(1)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا:
آگاہ ہوجاؤ! میرا جامہ دان جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہلِ بیت ہیں اور میری
جماعت انصار ہیں۔ ان کے بروں کو معاف کردو اور ان کے نیکو کاروں سے (اچھائی کو)
قبول کرو۔ (ترمذی، 5/714، حدیث: 3904)
(2) حضور
نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا ہوں، ایک
اللہ پاک کی کتاب جو آسمان اور زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے۔ اور
میری عترت یعنی اہلِ بیت، اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہ ہوں گے جب تک
یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)
(3) حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ حضور نبیِ کریم ﷺ نے مکہ فتح کیا، پھر طائف کا رخ کیا اور اس کا آٹھ
یا سات دن محاصرہ کئے رکھا، پھر صبح یا شام کے وقت اس میں داخل ہوگئے، پھر پڑاؤ
کیا، پھر ہجرت فرمائی اور فرمایا: اے لوگو! بےشک میں تمہارے لئے تم سے پہلے حوض پر
موجود ہوں گا اور بےشک میں تمہیں اپنی عترت کے ساتھ نیکی کی وصیت کرتا ہوں اور
بےشک تمہارا ٹھکانہ حوض ہوگا۔ (مستدرک، 2/13، حدیث: 2559)
(4) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر
جانے والا ہوں اور اگر تم ان کی اتباع کرو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اور وہ دو
چیزیں کتاب اللہ اور میرے اہلِ بیت ہیں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو میں
مومنین کی جانوں سے بڑھ کر ان کو عزیز ہوں۔ آپ ﷺ نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ صحابۂ
کرام رضی اللہُ
عنہم نے عرض کیا: ہاں یارسول اللہ! تو حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: جس کا
میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کا مولیٰ ہے۔ ( المستدرک، 3/118، حدیث: 4577)
(5) حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ ایک
طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: پس یہ دیکھو کہ تم
دو بھاری چیزوں میں مجھے کیسے باقی رکھتے ہو۔ پس ایک ندا دینے والے نے ندا دی، یا
رسول اللہ! وہ دو بھاری چیزیں کیا ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک کی کتاب، جس کا
ایک کنارا اللہ پاک کے ہاتھ میں اور دوسرا کنارا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ پس اگر تم
اسے مضبوطی سے تھامے رکھو تو کبھی بھی گمراہ نہیں ہوگے۔ اور دوسری چیز میری عترت
ہے۔اور بےشک اس لطیف خبیر ربّ نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں چیزیں کبھی بھی جدا
نہیں ہوں گی اور ایسا ان کے لئے میں نے اپنے ربّ سے مانگا ہے۔ پس تم لوگ ان پر پیش
قدمی نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤ اور نہ ان کو سیکھاؤ، کیونکہ یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔
پھر آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہُ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا: پس میں جس کی
جان سے بڑھ کر اسے عزیز ہوں تو یہ علی اس کا مولیٰ ہے۔ اے اللہ! جو علی کو اپنا
دوست رکھتا ہے تو اسے اپنا دوست رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہے تو اس سے عداوت
رکھ۔ (معجم کبیر، 5/166، حدیث: 4971)
حقوقِ اہلِ بیت از بنتِ محمد تنویر، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی
محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے
محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنےا صحاب کے بارے میں
فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ
گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے
اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو
پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔(مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
اہلِ بیت ِ اطہار کے فضائل و مناقب: حضور
ﷺ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ! میرا پیراہن جس سے میں آرام پاتا ہوں میرے اہلِ بیت ہیں
اور میری جماعت انصار ہے۔ ان کے بروں کو معاف کردو اور ان کے نیکو کاروں سے
(اچھائی کو ) قبول کرو۔ (ترمذی، 5/714، حدیث: 3904)
حضور ﷺ نے فرمایا:بےشک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جارہا
ہوں، ایک اللہ پاک کی کتاب جو کہ آسمان وز مین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح)
ہے اور میری عترت یعنی میرے اہلِ بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں
ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوضِ کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔ (معجم کبیر، 3/65، حدیث: 2679)
انسان تمام اعمالِ
دینی و دنیوی کو اس واسطے انجام دیتا ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے اور اس کے لئے ساری
محنتیں اور مشقتیں اور رات کا بعض حصہ محنت و مزدوری میں لگا دیتا ہے، بعض مرتبہ
اپنے گھر اور وطن سے دور اجنبی ملک و ماحول میں بے یار و مددگار کامیابی کی تلاش
میں لگا رہتا ہے۔ اسی کے ساتھ اگر مزاج میں دین و ایمان کی حرارت باقی ہے تو نماز،
روزہ اور دیگر احکامِ اسلام کی پابندی بھی کرتا ہے، اس کے باوجود پورے یقین کے
ساتھ یہ بات نہیں کہی جاسکتی ہے کہ اس کے سارے اعمال اور احکام اللہ پاک کے نزدیک
قابلِ قبول ہے۔ لیکن صحابہ وہ لوگ ہیں جن کے ایمان و اعمال کو اور ان کی محنتوں کو
اللہ پاک زندگی میں ہی قبول کرلیا، اور کامیابی کا پروانہ ان کو عطا کردیا اور
دخولِ جنت کی بشارت سنا دی۔ چنانچہ قرآن نے صحابہ کے ایمان و اعمال کی قبولیت کو
اور کامیابی کے ساتھ دخولِ جنت کو اس طرح بیان کیا ہے:فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا
النُّوْرَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷)
(پ7، الاعرف: 157) ترجمہ کنز الایمان: جو ان پر تھے اُتارے گا تو وہ جو اس پر
ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی کریں جو اس
کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔
اسی طرح صحابہ کے سبقتِ ایمانی اور تقربِ خداوندی کو بتلاتے
ہوئے قرآن کریم میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَۚۙ(۱۰) اُولٰٓىٕكَ الْمُقَرَّبُوْنَۚ(۱۱) فِیْ
جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۱۲) (پ28، الواقعہ: 10-12) ترجمہ: اور آگے بڑھ جانے والے (ان
کا کیا کہنا کہ) وہ تو آگے بڑھنے والے ہی ہیں جن کو اللہ سے خصوصی نزدیکی حاصل
ہوگی وہ نعمتوں والے باغات میں ہوں گے۔
صحابہ کرام کو برا کہنے والوں پر اللہ کی لعنت حدیث کی
روشنی میں:
جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے
ہیں تو ان سے کہو تم میں سے جو برا (یعنی صحابہ کو برا کہتا) ہے اس پر اللہ کی
لعنت ہے۔ (ترمذی)
آپ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، پس تم ان
میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے تو ہدایت پالو گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
ہیں مثل
ستاروں کے میری بزم کے ساتھی اصحاب
کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے
ہیں آپ کے
ہاتھوں ہی سے ترشے ہوئے ہیرے اسلام کے دامن میں یہ تابندہ نگینے
اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں
صحابہ و اہلِ بیت سے محبت کرنے والا بنادے۔
پیارے آقا ﷺ کے گھر والے بہت نیک و پرہیزگار اور عبادت گزار
تھے۔ ہر وقت اللہ پاک کی اطاعت میں مصروف رہتے۔ ان سب کا کوئی بھی کام دنیا یا نفس
کے لئے نہیں بلکہ اللہ پاک کی رضا کے لئے تھا۔ آپ کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا کو
جنتی عورتوں کی سردار کا لقب ملا اور آپ کے بیٹے اور پیارے آقا کے نواسے جنتی
نوجوانوں کے سردار ہوں گے۔ اور آپ ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا کی
شان اور پاکدامنی میں اللہ پاک نے 18 آیات نازل فرمائیں۔ اور آپ رضی اللہُ عنہا کے
والدِ محترم حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ
عنہ کو قرآن مجید میں فضل والا فرمایا گیا۔ نیز آپ ﷺ کے گھرانے کا ایک ایک
فرد صاحبِ کرامت اور اللہ پاک کا مقرب بندہ ہے، چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
(1) اِنَّمَا
یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا
ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب
ستھرا کردے۔اس آیتِ مبارکہ کو آیتِ تطہیر کہتے ہیں۔ حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: اس طرح کہ تم کو گناہوں اور بد
اخلاقیوں کی نجاست میں آلودہ نہ ہونے دے۔ مطلب یہ نہیں کہ معاذ اللہ اب تک گناہ
تھے، اب پاکی عطا ہوئی۔ اس آیت سے دو مسئلے معلوم ہوئے: ایک یہ کہ حضور ﷺ کی ازواج
و اولاد گناہوں سے پاک ہیں۔ دوسرے یہ کہ ازواجِ مطہرات یقیناً حضور ﷺ کے اہلِ بیت
ہیں، کیونکہ یہ تمام آیات ازواج سے مخاطب ہیں۔
(2) یٰنِسَآءَ
النَّبِیِّ لَسْتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ (پ22، الاحزاب:
32) ترجمہ کنز الایمان: اے نبی کی بیبیو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔
صدر الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس
آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی تمہارا مرتبہ سب سے زیادہ ہے اور تمہارا اجر سب
سے بڑھ کر، جہاں کی عورتوں میں کوئی تمہاری ہمسر نہیں۔
اب اہلِ بیت کے کچھ آداب و حقوق ملاحظہ ہوں:
اکابر سلف و خلف اہلِ بیت کی کمال محبت پر کاربند رہے ہیں۔
سیدِ اکابر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ
عنہ فرماتے ہیں: رسولِ اکرم ﷺ کے رشتے داروں کی خدمت اپنے رشتے داروں کی
صلہ رحمی سے زیادہ محبوب ہے۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3712)
امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نبیِ اکرم ﷺ
کےاحترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا حترام کرو۔(بخاری، 2/438، حدیث: 3713)
امام طبرانی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی
اللہُ عنہ سے روای ہیں: نبیِ اکرم ﷺ نے
جو آخری بات کہی وہ یہ تھی کہ میرے اہلِ بیت کے ساتھ اچھا معاملہ کرو۔ (سیرتِ
فاطمہ الزہرا، ص 177)
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ،
اپنے نبی کی محبت، نبی کے اہلِ بیت سے محبت اور قرآن مجید پڑھنا۔ (جامع صغیر، ص25،
حدیث: 311)
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے بہتر وہ ہے جو میرے بعد
میرے اہل سے اچھا ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ نے فرمایا: اہلِ بیت کی ایک دن
محبت ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے۔ (الشرف الموبد، ص 92)
حقوقِ اہلِ بیت از بنت راشد محمود، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی
اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے
ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی
اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ
اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں
کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414،
حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی
طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
اہلِ بیت سے مراد کون: خزائن
العرفان میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ
زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و
احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے ۔ (خزائن
العرفان، ص780)
امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ
پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں
گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)
شانِ اہلِ بیت: حضرت
علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یہ آیتِ کریمہ
اہلِ بیت کے فضائل کا منبع یعنی سرچشمہ ہے، اس سے ان کے اعزازِ ماثر یعنی بلند
مقام اور علوِ شان یعنی اونچی شان کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام
اخلاقِ دنیہ یعنی گھٹیا اخلاق و احوالِ مذمومہ یعنی ناپسندیدہ حالتوں سے ان کی
تطہیر یعنی پاکی فرمائی گئی۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ اہلِ بیت نار یعنی جہنم پر
حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے، اور جو چیز ان کے احوال شریف
یعنی شرافت والی حالتوں کے لائق نہ ہو اس سے ان کا پروردگار انہیں محفوظ رکھتا اور
بچاتا ہے۔ (سوانح کربلا، ص 82)
احادیثِ مبارکہ:
(1) جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض
رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126)
(2) میں تم سے دو چیزوں کا سوال
کرتا ہوں، قرآن کریم اور میری آل (کی عزت و حرمت کا)۔ (حلیۃ الاولیاء، 5/73، حدیث:
13103)
(3) سب سے پہلے میرے حوض (یعنی
حوضِ کوثر) پر آنے والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ
لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)
(4) تم میں سے پلِ صراط پر سب سے
زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ و اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔(جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)
اہلِ بیت سے بغض رکھنے والا: حضور
نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! ہم اہلِ بیت سے
جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ پاک ضرور اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771)
اہلِ بیت سے محبت ایمان کی نشانی ہے۔ اہلِ بیت سے محبت بھی
ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اہلِ بیت کے حقوق ہیں کہ دل و جان سے بڑھ کر ان سے محبت
کی جائے، ان کی تعظیم کی جائے اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کرے تو اس کو منع کیا
جائے، ان کی بے حرمتی نہ کی جائے، اہلِ بیت سے بغض یا نفرت نہ کی جائے، ان کی عزت
کا دفاع کیا جائے۔ اس کے متعلق احادیث ِ مبارکہ ہیں:
رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: اس ذات کی قسم جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے! ہم اہلِ بیت سے جو آدمی بھی بغض رکھے گا تو اللہ پاک ضرور
اسے (جہنم کی) آگ میں داخل کرے گا۔ (ابنِ حبان )
اہلِ بیت سے مراد کون؟: رسول اللہ
ﷺ نے فرمایا: میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں: اللہ کی کتاب اور میرے
اہلِ بیت۔ تین بار فرمایا: میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ پاک کا خوف
دلاتا ہوں۔ حصین نے پوچھا: اے زید! آپ ﷺ کے اہلِ بیت کون سے ہیں، کیا آپ کی ازواجِ
مطہرات بھی اہلِ بیت ہیں؟ حضرت زید رضی اللہُ
عنہ نے کہا: ازواجِ مطہرات بھی اہلِ بیت میں داخل ہوں۔ اہلِ بیت وہ ہیں جن
پر زکوۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ حضرت زید رضی
اللہُ عنہ نے کہا: وہ عقیل، جعفر اور
عباس رضی اللہُ
عنہم کی اولاد ہیں۔ (مسلم)
اہلِ بیت سے بدسلوکی کرنے والے کا حال: نبیِ
کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے میرے اہلِ بیت سے بدسلوکی کی اس کی عمر کم ہوجائے گی اور
بروزِ قیامت سیاہ چہرے سے محشور ہوگا۔ (صواعقِ محرقہ، ص 186)
اہلِ بیت سے متعلق احادیث: حضور
ﷺ نے فرمایا:خدا کا غضب بڑھ جاتا ہے اس شخص پر جو کہ مجھے میری عترت (اولاد) کے
بارے میں ایذا دیتا ہے۔ (ارجح المطالب ص 435)
حضور ﷺ نے فرمایا:
جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا
مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)
حضور ﷺ نے فرمایا: سب سے پہلے میرے حوض (حوضِ کوثر) پر آنے
والے میرے اہلِ بیت ہوں گے۔ (السنۃ لابن ابی عاصم، ص 173، حدیث: 766)
اہلِ بیت سے محبت اور
ان کی عزت: اہلِ بیت سے محبت، ان کی عزت، ان کی
اطاعت کرنا بھی ان کے حقوق میں شامل ہے۔ اور ان کی شان بیان کرنا اور اگر کوئی
معاذ اللہ ان کی شان کے متعلق کچھ کفر بکے تو ان کی عزت و شان کا دفاع کرنا۔ اہلِ
بیت کی اہمیت اور عظمت ہمارے مسلمان ہونے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ہر مسلمان کو چاہئے
کہ اہلِ بیت کے حقوق اچھے طریقے سے نبھائے۔ یہ بھی اہلِ بیت کے حقوق میں سے حق ہے کہ
دل وجان اہلِ بیت پر قربان کردے۔ دل وجان سے بڑھ کر ان سے محبت، ان کی عزت اور ان
کی اطاعت کرے۔
حضور ﷺ نے فرمایا: تم میں سے پلِ صراط پر سب سے زیادہ ثابت
قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ اور اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔ (جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)
آل و
اصحاب سے محبت ہے اور سب
اولیا سے الفت ہے
یہ سب
اللہ کی عنات ہے مل گئی مصطفےٰ کی امت ہے
قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت:
حضور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار بندوں کی شفاعت کروں گا (1) میری آل کی عزت
و تعظیم کرنے والا، (2) میری آل کی ضروریات پورا کرنے والا، (3) میری آل کی
پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، (4 ) اپنے دل و زبان سے میری
آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)
دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت سے
محبت، ان کی تعظیم، ان کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں دل و جان ان پر
قربان کرنے والا بنا۔ آمین
حقوقِ اہلِ بیت از بنت رشید احمد اعوان، فیضانِ ام عطار
شفیع کا بھٹہ سیا لکوٹ
اہلِ بیت سے محبت ایمان کی نشانی ہے، اہلِ بیت سے محبت بھی
ان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ اہلِ بیت کے حقوق ہیں کہ دل و جان، مال و اولاد، ماں
باپ اور ہر ایک چیز سے بڑھ کر ان سے محبت کی جائے۔ ان کی عزت و احترام کیا جائے۔
اگر کوئی بھی شخص ان کے بارے میں کوئی غلط بات کرے تو اس شخص کو منع کیا جائے۔ ان
کی بےحرمتی کرنے اور کروانے سے بچے۔ ان سے بغض، نفرت نہ کی جائے۔ ان کی عزت کا
دفاع کرے وہ چاہے مال کے ذریعے ہو یا جان کے ذریعے، لیکن ہر حال میں ان کی عزت کا
دفاع کیا جائے۔
اہلِ بیت سے مراد: علمائے کرام فرماتے ہیں: اہلِ بیت دونوں
قسموں یعنی نبیِ اکرم ﷺ کے کاشانۂ مبارک میں رہنے والوں اور آپ ﷺ سے نسبتی تعلق
رکھنے والوں کو شامل ہے۔ پس نبیِ اکرم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔
یعنی حضور ﷺ کے گھر رہنے والیاں ہیں۔ آپ ﷺ کے رشتے دار اہلِ بیتِ نسب ہیں۔ (عقائد ومسائل،ص86) قرآن پاک میں سورہ احزاب کی
آیت نمبر 33 میں ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی
کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہُ عنہ سے
روایت کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ حضور ﷺ، حضرت علی رضی
اللہُ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہُ عنہا، حضرت
حسن رضی اللہُ
عنہ اور حضرت حسین رضی اللہُ
عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔
حقوقِ اہلِ بیت:
(1)نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم
تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو
ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی
کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں
جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ
ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (المستدرک، 3/10)
(2)نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے،
جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
(3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میرے
اہلِ بیت کے لئے بہتر ہے۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
(4) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ
عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)
(5) حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد
کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی
محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
(6) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں
کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان
کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے
دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)
درسِ محبت: امام
شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
یَا
اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ
مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ
اے رسول اللہ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے
فرض ہے۔ (شعب الایمان، 2/419)
یہ ایک روشن حقیقت ہے کہ جس سے عشق ہوتا ہے اس سے نسبت
رکھنے والی ہر چیز مثلاً محبوب کے گھر، اس کے درو ودیوار، محبوب کی گلی کوچوں، اس
کی آل اولاد وغیرہ سے بھی عقیدت و محبت کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ پھر ذرا سوچئے کہ
جو عشقِ نبی میں گم ہو وہ آپ ﷺ کی آل اور اہلِ بیت رضی
اللہُ عنہم سے محبت کیوں نہ رکھے گا کہ
ان حضرات سے محبت رکھنے کا مطالبہ تو قرآن کریم بھی ہم سے فرمارہا ہے۔
قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
وضاحت: بیان کردہ
آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: قربیٰ سے مراد ساداتِ کرام و اہلِ بیت عظام رضی اللہُ عنہم ہیں۔
الحمد للہ! اہلِ بیتِ اطہار رضی
اللہُ عنہم اور ساداتِ کرام وہ مقدس
ہستیاں ہیں کہ ان سے محبت رکھنا اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کے فضائل و مناقب
احادیثِ مبارکہ میں بھی آئے ہیں۔
اہلِ بیتِ اطہار سے حسنِ سلوک کی فضیلت: سراپا
نور، تمام نبیوں کے سالار ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ
اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا صلہ اسے عطا کروں گا۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: کوئی بندہ اسی وقت ہم پر ایمان
لاسکتا ہے جب ہم سے محبت کرے گا اور ہمارے ساتھ اسی وقت محبت کرے گا جب ہمارے اہلِ
بیت سے محبت کرے گا۔
امام دیلمی روایت کرتے ہیں: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: اپنی
اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو: اپنے نبی ِ اکرم کی محبت، نبیِ اکرم کے اہلِ بیت
کی محبت اور قرآن پاک کی تلاوت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
امام ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ اور امام حاکم رحمۃُ اللہِ
علیہ حضرت عباس رضی اللہُ
عنہ سے روایت کرتے ہیں: نبیِ اکرم ﷺ نے فرمایا: اللہ پاک سے محبت رکھو،
کیونکہ وہ تمہیں بطورِ عذا نعمتیں عطا فرماتا ہے۔ اور اللہ پاک کی محبت کی بناء پر
مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔ (مشکاۃ المصابیح،
2/443، حدیث: 6182)
ہم سب پر یہ حق ہے کہ جب اہلِ بیت کا ذکر ہو صرف خیر و
بھلائی، نیک دعاؤں کے ساتھ ہو۔
امام طبرانی رحمۃُ اللہِ علیہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد
اللہ بن عمر نے فرمایا: نبیِ اکرم ﷺ کا آخری کلام یہ تھا کہ ہمارے اہلِ بیت کے
بارے میں ہمارے اچھے خلیفہ بننا۔ (عقائد و مسائل،ص 86)
ان احادیثِ مبارکہ سے یہ معلوم ہوا کہ آلِ رسول کے ساتھ
محبت و حسنِ سلوک کرنا اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول، رسولِ مقبول ﷺ کو محبوب ہے۔
الحمد للہ ! ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہِ علیہم ایسےعاشقِ
رسول تھے کہ جن کی ہر ادا سے ادب و تعظیم کا ظہور ہوتا تھا۔ عشقِ رسول جن کا قیمتی
سرمایہ اور آلِ رسول کی محبت ان کے لئے روحانی آکسیجن کی حیثیت رکھتی تھی۔ ہمارے
گزرگان دین اہلِ بیتِ ا طہار رضی اللہُ
عنہم اور ساداتِ کرام کا بہت ادب و احترام اور ان کی خدمت بجالاتے تھے۔
صحابۂ کرام رضی اللہُ
عنہم بھی اہلِ بیت سے کثیر محبت فرماتے تھے۔
یاد رہے کہ اہلِ بیت میں نبیِ اکرم ﷺ کی تمام اولاد اور
ازواجِ مطہرات بھی شامل ہیں۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں: اہلِ بیت کے معنی ہیں، گھر والے، اہلِ بیتِ رسول چند معنیٰ میں آتا
ہے: (1) جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم عباس، علی، جعفر، عقیل، حارث کی
اولاد، (2) حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد، (3) حضور ﷺ کے گھر میں
رہنے والے جیسےا زواجِ پاک۔ (مراۃ المناجیح، 8/450)
کیوں نہ
ہو رتبہ بڑا، اصحاب و اہلِ بیت کا ہے
خدائے مصطفیٰ، اصحاب و اہلِ بیت کا
صحابہ کا
گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ سب ہے آپ ہی کی تو عنایت یا رسول
اللہ
اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہلِ بیت اور ساداتِ کرام کی تعظیم فرض ہے اور ان کی توہین
حرام ہے۔ (اسلامی بیانات،4/139)
اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ اگر وہ دین و دنیا اور آخرت
کی بھلائی و نجات چاہتا ہے تو اہلِ بیت کی توہین سے ہمیشہ بچتا رہے۔ جیسا کہ
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: آگاہ رہو کہ تم میں میرے اہلِ بیت کی مثال جضرت نوح علیہ
السّلام کی کشتی کی طرح ہے جو اس میں سوار ہوگیا نجات پاگیا اور جو اس سے پیچھے رہ
گیا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
اس حدیثِ پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جیسے طوفانِ نوح کے وقت ذریعۂ نجات صرف کشتیِ نوح علیہ
السّلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعۂ نجات صرف محبتِ اہلِ بیت اور ان کی اطاعت، ان
کی اتباع ہے۔ بغیر اطاعت و اتباع دعویِٰ محبت بےکار ہے۔
حقوقِ اہلِ بیت از بنتِ شہباز احمد، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا
ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی
کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
اہلِ بیت سے مراد کون لوگ ہیں؟اوپر
بیان کردہ آیت کے تحت خزائن العرفان میں ہے: اہلِ بیت میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ
مطہرات اور حضرت خاتونِ جنت فاطمہ زہرا اور علی مرتضی اور امام حسن و امام حسین رضی اللہُ عنہم سب
شامل ہیں۔
اسی آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ طبری میں امام طبری رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد ﷺ! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور
فحش (یعنی گندی) چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف کردے۔
(تفسیر طبری، 10/296)
ان کی پاکی
کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
اہلِ بیت نجات کا
ذریعہ: فرمانِ آخری نبی ﷺ ہے: تمہارے درمیان
ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار
ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک،
3/ 81، حدیث: 3365)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:
اہلِ سنت
کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
اہلِ بیت سے محبت:نبیِ
مہربان ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی
دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے
اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے اہلِ بیت سے بغض
رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126)
سیدوں کا ادب: محبانِ
رسول ﷺ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ آل رسول و اہلِ بیت کا ادب و احترام کریں،
بلکہ اہلِ بیت یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کی تعظیم کی جائے، ادب کیا جائے، ذکرِ خیرِ
محبت کو احترام کے ساتھ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت علی خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ
سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں
اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرماہوں تو اونچی جگہ
(کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص129)
تیری نسلِ
پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو
ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
فضائلِ اہلِ بیت:
(1) میرے اہلِ بیت میری امت کے
لئے امان و سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)
(2) حسن و حسین دنیا میں میرے
پھول ہیں۔ (بخاری، 2/547، حدیث: 3753)
(3) حسن و حسین جنتی جوانوں کے
سردار ہیں۔ (ترمذی، 5/426، حدیث: 3793)
(4) جس نے ان دونوں حسنین کریمین
سے محبت کی اور ان کے والدین سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں
ہوگا۔ (معجم کبیر، 3/55)
کس زباں
سے ہو بیان عز و شان اہلِ بیت مدح
گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت
اہلِ بیت سے محبت کامل ایمان کا جز ء اور نبیِ مہربان ﷺ سے
سچی محبت کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات مومنین کی مائیں
ہیں۔ ان سے محبت، تعظم اور ادب و احترام ضروری ہے۔ اہلِ بیت و اصحابِ رسول سے محبت
ایمان کی نشانی ہے اور ان کا حق ہے کہ ان معززین کی تعظیم کی جائے اور ادب و
احترام کیا جائے، محبت کی جائے۔
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اعلیٰ درجے کی محبتِ
اہلِ بیت عطا فرما، بے ادبوں اور گمراہوں سے محفوظ رکھتے ہوئے محبانِ رسول و اہلِ
بیت و اصحاب میں شامل فرما، ایمان پر خاتمہ فرما اور ان کے ساتھ بروزِ حشر اٹھانا۔
آمین ثم آمین
ہر مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اہلِ بیت سے محبت کرے اور دل و
