جنت وہ مکان ہے جو اللہ نے نىک لوگوں کے لىے بناىا ہے ، جنت کو اللہ
تعالیٰ نے اپنے رحم سے پىدا فرماىا ہے اور اس مىں اسى کو داخل فرمائے گا جس پر رحم فرمائے گا۔
جنت کے آٹھ طبقے ہىں:(1)
جنت الفردوس(2) جنت عدن(3)جنت ماوٰى(4)دارالخلد
(5)دارالسلام (6)دارالمقامہ(7)علىىن(8)جنت نعىم۔
(تفسىر عزىزى)
جنت مىں سو درجے ہىں اور
ہر درجے کى وسعت اتنى ہے کہ اگر تمام عالم اىک درجہ مىں جمع ہو ں تو سب کے لىے وسىع
ہو اور جگہ باقى رہے۔
(بہار شرىعت،حصّہ1)
ىقىناً بنانے والا اپنى
بنائى ہوئى چىز کى خوبصورتى، پائىدارى، وسعت کو سب سے اچھا بىان کرسکتا ہے جنت کے خالق
رب رحمٰن نے ارشاد فرماىا:
تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ؕاُكُلُهَا دَآىٕمٌ وَّ ظِلُّهَا ؕ
ترجمہ کنزالاىمان:اس کے
نىچے نہرىں بہتى ہىں اس کے مىوے ہمىشہ اور اس کا ساىہ۔
(سورة الرعد، آىت35)
جنت کا حال عجىب ہے اس
مىں نہ سورج ہے نہ چاند نہ تارىکى ، باوجود اس کے دائمى ساىہ ہے۔
جنت مىں موجود نہروں کے
بارے مىں رب تعالىٰ نے فرماىا:
فِیْهَاۤ اَنْهٰرٌ مِّنْ مَّآءٍ غَیْرِ
اٰسِنٍ ۚ وَ اَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗ ۚوَ اَنْهٰرٌ مِّنْ
خَمْرٍ لَّذَّةٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ ۵ ۚ وَ
اَنْهٰرٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّى ؕ
ترجمہ کنزالاىمان:اس مىں
اىسى پانى کى نہرىں ہىں جو کبھى نہ بگڑے اور اسى دودھ کى نہرىں ہىں جس کا مزہ نہ بدلا
اور اىسى شراب کى نہرىں ہىں جس کے پىنے میں لذت ہے اور ایسی شہد کى نہرىں ہىں جو صاف
کىا گىا۔
(سورہ محمد، آىت 15)
جنت کے موسم کے بارےمىں
رب تعالىٰ فرماتا ہے:
لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا
زَمْهَرِیْرًا0
ترجمہ کنزالاىمان: نہ
اس مىں دھوپ دىکھىں گے نہ ٹھٹھر(سخت سردى)۔
(سورہ دھر، آىت13)
جنت کى وسعت کے بارے مىں
رب تعالى فرماتا ہے:
جَنَّةٍ عَرْضُهَا كَعَرْضِ السَّمَآءِ
وَ الْاَرْضِ ۙ
ترجمہ کنزالاىمان:جنت
جس کى چوڑان مىں سب آسمان و زمىن آجائىں۔
(سورہ آل عمران، آىت133)
کىا جنت مىں موت ہے؟ رب
ذوالجلا ل نے فرماىا:
لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْهَا الْمَوْتَ
ترجمہ کنزالاىمان:اس مىں
موت نہ چکھىں گے۔
(سورۃ الدخان، آىت56)
جنت مىں نىند نہىں ہے
کىونکہ نىند اىک قسم کى موت ہے اور جنت مىں موت نہىں۔
جس نے کسى جگہ کى سىر
کى ہو وہ اس کى خوبصورتى بىان کرنے کا اہل ہے، محمد مصطفىٰ صلى اللہ علیہ
وسلم نے شب معراج جنت کى سىر فرمائى۔ آپ صلى اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرماىا: جنت وہ نعمتىں ہىں جنہىں نہ کسى آنکھ نے دىکھا
نہ کسى کان نے سنا اور نہ کسى دل مىں اس کا خىال گزرا۔
(الترغىب والترہىب، حدىث79، ج4، 293)
دنىا کى کسى چىز کى جو
مثال دى جاتى ہے محض سمجھانے کےلىے ہے ورنہ دنىا کى اعلىٰ سے اعلىٰ نعمت کو جنت کى
کسى نعمت سے نسبت نہىں۔ آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے جنت کى تعمىر کے بارے مىں ارشاد فرماىا:جنت کى اىک اىنٹ سونے
کى اىک چاندى کى ہے اور اس کا گارا مشک کا ہے اور اس کى کنکرىاں موتى اور ىاقوت کى
ہىں اور اس کى مٹى زعفران ہے۔
(سنن ترمذى ، حدىث2534، ج4، ص236)
آپ صلى
اللہ علیہ وسلم نے فرماىا:جنت مىں اىسے بالا خانے ہىں جن کا اندر باہر سے اور
باہر اندر سے نظر آتا ہے۔
(صحىح ابن حبان، حدىث509، ج1، ص363)
جنت ایک مکان ہے کہ اللہ عزوجل نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے اس میں وہ نعمتیں مہیا
کی ہیں جن کو نہ
آنکھوں نے
دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرے۔
جو کوئی مثال
اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی اعلی سے اعلی
شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف
جھانکے تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائیں اور خوشبو سے بھر جائے اور چاند سورج کی
روشنی جاتی رہے اور اس کا دوپٹہ دنیا و
مافیہا سے بہتر ۔
اور ایک روایت
میں یوں ہے کہ اگر حور اپنا دوپٹا ظاہر
کرے تو اس کی خوبصورتی کے آگے آفتاب ایسا ہوجائے جیسے آفتاب کے سامنے چراغ اور اگر
جنت کی کوئی ناخن بھر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام آسمان و زمین اس سے آراستہ ہوجائیں
اور اگر جنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹا دے جیسے آفتاب ستاروں کو مٹا
دیتا ہے، جنت کی اتنی جگہ جس میں کوڑا رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے، جنت کتنی وسیع ہے اس کو اللہ و
رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی جانیں۔
اجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں سو درجے ہیں۔ ہر دو
درجوں میں وہ ساخت ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، جنت میں ایک درخت ہے جس کے
سایہ میں سو برس تک تیز گھوڑے پر سوار
چلتا رہے تو ختم نہ ہو۔ جنت کے دروازے
اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک بازو سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستر برس کی راہ ہوگی پھر بھی
جانے والوں کی وہ کثرت ہوگی کہ مونڈھے سے مونڈھا چلتا ہوگا۔ بلکہ بھیڑ کی وجہ سے
دروزہ چرچرانے لگے گا اس میں قسم قسم کے جواہر کے محل ہیں ایسے صاف و شفاف کہ اندر
کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے جنت کی دیواریں سونے اور چاندی کی
اینٹوں اور مشک کے گارے سے بنی ہیں ایک اینٹ سونے کی ایک چاندی کی زمین زعفرا ن کی
کنکریوں کی جگہ موتی اور یاقوت۔
۔جنت کن چىزوں سے بنى ہے؟
حضرت سىدنا ابوہرىرہ رضی اللہ
عنہ سے رواىت ہے کہ
ہم نے عرض کىا: ” یارسول اللہ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم! ہمىں جنت اور اس کى تعمىر
سے متعلق بتائىے؟“ تو آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا:
”اس کى اىک اىنٹ سونے کى اور اىک چاندى کى ہے اور اس کا گارا مشک کا ہے اور اس کى
کنکرىاں موتى اور ىاقوت کى ہىں اور اس کى مٹى زعفران کى ہے۔“
(جنت کى دو چابىاں، ص
14 )
2۔جنت
کى نعمتىں:
حضرت سىدنا ابوہرىرہ رضى اللہ
عنہ سے فرماتے ہىں
کہ رسول کرىم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرماىا:”اللہ تعالىٰ نے ارشاد
فرماىا کہ مىں نے اپنے نىک بندوں کے لىے اىسى اىسى نعمتىں تىار کررکھى ہىں کہ جن
کو نہ تو کسى آنکھ نے دىکھا، نہ اس کى خوبىوں کو کسى کان نے سنا اور نہ ہى کسى انسان کے دل پر ان کى ماہىت کا خىال
گزرا۔“
(جنت کى دو
چابىاں، ص15)
3۔جنت
کتنى بڑى ہے؟
حضرت سىدنا عبادہ
بن صامت رضی اللہ عنہ رواىت کرتے ہىں کہ رحمت کونىن صلى اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرماىا:”جنت
مىں سو منزلىں ہىں، اور ان مىں سے ہر دو
منزلوں کے درمىان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمىن و آسمان کے درمىان ہے۔“
(جنت کى دو چابىاں، ص
15)
4۔جنت
کےدروازے:
حضرت سىدنا سہل بن سعد رضى اللہ
عنہ سے مروى ہے
کہ سرکار مدینہ صلى اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا:”جنت
آٹھ دروازے ہیں۔“
( جنت کى دو چابىاں،
ص 16)
5۔جنت
کے خىمے:
حضرت سىدنا ابو موسىٰ رضى اللہ
عنہ سے مروى ہے
کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرماىا:”مومن
کے لىے جنت مىں کھکلى موتى کا اىک خىمہ ہوگا جس کى چوڑائى سات مىل ہے۔“
( جنت کى دو چابىاں،
ص 16)
6۔جنت
کے باغات:
جنتى لوگوں کو اىسے باغات عطا کئے جائىں گے جن کے نىچے ندىاں بہہ رہى ہوں گى جىسا کہ سورۂ کہف مىں
ہے۔
ترجمۂ کنزالاىمان:بے شک جو اىمان لائے اور نىک کام کىے ہم ان کے نىگ (اجر) ضائع نہىں کرتے
جن کے کام اچھے ہوں ان کے لىے بسنے کے باغ ہىں ان کے نىچے ندىاں بہىں۔
(پ ۱۵، الکہف:۳۰، ۳۱)
7۔اہل
جنت کا لباس:
جنتىوں کو سونے کے کنگن اور سبز کپڑے پہنائىں جائىں گے،
جىسا کہ قرآن کرىم مىں ارشاد ہوتاہے۔
ترجمہ کنزالاىمان:وہ اس مىں سونے کے کنگن پہنائىں جائىں گے
اور سبز کپڑے کرىب اور قناد ىز کے پہنىں گے۔
(پ ۱۵، الکہف: ۳۱)
8۔جنتىوں
کا کھانا :
جنتىوں کو کھانے کیلئے لذىذمىوہ جات اور گوشت دىا جائے گا
نىز ان کے کھانے کے ہر نوالے کا مزہ جداگانہ ہوگا۔
ترجمہ کنزالاىمان:اور مىوے جو پسند کرىں اور پرندوں کا گوشت
