سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں حدیث مبارک ہے : حضرت عبدالله بن قيس رضي الله تعالی عنہ کا بیان ہے کہ مجھ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تیری رہنمائی ایسے کام کی طرف نہ کروں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے، میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم وہ کون سا کام ہے تو ارشاد
فرمایا، کہ وہ کام یہ ہے لاحول ولا قوة الا باللہ
بہار شریعت حضہ اول صفحہ نمبر ۱۵۲ پر جنت کا بیان یوں
بیان ہے۔ جنت ایک مکان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کے لیے بنایا ہے اس میں وہ نعمتیں مہیا کی ہیں جن کو نہ آنکھوں نے دیکھا نہ کانون نے
سنا نہ کسی آدمی کے دل پر ان کا خطرہ گزرا۔
جو کوئی مثال اس کی تعریف میں دی جائے سمجھانے کے لیے ہے
ورنہ دنیا کی اعلیٰ سے اعلیٰ شے کو جنت کی کسی چیز کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں، وہاں کی کوئی عورت اگر زمین کی طرف جھانکے
تو زمین سے آسمان تک روشن ہوجائیں اور خوشبو سے بھرجائے اور چاند سورج کی روشنی
جاتی رہے، اور اس کا دوپٹا دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔
اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اگر حور اپنی ہتھیلی زمین و
آسمان کے درمیان نکالے تو اس کے حسن کی
وجہ سے خلائق فتنہ میں پڑ جائیں اور اگر اپنا دوپٹا ظاہر کردے تو
اس کی خوبصورتی کےآگے آفتاب ایسا ہوجائے
جیسے آفتاب کے سامنے چراغ اور اگر جنت کی کوئی ناخن بھر چیز دنیا میں ظاہر ہو تو تمام اسمان و زمین اس سے آراستہ
ہوجائیں اور اگر جنتی کا کنگن ظاہر ہو تو آفتاب کی روشنی مٹا دے جیسے آفتاب ستاروں
کی روشنی مٹا دیتا ہے جنت کی اسی جگہ یں کوڑا رکھ سکیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہے،
جنت کتنی وسیع ہے اس کو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانیں اجمالی بیان یہ ہے کہ اس میں سو درجے ہیں ہر دو درجوں میں مسافت ہے جو آسمان و
زمین کے درمیان ہے اس کے متعلق کوئی روایت خیال میں نہیں البتہ ایک حدیث ترمذی کی
یہ ہے ۔
حدیث : اگر تمام عالم ایک درجہ میں جمع ہو تو سب کے لیےو
سیع ہے
جنت میں ایک درخت ہے جس کے سایہ میں سو برس تک تیز گھوڑے
پر سوار چلتا رہے اور ختم نہ ہو، جنت کے دروازے اتنے وسیع ہوں گے کہ ایک باز و سے دوسرے تک تیز گھوڑے کی ستر برس کی
راہ ہوگی۔