مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت سے مراد کون؟: خزائن العرفان میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔(خزائن العرفان، ص780)

اہلِ بیت کے حقوق پر فرامینِ مصطفےٰ:

(1) اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

(2) اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

(3) اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)

(4) جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)

(5) جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)

ان تمام احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیت کی محبت، ان کی تعظیم ہمارے لئے کتنی ضروری ہے، ان کی محبت و تعظیم ہمارے لئے نجات کا باعث ہے، جبکہ ان کا بغض ہمارے لئے بہت برے نقصان کا باعث ہے۔ چنانچہ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)

اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کسی کے دل میں ایمان داخل نہ ہوگا یہاں تک کہ اللہ و رسول کے لئے تم لوگوں سے محبت کرے۔ (ترمذی، 5/422، حدیث: 3783)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ و اہلِ بیت سے محبت کرنے والا بنا دے۔ آمین


اہلِ بیت کے معنی: گھر والے جبکہ اصطلاح میں اہلِ بیت سے مراد گھر میں رہنے والے سب افراد کے ہیں۔

نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت سے مراد: نبیِ کریم ﷺ کے اہلِ بیت کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔ (1) بعض علماء کے نزدیک اہلِ بیت سے مراد حضور ﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ (2) حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ اشعۃ اللمعات میں فرماتے ہیں: افضل یہ ہے کہ حضور ﷺ کی اولاد، ازواجِ مطہرات، حسن و حسین اور علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہم سب کو اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔

قرآن کی روشنی میں اہلِ بیت کی عظمت اور پاکدامنی اور پرہیزگاری کا ذکر ہے۔

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

اہلِ بیت کی محبت واجب ہونے پر دلالت کرنے والی آیت جس میں اللہ پاک نے نبی ﷺ کو فرمایا: اے حبیب! آپ فرمادیجئے کہ اس (تبلیغِ دین) پر میں تم سے کوئی معاوضہ طلب نہیں کرتا سوائے قرابت کی محبت کے۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں اہلِ بیت کے حقوق: حضور نبیِ کریم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت کی محبت اور قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:مومن متقی ہی اہلِ بیت سے محبت کرے گا اور بدبخت منافق ہی ہم سے عداوت رکھے گا۔ (مستدرک، 3/149)

امام طبرانی اور حاکم روایت کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم ہو، پابندِ صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت سے بغض رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔ (عقائد ومسائل،ص82)

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلِ بیت سے والہانہ محبت عطا فرمائے اور ان سے بغض و عداوت رکھنے سے محفوظ رکھے۔ آمین


قرآن کی روشنی میں: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

یعنی اے میرے حبیب کے گھر والو! اللہ پاک تو یہی چاہتا ہے کہ گناہوں کی نجاست سے تم آلودہ نہ ہو۔ (تفسیرِ مدارک، ص 910)

صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ آیت لکھ کر اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم کے مصداق کے بارے میں مفسرین کے اقوال اور احادیث نقل فرمائیں۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: خلاصہ یہ کہ دولت سرائے اقدس کے سکونت رکھنے والے اس آیت میں داخل ہیں کیونکہ وہی اس کے مُخاطَب ہیں چونکہ اہلِ بیتِ نسب کامر اد ہونا مخفی تھا اس لئے آں سرور ِعالم ﷺ نے اپنے اس فعل مبارک سے بیان فرمادیا کہ مراد اہل بیت سے عام ہیں۔ خواہ بیتِ مسکن کے اہل ہوں جیسے کہ ازواج یا بیت نسب کے اہل بنی ہاشم ومطلب۔ (سوانح کربلا، ص 82)

اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ و پرہیزگاری کی ترغیب دلائی گئی۔ مزید اس آیتِ مبارکہ میں پردے کے بارے میں بھی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں پاکی کو تقویٰ و پرہیزگاری سے تشبیہ دی ہے۔

جس طرح ایک انسان کے دوسرے پر حقوق ہیں جو ہر انسان پر پورا کرنا لازم ہے، اسی طرح اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم کے بھی حقوق ہیں جن کو پورا کرنا ہر انسان مسلمان عاقل بالغ و غیر بالغ پر پورا کرنا لازم و ضروری ہے، اسی طرح بہت احادیثِ مبارکہ میں بھی حقوقِ اہلِ بیت وارد ہوئے ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

پہلا حق: جو شخص اہلِ بیت سے دشمنی رکھتے ہوئے مرا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی پیشانی پر لکھا ہوگا: یہ آج اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ 25، الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، 8/17)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ جو شخص اہلِ بیتِ اطہار سے بغض و عداوت رکھتا ہے وہ اللہ پاک کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔

دوسرا حق: سب سے پہلے میرے حوض (یعنی حوضِ کوثر) پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ سب سے پہلے حوضِ کوثر پر اہلِ بیتِ اطہار کو بلایا جائے گا۔

حبِ اہلِ بیت دے آلِ محمد کے لئے کر شہیدِ عشقِ حمزہ پیشوا کے واسطے

تیسرا حق: تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

اس میں فرمایا جارہا ہے کہ اہلِ بیت سے محبت کامل کی ایمان کی نشانی ہے اور اس کا اخروی فائدہ یہ ہے کہ وہ پلِ صراط پر ثابت قدم رہتا ہے۔

چوتھا حق: حضور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت کروں گا (1) میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، (2) میری آل کی ضروریات پورا کرنے والا، (3) میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، (4 ) اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)

اس حدیثِ مبارکہ میں شفاعت کی بشارت دی جارہی ہے، جو اہلِ بیت اطہار کی تعظیم کرے، ان سے محبت کرے، ان کی ضروریات کو پورا کرے اور ان کی مشکلات کو حل کرنے والے کو بشارت دی جارہی ہے شفاعت کی۔

پانچواں حق: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

اس میں اللہ پاک کی محبت پانے کا وسیلہ بتایا جارہا ہے یعنی جو اللہ پاک کی محبت پانا چاہتا ہے وہ آقا ﷺ سے محبت کرے، آپ ﷺ کی محبت پانا چاہتا ہے تو وہ اہلِ بیت سے محبت کرے۔

دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں ان کی تعظیم کرنے کی توفیق دے، اہلِ بیت کے تمام حقوق ادا کرنے کی ہمیں توفیق دے، اہلِ بیت سے بغض و عداوت سے ہمیں بچائے رکھے اور بغض رکھنے والوں کے سائے سے بھی دور رکھے۔ آمین

صحابہ کا گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ کی تو عنایت یارسول اللہ

جس طرح ہم مسلمان صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمیں اہلِ بیتِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت کا دم بھرنا چاہئے اور یہ ضروری بھی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہئے کہ ہمیں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے محبت ہو اور دل معاذ اللہ اہلِ بیت کی دشمنی سے بھرا ہو یا پھر اہلِ بیت کی محبت تو دل میں ہو اور ساتھ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سے معاذ اللہ دشمنی ہو۔ دل میں صحابہ و اہلِ بیت کی محبت کا ہونا ضروری ہے۔ ایک مومن کے لئے یہ لازم ہے کہ اس کے دل میں دونوں کے لئے محبت ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم ہمارے پیارے آقا کے سچے اور وفا کرنے والے ساتھی ہیں اور اہلِ بیت آپ کی اولاد ہیں۔

اہلِ بیتِ اطہار کون ہیں؟: یادرکھئے! اہلِ بیت میں پانچ افراد شامل ہیں: حضرت محمد ﷺ اور آپ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عَنہُنَّ، حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا، حضرت علی مرتضی رضی اللہُ عنہ، حضرت امام حسن رضی اللہُ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ۔

قرآن پاک میں اہلِ بیت کی تعظیم کا ذکر: اہلِ بیت کی محبت میں، ان کی تعظیم میں اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔ (الشرف الموبد، ص 94)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔

آئیے! اب صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کا اہلِ بیت سے محبت کا اظہار سنتی ہیں۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہما سواری پر آپ کے پاس گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ حضرت عباس رضی اللہُ عنہ وہاں سے گزر جاتے۔(الاستیعاب، 2/360)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: آلِ رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

ابو مہزم رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک جنازے میں تھے تو کیا دیکھا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حسین رضی اللہُ عنہ کے پاؤں سے مٹی صاف کررہے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، 4/407)

پیاری بہنو! آپ نے عشقِ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم سنا، صحابہ کرام اہلِ بیت سے کتنی محبت رکھتے تھے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اہلِ بیت کے ہم پر بےشمار حقوق ہیں، جن میں سے پانچ یہ ہیں:

(1)ہمیں اہلِ بیت کی عزت و تعظیم کرنی چاہئے۔

(2) ہمیں سچے دل سے ان سے محبت کرنی چاہئے۔

(3) ہمیں ان کے احکام کی سچے دل سے پیروی کرنی چاہئے۔

(4) کبھی بھی ان کے خلاف کسی سے بھی کوئی بات نہ سنی جائے۔

(5) ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے۔

اے کاش! اللہ پاک ہمیں بھی صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی طرح اہلِ بیت رضی اللہُ عنہم سے محبت کرنے والا بنائے۔ آمین 


پیارے آقا ﷺ کی امت پر یہ حق ہے کہ وہ آپ ﷺ سے محبت و عشق کرے اور آپ ﷺ کے صحابہ و اہلِ بیت سے بھی محبت کرے، کیونکہ جس کے دل میں پیارے آقا ﷺ کی محبت ہوگی یقیناً اس کے دل میں صحابہ و اہلِ بیت کی بھی محبت ہوگی اس لئے ہمیں اہلِ بیت کا ادب وا حترام کرنا چاہئے۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

احادیثِ مبارکہ میں اہلِ بیت کے حقوق: (1)میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

(2) بےشک میرے لئے اور میرے اہلِ بیت کے لئے صدقے کا مال حلال نہیں ہے۔ (مسند احمد)

(3) جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)

(4) جس شخص نے میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)

(5) جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اللہ پاک اسے اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا سلوک کرے۔ جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑجائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا منہ لے کر آئے۔ (کنز العمال، 6/46،حدیث:34166)

ہم اس قابل نہیں ہیں کہ پیارے آقا ﷺ کے پیارے گلشن کی مدح کرسکیں، لیکن ادنیٰ سی تعریف بیان کی۔ ہمیں چاہئے کہ اہلِ بیت سے سچی و پکی محبت کریں، جس کی برکت سے ہمارا ایمان کامل ہو اور اس کی برکت ظاہر ہو۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت عطا فرمائے، ہم ان کا ادب و احترام کرے رہیں اور اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں اور یہی گٹی گھول کر پلائیں۔ 


قدرتی طور پر انسان جس سے محبت رکھتا ہے اس سے تعلق رکھنے والی تمام چیزیں اس کو محبوب ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ سے محبت رکھنے والے بھی آپ ﷺ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز کو جان و دل سے محبوب رکھتے ہیں۔ اہلِ بیتِ اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے آقا ﷺ سے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔ قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)

حضرت علامہ یوسف بن اسماعیل نبہانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب امت کے ان پیشواؤں کا یہ طریقہ ہے تو کسی بھی مومن کو لائق نہیں کہ ان سے پیچھے رہے۔ (الشرف الموبد، ص 94)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، ص 894)

اے عاشقانِ رسول ! صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم جو خود بھی بڑی عظمت و شان کے مالک تھے، وہ عظیم الشان اہلِ بیتِ اطہار سے کیسی محبت رکھتے تھے اور اپنے قول و فعل سے اس کا کس طرح اظہار کیا کرتے تھے۔ آئیے! اس کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں۔

صحابہ کرام کا حضرت عباس کی تعظیم کرنا: صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کی تعظیم و توقیر بجالاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء، 1/244)

حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں آتے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بطورِ احترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (معجم کبیر، 10/185، حدیث: 10615)

صدیقِ اکبر کی اہلِ بیت سے محبت: ایک موقع پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کاذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! رسول اللہ ﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں سے صلۂ رحمی کرنے سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3712)

ایک بارحضرت صدیقِ اکبر رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)

فاروقِ اعظم کی اہلِ بیت سے محبت:ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضورِ اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

ان کے گھر میں بے اجازت جبرئیل آتے نہیں قدر والے جاتنے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت

دعا: صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کس کس انداز سے اہلِ بیت سےا پنی محبت کا اظہار کرتے، انہیں اپنی آل سے زیادہ محبوب رکھتے، لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ساداتِ کرام اور آلِ رسول کے بےحد ادب و احترام کریں، ان کی ضروریات کا خیال رکھیں، ان کاذکرِ خیر کرتے رہا کریں اور اپنی اولاد کو اہلِ بیت وصحابہ کرام کی محبت و احترام سکھائیں۔ اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہمارے بےحساب مغفرت ہو۔ آمین


بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ بیت سے حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہُ عنہم ہی مراد ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اہلِ بیت سے مراد پہلے نبیِ پاک ﷺ کی ازواج ہیں پھر اولاد، پھر داماد۔

قرآن مجید میں اللہ پاک کا فرمان: قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ-(پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔

اہلِ بیت کے حقوق:

(1) ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہُ عنہا کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضورِ اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اور خدا کی قسم! آپ کے والدِ گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

(2) ایک موقع پر عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے حضرات صحابہ کرام کے بیٹوں کو کپڑے عطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہُ عنہما کی شان کے لائق ہو تو آپ رضی اللہُ عنہ نے ان کے لئے یمن سے خصوصی لباس منگوا کر پہنائے، پھر فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔ (ریاض النضرۃ، 1/34)

(3) صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم حضرت عباس رضی اللہُ عنہ کی تعظیم و توقیر بجالاتے، آپ کے لئے کھڑے ہوجاتے، آپ کے ہاتھ پاؤں کا بوسہ لیتے، مشاورت کرتے اور آپ کی رائے کو ترجیح دیتے تھے۔ (تہذیب الاسماء، 1/244)

(4) حضرت عباس رضی اللہُ عنہ بارگاہِ رسالت میں آتے توحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بطورِ احترام آپ کے لئے اپنی جگہ چھوڑ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ (معجم کبیر، 10/185، حدیث: 10615)

(5) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہما سواری پر آپ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ آپ وہاں سے گزر جاتے۔ (الاستیعاب، 2/360)


قرآن مجید میں جو اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشے یا گھر شہر میں شریک اور شامل ہوں۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں۔ پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے۔ اور نبیِ اکرم ﷺ کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہلِ بیت کہا جاتا ہے۔ بیت عربی زبان میں گھر کو کہتے ہیں۔ گھر تین قسم کا ہوتا ہے اسی اعتبار سے گھر والوں کے بھی تین طبقے ہیں، اہلِ بیت نسب، اہلِ بیت سکنیٰ اور اہلِ بیتِ ولادت۔ اہلِ بیت نسب سے مراد انسان کے وہ رشتے دار ہیں جو نسب میں آتے ہیں یعنی وہ رشتے دار جو باپ اور دادا کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اہلِ بیت سکنیٰ سے مراد وہ رشتے دار ہیں جو گھر کے اندر آباد ہوتے ہیں یعنی شوہر کی بیوی۔(عقائد ومسائل،ص86)

قرآن کی روشنی میں: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔

سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔ (مجتبی آخر زمانی)

(1)حضرت عبد اللہ بن عباس بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

تن سے سر جدا کرنا آسان ہے مگر ناممکن ہے میری روح سے جدا کرنا عشقِ اہلِ بیت

(2)حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جو آدمی ہم اہلِ بیت سے بغض رکھے گا اللہ پاک اسے جہنم میں داخل کرے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771)

(3) حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

نسبت اہلِ بیت کا طلبگار ہوگیا کرکے وفا ان سے جنت کا حقدار ہوگیا

(4) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اہلِ بیتِ مصطفےٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)

باغِ جنت کے ہیں بہر مدح خوان اہلِ بیت تم کو مژدہ نار کا اے دشمنانِ اہلِ بیت

کس زباں سے ہو بیاں عزو شانِ اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہل بیت

(5) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! میں تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہلِ بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ ﷺ نے دوبار دہرایا۔ (کنز العمال، 13/276، حدیث: 3762)

ان کی پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت

حضرت امام رضا رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: خدا اس پر رحم کرے جو ہمارے امر کو زندہ کرے۔ راوی نے کہا: آپ کے امور کو کیسے زندہ کرے؟ آپ نے فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ کر لوگوں کو سکھائے۔

مصطفےٰ عزت بڑھانے کے لئے تعظیم دیں ہے بلند اقبال تیرا دودمانِ اہلِ بیت

اپنے نبی کے اہلِ بیت کو دیکھو، ان کی سمت کو اختیار کرو اور ان کے نقشِ قدم پر چلو، کیونکہ وہ تمہیں ہدایت سے باہر نہیں جانے دیں گے اور نہ ہی ہلاکت کی طرف پلٹائیں گے۔


حضرت صدیق اکبر کی اہلِ بیت سے محبت:ایک موقع پر حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سامنے اہلِ بیت کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے رسول پاکﷺ کے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا مجھے اپنے قرابت داروں سے صلہ رحمی کرنےسے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے۔(بخاری، 2/438، حدیث: 3712)

ایک بار حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے احترام کے پیش نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔(بخاری 2/384، حدیث:3712)

امام حسن کو کندھے پر بٹھایا: حضرت عقبہ بن حارث بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیدناابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔پھر آپ اور حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کھڑے ہو کر چل دیئے۔ راستے میں حضرت حسن کو بچوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا تو حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نےانہیں اپنے کندھے پر بٹھا لیا اور فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! حضور اکرم ﷺ کے ہم شکل ہو، حضرت علی کے نہیں۔اس وقت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم مسکرا رہے تھے۔(السنن الکبریٰ، 5/48، حدیث:8161)

سیدنافاروق اعظم کی اہلِ بیت سے محبت:ایک بارحضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ حضرت سیدتنا فاطمۃ الزھراء کے ہاں گئے تو فرمایا: اے فاطمہ! اللہ پاک کی قسم! آپ سے بڑھ کر میں نے کسی کو حضور اکرم ﷺ کا محبوب نہیں دیکھا اورخدا کی قسم! آپ کے والد گرامی کے بعد لوگوں میں سے کوئی بھی مجھے آپ سے بڑھ کر عزیز و پیارا نہیں۔ (مستدرک، 4/139، حدیث: 4789)

خصوصی کپڑے دیئے: ایک موقع پر سیدناعمر فاروق رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ ٔ کرام کے بیٹوں کو کپڑےعطا فرمائے مگر ان میں کوئی ایسا لباس نہیں تھا جو حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق ہوتو آپ نے ان کے لیے یمن سے خصوصی لباس منگواکر پہنایا۔اور فرمایا: اب میرا دل خوش ہوا ہے۔(ریاض النضرۃ، 1/341)

وظیفہ بڑھا کر دیا: یوں ہی جب حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے وظائف مقرر فرمائے تو حضرات حسنین کریمین کے لیے رسول اللہ ﷺ کی قرابت داری کی وجہ سے ان کے والد حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے برابر حصہ مقرر کیا۔ دونوں کے لیے پانچ پانچ ہزار درہم وظیفہ رکھا۔(سیر اعلام النبلاء، 3/259)

حضرت امیر معاویہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے چند نقوش بھی اٰل ابو سفیان (یعنی ہم لوگوں)سے بہتر ہیں۔ (الناہیۃ، ص59)آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم اور اہلِ بیت کے زبردست فضائل بیان فرمائے۔(تاریخ ابن عساکر، 42/415) آپ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فیصلہ کو نافذ بھی کیا اور علمی مسئلہ میں آپ سے رجوع بھی کیا۔(سنن الکبریٰ للبیھقی، 10/205، مؤطا امام مالک،2/259) ایک مرتبہ آپ نے حضرت ضرّار صدائی سے تقاضا کر کے حضرت علی المرتضیٰ کے فضائل سنے اور روتے ہوئے دعا کی: اللہ پاک ابوالحسن پر رحم فرمائے۔ (الاستیعاب، 3/209)یوں ہی ایک بار حضرت امیر معاویہ نے حضرت امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا: یہ آباؤ اجداد، چچاو پھوپھی اور ماموں و خالہ کے اعتبار سے لوگوں میں سب سے زیادہ معزز ہیں۔(العقد الفرید، 5/344)آپ ہم شکلِ مصطفےٰﷺ ہونے کی وجہ سے حضرت امام حسن کا احترام کرتے تھے۔(مراٰۃ المناجیح، 8/461) ایک بار آپ نے امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی علمی مجلس کی تعریف کی اور اس میں شرکت کی ترغیب دلائی۔

اہل بیت کی خدمت میں نذرانے: حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سالانہ وظائف کے علاوہ مختلف مواقع پر حضرات حسنین کریمین کی خدمت میں بیش بہا نذرانے پیش کیے، یہ بھی محبت کا ایک انداز تھا۔آپ نے کبھی پانچ ہزار دینار اور کبھی تین لاکھ درہم تو کبھی چار لاکھ درہم حتّٰی کہ ایک بار چالیس کروڑ روپے تک کا نذرانہ پیش کیا۔(سیر اعلام النبلاء، 4/309)

حضرت عبد اللہ بن مسعود کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف المؤبد،ص92)نیز آپ فرمایا کرتے تھے اہل مدینہ میں فیصلوں اور وراثت کا سب سے زیادہ علم رکھنے والی شخصیت حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ہے۔(تاریخ الخلفاء،ص135)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اہلِ بیت سے محبت: حضرت سیدنا ابو ہریرہ فرماتے ہیں:میں جب بھی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھتا ہوں تو فرط محبت میں میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔(مسند امام احمد،3/632)


مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابۂ کرام کی محبت دین اسلام کے لیے ضروری ہے وہیں حضورﷺ کے گھرانے اہلِ بیت اطہار سے عقیدت و محبت میں دینِ اسلام کا حصہ ہے۔آقاﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے لیے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لیے بھی فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال کشتی نوح کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہو گیا وہ نجات پا گیا۔اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہو گیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)

اہلِ بیت میں کون کون شامل: اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ آل و اولاد مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرمﷺ کی تمام ازواج مطھرات اور بنات طاہرات رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔

حقوق اہلِ بیت(1): اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤاپنے نبیﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوت قرآن۔(فیضان اہلِ بیت، ص20)

(2) میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لیے ہے جو میرے گھرانے (یعنی اہلِ بیت)سے محبت رکھنے والا ہو۔(فیضان اہلِ بیت، ص20)

(3) تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لیے بہتر ہوگا۔(مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)

(4) جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ اسے عطا کروں گا۔(فیضان اہلِ بیت، ص24)

(5) سب سے پہلے میرے حوض (یعنی حوض کوثر)پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔(السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)

اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی رحمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت (حاصل کرنے ) کے لیے مجھ سے محبت کرو، اور میری محبت (پانے) کے لیے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔(ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)

ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

حبِ اہلِ بیت دے آل محمد کے لیے کر شہید عشق حمزہ پیشوا کے واسطے

کس زباں سے ہو بیان عز و شان اہلِ بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوان اہلِ بیت


صحابۂ کرام پیارے آقاﷺ کے ساتھی ہیں۔اہلِ بیت پیارے آقا کی اولاد ہیں۔آپ کی لاڈلی شہزادی حضرت بی بی فاطمہ کی اولاد ہیں حبیب خدا سے ہمیں سچی محبت کا اظہار کرنے کے لیے ہمیں اپنے دل میں اہلِ بیت کی محبت رکھنی چاہیے۔ پیارے آقا کا فرمان شفاعت نشان ہے: جو وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کےسبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں اسے چاہیے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔(الشرف المؤبد، ص 54)

جس طرح اہلِ بیت سے محبت کرنا رسول اکرم سے محبت کرنا ہےایسے ہی اہلِ بیت سے دشمنی گویا سرکارﷺ سے دشمنی ہے۔

اہلِ بیت میں کون کون شامل: اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ ﷺ کے وہ آل و اولاد مراد ہیں جن پر صدقہ حرام ہے۔ان میں سیدنا علی کی اولاد، سیدنا جعفر کی اولاد، سیدنا عقیل کی اولاد، سیدنا عباس کی اولاد، بنو حارث بن عبد المطلب اور نبی اکرمﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور بنات طاہرات شامل ہیں۔

(1)اہلِ بیت اطہار کے پانچ حقوق: پیارے آقاﷺ نے فرمایا: تم میں سے پل صراط پر سب سے زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)

حضرت علامہ عبد الرؤف فرماتے ہیں یہ فضیلت اس کے لیے ہے جس کے دل میں صحابہ و اہلِ بیت دونوں کی محبت جمع ہوگی اور وہ اسی حالت میں فوت ہوگیا۔یہ مطلب بھی ہو سکتا ہے پل صراط سے مراد دین اسلام ہو یعنی تم سب سے زیادہ دین پر ثابت قدم، کامل الایمان وہ ہوگا جو صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنے والا ہوگا۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ صحابہ و اہلِ بیت کی محبت ایمان کے کامل ہونے کی دلیل ہے۔ہمیں اپنا ایمان کامل کرنے کے لیے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ پیار کرنا ہوگا۔

(2) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: میں تم میں 2 عظیم (بڑی) چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان میں سے پہلی تو اللہ کی کتاب قرآن مجید ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم اللہ کی کتاب پر عمل کرو اور اسے مضبوطی سے تھام لو۔ دوسرے میرے اہلِ بیت ہیں اور تین مرتبہ فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے متعلق اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔ (مسلم، ص1008، حدیث6225)

امام شرف الدین فرماتے ہیں: معنیٰ یہ کہ میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کی شان کے حوالے سے اللہ سے ڈراتا ہوں تم سے کہتا ہوں کہ تم اللہ پاک سے ڈرو انہیں تکلیف نہ دو بلکہ ان کی حفاظت کرو۔(شرح الطیبی، 11/196)

(3) اہلِ بیت یہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جن کی محبت و اطاعت ہدایت اور نجات کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ فرمان مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جناب نوح کی کشتی کی طرح ہے۔جو اس میں سوار ہوگیا نجات پا گیا جو اس سے پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔ ( مسند امام احمد، 1/ 785 حدیث: 1402)

اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں: جیسے طوفان نوح کے وقت ذریعہ نجات صرف محبت اہلِ بیت اور ان کی اطاعت کی اتباع ہے۔ بغیر اتباع واطاعت دعویٰ محبت بے کار ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔الحمد للہ! اہلسنت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/494)

(4) پیارے آقاﷺ نے فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کی محبت لازم پکڑ لو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا (یعنی میرا اور میرے اہلِ بیت ) کا حق پہچانے۔(معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)

(5) نبی کریمﷺ سے منسوب ہر چیز کا ادب و احترام لازم ہے اہلِ بیت کا بھی ادب لازم ہے اور یہ محبت کا بھی تقاضا ہے، کتب میں اسلاف کرام کے کئی واقعات اس مناسبت سے ملتے ہیں چنانچہ حضورﷺ کے چچازاد حضرت عباس نے ایک مرتبہ حضرت زید بن ثابت کے گھوڑے کی رکاب پکڑ لی تو انہوں نے فرمایا: اے رسول اللہ کے چچا کے بیٹے! یہ کیا ہے؟ (یعنی آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ ) حضرت ابن عباس نےکہا ہمیں ایسی تعلیم دی گئی ہے کہ علماء کا ادب کریں اسی پر حضرت زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس کے ہاتھ پر بوسہ دیا اور فرمایا کہ ہمیں بھی حکم ہے کہ ہم اپنے نبی کے اہلِ بیت اطہار کے ساتھ ایسا ہی کریں۔ (تاریخ ابن عساکر19)

اہلِ بیت سے محبت کا درس: حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود فرماتے ہیں: آل رسول کی ایک دن کی محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)

دین اسلام کے لیے اہلِ بیت کی قربانیوں سے کون آگاہ نہیں ان کا صبر، ہمت، جذبہ اور ثابت قدمی مثالی ہے یہ وہ ہیں جن کا خاندان دین اسلام کی سربلندی کےلیے شہید ہوا جنہوں نے کتنی بھوک اورپیاس برداشت کی۔ مشقتیں جھیلیں جس طرح ہر موقع پر صبر سے کام لیا اہلِ بیت سے محبت کرنے والوں کو بھی مشکلات پر واویلا کرنے کی بجائے صبر و ہمت سے کام لینا چاہیے۔


گزشتہ روز  ریسکیو 1122 آفس شیخوپورہ میں افطار اجتماع کا سلسلہ ہوا جس میں شفٹ انچارج سید ندیم ،رانا عدنان سمیت دیگر عملےنے بھر پور شرکت کی۔

افطار اجتماع میں مبلغ دعوت اسلامی نے سنتوں بھرا بیان کیا جس میں شرکا کی دینی واخلاقی اعتبار سے تربیت کی ۔بعدازاں ذکر ،مناجات اور دعا کا بھی سلسلہ ہوا۔( رپورٹ: شعبہ کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ ڈسٹرکٹ شیخوپورہ، لاہور ڈویژن ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)