انسانی معاشرہ باہمی تعاون، ہمدردی اور ایثار پر قائم ہوتا ہے۔ جب ایک فرد صرف اپنی ذات، مفادات اور خواہشات کو مدنظر رکھتا ہے اور دوسروں کی فلاح کو نظر انداز کر دیتا ہے، تو وہ  خود غرضی کا شکار ہوتا ہے۔ خود غرضی ایک ایسا رویہ ہے جو نہ صرف انسان کے اخلاق کو داغدار کرتا ہے بلکہ پورے معاشرے کو بگاڑ دیتا ہے۔ اسلام، جو کہ اخوت، محبت، ایثار اور قربانی کا درس دیتا ہے، اس رویے کی سختی سے مذمت کرتا ہے۔

اسلام میں خود غرضی کی مذمت: اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کو صرف اپنے لیے نہیں، بلکہ دوسروں کے لیے جینے کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں کئی مقامات پر دوسروں کی مدد، ایثار، قربانی اور بے لوثی کی تلقین کی گئی ہے، جب کہ خود غرضی کو ایک ناپسندیدہ صفت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

ارشاد ہوتا ہے: وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﳴ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَۚ(۹) 28،الحشر:9) ترجمہ: اور اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ انہیں شدید محتاجی ہو اور جو اپنے نفس کی لالچ سے بچایا گیا تو وہی کامیاب ہے۔ مکمل یہ آیت انصار کے ایثار کی تعریف کرتی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ خود غرضی ایمان کے اعلیٰ درجے کے منافی ہے۔

اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللّٰهِ لَا نُرِیْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا(۹) (پ 29، الدھر: 8، 9) ترجمہ: اور وہ کھانا کھلاتے ہیں، اس کی محبت کے باوجود، مسکین، یتیم، اور قیدی کو، کہتے ہیں: ہم تمہیں صرف اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے ہیں، نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکریہ۔ مکمل

یہ آیات بے لوث خدمت کی عظمت بیان کرتی ہیں اور خود غرضی کے برخلاف ایک مثالی رویہ پیش کرتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ (بخاری، 1/16، حدیث: 13)اس حدیث میں ایمان کی تکمیل کو ایثار و ہمدردی سے مشروط کیا گیا ہے، جو کہ خود غرضی کی واضح نفی ہے۔

2۔ جو رحم نہیں کرتا، اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ (مسلم، ص 1268، حدیث: 2318) خود غرض انسان دوسروں پر رحم نہیں کرتا، اور اسی وجہ سے وہ اللہ کی رحمت سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔

خود غرضی کے معاشرتی اثرات: خود غرضی معاشرتی نظام کے لیے زہر ہے۔ جب ہر فرد صرف اپنی خواہشات اور مفادات کو ترجیح دیتا ہے تو رشتے کمزور ہو جاتے ہیں، بھائی چارہ ختم ہو جاتا ہے، دلوں سے محبت اور ہمدردی نکل جاتی ہے، بے اعتمادی اور نفرت پیدا ہوتی ہے، انسان تنہا، سرد دل اور مطلبی ہو جاتا ہے، ایسے معاشرے میں انصاف، رواداری اور سکون قائم نہیں رہ سکتا۔ خود غرضی انسان کو نہ صرف دوسروں سے بلکہ خدا سے بھی دور کر دیتی ہے۔

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم دوسروں کی بھلائی کے لیے سوچیں، اپنے نفس کو دوسروں کی خاطر قربان کریں اور اپنے رویے سے دنیا کو بہتر بنائیں۔ اگر ہر انسان ایثار اور ہمدردی کو اپنائے تو دنیا جنت بن جائے۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے: سب سے بڑا انسان وہ ہے جو دوسروں کے لیے جیتا ہے۔

خود غرضی ایک بیماری ہے جو انسان کے دل کو کھوکھلا، اور روح کو کمزور کر دیتی ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایک مؤمن کی زندگی بے لوثی، ہمدردی، اور ایثار سے معمور ہونی چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کو نمونہ بنائیں، جنہوں نے ہمیشہ دوسروں کے لیے جیا اور امت کے غم میں آنکھیں اشکبار کیں۔