جو چاہىں۔
(پ۲۷، الواقعہ۲۰، ۲۱)
9۔جنتىوں
کا مشروب:
جنتىوں کو پىنے کے لىے اىسى پاکىزہ شراب دى جائے گى جس مىں
نشہ نہىں ہوگا، قرآن مجىد مىں ارشا دہوتا ہے۔
ترجمہ کنزالاىمان:”ان کے گرد لئے پھرىں گے ہمىشہ رہنے والے،
لڑکے کوزے اور آفتابے اور جام آنکھوں کے سامنے بہتى شراب کہ اس سے نہ انہىں درد سر
اور نہ ہى ہوش مىں فرق آئے۔“
(پ۲۷،سورۃ الواقعہ ۱۷، ۱۸، ۱۹)
10۔جنت
کا موسم:
جنت مىں دنىا کى مثل گرمى ىا سردى کى شدت کا سامنا نہىں
ہوگا، بلکہ اس مىں انتہائى خوشگوار اور معتدل موسم ہوگا ،قرآن حکىم مىں ہے۔
ترجمہ کنزالاىمان:نہ اس مىں دھوپ دىکھىں گے نہ ٹھٹھر (سخت سردى)۔
(پ29، سورۃالدھر:13)
(جنت کى دو چابىاں، ص
20)
11۔جنت
کے درخت :
حضرت سىدنا ابوہرہ رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول
اللہ صلى
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشا دفرماىا:”جنت مىں ہر درخت کا تنا سونے کا ہے۔“
12۔جنت
مىں دىدارِ الٰہى عزوجل:
حضرت سىدنا ابن عمر رضى اللہ عنہما رواىت کرتے ہىں
کہ رسول کریم صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرماىا کہ اللہ
تعالىٰ کے نزدىک
سب سے بڑے مرتبہ کا جنتى وہ شخص ہوگا جو صبح و شام دىدارِ الٰہى سے مشرف ہوگا اس
کے بعد آپ صلى اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ىہ آىتِ کریمہ تلاوت
فرمائى:
ترجمہ کنزالاىمان:”کچھ منہ اس دن تر و تازہ ہوں گے اپنے رب کو
دىکھتے۔“
(پ ۲۹، القىٰمۃ۲۲، ۲۳)
آیت مبارکہ:
یُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُمْ بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَ رِضْوَانٍ وَّ جَنّٰتٍ
لَّهُمْ فِیْهَا نَعِیْمٌ مُّقِیْمٌۙ (۲۱) خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-اِنَّ اللّٰهَ
عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۲۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: ان
کا رب انہیں خوشی سناتا ہے اپنی رحمت اور اپنی رضا کی اور ان باغوں کی جن میں انہیں
دائمی نعمت ہے ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے بےشک اللہ کے پاس بڑا ثواب ہے۔ (پ ۱۰۔التوبہ ۳۲۔۲۱)
بے شک ڈر والے
باغوں اور چشموں میں ہیں ان میں داخل ہو کر سلامتی کے ساتھ امان میں اور ہمیشہ ان کے سینوں
میں جو کچھ کینے تھے سب کھینچ لیے آپس میں
بھائی ہیں تختوں پرروبرو بیٹھے نہ انہیں
اس میں کچھ تکلیف پہنچے نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں ۔
حدیث
مبارک:
۱،۔ حضرت
سیدنا ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتم المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں
نے اپنے نیک بندوں کے لیے ایسی چیزیں تیار کی ہیں جو نہ کسی آنکھ نے دیکھیں نہ کسی
کان نے سنیں اور نہ کسی انسان کے دل میں اس کا خیال گزرا، اگر چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ارشاد ہوتا ہے : فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّاۤ اُخْفِیَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْیُنٍۚ-جَزَآءًۢ
بِمَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۷)
تَرجَمۂ کنز الایمان: تو کسی جی کو نہیں معلوم جو آنکھ کی ٹھنڈک ان کے لیے
چھپا رکھی ہے صلہ اُن کے کاموں کا۔ (السجدہ ، 17)
واقعہ
:
محبوب ربِ اکبر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایک اعرابی نے حاضر ہو کر عرض
کیا کہ جس حوض کے بارے میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بتاتے ہیں وہ کیسا ہے؟
پھر ایک حدیث
میں بیا ن یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچے کہ
اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا اس میں پھل بھی ہیں؟
فرمایا : ہاں اور
اس میں ایک درخت ہے جیسے طوبی کہا جاتا ہے
وہ فردوس کو ڈھانپے ہوئے ہے۔ عرض کی کیا وہ ہماری زمین کے کس درخت سے مشابہت رکھتا
ہے؟فرمایا: وہ تمہاری زمین کے کسی درخت سے
مشابہت نہیں رکھتاہے فرمایا: تمہاری زمین کے کسی درخت سے مشابہت نہیں رکھے مگر ،۔
کیا تم کبھی ملک شام گئے ہو؟ عرض کیا، نہیں
یارسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا
: وہ ملک شام کے ایک درخت کی طرح کا درخت ہے جسے جو زہ یعنی اخروٹ کا درخت کہا
جاتا ہے ،۔ وہ ایک ہی تنے پراُگتا ہے پھر
اس کی شاخیں پھیل جاتی ہیں۔
عرض کیا، اس کی جڑ کی لمبائی کتنی ہے؟ فرمایا۔
اگر تمہارے پالتو اونٹوں میں سے چار سال کی عمر کا اونٹ سفر کرے تو اس وقت تک اس
کی مسافت قطع نہ کرسکے گا جب تک بڑھاپے کی وجہ سے اس کے سینے کی ہڈیاں نہ ٹوٹ جائیں ۔اس نے عرض کی ،کیا
اس میں انگور ہیں ؟ فرمایا۔ ہاں عرض کیا
اس کے خوشے کی
لمبائی کتنی ہے ؟ فرمایا۔
سیاہ و سفید
کوے کے مسلسل ایک ماہ اس طرح اڑنے کی مسافت کہ نہ وہ گرے نہ رکے اورنہ ہی سستی کرے
عرض کیا۔ جنت
کے انگور کے ایک دانے کا حجم کتنا ہے؟
فرمایا۔ کیا
تمہارے باپ نے کبھی اپنے ریوڑ میں سے کوئی بڑا جنگلی بکرا ذبح کرکی اس کی کھال
اتار کر تمہاری ماں کو دی ہے اور کہا ہے کہ اس کی صفائی کرکے رنگ لو پھر اس کو
پھاڑ کر ایک بڑا سا ڈول بناؤ جس کے ذریعے ہم اپنے مویشیوں کو اپنی مرضی کے
مطابق سیراب کرسکیں َ؟ اس نے عرض کیا ہاں
پھر عرض کیا
وہ دانہ مجھے اور میرے اہل خانہ کو شکم سیر کردے گا؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تمام رشتہ داروں کو بھی
باغ جنت میں محبت محمد مسکراتے
جائیں گے
پھول رحمت کے جھڑیں گے ہم اٹھاتے جائیں گے
اے اللہ ہمیں
اپنے مخلص بندوں میں شامل فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جنت میں ایک
ایسا مکان ہے جسے اللہ
عزوجل نے ایمان لانے والوں کے لیے
بنائی اس میں نعمتیں ہیں جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا ہے اور ،جو کوئی مثالیں اس کی تعریف میں
دی گئی ہیں سمجھانے کے لیے ہے ورنہ تو ایسا کہ سب سے خوبصورت سے خوبصورت چیز کو
بھی جنت کی کسی شے سے کوئی مناسبت نہیں ،
اگر جنت کی کوئی عورت زمین کی طرف جھانکے تو زمین سے آسمان تک سب جگہ روشنی پھیل
جائے اور خوشبو سے بھر جائے اور ساتھ ہی ساتھ چاند و سوج کی روشنی جاتی رہے گی۔ اور ایک روایت میں آتا ہے کہ اگر
حور اپنی ہتھیلی زمین و آسمان کے درمیان سے نکالے تو اس کی خوبصورتی کی وجہ سے
تمام مخلوقات فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کرتی ہے تو اس کے نور اور
چمک کے آگے آفتاب ایسا ہوجائے کہ جیسے آفتاب کے سامنے چراغ ہے اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام
آسمان و زمین اس سے آراستہ ہوجائیں اور
اگر جنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی اس طرح مٹا دے گا جیسے آفتاب ، ستاروں
کی روشنی مٹا دیتا ہے، جنت کتنی وسیع ہے اسے اللہ و رسولعزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی جانتے ہیں کہ وہ کتنی بڑی اور خوبصورت ہے۔
جنت کا اجمالی
بیان:
اس میں سو درجات ہیں ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے جو آسمان اور زمین کے درمیان ہے رہا یہ کہ اب خود اس درجہ کی کیا مسافت ہے اس کے متعلق کوئی روایت تو معلوم نہیں، البتہ ایک ترمذی شریف کی حدیث پاک میں ہے کہ: اگر تمام مخلوق ایک درجہ میں جمع ہو جائے ، تو سب کے لیے وسیع ہے،
جنت کا بیا ن:
جنت بہت ہی حسین و جمیل مقام ہے جس کو نہ کبھی
کسی انسان نے دیکھا اور نہ ہی کوئی اس کا تصور کرسکتا ہے اور اس میں ڈالیاں ہیں جس
پر میوے لگے ہوئے ہیں اللہ پاک ارشاد
فرماتاہے: ذَوَاتَاۤ اَفْنَانٍۚ(۴۸) ترجمہ
کنزالایمان :بہت سی ڈالیوں والیاں (پار
ہ ۲۷، سورہ الرحمان آیت ۴۸)
جنت میں نہریں باغ اور ستھری بیویاں ہیں۔
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ
سَنُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ
اَبَدًاؕ-لَهُمْ فِیْهَاۤ اَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ٘-وَّ نُدْخِلُهُمْ ظِلًّا
ظَلِیْلًا(۵۷)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اورجو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ہم انہیں باغوں میں لے جائیں
گے جن کے نیچے نہریں رواں ان میں ہمیشہ رہیں گے ان کے لیےوہاں ستھری بیبیاں ہیں اور ہم انہیں وہاں داخل کریں گے جہاں سایہ ہی
