رحمۃ للعالمین حضور پرنور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰﷺ
جنہوں نے حیوان ناطق کو انسان بنایا، جہالت کے اندھیروں سے دنیا کو نکال کر اسلام
کی شمع کو روشن کیا، جنہوں نے بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا
سکھایا، جنہوں نے عورتوں کو معاشرے میں ”ایک چیز“ سے بڑھا کر گھر کی ملکہ کے شرف
سے نوازا، بڑوں کا ادب، چھوٹوں سے شفقت و محبت، بزرگوں، رشتہ داروں، پڑوسیوں اور
آپس میں مسلمان بھائیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا سکھایا، جنہوں نے مخلوق سے خالق کا
تعارف کروایا، افسوس! آج ہم انہیں کے حقوق کو بھول بیٹھے ہیں، اپنے آپ کو زبانی
عاشقِ رسول کہتے ہوئے ایک بار ہمیں اپنے آپ پر غور کرنا چاہیے کہ کیا ہم ان کے
حقوق ادا کرنے میں کامیاب ہیں؟ آقا کریم ﷺ کے اپنی امت پر بہت سے حقوق ہیں جن میں
سے پانچ درج ذیل ہیں؛
1۔ آپ سے محبت کرنا: رسول
اللہ ﷺ سے محبت کرنا بھی ایمان کا جز ہے وہ بھی ایسی محبت جو انسان کے اپنے اہل و
عیال بلکہ اپنے نفس پر بھی غالب ہو، آپ اسی محبت کے حق دار ہیں۔ حضور اکرم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اس کے
نزدیک اس کی اولاد سے زیادہ اس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ میں
محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری)
نبی کی ذات مؤمنوں کے لیے اپنی جانوں سے مقدم ہے، خود اپنے
نفس کی تمام خواہشات پر بھی آپ کے حکم کی تعمیل مقدم ہے، البتہ محبتِ رسول میں حد
سے بڑھنا بھی نا مناسب ہے یعنی شریعتِ اسلام میں رسول کی عظمت و محبت فرض ہے اس کے
بغیر ایمان ہی نہیں ہوتا مگر رسول کو کسی صفت یا علم یا قدرت وغیرہ میں اللہ پاک
کے برابر کر دینا گمراہی اور شرک ہے۔
2۔ آپ کی اطاعت کرنا: رسول کی
حیثیت اسلام میں محض پیامبر کی نہیں بلکہ اس کی اطاعت مستقلا واجب ہے۔ ارشاد باری
تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ
اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5،النساء:59)ترجمہ کنز
الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔ یہ حکم خود اللہ کریم کا ہے، اس
لیے اگر کوئی رسول کی اطاعت نہیں کرتا وہ اصلا اللہ کی اطاعت نہیں کرتا اور گویا
رسول کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے، معلوم ہوا کہ صرف اللہ پر اور اس کے رسول پر
ایمان لانا کافی نہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت بھی واجب ہے۔
3۔ آپ کا ادب و احترام کرنا:
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا
تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ
اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ
26، الحجرات: 2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس
غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کرو جیسے آپس میں
ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر
نہ ہو۔رسول اکرم ﷺ کا جو ادب و احترام اس آیت میں بیان ہوا یہ آپ کی ظاہری حیات
مبارکہ کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ آپ کی وفات ظاہری سے لے کر تا قیامت بھی یہی ادب
و احترام باقی ہے اور اس کے کرنے کا حکم ہے، رسول اکرم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور
وفات دونوں میں برابر ہے، بارگاہ رسالت میں ایسی آواز بلند کرنا منع ہے جو آپ کی
تعظیم و توقیر کے بر خلاف ہے اور بے ادبی کے زمرے میں داخل ہے اور اگر اس سے بے
ادبی اور توہین کی نیت ہو یہ کفر ہے۔
4۔ آپ کے دین کی مدد کرنا:
رسول اکرم ﷺ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہلِ ایمان پر ہر دم واجب ہے، امت
کو جو رسول اللہ ﷺ کے دفاع کا حکم دیا گیا ہے یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی
کا سبب ہے ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی
ذمہ داری خود لے رکھی ہے، رسول اللہ ﷺ کی بھرپور مدد و نصرت کرنا بھی ہر ایمان
والے پر رسول کا حق ہے اب آپ کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مؤمنین پر لازم ہے
کہ وہ مندرجہ ذیل صورتوں میں رسول ﷺ کی مدد و نصرت کریں؛ طعن پرستوں کے طعن اور
گستاخوں کی گستاخی سے دفاع کرنا، سنتوں کو اپنانا، روز مرہ کی زندگی میں سنتوں کو
عام کرنا، لوگوں میں نیکی کی دعوت کو عام کرنا، حضور کی سنت گھر گھر پہنچانا۔
5۔ آپ کے اہل بیت اور صحابہ سے محبت کرنا:
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو، اگر تم میں سے کوئی شخص
احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو میرے صحابہ کے خرچ کیے ہوئے ایک مد بلکہ اس
کے نصف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتا۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: میرے صحابہ کے بارے
میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنا لینا، کیونکہ جو شخص ان سے محبت
کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے وہ در
حقیقت مجھ سے بغض رکھنے کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا۔ رسول ﷺ کا ایک حق اہلِ ایمان
پر یہ ہے کہ آپ کے دوستوں سے دوستی اور دشمنوں سے دشمنی رکھی جائے، ظاہر ہے کہ جس
سے محبت ہوتی ہے اس کی گلی کوچوں اور در و دیوار سے بھی محبت ہوتی ہے، اس لیے یہ
ضروری ہے کہ آپ سے محبت کرنے والوں سے محبت کا اور دشمنی رکھنے والوں سے دشمنی کا
معاملہ کیا جائے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے نبی ﷺ کے حقوق ادا کرنے والا اور آپ کی ذاتِ
والا صفات سے اپنا تعلق استوار بلکہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین