سید الانبیاء، احمدِ مجتبیٰ، حبیبِ خدا، محمدِ مصطفےٰ ﷺ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا بیان چند صفحات میں ممکن نہیں، بلکہ اس کے لئے ہزاروں صفحات بھی ناکافی ہیں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

آپ ﷺ کے والدِ ماجد کا نام عبد اللہ اور والدہ ماجدہ کا نام آمنہ ہے۔ حضور ﷺ کے والدین کا نسب نامہ کلاب بن مرہ پر مل جاتا ہے اور آگے چل کر دونوں سلسلے ایک ہوجاتے ہیں۔ عدنان تک کا نسب نامہ صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے۔ اس کے بعد ناموں میں بہت اختلاف ہے۔

حضور ﷺ جب بھی اپنا نسب نامہ بیان فرماتے تھے تو عدنان تک ہی ذکر فرماتے تھے۔

آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت سے متعلق مختلف اقوال ہیں، ان میں سے مشہور قول یہی ہے کہ اصحابِ فیل کے واقعے سے 5 5 دن بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571 ء کو آپ ﷺ پاکیزہ بدن، ناف بریدہ، ختنہ کئے اور خوشبو میں بسے ہوئے پیدا ہوئے۔

سب سے پہلے حضور ﷺ نے ابو لہب کی لونڈی ثویبہ کا دوھ نوش فرمایا۔ پھر اپنی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے دودھ سے سیراب ہوتے رہے۔ پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہُ عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں اور اپنے قبیلے میں رکھ کر آپ کو دودھ پلاتی رہیں اور انہیں کے پاس آپ ﷺ کے دودھ پینے کازمانہ گزرا۔

رسول اللہ ﷺ کے حقوق:

(1) جب حضور ﷺ کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو آپ ﷺ کا مزاج مبارک خلوت پسند ہوگیا اور آپ ﷺ تنہائی میں جاکر خدا کی عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے لگے، تفکر و تدبر بڑھ گیا نیز آپ ﷺ کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبحِ صادق کی طرح روشت ہوکر ظاہر ہوجایا کرتی تھی۔ (سیرت انبیاء، ص 846)

(2) آپ ﷺ کے چچا حضرت حمزہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما کے قبولِ اسلام سے دینِ اسلام کو بہت تقویت ملی، لیکن پھر بھی کفار کی مخالفت ختم نہ ہوتی بلکہ دن بدن بڑھتی ہی گئی۔ اعلانِ نبوت کے ساتویں سال کفار نے آپ کےخاندان کا مکمل بائیکاٹ کردیا، جسے شعبِ ابی طالب کہا جاتا ہے، مسلسل تین سال تک حضور ﷺ اور خاندانِ بنو ہاشم ہوش ربا مصائب کوجھیلتے رہے، یہاں تک کہ خود قریش کے کچھ رحم دل لوگوں کو بنو ہاشم کی ان مصیبتوں پر رحم آگیا اور ان لوگوں نے اس ظالمانہ معاہدہ کو توڑنے کی تحریک اٹھائی جس کی مخالفت ابو جہل نے کی۔ آخر میں حضور ﷺ کی دی ہوئی غیبی خبر پر اس معاملے کا فیصلہ ہوا اور بنو ہاشم کو اس محصوری سے نجات ملی۔ (سیرتِ انبیاء، ص 848)

(3) حج کے موقع پر آپ ﷺ مختلف علاقوں سے آتے ہوئے قبائل کو دعوت دیتے اور ہر سال کچھ لوگ اسلام قبول کرلیتے۔ اعلانِ نبوت کے گیارہویں سال خزرج قبیلے کے 6 افراد نے اسلام قبول کیا۔ بارہویں سال 12 اشخاص نے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی اور حضور ﷺ سے بیعت ہوئے۔ تاریخِ اسلام میں اس بیعت کا نام بیعتِ عقبۂ اولیٰ ہے۔ تیرہویں سال مدینے سے آئے ہوئے 72 افراد نے اسلام قبول کیا اور بیعت کی۔ اسے بیعتِ عقبۂ ثانیہ کہتے ہیں۔ اسلام قبول کرنے والوں نے واپس جاکر اپنے یہاں دعوتِ اسلام دینا شروع کردی اور رفتہ رفتہ شمعِ اسلام کی روشنی مدینے سے قباء تک گھر گھر پھیل گئی۔ (سیرتِ انبیاء، ص849-850)

(4) حضورِ اقدس ﷺ کے بچپن کا زمانہ ختم ہوا اور جوانی کا زمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ کی جوانی بھی عام لوگوں سے نرالی تھی۔ آپ ﷺ کا شباب مجسم حیا اور چال چلن، عصمت و وقار کا کامل نمونہ تھا۔ اعلانِ نبوت سے پہلے بھی آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ بہترین اخلاق و عادات کا مجموعہ تھی۔ سچائی، دیانتداری، وفاداری، عہد کی پابندی، بزرگوں کی عظمت، چھوٹوں پر شفقت، رشتے داروں سے محبت، رحم و سخاوت، قوم کی خدمت، دوستوں سے ہمدردی، غریبوں اور مفلسوں کی خبر گیری، دشمنوں کے ساتھ نیک برتاؤ، مخلوقِ خدا کی خیر خواہی، عرض تمام نیک خصلتوں اور اچھی اچھی باتوں میں آپ ﷺ اتنی بلند منزل پر پہنچے ہوتے تھے کہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسانوں کے لئے وہاں تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ کم بولنا، فضول باتوں سے بچنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دشمنوں سے ملنا ہر معاملے میں سادگی اور صفائی حضور ﷺ کا خاص شیوہ تھا۔ (سیرتِ انبیاء، ص845)

(5)آپ ﷺ کا جھولا فرشتوں کے ہلانے اور جھولے میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر جس طرف اشارہ فرماتے چاند اسی طرف جھک جاتا تھا۔

چاند جھک جاتا جدھر اٹھتی تھی انگلی مہد میں کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

بچوں کی عادت کے مطابق کبھی بھی آپ ﷺ نے کپڑوں میں بول و براز نہیں فرمایا بلکہ ہمیشہ ایک معین وقت پر رفعِ حاجت فرماتے۔ جب آپ ﷺ اپنے پاؤں پر چلنے کے قابل ہوئے تو باہر نکل کر بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھتے مگر خود کھیل کود میں شرکت نہ کرتے۔ لڑکے آپ کو کھیلنے کے لئے بلاتے تو آپ فرماتے: مجھے کھیلنے کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ (سیرتِ انبیاء، ص 843-844)