رسول اللہ کے 5 حقوق از بنتِ محمد شہباز، فیضان
ام عطار شفیع کا بھٹہ سیالکوٹ
حضور ﷺ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ کی ہر بات
پر لبیک کہے۔ لہٰذا حضورِ اکرم ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر
ہوجاؤ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(پ9،
الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں
حاضر ہوجاؤ، جب وہ تمہیں اس چیز کی طرف بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔ اس آیتِ
مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور کے بہت سے حقوق ہیں، ہر مسلمان کے لئے حضور کے
تمام حقوق سب سے پہلے ہیں لہٰذا حضور کے حقوق ہر مسلمان پر فرضِ عین ہیں۔
حق کی تعریف: حق کے
لغوی معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔
حقوقِ مصطفیٰ:ہر نبی کے
اپنے امتیوں پر حقوق ہوتے ہیں، اسی طرح ہمارے پیارے نبی ﷺ کے بھی اپنی امت پر بہت
سے حقوق ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ
اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ(پ3، اٰلِ
عمرن: 31)ترجمہ کنز الایمان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت
کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ۔ اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی
محبت کا دعویٰ تب ہی سچا ہوسکتا ہے کہ جب
اس کے حبیب ﷺ کی اتباع اور اطاعت اختیار کی جائے۔
1۔ حضور ﷺ کا ایک حق یہ ہے کہ ان
کی پیروی و اطاعت کی جائے، لہٰذا ارشادِ باری تعالیٰ ہے: قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَاﰳ
الَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِۚ-لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ یُحْیٖ
وَ یُمِیْتُ۪-فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ
الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ
تَهْتَدُوْنَ(۱۵۸) (پ 9، الاعراف: 158) ترجمہ: تم فرماؤ! اے لوگو! میں تم سب
کی طرف اللہ کا رسول ہوں، جس کے لئے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے، اس کے سوا
کوئی معبود نہیں، وہی زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول
پر جو نبی ہیں، (کسی سے ) یہ پڑھے ہوئے نہیں، اللہ اور اس کی تمام باتوں پر ایمان
لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو، تاکہ تم ہدایت پالو۔
2۔ ایک حق یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کی
تعظیم و توقیر کی جائے۔ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا
وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 8- 9) ترجمہ کنز
الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو
تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔ اس
آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم و توقیر کرنا
ہر مسلمان پر فرض ہے۔
3۔ ایک حق یہ بھی ہے کہ حضور ﷺ
کو آخری نبی مانا جائے۔ اس پر بہت سی احادیثِ مبارکہ اور آیتِ مبارکہ ملتی ہیں۔
ختمِ نبوت اور قرآنی آیات:
اَلْیَوْمَ
اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْكُمْ نِعْمَتِیْ (پ6، المائدہ: 3)ترجمہ کنز الایمان:آج میں نے تمہارے لئے
دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی۔
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ
اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی
کے باپ نہیں ہیں، لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے
ہیں۔
ختمِ نبوت اور احادیثِ مبارکہ:
(1) اور بےشک میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
(2) حضور ﷺ نے حضرت علی رضی
اللہُ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ
تم میرے لئے ایسے ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے لئے حضرت ہارون علیہ السّلام، البتہ میرے
بعد کوئی نبی نہیں۔
(3) بےشک میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں،
میں ماحی ہوں، کہ اللہ پاک میرے سبب سے کفر مٹاتا ہے، میں حاشر ہوں، میرے قدموں پر
لوگوں کا حشر ہوگا، میں عاقب ہوں اور عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔
(4) مجھے 6 وجوہ سے انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر فضیلت دی
گئی ہے: (1) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے ہیں، (2) رعب سے میری مدد کی گئی ہے، (3)
میرے لئے مالِ غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے، جبکہ مجھ سے پہلے نبیوں پر حلال نہ
تھا، (4) تمام روئے زمین کو میرے لئے طہارت اور نما زکی جگہ بنادیا گیا ہے، (5)
مجھے تمام مخلوق کی طرف (نبی بنا کر) بھیجا گیا ہے، (6) اور مجھ پر نبیوں (کے
سلسلے) کو ختم کردیا گیا ہے۔
4۔ حضور ﷺ سے محبت: امتی پر
حق ہے کہ وہ اپنے نبی سے محبت کرے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ساداتِ
کرام کی تعظیم کریں، جو ساداتِ کرام کی توہین و گستاخی کرے، ان سے دشمنی رکھے، آپ
سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے ان کی تعظیم و
توقیر کرنا عشق و محبت کا تقاضا ہے۔ حضور کی محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کے اہلِ بیت
سے بھی محبت کی جائے۔ حضور نے ارشاد فرمایا: اللہ کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور
میری خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
اللہ پاک ہمیں حضور ﷺ کے تمام حقوق بجالانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین