محمد توفیق عطّاری ( درجۂسادسہ جامعۃُالمدینہ
فیضانِاولیاء،احمد آباد،ہند)
ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سب
سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے، ہمارا تو وجود بھی حضور
سید دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ولادت مبارکہ سے وصال مبارک تک مسلسل رحمت و شفقت کے دریا
بہاتے رہے اس طرح کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لبہائے مبارکہ پر امت کی
یاد تھی۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محوِ استراحت (سویا) ہوتا، اس وقت حبیبِ
کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنا بستر مبارک چھوڑ اللہ پاک کی بارگاہ میں
ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے۔ یقیناً پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات بےشمار ہیں۔ انہی بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جن
کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور
مطالبۂ احسان ہے۔
(1)پہلا حق یہ ہےکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت
و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ اسے صدق دل سے تسلیم کیا جائے۔
اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَنْ
لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ
اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم
فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)محبوب رب العالمین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا
جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے۔(شرح السنه للبغوی،
1/98)
(3)امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و
مولا، سیدالمرسلین، رحمةللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے
کہ آپ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں
سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے باپ، اس کی
اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحيح البخاری، 1/12، حدیث:15)
(4)ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہےکہ دل وجان ، روح وبدن اور
ظاہر وباطن ہر اعتبار سے نبی مکرم، رسول محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
اعلی درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا
ادب و احترام کیا جائے۔ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول کی تعظیم و توقیر
کرو۔(پ26،الفتح:9) اسی ادب وتعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بےادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ
کرنا ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا
کلام و تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔
(5)حضور پرُنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک
پڑھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔ ربالعالمین فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر
درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)علامہ احمد سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ پاک کے حکم کی پیروی کر کے اس
کا قرب حاصل کرنا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ادا کرنا ہے۔(القول
البديع، ص 83)