اپنی ذات کے آگے کوئی اور نظر نہ آئے تو یہ خود غرضی کہلاتی ہے۔ ذاتی آرام، فائدہ، مقصد، پسند ناپسند، یا خوشی کے لئے دوسروں کے وجود اور حقوق کو نظرانداز کر دینا یا باقی سب کی خوشیوں کو خاک میں ملا دینا۔

خود غرضی ایک ایسا رویہ ہے جس میں انسان صرف اپنا ذاتی مفاد سوچے گا۔ بدلے میں چاہے اگلے شخص کو نفع ملے یا نقصان اس کی کچھ پروا نہیں کرے گا۔ امام سلیمان دارانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جو شخص فقط اپنے آپ کو قیمتی سمجھتا ہے وہ خدمت خلق کی مٹھاس کبھی نہیں پا سکتا۔ (رسالہ قشیریہ، 1/ 280)

خود غرض انسان کی نشانیاں: خود غرض انسان صر ف اپنی ذات کے لیے سوچتاہے۔ خود غرض انسان دوسروں کے لیے قربانی نہیں دیتا لیکن دوسروں سے توقع کرتاہے کہ وہ اس کے لیے قربانی دیں۔ خود غرض انسان اپنی غلطیوں کو تسلیم نہیں کرتا۔ خود غرض اناپرست ہوتاہے۔ خود غرض انسان نے کبھی بھی کسی دوسرے کا بھلا نہیں چاہا۔

علامہ شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مطلبی اور خود غرض نہ تو بھائی ہے نہ ہی دوست۔ خود غرض انسان کو اردگرد کی دنیا نظر نہیں آتی ہے اور ان سب کے حصول کے لئے وہ اندھی دوڑ میں لگ کر اپنے رشتے ناتے سب روندتا جاتا ہے۔ ہر کسی کو آس پاس، قریبی رشتے داروں میں خود غرض افراد ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں، بلکہ وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

خود غرضی کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ایک ظاہری طور پر نمازی پرہیز گار انسان کسی کو ناپسند کرتا ہو، کینہ اور بغض بھی پالتا ہو اور پھر اپنی نفرت، ناپسندیدگی اور غلط سوچ کو کسی قریبی رشتے دار پر مسلط کرنا چاہے یہ سوچے بغیر کہ ہر کوئی اپنے عمل کا اللہ کو جواب دہ ہے اور کسی بھی زیادتی یا حقوق العباد میں کوتاہی کو نمازیں یا روزے معاف نہیں کروا سکتے۔

خود غرضی کوئی نفسیاتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک معاشرتی رویہ ہوتا ہے جو ہر انسان میں الگ الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔خود غرضی کا یہ منفی کلچر معاشرے میں اگر یونہی بڑھتا چلا گیا تو یہ معاشرتی بگاڑ اور نفسیاتی مسائل کو جنم دے سکتا ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس رویے کو متوازن رکھنے کی کوشش کریں اور صرف اپنے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مثبت سوچ رکھیں۔جس کے لیے دوسروں سے ہمدردی پیدا کرنا،انفرادی اور اجتماعی فلاحی کاموں میں شامل ہوکر اس بارے میں اجتماعی شعور بیدار کر سکیں۔

خودغرضی کی سب سے اہم وجہ ہماری اپنے دین سے دوری ہے۔خود غرضی کے بارے میں ہمارے مذہب اور دین نے بڑی وضاحت سے احکامات دئیے ہیں اسی لیے ہم میں سے کسی کو اچھا نہیں لگتا کہ کوئی ہمیں خود غرض کہہ کر پکارے۔کیا ہم خود غرض ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ اسلامی تعلیمات تو ہمیں ایثار،قربانی،خیر خواہی،ہمدردی اور غم خواری سکھاتی ہیں۔ حدیث مبارک ہے کہ تم میں کامل ایمان والا وہ ہے جو اپنے بھائی کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث: 13) اگر ہم عبادات کے ساتھ ساتھ ان معاملات پر بھی توجہ دیں تو اس معاشرتی رویے کو سدھارنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