حافظ غلام حسن ( ناظم مدرسۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ہزاری باغ جھارکھنڈ ہند)
اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے اس دارِ فانی میں
پیدا کیا تو اس پر کچھ حقوق رکھ دئیے تاکہ یہ بندہ ان حقوق کی پاسداری کر کے اس کے
ذریعے قربِ الٰہی حاصل کر سکے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات
تمام مخلوق و کائنات پر ہیں خصوصاً اس امت پر تو بے شمار و لا تعداد احسانات ہیں ۔
آج ہر طرف حقوق و فرائض کے لئے آواز بلند کرنے والوں کا
تانتا بندھا ہوا ہے ۔ہر طبقہ ،جماعت اور فرد اپنے حقوق کی بازیابی اور بحالی کے
لیے سراپا احتجاج ہے ۔ کہیں انسانی حقوق کی پامالی پر شور و غوغا ہے تو کہیں حقوقِ
نسواں کے علم برداروں کا عجیب و غریب مطالبہ ۔ لیکن ان سب کے باوجود بحیثیت مسلمان
کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ اس محسنِ انسانیت کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ جس نے
نوعِ انسانی کو غلامی سے چھڑایا، مظلوم و بے بس عورتوں کو حقوق و مراعات سے نوازا
،جس نے آدابِ زندگی بھی سکھائے اور اصول بندگی سے بھی آگاہ کیا،جس نے غلاموں، مزدوروں
اور غریبوں سمیت جانوروں کو بھی وہ تحفظات عطا کئے جس کی نظیر پیش کرنی مشکل ہی
نہیں نا ممکن ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم انہیں کے نام لیوا سپاس گزار
اور منت کش ہوتے ہوئے ان کی ذات والا صفات کو فراموش کر بیٹھے ان کی تعلیمات و
ہدایات کو بھلا بیٹھے نہ ہمیں انکے نام کا پاس رہا، نہ نسبت کا لحاظ ۔ نہ انکی
قربانیاں یاد رہیں نہ جانثاروں کا خیال ۔المیہ یہ ہے کہ ہم رنگینی حیات اور فانی
زندگی کے حصار سے باہر نہ آ سکے اپنے بندھے ٹکے نظام العمل سے وقت نہ پا سکے اپنی
روز مرہ مصروفیت سے دامن نہ چھڑا سکے ۔ آج امت کے کتنے افراد ایسے ہیں جنہیں نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گھرانہ اور خانوادہ معلوم ہے ۔ کتنے ایسے ہیں جو
بناتِ طاہرات کے نام جانتے ہیں نہ ازواج مطہرات کی صحیح تعداد ۔بلکہ بہت سے تیرہ
بخت و بدقسمت ایسے بھی ہیں جنہیں کلمہ طیبہ اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا نامِ نامی بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔
المختصر: آج مناسب محسوس ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے حقوق و آداب سے متعلق کچھ اہم معروضات پیش کیے جائیں ،تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے
کہ انسانیت کے سب سے عظیم محسن اور ہمارے رہبرِ کامل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ہم پر کیا حقوق ہیں ؟
پہلا حق: حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
نبوت و رسالت آیاتِ واضحہ اور معجزاتِ ظاہرہ کے ذریعے ثابت ہو گیا تو محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان تمام احکام کی جن کو حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حق تعالیٰ کی طرف سے لیکر تشریف لائے ان سب کی تصدیق کرنا
فرض اور لازم ہو گیا۔ رب نے فرمایا: فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ
الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۸) ترجمہ کنزالایمان: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور
اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ28،التغابن:8)
وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض اور واجب ہے۔ ایمان باللہ بھی ایمان بالرسول
کے بغیر معتبر نہیں اور جس شخص کا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر
ایمان نہ ہو وہ کافر ہی ہے جس کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
دوسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرنا۔ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اللہ کی طرف سے نبی اور رسول مان لینے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے ہر
ہر جز کو برحق اور منجانبِ اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا
جائے ،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جائے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا
تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان
والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اسے نہ پھرو۔(پ9، الانفال :20)در
اصل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور آپ کے
ارشادات پر عمل کرنا قراٰنِ پاک پر عمل کرنے کے مثل ہی ہے۔
تیسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و
ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے ۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز
انحراف نہ کرتے ۔ اس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور مؤکدہ و مستحب چیزیں
بھی ۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے اسی لئے کتبِ
احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور
آداب و معاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں، مبارک عادتوں،
خصلتوں کی اتباع کے بارے قراٰنِ پاک میں ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے
محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ
اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل
عمرٰن:31)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: تم میں کوئی کامل
مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی (شریعت اور احکام) کے
تابع نہ ہوجائے ۔( مشکوٰة شریف)
چوتھا حق : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہر امتی پر لازم ہے۔ چنانچہ اللہ
پاک کا ارشاد ہے : قُلْ اِنْ كَانَ
اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں
تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)آیت
مبارکہ میں اس بات کی صاف دلیل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
محبت کاملہ ہر امتی پر لازم ہے جو اولاد ،والدین ،خاندان، رشتہ دار، مال و دولت، تجارت
مکانات سب کی محبت پر غالب ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا
جب تک میں اس کی اولاد اور اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو
جاؤں۔
حدیث پاک سے بھی ثبوتِ ایمان کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے کامل محبت کا فرض ہونا ظاہر ہے ۔ محبت کے درجات مختلف ہو سکتے
ہیں جس کی وجہ سے ایمان کے درجات بھی مختلف اور متفاوت ہو سکتے ہیں لیکن مطلوب یہی
ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری پوری محبت دل میں جاگزیں ہو۔
پانچواں حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم: ایک انتہائی اہم حق یہ
بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِّ مکرم، رسول ِ
محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیرکی جائے بلکہ
آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے۔ جیسے نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ، مسجد ِ
نبوی، گنبد خضریٰ، اہل ِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ ادب و
تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم
کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو
آنکھیں جھکا لے، اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر
ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و
تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا
استاد یا پیر یا عالم ہویا دنیوی وجاہت والا کوئی شخص ہو ،اُسے اپنے دل و دماغ سے
ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم
ہر امتی پر فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے :اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)اس آیت سے معلوم ہوا کہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور
توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی
تسبیح پر اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم
فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ
اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالایمان: تو وہ
جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی
کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔( پ9، الاعراف :157)
دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ
آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ
چلا جاتا ہے تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک
شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی
بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق
میں سے کسی اور نے بنائے ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اور اس کے دربار کے آداب
تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ، تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے
والے ربِّ کریم نے نازل فرمائے ہیں ۔
الغرض مسلمان کی شان اور کمال یہ ہے کہ وہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محبت، اطاعت، تعظیم و تکریم بھی دل
سے بجا لائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک امت کے ہر فرد کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین