محسنِ انسانیت ﷺ نے ہی حیوانِ ناطق کو انسان بنایا۔ آپ نے ہی بچیوں کو زندہ درگور کرنے والوں کو ان سے محبت کرنا، عورتوں کو معاشرے میں عزت دینا، مظلوموں کی مدد کرنا، انصاف کے تقاضے پورے کرنا، چھوٹوں پر شفقت کرنا، ضعیفوں، کمزوروں، بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا سکھایا۔ آپ نے ہی لوگوں کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تعلیم دی اور اپنے کلام و افعال سے اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ ہمارے پیارے آقا، ہمارے محسن ﷺبھی اپنے امتیوں پر حقوق رکھتے ہیں، جن کا ادا کرنا نہایت ضروری، بلکہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ پانچ حقوق کو مندرجہ ذیل میں مختصر بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ سچ، لائق، فرض ہونے کے ہیں۔ اصطلاح میں حق کے کئی معانی بیان کئے جاتے ہیں، جن میں ایک فرض (ذمہ داری) بھی ہے۔ زیادہ تر کسی کے احسانات کی وجہ سے اس کی طرف نسبت کو بھی حق کہتے ہیں۔

1۔ آپ پر ایمان لانا: قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ (پ 5، النساء: 136) اے ایمان والو!ایمان لاؤ تم اللہ پر اور اس کے رسول پر۔ رسولوں پر ایمان لانا ایمان کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ مسلمان ہونے کے لئے صدقِ دل سے تمام رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اب اگر کوئی رسولوں پر تو ایمان لائے، مگر آپ ﷺ کی رسالت کا انکار کرے تو وہ مسلمان نہ ہوا۔

2۔ آپ کی اطاعت کرنا: قرآن پاک میں سورۂ نساء کی آیت نمبر 59 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمہ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔اس آیت میں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کو مستقل طور پر واجب قرار دیا گیا ہے۔ مطلب یہ کہ آپ کا ہر حکم مانا جائے، خواہ اس کی اصل قرآن سے معلوم ہوسکے یا نہ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے میری اطاعت اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہی کافی نہیں، بلکہ اطاعت بھی واجب ہے۔

3۔ آپ کو آخری نبی ماننا:قرآن کریم میں سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 3 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ (پ6، المائدہ:3) ترجمہ کنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی۔ اس آیت کے تحت مفسرین فرماتے ہیں: دین کا مکمل کرنا یہ ہے کہ یہ پچھلی شریعتوں کی طرح منسوخ نہ ہوگا، بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ نبیِ کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا، کیونکہ دین مکمل ہوچکا ہے۔ سورج نکل آنے کے بعد چراغ کی ضرورت نہیں۔ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔ (ترمذی، 4/93، حدیث: 2226)

آپ ﷺ اپنے امتیوں پر یہ حق رکھتے ہیں کہ آپ کے امتی آپ کو سچے دل سے آخری نبی تسلیم کریں۔

4۔ آپ سے محبت کرنا:

محمد کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو ایمان نامکمل ہے

پیارے آقا ﷺ سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے اور ایسی محبت کرنا ضروری ہے، جو انسان کے اپنے اہل و عیال، مال و دولت، بلکہ اپنے نفس پر غالب ہو۔ قرآن پاک میں ایمان والوں کی صفات بتاتے ہوئے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ( پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ: نبی کی ذات مومنوں کے لیے اپنی جانوں سے بھی مقدم ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد سے زیادہ، اس کے ماں باپ سے زیادہ اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری)

5۔ آپ کے اہلِ بیت سے محبت کرنا: قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ- (پ21، الاحزاب: 6)ترجمہ: مومنین کے لئے نبی کی ذات، ان کے اپنے نفس پر مقدم ہے اور نبی کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ بھی اہلِ بیت میں شامل ہیں۔ آپ ﷺ کی آل و اہلِ بیت سے محبت کرنا حقوق النبی ﷺ میں سے ہے۔ نیز مسلم شریف میں روایت ہے:

نبیِ کریم ﷺ ایک دن تشریف فرمائے ہوئے۔ آپ پر سیاہ بالوں کی بنی ہوئی منقش چادر تھی۔ اتنے میں حضرت حسن بن علی رضی اللہُ عنہ تشریف لائے، آپ ﷺ نے ان کو چادر میں لے لیا، پھر حضرت حسین رضی اللہُ عنہ آئے، ان کو بھی چادر میں لے لیا، پھر فاطمہ رضی اللہُ عنہا تشریف لے آئیں تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر مبارک میں داخل فرمالیا۔ پھر حضرت علی ﷺ آئے تو آپ ﷺ نے انہیں بھی چادر میں لے لیا۔ پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے اہلِ بیت! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے ہر بری چیز کو دور فرماکر تمہیں خوب پاک صاف کردے۔ (مسلم)

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ رسول نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

اللہ پاک ہماری حقوق النبی ﷺ کی ادائیگی میں ہونے والی کوتاہیوں کو معاف فرمائے اور درست ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