۔ اہل ایمان کے ثواب اور انعامات کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مکان بنایا ہے جس میں تمام قسم کی
جسمانی روحانی لذتوں کے وہ سامان مہیا فرمائے ہیں جو شایانِ ہفت اقلیم، ساری کائنات
کی فرمانرواؤں اور حکمرانوں میں یعنی خیال میں نہیں آسکتے اسی کا نام جنت و بہشت
ہے۔
۲۔ جنت میں اللہ پاک نے اپنے ایمان دار بندوں کے لیے بے شمار نعمتیں جمع فرمائی ہیں جنہیں نہ آنکھوں
نے دیکھا ہے اور نہ ہی کانوں نے سنا ہے اور جنت کا وصف پوری طرح بیان میں نہیں آسکتا۔
۳۔جنت میں سو
۱۰۰ درجے ہیں اور ہر درجے کی وسعت اتنی ہے
کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وہ وسیع ہو، اور جگہ بھی باقی
رہے۔
جنت
کیسے ملے گی؟
جنت نیک کام
کرکے ہی ملے گی انسان کو چاہیے کہ اپنے رب کریم کو راضی رکھے تو وہ انعام میں جنت
بھی عطا فرمائے گا۔
جھوٹی
امید و آس :
امیر المومین
حضرت سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم ارشا دفرماتے ہیں: جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ نیک اعمال اپنائے بغیر جنت
میں داخل ہوگا وہ جھوٹی امید و آس کا شکار ہے اور جس نے یہ خیال کیا کہ نیک اعمال کی بھرپور کوشش سی ہی جنت میں داخل ہوگا تو گویا وہ خود کو اللہ عزوجل کی رحمت سے مستغنی و بے پر واہ سمجھ بیٹھتا ہے۔(رسالہ بیٹے کو نصیحت ص ۱۶)
حضرت سیدنا
حسن بصری علیہ
الرحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اچھے اعمال کے بغیرجنت کی طلب گناہ سے کم نہیں۔(رسالہ بیٹے کو نصیحت ص۱۶) اور انہیں نے
ارشاد فرمایا کہ: حقیقی بندگی کی علامت یہ ہے کہ بندہ عمل نہ چھوڑے بلکہ عمل کو
اچھا سمجھنا چھوڑ دے۔( بیٹے کو نصیحت ص،۱۶)
جنت کیسی ہے؟
اگر یہ انسان سوچے تو یقینا وہ کوئی گناہ کرنے کا سوچے بھی نہ اور جنت میں انسان کو ہر آسائش پر نعمت میسر ہوگی۔اگر
ہم پیارے آقا صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت اور
ان کے سنتوں پر عمل کریں تو یقینا ہم جنت کو حاصل کرلیں گے۔ جیسا کہ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے
محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔
پیاری
پیاری باتیں:
جنت میں ایک
ایسا گھر ہے کہ جس کے اندر باہر سے اور باہر اندر سے نظرآتا ہے اوریہ گھر خاص اس
شخص کے لیے ہے جو ر ات کو اٹھ کر اپنے رب کے ہاں نفل پڑھے یعنی تہجد۔ہمیں چاہیے کہ
ہم رضائے الہی کے لیے تہجد پڑھیں اور رب کے پسندیدہ انسان بنیں۔ اگر انسان نیک عمل
کرتا ہے تو وہ رب کی خوشنودی حاصل کرلیتا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے رب کو راضی کریں اور اپنا اٹھکانہ بنائے۔
جنت وہ مقام
ہے جسے رب تعالیٰ نے اپنے اطاعت گزار بندوں کے لیے تخلیق فرمایا ہے جنت کا نام
زبان پر آتے ہی ہمارے دل و دماغ پر سرور کی ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ہے، چنانچہ
حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ یارسولَ اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم ہمیں جنت اور اس
کی تعمیر کے متعلق بتائیں تو آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس کی ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی
ہے، اور اس کا گارا مشک کا ہے اور اس کی کنکریاں موتی کی ہیں اور اس کی مٹی زعفران
کی ہے۔
(ترمذی)
جنت
کا موسم:
جنت میں دنیا
کی مثل گرمی یا سردی کی شدت کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ اس میں انتہائی خوشبودار موسم
ہوگا، قرآن حکیم میں ہے:لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا زَمْهَرِیْرًا۔
ترجمۂ
کنزالایمان: نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے نہ ٹھٹھر (یعنی سخت سردی)۔
(پ ۲۹، سورة
الدھر۱۳)
جنت
کی جھلکیاں:
جنت میں قسم
قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف و شفاف کہ اندر کاباہر سے اور باہر کا اندر سے
دکھائی دے، جنت کی دیواریں سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہوئی ہیں،
جنت میں چار دریا ہیں ایک کا پانی کا، دوسرا دودھ کا، تیسرا شہد کا اور چوتھا
پاکیزہ شراب کا، پھر ان میں سے نہریں نکل کر ہر ایک جنتی مکان میں جاری ہیں، ہر
وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بالقصد اور بلاقصد مثل سانس کے جاری ہوگی، اگر جنتی
باہم ملنا چاہیں گے تو ایک تخت دوسرے کے پاس چلا جائے گا، جنت میں کم از کم ہر شخص
کے سرہانے میں دس ہزار خادم کھڑے ہوں گے، جنتیوں کے نہ لباس پرانے ہوں گے اور نہ ان
کی جوانی فنا ہوگی اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل اور وضع اور
