الله پاک نے انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو وہ حقوق ہے جو الله پاک کی طرف سے بندے کے اوپر عائد ہوتے ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکاۃ۔ دوسرے وہ حقوق جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔ پہلے والے حقوق کو حقوق الله کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے کو حقوقُ العباد سے جانا جاتا ہے۔ حقوقُ العباد کے حوالے سے اسلام میں جو مقام واہمیت حاصل ہو ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ قراٰنِ کریم و احادیثِ نبویہ میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور اس سلسلے میں غفلت برتنے والے کو موجب غضب قرار دیا گیا ہے۔ اور ان حقوقُ العباد میں سے جو حقوق انبیائے کرام کے اسلام نے بیان کیے ہیں اس کا مقام و مرتبہ سب سے برتر ہے خصوصاً رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کیونکہ ہمارا وجود بھی رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے ہے۔ قراٰن، ایمان، خدا کا عرفان، بسیار نعمتیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے نصیب ہوئیں۔ یقیناً رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات اس قدر وسیع ہیں جن کا احاطہ انسانی عقل سے ماوراء ہے۔ انہی احسانات کے کچھ تقاضے ہیں۔ جنہیں امت پر حقوقِ مصطفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان مطالبہ احسان ہے۔ اب میں قراٰن و احادیث کی روشنی میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق جو امتِ مسلمہ پر ہیں۔ ان میں سے پانچ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔

(1) سب سے پہلا حق تو یہ ہے کہ ان کی رسالت و نبوت پر ایمان رکھا جائے۔ اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اس کو صدق دل سے تسلیم کیا جائے یہ فقط مسلمان پر ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہیں۔ کیونکہ آپ کی رسالت تمام کے لیے عام ہے۔ تو اس پر اقرار کرنا فرضِ عین ہے۔ اب جو اقرار کر لیں وہ مسلمان ہے اور اس کے لیے بشارتِ عظمیٰ ہے اور جو اس سے اعراض کرے وہ کافر ہے اور رب جبار وقہار کے غضب کا حقدار ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)

(2) اور انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم وتکریم کرنا بھی امت پر ضروری ہے اور ان سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے مثلاً نعلینِ پاک، موئے مبارک خصوصاً مدینہ منورہ، و اہل بیت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ارشاد ربانی ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)امام اہل سنت اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: پھر جب تک نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی تعظیم نہ ہو عمر بھرعبادتِ الہٰی میں گزارے سب بیکارو مردود ہے، بہتیرے (یعنی بہت سے) جوگی اور راہب ترکِ دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکرو عبادتِ الہٰی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان میں بہت وہ ہیں کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں مگر اَزانجاکہ مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم نہیں ،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل ِقبول بارگاہِ الہٰی نہیں ۔ اللہ ایسوں ہی کو فرماتا ہے: وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) جوکچھ اعمال انہوں نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔ ( تمہید الایمان، ص 53)

(3) تیسرا سب سے اہم ترین حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب سے آخری نبی تسلیم کیا جائے ۔ یہ دینِ اسلام کا ایسا بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے والا کافر و مرتد دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور آخری نبی ہونا قطعی یقینی بابِ عقائد میں سے ہے ۔ یہ قطعیَّت قراٰن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔ چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕترجَمۂ کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ22،الاحزاب:40)اس کے تحت امام اہل سنت فرماتے ہیں: یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قراٰن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ،15 رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم النبوۃ، ص 630) یاد رہے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے اس پر امت کا اجماع ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ترجمہ : میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔ (سنن أبي داود،4/98 ،حدیث: 4254)

(4) امت مسلمہ پر یہ بھی حق ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبت کرے کہ ان کی محبت مدارِ نجات ،جانِ ایمان، روحِ ایمان ،اصلِ ایمان ہے۔ ارشاد ربانی ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24) اس کے تحت اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ پاک اپنی طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، حدیث 14 / تمہید الایمان 55)

(5) پانچواں حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدح وثنا، تعریف و توصیف نعت و منقبت و درود شریف پڑھنا بھی مطالبہ احسان و مقتضائے ایمان ہے۔ اور ان کے لیے اقبال منزلت، رفع درجات کی دعا کر کے محسن اعظم کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجَمۂ کنز الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انتہائی عقیدت و محبت کے ساتھ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں درود و سلام کا ہدیہ پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

کعبہ کے بدرُالدُّجیٰ تم پہ کروڑوں درود

طیبہ کے شمس الضُّحیٰ تم پہ کروڑوں درود

مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام

شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش)

اللہ ہمیں حقوقِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین