جس طرح دنیا میں ہر شخص  مثلا والدین،استاد اور پیر و مرشد وغیرہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں اسی طرح امت مصطفیٰ پر بھی نبی کریم ﷺ کے کچھ حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا ہم پر فرض و واجب ہے کہ وہ مدینے والے آقا ﷺ تو اپنی امت سے اس قدر محبت فرماتے ہیں کہ جب دنیا میں تشریف لائے تو بھی آپ کو اپنی امت نہ بھولی اور آپ کے لبوں پر امتی امتی کی صدا تھی اور جب اس دنیا سے ظاہری وصال شریف فرمایا تو بھی آپ کے لبوں امتی امتی کی صدا تھی تو پھر ہم کیوں نہ ان نبی ﷺ کے حقوق ادا کریں کہ جو دن رات اپنی امت کے لیے اتنا روئے ہیں۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا رو رو کے مصطفیٰ نے دریا بہا دیئے ہیں

نبی کریم ﷺ کے اس امت پر بہت حقوق ہیں جن میں سے کچھ یہاں ذکر کیے جائیں گے لیکن اس سے پہلے سن لیتے ہیں کہ حق کہتے کسے ہیں؟

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنی صحیح، درست، واجب، سچ، انصاف یا جائر مطالبہ کے ہیں، ایک طرف حق سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانونا اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، حقوق کو آسان لفظوں میں یوں سمجھیں وہ اصول جو ایک فرد کو دیگر افراد کی جانب سے اجازت یا واجب الادا ہیں۔

حق کی تعریف پڑھ لینے کے بعد سنتے ہیں کہ ہم پر حضور ﷺ کے کیا حقوق ہیں۔

1۔ ایمان بالرسول: رسول اللہ ﷺ پر اس طرح ایمان لانا کہ جو کچھ آپ پر نازل ہوا اس پر اور آپ ﷺ پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ یاد رہے کہ اگر حضور کو اپنی جان ومال سے زیادہ محبوب نہ مانا اور ایمان کا اقرار کرے تو وہ مسلمان نہیں ہو سکتا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 75)

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملے جان کی اکسیر ہے الفت رسول اللہ کی

2۔ اطاعت رسول: ہر امتی پر فرض عین ہے کہ وہ ہر حال میں نبی ﷺ کے حکم کی اطاعت کرے اور آ پ کی کسی بھی بات میں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کہ سورۂ نساء آیت نمبر 59 میں ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

3۔ محبت رسول: اللہ پاک کےپیارے حبیبﷺکی محبت صرف کامل و اکمل ایمان کی علامت ہی نہیں ہے بلکہ ہر امتی پر رسول اللہ ﷺکایہ حق بھی ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کوآپ کی محبت پر قربان کر دے۔

محمد کی محبت ہے سند آزاد ہونے کی خدا کے دامن توحید میں آباد ہونے کی

4۔ درود شریف: بہارِ شریعت جلد اول صفحہ75 پرہے: جب (ایک ہی مجلس میں بار بار) حضور ﷺ کا ذکر آئے تو بکمال ِخشوع و خضوع و انکسار با اد ب سنے اور نامِ پاک سنتے ہی درودِ رپاک پڑھے کیونکہ یہ پڑھنا (پہلی بار) واجب (اور باقی ہر بار مستحب)ہے۔ اور اس حق کا ذکر کرتے ہوئے رب تعالیٰ سورۂ احزاب آیت نمبر 56 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

5۔ مدحِ رسول: محبوب رحمٰن ﷺ کا ہر امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ آپﷺ کی مدح و ثنا کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتا رہے اور ان کے فضائل و کمالات کوعلی اعلان بیان کرتا رہے اور آپ ﷺ کی مدح و ثنا کرنااللہ تعالیٰ، انبیاء کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کامقدس طریقہ رہا ہے۔اللہ کریم ہمیں یہ حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