پوری عمر یعنی تیس سال کی خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہوجائیں گی، جنت میں نیند
نہیں کہ نیند ایک قسم کی موت ہے اور جنت میں موت نہیں، جنتی جب جنت میں جائیں گے
ہر ایک اپنے اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی کوئی حد نہیں، پھر
انہیں دنیا کی ایک ہفتہ کی مقدار کے بعد اجازت دی جائے گی، کہ اپنے پروردگار عزوجل
کی زیارت کریں، عرش ِالہٰی ظاہر ہوگا اور رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے ایک باغ
میں تجلی فرمائے گا اور خدا تعالیٰ کا دیدار ایسا صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں
رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے دیکھتا ہے کہ ایک کادیکھنا دوسرے کے لیے
مانع نہیں ان میں اللہ
عزوجل کے نزدیک سب میں معزز وہ ہے
جو اللہ تعالیٰ کے وجہ کریم کے دیدار سے ہر صبح و شام مشرف
ہوگا۔
جنت
کے دروازے:
حضرت سیدنا
سہل بن سعد رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ
سرکار مدینہ صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔
فضل و کرم جس پر بھی ہوا
لب پر ہر دَم کلمہ ہی ہوا
جاری ہوا جنت میں گیا
لَا اِلٰہ اِلَّا
اللہ
جنت ایک مکان
ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے اس میں
وہ نعمتیں ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ کسی کی سوچ اس کا احاطہ کرسکتی ہے۔
جنت
کا نقشہ:
جنت میں قسم
قسم کے جواہر کے محل ہیں، ایسے صاف وشفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر
سے دکھائی دیتا ہے، جنت کی دیواریں سونےاور چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے
بنی ہیں، جنت میں چار دریاہیں، ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا ، تیسرا شہد کا اور
چوتھا شراب کا۔ پھر ان میں سے پانی نکل کر
ایک ایک مکان میں جاری ہے، جنت کی نہریں زمین کھود کر نہیں بہتیں بلکہ زمین کے
اوپر اوپر رواں ہیں۔
(بہار شریعت)
جنت
کی وسعت:
جنت کتنی وسیع
ہے اس کو اللہ
اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
ہی جانیں، اجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں 100 درجے ہیں، ہر دو درجوں میں اتنی مسافت
جتنی آسمانوں زمین میں ہے، البتہ ایک حدیث ترمذی کی یہ ہے۔
”اگر تمام
عالم ایک درجے میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے۔“
پھر بھی جانے
والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چھیلتا ہوگا۔
بہار جاوداں میں مسکراتے پھول کلیوں کی
دھنک رنگوں کےآئینوں میں شبنم کے
قطروں کی
مہکتی ان فضاؤں اور گھنے ان سب
درختوں کی
بنی جو سوچ سے بالا اسی جنت کو پانا
ہے
جنت
کے کھانے:
جنتیوں کو جنت
میں ہر قسم کے لذیز سے لذیذ کھانے ملیں گے جو چاہیں گے فوراً ان کے سامنے موجود
ہوگا، جتنا کھاتے جائیں گے لذت میں کمی نہ ہوگی بلکہ زیادتی ہوگی، ہر نوالے میں 70مزے
ہوں گے ہر مزہ دوسرےسے ممتاز۔
جنت
کی حوریں:
روایت سے ثابت
ہے:
اگر حور اپنی
ہتھیلی آسمان و زمین کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے خلائق فتنے میں پڑ
جائیں اور اگر اپنا ڈوپٹہ ظاہر کرے تو اس کی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہوجائے
جیسے آفتاب کے سامنے چراغ ۔
جنتیوں
کو دیدارِ الٰہی:
جنتیوں سے
دنیا کی ایک ہفتے کی مقدار کے بعد اللہ عزوجل
فرمائے گا۔
کچھ اور چاہتے
ہو جو میں تم کو دوں؟ عرض کریں گے:
تو نے ہمارا
منھ روشن کیا، جنت میں داخل کیا، جہنم سے نجات دی،
اس وقت پردہ
کہ مخلوق پر تھا اٹھایا جائے گا تو دیدارِ
الٰہی سے بڑھ کر انہیں کوئی چیز نہ ملی ہوگی۔
رب عزوجل جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں تجلی فرمائے
گااور ان جنتیوں کے لیے منبر بچھائے جائیں گے، نور کے منبر، موتی کے منبر، یاقوت
کے منبر، زبر جد کے منبر، سونے کے منبر، چاندی کے منبر ، ان میں ادنیٰ مشک و کافور
کے ٹیلے پر بیٹھے گا، اللہ عزوجل فرمائے گا:
”جاؤ اس کی
طرف جو میں نے تمھارے لئے تیار کررکھی ہے جو چاہو لو۔“
میری یارب تمنا ہے مجھے جنت میں آنا
ہے
تلے عرش بریں اک خوبصورت گھر بسانا
ہے
اللہ عزوجل ہمیں جنت
میں لے جانے والے اعمال پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو جنت میں
حضور مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب
فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
(بہارشریعت)
دستور
ہے کہ کام پورا کرنے والے کو اس کى اجرت دى جاتى ہے اور اچھى کارکردگى دکھانے والے
کو انعام دىا جاتا ہے اسى طرح رب تعالىٰ نے بندۂ مومن کے لىے دنىا مىں نىک اعمال کرنے
پر جنت تىار فرمائى ہے، جنت اىک مکان ہے جس مىں رب تعالىٰ نے وہ نعمتىں مہىا کى ہىں
