اس پوری دنیا پر اگر کسی کا سب سے بڑا احسان ہے تو وہ رب کا ہے کہ اس نے اپنا محبوب اس دنیا میں بھیجا اور حضور ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس جہان فانی پر جہالت کا سیاہ ترین اندھیرا چھایا ہوا تھا، آپ ﷺ دونوں جہانوں کے لیے رحمت بن کر تشریف لائے اور جہالت و کفر میں ڈوبی انسانیت کو حق کا راستہ بتایا۔ حضور ﷺ کے ذریعے ہی ہمیں ایمان ملا، قرآن ملا، ہر نعمت ہی حضور کی وجہ سے نصیب ہوئی، لہٰذا ہر ایمان والے کو چاہیے کہ وہ حضور کی سیرت کے ساتھ ساتھ محسن انسانیت ﷺ کے حقوق کو معلوم کرے اور ان کی تبلیغ کرنا بھی ضروری ہے، حقوق کیا ہیں اور حق کسے کہتے ہیں؟  چنانچہ

حق کی تعریف: ایک ایسی ذمہ داری جو رب تعالیٰ کی طرف سے ایک ذات پر دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو۔

ہم پر حضور ﷺ کے اتنے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ ممکن نہیں، البتہ ان میں سے چند درج ہیں؛

1۔ درود پاک: جس پر کسی شخص کا احسان ہوتا ہے تو وہ اپنے محسن کو کبھی نہیں بھولتا، اس کا ذکر اکثر و بیشتر اپنی زبان پر رکھتا ہے اور ہمارے سب سے بڑے محسن ہی پیارے آقا ﷺ ہیں تو حضور کا حق یہ ہے کہ ہم اپنے محسن اعظم ﷺ کا ذکر کثرت سے کریں، درود پاک وہ عمل ہے کہ جس کا حکم خود رب تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ مذکورہ آیت مبارکہ میں رب کریم ایمان والوں کو حکم ارشاد فرما رہا ہے کہ اے ایمان والو! تم بھی درود بھیجو اور سلام بھیجو۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے آقا ﷺ پر درود و سلام بھیجیں۔

2۔ حضور کی احادیث کا ادب: حضور کا ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے فرمان کا بھی ادب کریں، دوران درس جب حدیث مبارکہ پڑھی جا رہی ہو تو حدیث کی آواز پر اپنی آواز بلند کرنا ایسا ہے جیسے حضور کی حیات مبارکہ میں آپ کی آواز پر آواز بلند کرنا اور یہ درست نہیں، جب حدیث مبارکہ پڑھنی ہو تو حتی الامکان نیا لباس اور خوشبو کا استعمال کیا جائے اور حدیث مبارکہ پڑھنے والا کسی اونچی جگہ بیٹھے۔

3۔ حضور کے اہل بیت کا اکرام و احترام: ایک حق یہ بھی ہے کہ ہم حضور ﷺ کے اہل بیت کا احترام کریں ان سے بھی محبت کی جائے، کیونکہ محبوب کی ہر چیز جو محبوب سے منسلک ہو وہ محب کو پیاری ہوتی ہے لہٰذا اہل بیت کی تعظیم لازم ہے۔

4۔ اطاعت: ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور کے افعال اور حضور کے دیئے گئے امر و نہی (حکم اور منع) سے باز رہیں اور حتی المقدور سنتوں پر بھی عمل کریں یہ بھی اطاعت کا ذریعہ ہے۔

5۔ حضور سے عشق اور ایمان بالرسول: ایمان بالرسول ضروری ہے کہ حضور جو حکم رب کی طرف سے لائے ان پر ایمان فرض ہے اور ان سب کی تصدیق ضروری ہے، حضور ﷺ سے عشق کرنا ہی اصل ایمان کی نشانی ہے اور حضور سے عشق و محبت واجب ہے، چنانچہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

سارے اچھوں میں اچھا سمجھیے جسے ہے اس اچھے سے اچھا ہمارا نبی

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری اے جان جاں میں جان تجلیّٰ کہوں تجھے

لہٰذا ہم سب کو چاہیے کہ جو ہم پر حقوق لازم کیے گئے ہیں ہم ان حقوق کر بجا لائیں اور خوب چرچا کرتے رہیں۔ رب کریم ہم سے حقوق میں کوتاہی کو معاف فرمائے اور حقوق بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین