ہمارے آقا ﷺ اپنی اس گنہگار امت پر اتنے مہربان و شفیق ہیں
جیسے ایک شفیق باپ اپنی اولاد پر مہربان ہوتا ہے، آپ اتنے کریم ہیں کہ جس کی کوئی
انتہا نہیں پھر آپ نے اپنی امت کے لیے جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت
پر حضور ﷺ کے کچھ حقوق ہوں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔
تعریف: حق کا
مطلب ہوتا ہے ایک ایسی ذمہ داری جو اللہ کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے
مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔
1۔ ایمان بالرسول: ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳) (پ26،الفتح:13)ترجمہ: جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ
لائے تو یقیناً ہم نے کافروں کے لئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔
وضاحت: آپ کی
نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ رب کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے اس کو
سچا ماننا ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مؤمن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر
ایمان لائے ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو آپ کی رسالت پر ایمان نہ لائے
وہ کافر و جہنمی ہے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 826)
2۔ اتباعِ سنتِ رسول: قرآن
کریم میں ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) (پ 3،اٰل
عمران: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست
رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہو جاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش
دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
وضاحت: آپ کی
سنت مقدسہ کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے، اس لیے صحابہ کرام آپ
کی ہر سنت کریمہ کی اتباع و پیروی کو اپنے اوپر لازم الایمان اور واجب العمل
سمجھتے تھے اور اس سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 827)
3۔ اطاعتِ رسول: ارشاد
خداوندی ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ
فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ-(پ5،النساء: 80)
ترجمہ کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔
وضاحت: آپ کی
اطاعت ہر امتی پر آپ کا حق ہے ہر امتی کو چاہیے ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی
اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں بال کے کروڑویں حصے کے برابر بھی اس کی خلاف
ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم
خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ (سیرت مصطفیٰ، ص 829)
4۔ محبتِ رسول: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ
اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ10،
التوبۃ:24)ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور
تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ
سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ
اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
وضاحت: ہر امتی
پر رسول کریم ﷺ کا حق ہے کہ وہ سارے جہاں سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری
دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے۔
اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اللہ اور اس کے
رسول ﷺ کی محبت فرض عین ہے، کیونکہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم
ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم
لوگ کسی غیر کی محبت کو اللہ و رسول کی محبت پر ترجیح دوگے تو خوب سمجھ لو کہ
تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب
الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکو گے۔(سیرت مصطفیٰ، ص 831)
5۔ تعظیمِ رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔
وضاحت: امت پر
حضور کے حقوق میں ایک نہایت اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض
عین ہے کہ حضور ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر
کرے اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز کبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ
کرے۔(سیرت مصطفی، ص 837)