں وظیفے میں وہ مراد نہیں جو عوام میں مشہور ہے بلکہ یہاں وظیفے سے مراد کام ہے۔(5) زیارتِ قبرِ مبارک: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضے کی زیارت بالاجماع سنت اور فضیلتِ عظمیٰ ہے۔ اس بارے میں بہت سی احادیث آئی ہیں۔ جن میں سے چند درج ذیل ہیں:۔ حدیث (1) جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت ثابت ہوگی۔( سنن دارقطنی، کتاب الج)حدیث (2) جو میری زیارت کے لئے اس طرح آیا کہ میری زیارت کے علاوہ کوئی اور چیز اس کو نہ لائی تو مجھ پر حق ہے کہ قیامت کے دن میں اُس کا شفیع ہوں گا۔ (معجم الاوسط للطبرانی) اس لئے ہمیں چاہیے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روضے کی زیارت کے لئے بے چین رہیں۔ 


حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جنہوں نے انسان کو انسان بنایا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا سکھایا ، بڑوں کے ادب و احترام کی تاکید کی، چھوٹوں پر شفقت کرنا سکھایا، بیواؤں، ضعیفوں اور کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تعلیم دی اور مخلوں سے خالق کا تعارف کرایا۔ آج ہم اپنے نبی کے حقوق کو بھولے ہوئے ہیں۔ انہیں حقوق میں سے 5 حقوق درج ذیل ہیں:۔(1) رسولُ اللہ پر ایمان لانا: ایمان کے بنیادی ارکان میں رسولُ اللہ پر ایمان لانا بھی داخل ہے۔ اگر کوئی اللہ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرے اور رسول پر ایمان کا انکار کرے تو وہ مؤمن نہیں ۔ ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول پر۔ (پ 5، النسآء: 136)(2) نبی کی اطاعت کرنا:

کیونکہ رسولُ اللہ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ اللہ نے ارشاد فرمایا : مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-وَ مَنْ تَوَلّٰى فَمَاۤ اَرْسَلْنٰكَ عَلَیْهِمْ حَفِیْظًاؕ(۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(النساء:80)

اطاعت کیا ہے ؟ ارشادِ الہی ہے : وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول جو کچھ تمہیں عطا فرمائیں وہ لے لو اور جس سے منع فرمائیں (اس سے) باز رہو اور ۔(پ28،الحشر:7)

(3) نبی سے محبت کرنا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت جزء ایمان ہے۔

محّمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے

اس میں اگر خامی توسب کچھ نامکمل ہے

حضرت سَیِّدُنا انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نورکے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے باپ، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔ (مراۃ المناجیح)

(4) رسولُ اللہ کے صحابہ اور اہلِ بیت محبت: حضور سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ انکے اصحاب اور اہلِ بیت سے محبت کی جائے۔حضرت عبداللہ بن مغفل سے روایت ہے کہ حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ان (صحابہ) سے محبت کی، تو میری محبت کی وجہ سے محبت کی۔ اور جس نے ان سے بغض رکھا، اس نے میرے بغض کی وجہ سے بغض رکھا۔ (مراۃ المناجیح) حضر ت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ا ور میری محبت (پانے) لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو ۔ ( فیضانِ اہل بیت، ص 23) اللہ ہمیں گستاخ صحابہ اور اہلِ بیت سے پناہ عطا فرمائے۔

(5) خاتم النبیین ماننا: ارشاد باری ہے۔ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ22،الاحزاب:40)جو حضور کو خاتم النبیین نہیں مانے وہ بھی کافر ہے اور جو نبوت کا دعوی کرے وہ بھی کافر ہے۔ اللہ ہمیں ایسے لوگوں سے پناہ عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت سے بے پناہ محبت فرماتے تھے اور پیدائش سے لے کر ظاہری وفات تک ہر لمحہ اپنی امت کی یاد و فکر میں رہتے، یہاں تک کہ اپنی امت کی خاطر رو رو کر دعائیں فرماتے۔ وہ امتی جو ابھی پیدا بھی نہ ہوا لیکن اس کے رؤوف و الرحیم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس کی بخشش و مفغرت اور بلا حساب جنت میں داخلے کے لئے روتے رہے تو پھر اس امتی پر کتنا زیادہ لازم ہوگا کہ وہ بھی دل و جان سے اپنے آقا و مولا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرے اور محبت بھی ایسی ہو کہ جس میں صرف نعرے و دعوے ہی نہ ہوں بلکہ محبوب کے ہر ہر حق کو بھر پور انداز سے ادا کیا جائے، اگرچہ کما حقہ ادا کرنا ممکن نہیں لیکن دل و جان سے کوشش تو کی جا سکتی ہے۔ مسلمانوں پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جو حقوق لازم ہیں ان کا ذکر کیا جائے تو انکی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن بنیادی حقوق میں سے 5 حقوق پیش کیے جاتے ہیں:(1) اطاعتِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مسلمان پر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے بنیادی حق حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہے۔ اس کا حکم قراٰن مجید میں بھی بیشتر مقامات پر موجود ہے جیسا کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو۔ (پ9، الانفال:20) اسی لیے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کرنا اور دل و جن سے عمل پیرا ہونا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حقِ عظیم ہے۔

(2) محبتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : کائنات کی ہر شے سے بڑھ حضور سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے، کہ خود سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: تم میں کوئی ایک بھی (کامل) ایمان والا نہیں جب تک میں اس کے والدین اور اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر اس کے لیے محبوب نہ ہو جاؤں۔ (صحیح البخاری، کتاب الایمان، الحدیث: 15) اب ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے سنتِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپناتے ہیں یا دنیا اور دنیا والوں کی خاطر ترک کرتے ہیں۔(3) ادبِ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : کسی کا خوب قول ہے کہ ” ادب پہلا قرینہ(نشانی) ہے محبت کے قرینوں میں“۔ ظاہر ہے کہ محِب کی محبت کا سچا ہونا ادبِ محبوب سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنی زیادہ محبت ہوگی تو محب کے دل اور عمل میں محبوب کے لیے ادب بھی اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ اور محبوب بھی جب محبوب خدا ہو تو مؤمن کے دل میں کائنات کے ہر فرد سے بڑھ کر ادبِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہونا لازم ہے۔ قراٰن مجید میں ربِّ کریم نے بھی جگہ با جگہ نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اداب کے روشن اصول بیان فرمائے ہیں ۔مثلاً سورۃُ الفتح کی آیت 8,9 ، سورة الاعراف کی آیت 157، سورة الحجرات کی آیت 1,2,3,5، سورة النور کی آیت 63، سورة الانفال کی آیت 24 وغیرہ، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کسی بھی موقع پر کسی بھی طرح کی بے ادبی شدید نقصان کا باعث ہو سکتی ہے۔

(4) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر جھوٹ بولنے سے بچنا: جھوٹ ایسا بد ترین گناہ ہے، جس کے بارے میں خود رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ،”جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ ایمان سے مخالف ہے۔ ( المسند امام احمد بن حنبل، حدیث:16) ایک ہے صرف جھوٹ بولنا اور ایک ہے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ با برکت کے متعلق جھوٹ بولنا، جس میں سرِ فہرست منگھڑت حدیث بیان کرنا ہے اور اس کے متعلق رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ : جو مجھ پر ایسی بات کا الزام لگائے جو میں نے نہ کہی ہو، تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔(مشکوٰةالمصابیح، حدیث: 5940)(5) درود و سلام بھیجنا : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اپنی امت پر بے شمار احسانات ہیں اور ان احسانات کا بدلہ چکانا ہر امتی پر لازم ہے۔ اگرچہ کوئی بھی شخص ان احسانات کا بدلہ تو نہیں چکا سکتا لیکن کوشش تو کر سکتا ہے، اور اس کے لیے سب سے بہترین تحفہ کثرت سے درود و سلام تو پڑھنا ہے اور اس کا حکم تو خود ربِّ کریم نے دیا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجَمۂ کنز الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) رب خود بھی اپنے محبوب پر درود (بطور رحمت) بھیجتا ہے اور حکم بھی ارشاد فرمایا۔

اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع و فرمانبرداری والی زندگی گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارا وجود سرکار علیہ الصلاۃ و السّلام کے صدقے سے ہے اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات میں کسی چیز کا وجود نہ ہوتا اور نہ ہی اللہ پاک کی رحمتوں کا نزول ہوتا اور نہ ہی ہمیں اللہ پاک کا یہ عرفان ملتا۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات ہم پر بے شمار ہیں جو گنے نہیں جاسکتے اور ان کے کچھ تقاضے بھی ہیں جنہیں " امت پر حقوق مصطفی" کا نام دیا جاتا ہے۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان: پہلا حق یہ ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت اور رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں اسے دل سے تسلیم کیا جائے۔ صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام لوگوں پر لازم ہے کیونکہ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لئے ہے اور آپ کا احسان تمام انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض ہے۔ جو یہ ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں اگرچہ وہ دیگر تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہو ۔ ارشادِ باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13) (عشق رسول مع امتی پر حقوق مصطفی، ص 65/66)

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے۔ ارشاد باری ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل عمرٰن:31)اور حضور نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائیں۔ (شرح السنہ للبغوی، 1/ 98)

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت : امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولا سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2017 ،ص 5)(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق میں سے ایک اہم حق آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی تعظیم و توقیر کرنا ہے کہ قراٰنِ پاک کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے ایمان باللہ و ایمان بالرسول کے بعد پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔ارشاد باری ہے: لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9) (5) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت : رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق یہ بھی ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے جس بات کا حکم دیں اسے بجا لائیں جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کیا جائے اور جس چیز سے منع کریں اس سے رکا جائے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر 2017 ،ص 5)