سایہ ہوگا ۔(پارہ ۵، سورہ النساء
آیت نمبر57)
میرے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس آیت مبارکہ کے جز ( اور ہم انہیں وہاں داخل
کریں گے جہاں سایہ ہی سایہ ہوگا) کے تحت فرماتے ہیں: یعنی سایہ جنت جس کی راحت و
آسائش رسائی فہم احاطہ بیان سے باہر ہے۔ یعنی
اس میں اتنا سکون اور راحت ہوگی کہ بیان سے باہر ہے۔
اللہ پاک ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ یُّؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ یَعْمَلْ
صَالِحًا یُّكَفِّرْ عَنْهُ سَیِّاٰتِهٖ وَ یُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ
تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ
الْعَظِیْمُ(۹)
جس دن تمہیں ا کھٹا کرے گا سب
جمع ہونے کے دن وہ دن ہے ہار والوں کی ہار کُھلنے کا اور جو اللہ پر ایمان لائے اور اچھا کام کرے اللہ اس کی برائیاں
اُتاردے گا اور اُسے باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں کہ وہ ہمیشہ ان
میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔ (پارہ ۲۸،سورہ
تغابن ، آیت ۹)
ٗجنت میں چشمے بہتے ہوں گے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فِیْهِمَا عَیْنٰنِ تَجْرِیٰنِۚ(۵۰)
ترجمہ کنزالایمان: ان میں دو چشمے بہتے ہیں۔ (پارہ ۲۷ ، سورہ ص آیت 50)
اعلی حضر ت اس آیت مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
ایک آب ِشیریں اور ایک شرا ب پاک یا ایک
تسنیم دوسرا سلسبیل
جنت میں میوے دوقسم کے ہیں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: فِیْهِمَا مِنْ كُلِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰنِۚ(۵۲) ترجمہ کنزالایمان، ان میں ہر میوہ دو قسم کا ہے۔
اور جنت میں میوے کھجوریں اور انار بھی ہیں۔ اللہ پاک ارشا د فرماتا ہے: فِیْهِمَا فَاكِهَةٌ وَّ نَخْلٌ وَّ رُمَّانٌۚ(۶۸) ترجمہ
کنزالایمان، ان میں میوے کھجوریں
اور انار ہیں۔ (پارہ ۲۳ سورہ الرحمن آیت ۶۸)
جنت میں جمعۃ المبارک کے دن بازار لگے گا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔
پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد
فرمایا :ہر جمعہ کے دن جنت میں ایک بازار لگے گا اس میں شمالی ہوا چلے گی جو
جنتیوں کے چہروں اور کپڑوں پر لگے گی تو ان کے حسن و جمال میں نکھار پیدا ہو جائے گا اور وہ بہت زیادہ خوبصورت ہوجائیں گے اور جب وہ
بازار سے پلٹ کر اپنے گھر جائیں گے تو ان کے
گھر والے کہیں گے کہ تم تو خدا کی قسم
حسن و جمال میں بہت بڑھ گئے ہو تو یہ لوگ
کہیں گے کہ ہمارے پیچھے تم لوگوں کا حسن و
جمال بھی بہت بڑھ گیا ہے۔(صحیح مسلم الحدیث )
حدیث مبارک:
پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے نفل روزہ رکھا اس کی لیے جنت میں ایک درخت لگادیا جائے گا جس کا پھل انار سے
چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا اللہ پاک بروز قیامت روزہ دارکو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔ (معجم اکبیر ج ۱۸،ل ۳۶۱ ، حدیث ۵۳۵)
حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ جنت میں درخت ہوں گے ، اللہ پاک ہماری مغفرت فرمائے بے حساب اور پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کا جنت میں پڑوس عطا فرمائے اور اس درخت سے پھل
کھانا نصیب فرمائے۔
جنت:
جنت کا معنی باغ ہے اور اس کی جمع ہے جنان یعنی باغات
اور جنت وہ ہے
جو مؤمنوں کے لیے بنائی گئی ہے اور جنت میں ایسی نعمتیں ہیں کہ نہ کسی آنکھ نے
دیکھی ہے اور نہ کسی کان نے سنی ہیں اور نہ کسی پر اس کا خیال گزرا ہے، اور وہ
ہماری آنکھوں سے چھپا ہوا ہے۔
جنتیں
سات ہیں:
حضرت ابن عباس
رضی اللہ
تعالیٰ عنہما نے سات جنتوں کا ذکر
فرمایا ہے۔۱۔ جنت الفردوس ۔۲۔ جنت عدن۔۳۔ جنت النعیم۔۴۔ دارالفکر۔۵۔جنت الماوی۔ ۶۔
دارلسلام۔۷۔ اور تفسیر بیضاوی ص ۲۸۰
اور حضرت عبداللہ بن
عباس رضی
اللہ عنہما سے ایکر وات یہ ہے کہ
جنتیں آٹھ ہیں اور ان کے نام یہ ہیں۔
۱۔دارلجلال،
۲۔ دارالقرار۔ ۳۔دارالسلام،۴۔جنت عدن، ۵۔جنت ماوی ۔۶۔ جنت خلد۔۷۔ جنت فردوس ۸، جنت
نعیم۔ (تفسیر صراط الجنان جلد ۴، ص ۱۸۰)
جنت
عدن اور اس کی نعمتیں:
جنت عدن کے
بارے میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے حضور اقدس صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا ا
للہ تعالیٰ نے جنت عدن کو اپنے دست
قدرت سے پیدا فرمایا اس کی ایک اینٹ سفید موتی کی ہے ایک سرخ یاقوت کی ہے اور ایک
سبز زبرجد کی ہے مشک کا گا را ہے اس کی گھاس زعفران کی ہے موتی کی کنکریاں اور عنبر کی مٹی ہے۔
جنت ایک مکان ہے کہ اللہ
تعالی نے ایمان
والوں کے لیے بنایا ہے اس میں وہ نعمتیں مہیا ہے جنکو نہ آنکھوں نے دیکھا ، نہ
کانوں نے سنا ، نہ کسی آدمی کے دل پر ان کی مایت کا خیال گزرا ،جو کوئی مثال اس
کی تعیرف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے ، ورنہ دنیا کی اعلی سے اعلی شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ،چنانچہ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جنت کی اتنی جگہ جس
میں کوڑا (دُرّہ) رکھ سکیں ،دنیا اور جو
کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے ۔(بخاری 2/392، حدیث: 3250)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمیں جنت ار اس کی تعمیر سے متعلق بتائے ؟ تو آپ صلَّی اللہ تعالٰی
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اس کی ایک اینٹ
سونے کی ااور ایک چاندی کی ہے اور اس کا گارا مشک کا ہے اور اس کی کنکریاں موتی اور یاقوت کی ہیں اور اس کی مٹی زعفران کی ہے ۔( ترمذی ، 4/236 حدیث: 2534)
جنت میں چار دریا ہیں ایک پانی کا ، دوسرا دودھ کا ،
تیسرا شہد کا ، چوتھا شراب کا ،پھر ان سے
نہریں نکل کر ہر ایک کے مجان میں جا رہی ہیں ۔ وہاں کی نہریں زمین کھود کر نہیں
بلکہ زمین کے اوپر رواں ہیں ،نہروں کا ایک کنارہ موتی کا دوسرا یا قوت کا ہے
اور اس نہروں کی زمین خالص مشک کی ہے ۔(الترغیب
والترھیب ، 4/215 حدیث: 5764)
حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی
اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ رحمت کونین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جنت میں سو منزلیں ہیں اور ان
میں سے ہر دو منزلوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان ہے ( ترمذی ، 4/238 حدیث: 2539)
جنت کے آٹھ دروازے ہیں ،(بخاری ، 2/394 حدیث: 3257)جنت (کے دروازوں )
کی چوکھٹوں میں سے ہر دو چوکھٹ کے درمیان چالیس برس کا فاصلہ ہے (مسلم ، 1586)
جنت میں دنیا کی مثل گرمی یا سردی کی شدت کا
سامنا نہیں ہوگا بلکہ اس میں انتہائی خوشگوار اور معتدل موسم ہوگا ۔ قرآن حکیم
میں ہے : لَا یَرَوْنَ فِیْهَا شَمْسًا وَّ لَا
زَمْهَرِیْرًاۚ(۱۳)
تَرجَمۂ کنز الایمان: نہ اس میں دھوپ دیکھیں گے نہ ٹھٹھر(الدھر ،13)
جنت میں ہر درخت کا تنا سونے کا ہے
۔(ترمذی ، 4/236)
اس میں قسم قسم کے جواہر کے نخل ہیں ،ایسے صاف و
شفاف کہ اندر کا حصہ باہر سے اور باہر کا اندر سے دکھائی دے ۔ (الترغیب والترھیب 4/، حدیث: 281) وہاں نجاست ،گندگی
،پاخانہ ،پیشاب ،تھوک ،رینٹھ ،کان کا میل ،بدن کا میل اصلاً نہ ہوں گے ،ایک خوشبو
دار فرحت بخش ڈکار آئے گی خوشبودار فرحت بخش پسینہ ،نکلے گا ،سب کھانا ہضم ہو
جائے گا اور ڈکار اور پسینے سے مشک کی
خشبو بکلے گی ۔ (مسلم ،1520 حدیث: 2835)
جنت
کے دروازوں کی صفت :
جنت کے آٹھ دروازے
ہیں اور ان کی مختلف صفات ہیں جیسے ایک دروازہ ریان ہے اس دروازہ سے صرف صرف روزہ
دار گزریں گے اس دروازہ کے اندر ایک دریا ہے روزے دار اس سے پانی پی کر سیراب
ہوجائیں گے پھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگے گی، ( بخاری شریف صفحہ ۲۶۹)
جنت ایک مکان ہے کہ اللہ پاک نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے ۔اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا ،نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا جوکوئی
مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے ورنہ دنیا کی اعلی سے اعلی شے کو
جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ۔
جنت کی