جن کو نہ آنکھوں نے دىکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسى آدمى کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
(بہار
شرىعت، ج1،ص152)
اب جنت کے کچھ احوال ذکر کئے جاتے ہیں:
جنت کے درىا:
آقا
علیہ السلام نے فرماىا جنت مىں چار دریار ہىں:(۱)پانی کا (۲) دودھ کا (۳)شہد کا (۴)شراب کا۔ پھر ان سے نہرىں نکل کر ہر
اىک کے مقان مىں جارى ہىں وہاں کى نہرىں زمىن کھود کر نہىں بلکہ زمىن کے اوپر جارى
ہىں۔نہروں کا ایک کنارہ موتی کا، دوسرا یاقوت کا اس کی زمین خالص مشک کی ہے۔
(بہار
شرىعت، ج1،ص155)
جنت کی شراب:
اللہ
پاک فرماتا ہے:ترجمۂ نورالعرفان:ان کا رب اپنی پاکیزہ شراب پلائے گا۔
(پ29،
الدھر،آیت21)
جنت
میں رہنے والوں کو کھانے کے بعد شراب پیش کی جائے گی، اسے پینے سے ان کے پیٹ صاف
ہوجائیں گے اور جو کچھ انہوں نے کھایا ہوگا وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے
نکلے گا۔
(تفسیر
صراط الجنان، ج10، ص482، تحت ھذہ الآیۃ)
جنت کے محل:
جنت
میں موتیوں کا ایک محل ہے جس میں سرخ ىاقوت سے بنے ہوئے ستر مکان ہىں، ہر مکان مىں
سبز زمرد کے ستر کمرے ہىں، ہر کمرے مىں ستر تخت، ہر تخت پر ہر رنگ کے ستر بچھونے
ہیں، ہر بچھونے پر ایک عورت ہے، ہر کمرے میں ستر دسترخوان ہیں، ہر دسترخوان پر انواع
و اقسام کے ستر کھانے ہىں، ہر کمرے مىں ستر خادم اور خادمائىں ہىں۔
(جنت
مىں لے جانے والے اعمال، ص721)
جنت کا بازار:
آقا
علیہ السلام نے فرماىا: بے شک جنت مىں اىک
بازارہوگا جس مىں خرىد و فروخت نہ ہوگى بلکہ اس مىں مردوں اور عورتوں کى تصوىرىں ہوں
گى، جب کوئى آدمى کسى صورت کى خواہش کرے گا تو (اس کا چہرہ) وىسا ہى ہوجائے گا۔
(جنت
مىں لے جانے والے اعمال، ص729)
جنت کى حورىں:
جنت
کى کوئى عورت اگر زمىن کى طرف جھانکے تو زمىن سے آسمان تک روشنى ہوجائے اور خوشبو سے
بھر جائے اور چاند سورج کى روشنى جاتى رہے ، اىک رواىت مىں ہے کہ اگر اپنا دوپٹہ ظاہر
کرے تو اس کى خوبصورتی کے سامنے سورج اىسا ہوجائے جىسے سورج کے سامنے چراغ۔
(بہار
شرىعت، ج1، ص152)
جنت کے درجے:
آقا
علیہ السلام نے فرماىا: جنت کے سو درجے ہىں
ہر دو درجوں مىں آسمان زمىن جتنا فاصلہ ہے اور فردوس سب سے بلند درجہ، مزىد فرماىا
کہ جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔
(جنت
کى تىارى، ص7، 8)
اللہ تعالیٰ نے اپنے
بندوں کو اچھے اچھے اعمال کرنے کے بدلے جنت عطا فرمائی۔
جنت
کی آرائشیں:
جنت کو بہشت
بھی کہتے ہیں جنت میں ہر خوشی موجود ہے جنت میں ہر قسم کی راحت شادمانی یعنی خوشی فرحت
کا سامان موجود ہے، سونے، چاندی، موتی اور
جواہرات کے لمبے چوڑے اونچے اونچے محل بنے ہوئے ہیں اور جگہ جگہ ریشمی خوبصورت
کپڑوں کے نفیس خیمے لگے ہوئے ہیں اور ہر طرف طرح طرح کے لذیذ اور دل پسند میوؤں کے گھنے شاداب اور سایہ دار درختوں کے
باغات بھی ہیں اور ان باغوں میں ہیں شیریں پانی (جب مٹھاس زیادہ ہو تو اسے شیریں
کہا جاتا ہے) جو دل کو بھائے، نفیس دودھ، عمدہ شہد اور شراب طہور کی نہریں بھی
جاری ہیں، اور قسم قسم کے بہترین کھانے پھل صاف ستھرے چمک دار برتنوں میں یہ بھی تیار رکھے ہیں اوراعلیٰ درجے کے ریشمی
لباس اور ستاروں سے بڑھ کر چمکتے جگمگاتے ہوئے سونے چاندی اور موتی جواہرات کے
زیورات اور اونچے اونچے تخت جن پر غالیچے اور چاندنیاں بچھی ہوئی ہیں اور مسندس (Seats)
لگی ہوئی ہیں اور عیش اور نشاد کےلیے دنیا کی عورتیں اور جنتی حوریں ہیں جو بے
انتہا حسین اور خوبصورت ہیں، جنت کی ہر نعمت اتنی بے نظیر اور اس قدر بے مثال ہے
جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے دل میں اس کاخیال
گزرا اور جنتی لوگ بلا روک ٹوک ان تمام نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے اور ان تمام
نعمتوں سے بڑھ کر جنت میں جو نعمت ملے گی کہ جنت میں جنتیوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا اور نہ جنت
میں نیند آئے گی نہ کوئی مرض ہوگا اور نہ ہی بڑھاپا ہوگا اور نہ ہی موت ہوگی۔
جو جنت میں
گیا ہمیشہ ہمیشہ ہمیشہ جنت ہی میں رہے گا اور ہمیشہ تندرست رہے گا اور جوان بھی
رہے گا اور اہل جنت خوب کھائیں گے خوب پئیں گے نہ استنجا کی حاجت ہوگی نہ تھوکنے
کی حاجت ہوگی اور نہ ہی ناک بہہ گی بس ایک ڈکار آئے گی اور مشک بار خوشبو دار
پسینہ بہہ گا اور کھانا ہضم ہوجائے گا اور جنتی ہر قسم کی فکروں سے آزاد اور رنج و
غم سے محفوظ رہیں گے اور ہمیشہ ہر دم شادمانی اور مسرت کی فضاؤں میں رہیں گے اور
قسم قسم کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے رہیں گے۔
فرمانِ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
جو شخص اچھی
طرح نماز پڑھتا ہو اس کے گھر والے زیادہ اور مال کم ہو اور وہ شخص مسلمانوں کی غیبت نہ کرتا ہو میں (آقا صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم) اور وہ شخص جنت میں اس طرح ہوں گے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں کو ملا کر دکھایا۔
جنت
کے درجے:
جنت میں سو
درجے ہیں اور ہر دو درجوں میں آسمان اور زمین جتنا فاصلہ ہے اور فردوس سب سے بلند
درجہ ہے اس میں جنت کے چار دریا بہہ رہے ہیں اور اس کے اوپر عرش ہے تو جب تم اللہ تعالیٰ سے سوال کروں تو فردوس کا سوال کرو۔
میرے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں ہی ان شآء اللہ میرا فردوس میں عطار ٹھکانہ ہوگا۔ ان شآء اللہ عزوجل
جنت
کی حوریں:
جنت کی حور
اپنی ہتھیلی زمین اور آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی وجہ سے مخلوق فتنے
میں پڑ جائے۔
حضرت سہل بن
سعد رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک
کوڑا رکھنے کی جگہ (یعنی کم سے کم جگہ) بھی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اس سے بہتر
اور زیادہ قیمتی ہے۔
(بخاری،3250)
جنت
کی حوروں کی گائیگی:
حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے موقوف روایت ہے وہ
بیان کرتے ہیں کہ جنت میں جنت جتنی لمبی نہر ہوگی، اس کے دو کناروں پر خوبصورت
کنواری لڑکیاں آمنے سامنے قطار بنائے کھڑی ہوں گی وہ نہایت خوش آواز میں گائیں گیں،
جنت میں لذت کا کوئی اور سامان نہ ہوگا؟ کہا: اگر اللہ نے چاہا تو وہ تسبیح و تحمید اور تقدیس اور رب عزوجل کی ثنا ہوگی۔
اہل
جنت کی بیویاں:
حضور صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے جنتی عورتوں کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے
ہوئے فرمایا:
لکل واحد منھم زوجتان من الحور العین، علی کل زوجۃ سبعون حلۃ یری مخ سوقھما
من وراء لحومھما وحللھما کما یری الشراب الاحمر فی الزجاجۃ البیضاء
ہر جنتی کو دو
موٹی آنکھوں والی حوریں بطور بیویاں عطا کی جائیں گی، ہر بیوی کپڑوں کے ستر جوڑے زیب
تن کئے ہوگی، اس کی پنڈلی کے اندر کا گودا اس کے کپڑوں اور گوشت کے اوپر اس طرح
صاف نظر آرہا ہوگا، جس طرح صاف شفاف شیشے کے گلاس میں شراب سرخ نظر آرہی ہوتی ہے۔
(صحیح الترغیب،
۳۷۴۴،صحیح لغیرہ)
جنت
کی سجاوٹ:
فرمانِ مصطفیٰ
صلی اللہ
علیہ واٰلہ وسلم: بے شک جنت ابتدائی
سال سے آئندہ سال تک رمضان المبارک کے لئے
سجائی جاتی ہے۔
(فیضانِ
رمضان، صفحہ ۸۶۴، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
جنت
کا بیان حدیث کی روشنی میں:
۱۔ جنت میں
بیماری، بڑھاپا اور موت نہیں ہوگی۔
(مسلم)
2۔ اگر ایک
جنتی اپنے کنگن سمیت ( دنیا میں ) جھانک لے تو سورج کی روشنی کو اس طرح ختم کردے گا جس طرح سورج کی روشنی تاروں کو ختم کردیتی
ہے۔
(ترمذی)
3۔ اگر جنتی
خاتون دنیا میں ایک دفعہ جھانک لے تو مشرق و مغرب کے درمیان ہر چیز کو روشن کردے
اور ساری فضا کو خوشبو سے معطر کردے۔
(بخاری)
4۔ جنت کے
محلات سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنے ہیں اس کا گارا نیز خوشبووالا مشک ہے اس کے
سنگریزے موتی اور یاقوت کے ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے۔
(ترمذی)
5۔ جنت میں
ایک درخت کا سایہ اس قدر طویل ہوگا کہ اس کے سائے میں ایک گھوڑ سوار سو سال تک
چلتا رہے تب بھی سایہ ختم نہیں ہوگا۔
(بخاری)
6۔ حوضِ کوثر
پر سونے اور چاندی کے پیالے ہونگے جن کی تعداد آسمان کے ستاروں کے برابر ہوگی۔
(مسلم)
جنت اىک مکان ہے کہ اللہ تعالىٰ نے اىمان والوں کے لىے بناىا ہے اس مىں وہ
نعمتىں مہیاکى گئى ہىں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا، نہ کانوں نے سنا، نہ کسى آدمى کے
دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
(صحیح مسلم، کتاب الجنتہ وصفۃ نعیمھا واھلھا )
جو کوئى مثال اس
کى تعرىف مىں دى جائے سمجھانےکے لىے ہے، ورنہ دنىا کی اعلىٰ سے اعلىٰ شے کو جنت کى
کسى چىز کے ساتھ مناسبت نہىں، وہاں کى کوئى عورت اگر زمىن کى طرف جھانکے تو زمىن
سے آسمان تک روشن ہوجائے اور خوشبو سے
بھرجائے پھر چاند سورج کى روشنى جاتى رہے۔
(صحىح البخارى، کتاب الرقاق)
اور اىک رواىت
مىں ىوں ہے کہ اگر حُور اپنى ہتھىلى زمىن و آسمان کے درمىان نکالے تو اس کے حسن کى
وجہ سے خلائق فتنے مىں پڑ جائىں اور اگر جنت کى کوئى ناخن بھرى چىز دنىا مىں ظاہر
ہو تو تمام آسمان و زمىن اس سے آراستہ ہوجائىں۔
اور اگر جنتى کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کى روشنى مٹادے جىسے آفتاب ستاروں کى روشنى مٹا دىتا ہے۔
جنت کى بناوٹ:
جنت کى دىوارىں سونے اور چاندى کى اىنٹوں اور مشک کے
گارے سے بنى ہىں اىک اىنٹ سونے کى اىک چاندى کى زمىن زعفران کى کنکرىوں کى جگہ
ہوتى اور ىاقوت اور ایک رواىت مىں ہے کہ جنت عدن کى اىک اىنٹ سفىد موتى کى ہے ایک ىا قوت سرخ کى اىک زبرجد سبز کى اور
مشک کا گارا ہے اور گھاس کى جگہ زعفران ہے
موتی کى کنکرىاں عنبر کى مٹى۔
(بہار شرىعت، ص154)
جنتى حورىں:
جنت مىں خوبصورت آنکھوں اور سفىد رنگ والى حورىں ہوں گى
جو نہاىت اچھى آواز مىں حمد و ثنا کا نغمہ بغىر ساز کے گائىں گى وہ کہىں گى ہم
ہمىشہ رہنے والى ہىں ہم کبھى نہىں مرىں گى ہمىں نعمتىں دىں گئىں ہىں، ہم کبھى
محتاج نہ ہوں گی ہم راضى رہنے والى ہىں کبھى ناراض نہ ہوں گى، مبارک باد اس کے لئے جو ہمارا ہے اور ہم اسکى ہىں۔
(ترمذى شرىف)
جنت مىں اىک
ادنىٰ جنتى کو بھى 72ہزار حورىں ملىں گى اور 80ہزار خادم، حورىں اىسى ہوں گى کہ ان
کے لباس اور گوشت کے باہر سے ان کى پنڈلیوں کا مغز دکھائى دے گا۔
(مشکوة المصابىح)
جنت کتنى وسىع ہے؟
جنت کتنى وسىع ہے اس کو اللہ و رسول ( عزوجل و صلى اللہ علیہ وسلم ) ہى جانىں اجمالى بىان ىہ ہے کہ اس مىں سو درجے ہىں۔ ہر
دو درجوں مىں وہ مسافت ہے جو آسمان و زمىن کے درمىان ہے رہا ىہ کہ خود اس درجے کى
کىا مسافت ہے تو ”ترمذى شرىف“ کى اس حدىث پاک ہے کہ اگر تمام عالم اىک درجہ مىں
جمع ہو تو سب کے لىے وسىع ہے۔
(سنن الترمذى، ج
۴، ص۲۳۸، ۲۳۹)
جنتىوں کى اقسام:
جنتى افراد کى تىن قسمىں ہوں گى: کسبى، وہبى، عطائى۔
کسبی جنتى وہ ہىں جو اعمال کى برکت سے جنت مىں جائىں گے۔
وہبى جنتى وہ ہىں جو کسى کے طفىل جنت مىں جائىں گے۔
عطائى جنتى وہ مخلوق ہوگى جو اللہ پاک جنت کو بھرنے کے لىے پىدا فرمائے گا۔
(مراٰة المناجىح،ج7، ص475، 476)
جنت کى نہرىں :
جنت مىں 4چار درىا ہىں اىک پانى کا ،دوسرا دودھ کا ،
تىسرا شہد کا چوتھا شراب کا، پھر ان سے نہرىں نکل کر ہر ایک کے مکان مىں جارى ہىں
، وہاں کى نہرىں زمىن کھود کر نہىں بہتىں بلکہ زمىن کے اوپراوپر رواں ہىں، نہروں
کا اىک کنارہ موتى کا اور دوسرا ىا قوت کا، اور نہروں کى زمىن خالص مشک کى وہاں کى
شراب دنىا کى سى نہىں جس مىں بدبو اور کڑواہٹ ہے اور نشہ ہوتا ہے اور پىنے والے بے
عقل ہوجاتے ہىں آپے سے باہر ہو ہر کربىہودہ بکتے ہىں وہ پاک شراب ہے ان سب باتوں
سے پاک و منزّہ ہے۔
جنتىوں کى غذائىں:
جنتىوں کو جنت مىں ہر قسم کے لذىز سے لذىز کھانے ملىں گے
جو چاہىں گے فوراً ان کے سامنے موجود ہوگا۔ اگر کسى پرندے کو دىکھ کر اس کے گوشت
کو کھانے کا جى ہو تو اسى وقت بُھنا ہوا ان کے پاس آجائے گا، اور اگر پانى وغىرہ
کى خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ مىں آجائىں گے اور ان کوزوں مىں ٹھىک اندازے کے
موافق پانى دودھ شہد شراب ہوگا۔
جنت کے طبقات:
جنت کے آٹھ طبقے ہىں:
جنت الفردوس، جنت عدن، جنت ماوٰى، دارالخلد، دارالسلام،
دارلمقامہ ، علىىن، جنت نعىم۔ جنت مىں ہر
مومن اپنے اعمال کے حساب سے مرتبہ پائے گا۔
(اسلامى عقائد، ص42)
جنتىوں کى زبان:
جنت مىں عربى
زبان بولى جائے گى۔ عربى زبان ہمارے پىارے آقا صلى اللہ علیہ وسلم کى زبان رفىعُ الشّان بھى ہے، چنانچہ خاتمُ النبین، صاحب قرآن مبىن، محبوب رب العالمین صلى اللہ علیہ وسلم کا فرمان دلنشىن ہے:
اہل عرب سے 3 وجہ سے محبت کرو:
1۔میں عربی ہوں۔
2۔قرآن مجىد عربى مىں ہے۔
3۔اہل جنت کا کلام عربى مىں ہوگا۔
(مستدرک للحاکم،ج5، ص117)
جنتىوں کا حلىہ :
حضرت ابوہرىرہ رضى اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرماىا: جنتى لوگ بغىر بال والے صاف بدن سُرمگىں
(ىعنى سرمہ لگى) آنکھوں والے ہوں گے نہ ان کى جوانى ختم ہو اور نہ ان کے کپڑے گلىں۔
(ترمذى،ج4، حدىث2548)
جنت کى سب سے بڑى نعمت:
جنتى جب جنت مىں جائىں گے ہر اىک اپنے اعمال کى
مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی
حد نہیں پھر انہیں دنیا کے ایک ہفتے کی مقدار کے برابر اجازت دى جائے گى کہ وہ
اپنے پروردگار عزوجل کى زىارت کرىں۔
اور پھر عرشِ الٰہى ظاہر ہوگا اور رب عزوجل جنت کے
باغوں مىں سے اىک باغ پر تجلى فرمائے گا اور ان جنتىوں کے لىے منبر بچھائے جائىں
گے وہ منبر نور موتى اور ىاقوت کے ہوں گے اور خدا کا دىدار اىسا صاف ہوگا جىسے
آفتاب اور چودھوىں رات کا چاند اس نعمت کے برابر جنتىوں کے لىے کوئى بڑى نعمت نہ
ہوگى جسے اىک بار اللہ
کا دىدار نصىب ہوگا وہ ہمىشہ ہمىشہ
اسى کے ذوق مىں ڈوبا رہے گا۔
(بہار شرىعت، ج1، ص160 )
(ہمارا اسلام، ص14)
جنت وہ مقام ِ رحمت ہے جسے رب تعالىٰ نے اپنے اطاعت گزار
بندوں کے لئے تخلىق فرماىا ہے۔ جنت کا نام زبان پر آتے ہى ہمارے دل و دماغ پر سرور
کى اىک عجىب کىفىت طارى ہوجاتى ہے۔(کتاب: جنت کى دو چابىاں)
جنت کن چىزوں سے بنى ہے!!
حضرت سىدنا ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ سے رواىت ہے کہ ہم نے عرض کىا: یارسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم ہمىں جنت اور اس کى تعمىر سے متعلق بتائىے؟ تو
آپ صلى اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا:
اس کى ایک اىنٹ سونے کى اور اىک چاندى کى ہے اور اس کا
گارا مشک کا ہے اور اس کى کنکرىاں ىاقوت کى ہیں اور اس کى مٹى زعفران کى ہے۔
(ترمذى ، کتاب صفۃ الجنة، رقم ۲۵۳۴، ج ۴،
ص ۲۳۶)
حضرت سىدنا ابوہرىرہر ضى اللہ عنہ سے رواىت ہے رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرماىا: جنت کى زمىن سفىد ہے اس کا مىدان
کافور کى چٹانوں کا ہے اس کے گرد رىت کے ٹىلوں کى طرح مشک کى دىوارىں ہىں اور اس
مىں نہرىں جارى ہىں۔
(الترغىب والترہىب، کتاب صفۃ الجنۃ والنار، رقم۳۴،
ج۴، ص ۲۸۳)
جنت کى نعمتىں !!
حضرت سىدنا ابوہرىرہ رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وسلم نے
فرماىا: اللہ تعالىٰ نے ارشاد فرماىا کہ مىں نے اپنے بندوں کے لىے اىسى ا ىسى نعمتىں
تىار کررکھى ہىں جن کو نہ تو کسى آنکھ نے دىکھا، نہ اس کى خوبىوں کو کسى کان نے
سنا اور نہ ہى کسى انسان کےدل پر ان کی
ماہیت کا خیال گزرا۔(مسلم،کتاب الجنۃ، رقم الحدیث۲۸۲۴،ص۱۵۱۶)
جنت کتنى بڑى ہے ؟
حضرت سىدنا عبادہ بن صامت رضى اللہ عنہ رواىت کرتے ہىں رحمت کونىن صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا: جنت مىں سو
منزلىں ہىں اور ان مىں سے ہر دو منزلوں کے درمىان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمىن و آسمان
کے درمىان ہے۔
(ترمذى، کتاب صفۃ الجنۃ، رقم الحدىث ۲۵۳۹،ج۴ ،ص
۲۳۸)
جنت کے دروازے !!
حضرت سىدنا سہل بن سعد رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ سرکار مدىنہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے آٹھ دروازے ہىں۔
(بخارى، کتاب بداء الخلق، رقم ۳۲۵۷، ج ۲، ص۳۹۴)
جنتى زبان!!
جنت مىں عربى زبان بولى جائے گى۔ (معجم الاوسط، 4/226،حدىث
5583)
جنتى درىا !!
جنت مىں پانى، شہد، دودھ اور شراب کا درىا ہے جن سے
آگے نہرىں نکلتی ہىں۔
(ترمذى،4/257، حدىث2580)
جنت مىں نىند!!
حضرت سىدنا جابر رضى اللہ عنہ فرماتے ہىں اىک شخص نے نبى کرىم صلى اللہ علیہ
وسلم کى بارگاہ مىں عرض کى: کىا
اہل جنت سوىا کرىں گے؟ تو آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا: نىند جنس موت سے ہے اور
جنتىوں کو موت نہىں آئے گى۔
(مشکوة المصابىح ، کتاب صفۃ الجنۃ، رقم ۵۶۵۴،ج۳،
ص۲۳۰)
کىا ىہ نعمتىں جنتىوں کے پاس ہمىشہ رہىں
گى؟؟
جنتىوں کو ىہ نعمتىں ہمىشہ کے لىے دى جائىں گى جىسا کہ
سورہ توبہ ىہى ہے:
ترجمہ کنزالاىمان: ان کا رب انہىں خوشى سناتا ہے اپنى رحمت اور اپنى رضا کى ان باغوں کى جن
مىں انہىں دائمى نعمت ہے ہمىشہ ہمىشہ انہىں مىں رہىں گے بے شک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔ (پ10، سورۂ توبہ:۲۱، ۲۲)
جنتىوں کى عمرىں!!
حضرت سىدنا ابو سعىد رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ نبى پاک صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرماىا:
جنت کسے کہتے ہیں:
اہلِ ایمان کے ثواب اور انعامات کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک مکان بنایا ہے جس میں تمام قسم کی
جسمانی وروحانی لذتوں کے سامان مہیا فرمائے ہیں جو شاہان ہفت اقلیم ساری کائنات کے فرمانرون اور
حکمرانوں کے خیال میں نہیں آسکتے، اسی کا نام جنت و بہشت ہے اور اسی کو جنت کہتے
ہیں۔
جنت کیسی ہے:
جنت میں اللہ تعالیٰ
نے اپنے ایمان دار بندوں کے لیے انواع و اقسام کی ایسی نعمتیں جمع فرمائی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا اور نہ قانوں نے سنااور نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا تو ان کا
وصف پوری طرح بیان میں نہیں آسکتا، اللہ تعالیٰ
عطافرمائے تو وہیں انکی قدر معلوم ہوگی جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے
سمجھانے کے لیے ہے، اور نہ دنیا کے اعلی
شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں۔
جنت میں کیا کیا عنایتیں ہیں:
جنت میں سو درجے
ہیں اور ہر درجے کی وسعت اتنی ہے کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو توسب کے لیے وسیع ہو اور جگہ باقی رہے،جنت میں قسم قسم
کے جواہر کے محل ہیں ایسے صاف و شفاف کہ ان کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے
دکھائی دے، جنت کی دیواریں سونے، چاندی کی اینٹوں اورمشک کے گارے سے بنی ہوئی ہیں
زمین زعفران کی اور کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت ہیں۔
۔ جنت میں چار
دریا ہیں ایک پانی کا، دوسرا دودھ کا تیسرا شہد کا اور چوتھا پاکیزہ شراب کا پھر
ان میں سے نہریں ہر ایک جنتی کے مکان میں
جارہی ہیں،
جنت میں جنتیوں کو ہر قسم کے لذیذ سے لذیذ کھانے ملیں گے
اور جو چاہیں گے فور اًان کے سامنے آجائے گا۔
۔ جنت میں نجاست گندگی ، پاخانہ، پیشاب ، تھوک وغیرہ حتی
کہ کان کا میل بدن کا میل اصلاٍ نہ ہوگا ایک خوشبودار فرحت بخش پسینہ نکلے گا اور ایک خوشبودار اور فرحت بخش ڈکار
آئے گاا ور سب کھانا ہضم ہوجائے گا ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بالقصد اور بلا
قصد مثل سانس کے جاری ہوگی، باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت دوسرے کے پاس چلا
جائے گا۔
جنت میں کم از کم ہر شخص کے سرہانے دس ہزار خادم کھڑے
ہوں گے، جنتیوں کے نہ لباس پرانے ہوں گی اور نہ ا کی جوانی فنا ہوگی، اور اگر
مسلمان اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل اور وضع اور پوری عمر یعنی
تیس سال کی خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں
ہوجائے گا جنت میں نیند ایک قسم کی موت ہے ۔ جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے
اعمال کی مقدار سے مرتبہ پائے گا اور اس
کے فضل کی حد نہیں۔
جنت ایک بہت
بڑا بہت اچھا گھر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے، اس کی دیواریں سونے
چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہوئی ہیں، زمین زعفران اور عنبر کی ہے کنکریو ں کی جگہ
موتی اور جواہرات ہیں اس میں جنتیوں کے رہنے کے لیے نہایت قیمتی ہیرے اور موتی کے
بڑے بڑے محل ہیں اور خیمے ہیں جنت میں سو درجے ہیں ہر درجے کی چوڑائی اتنی ہے جتنی
زمین سے آسمان تک دروازے اتنے چوڑے ہیں کہ ایک بازو سے دوسرے بازو تک تیز
گھوڑا۷۰برس تک پہنچے جنت میں ایسی نعمتیں ہوں جو کسی کے خواب و خیال میں نہیں آئیں
طرح طرح کے پھل میوے ، دودھ ، شراب طہور اور اچھے اچھے کھانے بڑھیا بڑھیا کپڑے جو
دنیا میں کبھی کسی کو نصیب نہ ہوئے وہ جنتیوں کو دیئے جائیں گے خدمت کے لیے ہزارو
صاف ستھرے غلمان اور سینکڑوں حوریں ملیں گی جواتنی خوبصورت ہوں گی کہ اگر کوئی ان
میں سے دنیا کی طرف جھانکے تو اس کی چمک
اور خوبصورتی سے ساری دنیا کے لوگ بے ہوش ہوجائیں۔ بہشت میں نہ نیند آئے گی نہ
بیماری نہ کوئی ڈر ہوگا نہ کبھی موت آئے گی نہ کسی قسم کی کوئی تکلیف ہوگی بلکہ ہر
طرح کا آرام ہوگا، اور جنت میں جنتیوں کو ہر قسم کے لذیذ کھانے ملیں گے جو چاہیں
گے فورا ان کے سامنے ہوجائے گا جنت میں قسم قسم کے محل ہیں ایسے صاف و شفاف کہ
اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے۔
جنت میں چار
دریا ہیں ایک پانی کا دوسرا شہد کا تیسرا دودھ کا اور چوتھا پاکیزہ شراب کا پھر ان
میں سے نہریں نکل کرہر ایک جنتی کے مکان میں جارہی ہیں، جنت میں نجاست گندگی
پاخانہ پیشاب تھوک وغیرہ حتی کہ کان کا
میل اصلا نہ ہوں گے ایک خوشبودار فرحت بخش پسینہ نکلے گا اور ایک خوشبو دار اور
فرخت بخش ڈکار آئے گی اور سب کھانا ہضم ہوجائے گا ہر وقت زبان سے تسبیح و تکبیر بالقصد اور بلا قصد مثل سانس کے جاری
ہوگی باہم ملنا چاہیں گے تو ایک کا تخت
دوسرے کے پاس چلا جائے گا، جنتی جب جنت میں جائیں گے ہر ایک اپنے اعمال کی قدر سے مرتبہ پائے گا اور اس کے فضل کی کوئی حد نہیں جنت میں کم
از کم ہر شخص کے سرہاے میں دس ہزار خادم کھڑے ہو گے جنتیوں کے نہ لباس پرانے پڑیں
گے نہ ا ن کی جوانی فنا ہوگی اور اگر مسلمان اولاد کی خواہش کرے گا تو اس کا حمل
اور واضع حمل اور پوری عمر یعنی تیس سال کی ،خواہش کرتے ہی ایک ساعت میں ہوجائے گا
جنت میں اللہ
تعالیٰ نے اپنے ایمان دار بندوں کے
لیے انواع واقسام کی ایسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں جنہیں نہ آنکھوں نے دیکھا نہ
کانوں نے سنا نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا تو ان کا وصف پوری طر ح بیان
میں نہیں آسکتا، اللہ
تعالیٰ عطائے فرمائے تو وہیں ان کی
قدر معلوم ہوگی یہ جو مثالیں اس کی تعریف میں دی گئی ہیں سمجھانے کے لیے ہے
ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنت کی
کسی چیز کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں۔
جنت کا معنی: جنت کا
معنی باغ، بہشت ہے
جنت
اصل میں ڈھانپنے کے معنی میں آتا ہے، بہشت کو جنت اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ
وہاں گھنے درخت اور باغات ہیں جو ہر چیز کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہیں
.
جنت کا منظر :
جنت میں اللہ تعالی نے
اپنے ایماندار بندوں کے لیے انواع و اقسام کی ایسی نعمتیں جمع فرمائی ہیں جن تک
آدمی کا وہم و خیال نہیں، جنت کی وسعت کا یہ بیان ہے کہ اس میں سو درجے ہیں، ہر
درجے سے دوسرے درجے تک اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان تک کا، جنت میں
صاف شفاف چمکدار سفید موتی بڑے بڑے خیمے نصب ہیں، ان میں رنگارنگ عجیب و غریب نفیس
فرش ہیں اور یاقوت کے سرخ ممبر ہیں، جنتی
نفیس و لذیذ غزائیں، لطیف میوے کھائیگے، جنت میں کبھی بیماری نہیں ہوگی ہمیشہ کے
لئے زندگی ہوگی، جوانی ہوگی بڑھاپا نہیں ہوگا، تمام نعمتوں سے بڑھ کر اللہ پاک کا دیدار ہوگا ۔
لَهُمْ فِیْهَا فَاكِهَةٌ وَّ لَهُمْ مَّا یَدَّعُوْنَ ۚسَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ
جس طرح اسکول
، گھر اور دفتر میں اچھی کارکردگی پر انعام سے نوازا جاتا ہے اسی طرح اللہ عزوجل نے بھی نیک اعمال کرنے پر انعام کے لیے ایک گھر
تیار کیا ہے جسے جنت کہتے ہیں.
جنت
کیا ہے؟:
جنت ایک بہت
بڑا اچھا گھر ہے جس کو اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہےَ(قانون شریعت ص
۶۲)
جنت
کی چوڑائی :
جنت کی چوڑائی بہت زیادہ ہے۔اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے:
سَابِقُوْۤا
اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِۙ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: بڑھ کر چلو اپنے رب
کی بخشش اور اس جنت کی طرف جس کی چوڑائی جیسے آسمان اور زمین کا پھیلاؤ(پ ۲۷، الحدید ۲۱)
مولانانعیم
الدی مراد آبادی رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں جنت کی
چوڑائی ایسی ہے کہ ساتوں آسمان اور ساتوں
زمینوں کے ورق بنا کر باہم ملا دیئے جائیں تو جتنے وہ ہوں اتنی جنت کی چوڑائی ہے
پھر طول (لمبائی) کی کیا انتہا(تفسیر خزائن العرفان)
جنت
کی دیواریں اور زمین:
جنت کی دیوار
سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہے، زمین زعفران اور عنبر کی ہے،
کنکریوں کی جگہ موتی اور جواہرات ہیں۔(قانون شریعت ص۶۲)
جنت
کے درجے:
جنت کے سو
درجے ہیں اور ان میں سے تین درجوں کی
تعریف کی گئی ہے، ایک درجہ سونے کا، دوسرا درجہ چاندی کا تیسرا نور کا ہے۔(غنیۃ
الطالبین )
جنت
میں دن اور رات :
ابی قلابہ رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی
کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم
کیا بہشت میں رات بھی ہوگی؟آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، کس چیز نے تم کو اس
سوال پر برانگیختہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی میں نے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے
واسطے صبح اور شام جنت میں رزق ہوگا، میں
نے سمجھا کہ صبح و شام کے وقتوں کے درمیان رات ہے، رسول مقبول صلی اللہ تعالیٰ علیہ سلم نے فرمایا جنت میں رات نہیں ہے مگر وہ ایک روشنی اور نور
ہے، اس سے صبح اور شام کا وقت معلوم ہوگا۔(غنیۃ الطالبین ص ۲۸۰)
جنت
میں خوش آوازیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا ہے کہ ایک آدمی رسول مقبول
صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے خوش آواز سے بہت رغبت ہے، کیا جنت میں بھی خوش آوازیں ہوں گی ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے
جواب دیا کہ ہاں ہوں گی جس خدا ئے پاک کے قبضے میں میری جان ہےاس کی قسم ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کے درختوں کے پاس وحی
بھیجے گا اور ان کو حکم کرے گا کہ میرے بندوں کو راگ اور گانا سناؤ، کیونکہ وہ
دنیا میں میری عبادت اور میرے ذکر میں بہت
مشغول رہے ہیں، پس اس وقت جنت کے درخت ایسی سیریلی آوازو ں سے پروددگار کی تسبیح اور
تقدیس سے گیت گائیں گے جیسا کہ خلقت نے کبھی اس سے پہلے نہ سنا ہوگا۔(غنیۃ
الطالبین)
جنت
کابازار:
جنت کی صرف
چوڑائی زمین و آسمان کے برابر ہوگی جس میں قبے ہوں گے موتی اور مونگے سے بنے
ہوئے بالا خانے ہوں گے ان کے دروازے سونے کے ہوں گے ان کی چار پائیاں
یاقوت کی ہونگی ان کے بستر سندس اور استبرق
کے ہوں گے ، ان کے ممبر نور کے ہوں گے ان کے دروازوں اور صحنوں سے اس طر ح کا
نور نکلے گا، سورج کی شعائیں اس کے مقابلے
میں ایک ستارے کی حیثیت رکھتی ہوں گی اعلی علیین میں یاقوت کے بلند محل ہوں گے ان
کی روشنی چمکتی ہوگی اگر وہ روشنی تابع فرمان نہ ہوتی تو انکھیں چندھیا جائیں۔
ان محلات کے دروازے سبز زمرد اور سرخ سونے اور سفید چاندی
کے ہوں گے ان کے ستون اور گوشے جواہرات کے ہوں گے جنت میں ایک درخت ہے طوبہ اس کے سائے میں گھڑ سوار سو سال تک بھی چلتا رہے تو
بھی اس کا سایہ ختم نہ ہوگا، اس کے پھول
ریشمی کپڑے کے ہوں گے اور اس کے پتے چادریں ہوں گی ان کی ٹہنیاں عنبر کی ہونگی اس کی مٹی کافور ہے اور اس کا کیچڑ کستوری ہے اس درخت کی
جڑوں سے شراب، دودھ اور شہد کی نہریں نکلتی ہیں۔