اللہ پاک کی ا ربوں، کھربوں رحمتیں نازل ہوں اُس ذات پر جن کے سبب سے انسانیت کو وجود ملا، جن کے صدقے انبیاء کرام علیہمُ السّلام  کو نبوت ملی، جن کے طفیل ہدایت ملی، جن کی بدولت نجات ملے گی اور جن کی وجہ سے ربّ کی رضا نصیب ہوگی۔ انسانیت کو اب تک جو کچھ بھلائی، نعمتیں ملیں اور جو کچھ آئندہ ملیں گی، وہ سب آپ ﷺ کے دم قدم سے ہے۔ اور نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم ایمان کی شرطِ اول ہے۔ جب تک نبیِ کریم ﷺ کی تعظیم دل سے نہ کی جائے تب تک ایمان کامل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے نبیِ کریم ﷺ کے بہت سارے حقوق ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں:

حق کی تعریف: حق کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، درست، ٹھیک، واجب، سچ، عدل و انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے اور دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں، یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

1۔ نبیِ کریم پر ایمان لانا: امت پر نبیِ کریم ﷺ کا پہلا حق یہ ہے کہ آپ پر ایمان لائے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید سورۂ فتح آیت نمبر 8 اور 9 میں ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

2۔ نبیِ کریم سے سب سے زیادہ محبت کرنا: نبیِ کریم ﷺ کی محبت میں آپ کی جس قدر تعظیم و تکریم کی جاسکتی ہے، کی جائے کہ یہ ایمان کا جزء ہے اور جس کا دل آپ ﷺ کی محبت، ادب اور تعظیم سے خالی ہے، وہ ایمان سے محروم ہے۔ یہی قرآن و حدیث کا فیصلہ ہے۔ چنانچہ پارہ 10 سورۂ توبہ آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمہ:(اے رسول )آپ فرمادیجیے اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند یدہ مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور الله فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

حدیث ِ مبارکہ: بخاری شریف کی مشہور حدیثِ مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ میں اُس کے نزدیک اُس کے ماں باپ، بیٹے اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، 1/17، حدیث: 15)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: مومنِ کامل کے لئے ایمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن کے نزدیک رسولِ خدا ﷺ تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب و معظم ہوں۔ اس حدیث میں حضورﷺ کے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں حضور کو اونچا مانے، اس طرح کہ آپ کے لائے ہوئے دین کو تسلیم کرے، حضور کی سنتوں کی پیروی کرے، تعظیم و ادب بجالائے اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات، اپنی اولاد، اپنے ماں باپ، اپنے عزیز و اقارب اور اپنے مال و اسباب پر حضور ﷺ کی رضا و خوشی کو مقدم رکھے۔ جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جانے پر بھی راضی رہے۔ لیکن حضور ﷺ کےحق کو دبتا ہوا گورا نہ کرے۔ (اشعۃ اللمعات، 1/50)

3۔نبیِ کریم کو سیدُ البشر مانے: امت پر نبیِ کریم ﷺ کو محض بشر ہونے کا نہیں، بلکہ سیدُ البشر ہونے کا اور سب سےا فضل ہونے کا عقیدہ رکھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولادِ آدم کا سردار ہوں گا۔ میں وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی قبر کھلے گی۔ سب سے پہلے سفارش کرنے والا میں ہی ہوں گا اور میں ہی وہ پہلا انسان ہوں گا جس کی سفارش کو قبول کیا جائے گا۔

4۔ نبیِ کریم ﷺ کو افضل الانبیاء ماننا: امت پر نبیِ کریم ﷺ کا حق یہ ہے کہ آپ کے افضل الانبیاء ہونے کا عقیدہ رکھے۔ امام ِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بےشک ہمارے نبی ﷺ کا تمام جہانوں سے افضل ہونا اجماعی قطعی ہے، بلکہ قریب تھا کہ یہ عقیدہ ضروریاتِ دین سے ہوتا۔ آپ کے بعد سب سے اونچا مقام بقیہ انبیاء اور رسولوں کا ہے۔ صلوات اللہ و سلام علیہم اجمعین(دس اسلامی عقیدے، ص 74-75)

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے رایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:اللہ پاک نے چھ چیزیں عطا کرکے مجھے باقی انبیاء کرام علیہمُ السّلام پر فضیلت دی ہے: (1) اللہ پاک نے مجھے جوامع الکلم دئے، (2) رعب عطا فرماکے میری مدد کی، (3) مالِ غنیمت کو میرے لئے حلال کیا ہے، (4) پوری زمین کو میرے لئے (طہور) پاک کرنے کا ذریعہ بنادیا، (5) پوری زمین کو میرے لئے سجدہ گاہ بنادیا ہے، (6) مجھے پوری مخلوق کا نبی بنادیا یعنی مجھے اللہ نے آخری نبی بنادیا ہے۔ (مسلم، حدیث: 52)

5۔ نبیِ کریم ﷺ کو خاتم الانبیاء ماننا: ایک حق یہ ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کو خاتم الانبیاء مانے، نبیِ کریم ﷺ کو آخری نبی مانے اور یہ عقیدہ رکھے کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ سورۂ احزاب آیت نمبر 40 میں ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب:40)ترجمہ کنز الایمان:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔

حدیثِ مبارکہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ (ترمذی، 2/5)

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآن وہی فرقان وہی یٰسین وہی طٰہ