وسعت :
اس کو اللہ و رسول ہی جانیں ، اجمالی بیان ہے کہ اس میں سو درجےہیں ہر دو درجوں میں وہ مسافت ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے ، خود اس درجے کی کیا مسافت ہے اس کے متعلق
کوئی روایت خیال میں نہیں ،البتہ ایک
حدیث ترمذی کی ہے کہ اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیے وسیع ہے ۔
جنت کی
مسافت :
جنت میں ایک درخت ہے
جس کے سائے میں سو برس تک تیز گھوڑے پر
سوار، چلتا رہے اور ختم نہ ہو جنت کے دروازے اتنے وسیع ہونگے کہ ایک بازو سے
دوسرے بازو تک تیز گھوڑے کی ستر برس کی راہ ہو گی کہ مونڈھے سے مونڈھا چھلتا ہوگا ،بلکہ بھیڑ کی وجہ سے دروا وازہ چر
چرانے لگے گا ۔
جنت کی
نعمتیں :
جنتیوں کو جنت میں ہر
قسم کے لذیذ کھانے ملیں گے ۔جو چاہیں گے آجائے گا فورا ً ان کے سامنے موجود ہوگا ،اگر کسی پرند کو دیکھ کر اس کا گوشت کھانے کا جی ہو تو اسی وقت بھنا ہوا ان کے پاس آجائے گا ۔ اگر پانی وغیرہ کی خواہش ہو تو کوزے خود ہاتھ میں آ جائیں گے ،ان میں ٹھیک ان اندازے کے موافق پانی ،دودھ ،شراب شہد ہوگا کہ ان کی خوا ہش سے ایک قطرہ کم زیادہ نہ ہوگا ، بعد پینے کے خود بخود جہاں سے آئے تھے چلے جائیں گے ۔
جنت
میں اللہ کا دیدار :
جنتیوں کو جنت
میں اللہ تعالی کا دیدار
صاف ہوگا جیسے آفتاب اور چودھویں رات کے چاند کو ہر ایک اپنی اپنی جگہ سے
دیکھتا ہے کہ ایک کا دیکھنا دوسرے کے لیے مانع نہیں اور اللہ تعالی ہر ایک
پر تجلی فرمائے گا ۔
جنتی
حوروں کا گانا :
جب کوئی بندہ جنت میں جائے گا تو اس کے سرہانے اور پائنتی نہایت
اچھی آواز سے گائیں گی ،مگران کا گانا یہ شیطانی مزامیر نہیں بلکہ حمد و پاکی ہو گا ، وہ ایسی خوش گلو ہوں گی کہ مخلوق نے ویسی آواز کبھی نہ سنی ہوگی اور یہ بھی گائیں گی کہ ہم ہمیشہ رہنے والیاں ہیں کبھی نہ مریں گے ہم
چین والیاں ہیں کبھی تکلیف میں نہ پڑیں گے ہم راضی ہیں ناراض نہ ہونگی،مبارک باد اس کے لیے جو ہمارا اور ہم اس کے ہوں ۔
جنت کا
بازار :
جنت میں لوگ ایک
بازار میں جائیں گے جسے ملائکہ گھیرے ہوئے ہیں ، اس میں وہ چیزیں ہوں گی کہ ان کی
مثل نہ آنکھوں نے دیکھی نہ کانوں نے سنی نہ
قلوب پر ان کا خطرہ گزرا ، اس میں سے جو چاہیں گے ان کے ساتھ کر
دی جائے گی اور خرید و فروخت نہ ہوگی اور جنتی اس بازار میں باہم ملیں گے چھوٹے
مرتبہ والا بڑے مرتبہ والے کو دیکھے گا ، اس کا لباس پسند کرےگا ۔ہنوز گفتگو ختم
ہی نہ ہو گی کہ خیال کرے گا ، میرا لباس
اس سے اچھا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ جنت میں کسی کے لیے غم نہیں (بہار شریعت )
اللہ کریم ہمیں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے جنت
میں آقا علیہ السلام کا پڑوس نصیب فرمائے (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم )
سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث مبارک ہے : حضرت عبدالله بن قيس رضي الله تعالی عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تیری رہنمائی ایسے کام کی طرف نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے، میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ کون سا کام ہے تو ارشاد
فرمایا، کہ وہ کام یہ ہے لاحول ولا قوة الا باللہ
بہار شریعت حضہ اول صفحہ نمبر ۱۵۲ پر جنت کا بیان یوں
بیان ہے۔ جنت ایک مکان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانون نے
سنا نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے
ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں، وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے
تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائیں اور خوشبو سے بھرجائے اور چاند سورج کی روشنی
جاتی رہے، اور اس کا دوپٹا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حور اپنی ہتھیلی زمین و
آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی
وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کردے تو
اس کی خوبصورتی کےآگے آفتاب ایسا ہوجائے
جیسے آفتاب کے سامنے چراغ اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام اسمان و زمین اس سے آراستہ
ہوجائیں اور اگر جنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹا دے جیسے آفتاب ستاروں
کی روشنی مٹا دیتا ہے جنت کی اسی جگہ یں کوڑا رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے،
جنت کتنی وسیع ہے اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانیں اجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں میں مسافت ہے جو آسمان و
زمین کے درمیان ہے اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں البتہ ایک حدیث ترمذی کی
یہ ہے ۔
حدیث : اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیےو
سیع ہے
جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سو برس تک تیز گھوڑے
پر سوار چلتا رہے اور ختم نہ ہو، جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک باز و سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستر برس کی
راہ ہوگی۔
جنت
کے معنی:
جنت کے معنی
باغ کے ہیں، ایسا باغ جو اپنے سبزہ اور گھنے درختوں کی وجہ سے زمین کو چھپالے۔
جنت ایک بہت
بڑا اور اچھا گھر ہے، جس کو اللہ
تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے بنایا ہے۔
جنت
کی زمین:
زمین زعفران
اور عنبر کی ہے، کنکریوں کی جگہ موتی اور
جواہرات ہیں، اس میں جنتیوں کے رہنے کے لیے نہایت خوبصورت ہیرے جواہرات اور موتی کے بڑے بڑے محل اور خیمے
ہیں۔
جنت
کی دیواریں:
جنت کی
دیواریں سونے چاندی کی اینٹوں اور مشک کے گاروں سے بنی ہیں۔
جنت
کے درجات:
جنت میں سو
درجے ہیں ہر درجے کی چوڑائی اتنی ہے جنتی زمین سے آسمان تک، دروازے اتنے چوڑے ہیں
کہ ایک بازو سے دوسرے بازو تک تیز گھوڑا ستر برس میں پہنچے،
جنت میں ایسی
نعمتیں ہوں گی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں آتیں، طرح طرح کے پھل میوے ددھ
شراب (جنت کی شراب میں نہ بو ہوگی اور نہ ہی نشہ ہوگا) اور اچھے اچھے کھانے اور بڑھیا بڑھیا
کپڑے جو دنیا میں کبھی کسی کو نصیب نہ ہوئے وہ جنتیوں کو دیئے جائیں گے، خدمت میں ہزاروں صاف ستھرے غلمان (کم سن
غلام)ہوں گے۔
جنت
کی حوریں:
سینکڑوں حوریں
ملیں گی، جو اتنی خوبصورت ہیں کہ اگر کوئی ان میں سے دنیا کی طرف جھانکے تو اس کی
چمک اور خوبصورتی سے ساری دنیا بے ہوش ہوجائے۔
جنت
کی دیگر نعمتیں:
جنت میں رہنےوالے کو بہشت میں نیند آئے گی نہ بیماری نہ کوئی ڈر ہوگا نہ کبھی موت آئے گی، نہ کسی قسم کی کوئی تکلیف
ہوگی بلکہ ہرطرح کا آرام ہوگااور ہرخواہش
پوری ہوگی، جتنی کاجس چیز کو کھانے کا دل ہوگا اسے وہ چیز ملے گی اور اس چیز کا ذائقہ حاصل ہوگا۔
جنت کی سب سے
بڑھ کر نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا اللہ تعالیٰ کو دنیا کی زندگی میں آنکھ سے دیکھنا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے خاص ہے۔
اور آخرت میں ہر سنی مسلمان دیکھے گا
، رہا دل سے دیکھنا یا خواب میں دیکھنا تو دوسرے انبیا علیہم السلام بلکہ اولیاء کرام کو بھی حاصل ہے۔
شرح عقائد کی
کتابوں میں ہے کہ آیتوں حدیثوں اور اجماع
امت سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ثابت ہے، اہل سنت کے نزدیک
قیامت میں اللہ تعالیٰ کو آنکھوں سے دیکھنا اتفاقی مسئلہ ہے۔
جنت
کا حوض:
حوض ِ کوثر جو
ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو جنت میں دیا جائے گا، جس میں پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھا ہے،
اور مشک سے زیادہ خوشبودار ہے جو اس کا پانی ایک بار پئے گا کبھی پیاسا نہ ہوگا اس
میں جنت سے دو نالے گزرتے ہیں ایک سونے کا اور دوسرا چاندی کا۔
جنت
کا حصول:
جنت حاصل کرنے
کے لیے مومن مسلمان کو چاہیے کہ اچھے اعمال بجالائے
اور نیک کام کرے، نماز جنت کی چابی ہے اور اگر ہم نماز قائم کریں گے تو جنت حاصل
کریں گے ہر نیک کام جنت میں داخل ہونے کے لیے ضروری ہے۔
نَسْاَلُ اللہَ الْعَفْوَ وَالعَافِيَةَ فِیْ الدِّیْنِ وَالدُّنْیَا
وَالْآخِرَۃِ
ترجمہ:ہم اللہ عزوجل سے دین و دنیا اور آخرت میں بخشش اور عافیت کا
سوال کرتے ہیں۔