جان سے ان کی تعظیم بجا لائے اور جب بھی ان کا ذکر کیا جائے ہمیشہ ذکرِ خیر ہی
کرے۔
اہلِ بیت سے مراد کون؟: علمائے
کرام فرماتے ہیں: اہلِ بیت دونوں قسموں یعنی نبیِ اکرم ﷺ کے کاشانۂ مبارک میں
رہنے والوں اور آپ ﷺ سے نسبتی تعلق رکھنے والوں کو شامل ہے۔ پس نبیِ اکرم ﷺ کی
ازواجِ مطہرات اہلِ بیتِ سکنیٰ ہیں۔ یعنی حضور ﷺ کے گھر رہنے والیاں ہیں۔ آپ ﷺ کے
رشتے دار اہلِ بیتِ نسب ہیں۔ (عقائد ومسائل،ص86)قرآن پاک میں سورہ احزاب کی
آیت نمبر 33 میں ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ
کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور
فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت
ابو سعید خدری رضی اللہُ
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیتِ مبارکہ حضور ﷺ، حضرت علی رضی اللہُ عنہ، حضرت
فاطمہ رضی اللہُ
عنہا، حضرت حسن رضی اللہُ
عنہ اور حضرت حسین رضی اللہُ
عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔
(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان
کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے بہترین وہ ہے جو میرے بعد میرے
اہلِ بیت کے لئے بہتر ہے۔(مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
(2) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا: میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں
کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے والا، میری آل کی پریشانی میں ان
کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات پوری کرنے والا اور اپنے
دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع، 1/48)
(3) حضور ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد
کو تین باتیں سکھاؤ: نبیِ کریم ﷺ کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن کی
محبت۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
(4) حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ
عطا کروں گا۔(تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)
(5) نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم
تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو
ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی
کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں
جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ
ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (المستدرک، 3/10)
(6) نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:
تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے،
جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا غرق ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
درسِ محبت: امام
شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیں اہلِ بیت کی محبت سکھاتے ہوئے فرماتے ہیں:
یَا
اَہلَ بَیت ِرَسُول ِاللہِ حُبُّکُمْ فُرِضَ
مِنَ اللہِ فِی الْقُرآنِ اَنْزلَہُ
اے رسول اللہ کے اہلِ بیت! تمہاری محبت اللہ پاک کی طرف سے
فرض ہے۔ (شعب الایمان، 2/419)
حقوقِ اہلِ بیت از بنت طارق محمود، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
(1) اہلِ
بیت کے حقوق میں سے ان کے ساتھ محبت رکھنا۔
(2) ان کی تعظیم کرنا۔
(3)اور ان کے خلاف اگر معاذ اللہ
کوئی کلام کرتا ہے تو ان کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا۔
(4) اور نماز کے اندر ان پر درود
پڑھنا یعنی یہ ایسا حق ہے جو اللہ پاک نے نماز کے اندر ہی رکھ دیا۔
(5) ساداتِ کرام کا ویسے ہی ان کا
ادب کیا جائے ویسے ہی ان کی تعظیم کی جائے۔ تکلیف کے اندر ہوں تو ان کی تکلیف دور
کرنے کی کوشش کی جائے، انہیں ایک عزت دی جائے اور انہیں نگاہِ عقیدت و محبت کے
ساتھ دیکھا جائے۔
یہ سب حقوقِ اہلِ بیت میں شامل ہیں۔
حبِ اہلِ بیت اطاعتِ
خدا ہے: حضرت علی رضی
اللہُ عنہ کا ارشاد ہے: محمد ﷺ کا دوست وہ ہے جو خدا کا مطیع ہو اگرچہ ان
سے دور کی رشتے داری بھی نہ ہو۔ (جیسے سلمان فارسی رضی
اللہُ عنہ اور ابو ذر رضی اللہُ عنہ) اور
محمد ﷺ کا دشمن وہ ہے جو خدا کی معصیت کرے خواہ وہ نزدیک کا رشتے دار ہی کیوں نہ
ہو(جیسے ابو لہب)۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا
ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔
حضرت حسین بن علی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص ہمارے لئے اپنی آنکھ
سے آنسو بہاتا ہے یا ایک قطرہ گراتا ہے تو اللہ پاک اس کے بدلے اسے جنت عطا کرے
گا۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا: اہلِ بیتِ مصطفےٰ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت سے بہتر ہے اور
جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد، ص 92)
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ
وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو
اور میری محبت کے لئے میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل
جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی اور اہلِ بیت کے صدقے اس کی
بخشش و مغفرت ہوجائے گی۔
حقوقِ اہلِ بیت از بنتِ ظہیر احمد، فیضانِ ام عطار شفیع کا
بھٹہ سیا لکوٹ
بندۂ مومن کے لئے لازمی ہے کہ وہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے
بھی محبت رکھے اور اہلِ بیتِ عظام کا بھی خادم ہو۔ صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم ہمارے
پیارے آقا ﷺ کے وفادار ساتھی تھے تو اہلِ بیت عظام رضی
اللہُ عنہم آپ ﷺ کی والد ہیں۔ نبیِ پاک ﷺ
سے اپنی سچی محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہمیں بھی اہلِ بیت عظام سے دل و جان سے
محبت کرنی ہے۔
کیونکہ سیدوں کی محبت ایمان کی نشانی ہے۔
سیدوں کی محبت جنت میں لے جانے کا سبب ہے۔
سیدوں کی محبت کی محبت جہنم سے بچائے گی۔
سیدوں کی محبت اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی رضا پانے کا
ذریعہ ہے۔۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ کے اہلِ بیتِ عظام کی محبت شفاعتِ مصطفےٰ ﷺ حاصل ہونے
کا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا فرمانِ شفاعت نشان ہے: جو شخص وسیلہ حاصل کرنا
چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں
قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور
انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)
مومنِ کامل کون؟: حدیثِ
مبارکہ ہے: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے
زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔
(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
احادیثِ مبارکہ:
(1) حضور
ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت
اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
(2) تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت
کی مثال حضرت نوح علیہ السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا
اور سوار نہیں ہوا ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
(3) ان لوگوں کا کیا حال ہے جو یہ
گمان کرتے ہیں کہ میری قرابت فائدہ نہ دے گی۔ ہر تعلق و رشتہ قیامت میں منقطع
ہوجائے گا، سوائے میرے رشتے و تعلق کے، کیونکہ یہ دنیا و آخرت میں جڑا ہوا ہے۔ (مجمع
الزوائد، 8/398، حدیث: 3837)
(4) تم میں سے پلِ صراط پر سب سے
زیادہ ثابت قدم وہ ہوگا جو میرے صحابہ اور اہلِ بیت سے زیادہ محبت کرنے والا ہوگا۔
(جمع الجوامع، 1/86،حدیث:454)
(5) تین چیزیں ایسی ہیں جس نے ان
کی حفاظت کی اللہ پاک اس کی، اس کے دین و دنیا کے معاملے میں حفاظت فرمائے گا اور
جس نے ان کو ضائع کیا اللہ پاک اس کی کسی بھی معاملے میں حفاظت نہیں فرمائے گا۔
اسلام کی عزت و احترام، میری عزت و احترام اور میرے رشتے و قرابت کی عزت و احترام۔(معجم کبیر،
3/126حدیث:2881)
صحابہ کرام اور اہلِ بیتِ مصطفےٰ سے محبت کرنے والوں کے لئے
اللہ پاک کے نبی سرورِ کائنات ﷺ نے مغفرت کی دعا ارشاد فرمائی ہے۔ ہمیں بھی چاہئے
کہ ان کی شان و عظمت کے ترانے گنگناتے رہیں، ان کی بے ادبی سے بچتے رہیں اور ان کی
تعظیم و توقیر بجالاتے رہیں۔
اےکاش! دعائے مصطفےٰ ﷺ میں سے ہمیں بھی حصہ نصیب ہوجائے اور
اللہ پاک ان سے محبت کرنے کی برکت سے ہمیں بھی مغفرت یافتہ لوگوں میں شامل فرمالے۔
آمین
قرآن کریم سے فضائلِ اہلِ بیت کا ثبوت: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ
اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22،
الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم
سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
اہلِ بیت سے مراد کون؟: اس
آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے: اہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ
زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں۔ (خزائن العرفان، ص780)
سواری سے نیچے تشریف لے آتے: آقا ﷺ کے پیارے پیارے چچا جان
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہیں پیدل جارہے ہوتے اور حضرت عمر و عثمان رضی اللہُ عنہم سواری
پر حضرت عباس رضی اللہُ
عنہ کے پاس سے گزرتے تو بطورِ تعظیم سواری سے نیچے تشریف لے آتے یہاں تک کہ
حضرت عباس رضی اللہُ
عنہ وہاں سے گزر جاتے۔
فضائلِ اہلِ بیت کے متعلق احادیث:
(1) اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ
بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
(2) تمہارے درمیان ہمارے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ
السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک
ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
(3) اے فاطمہ! بےشک اللہ پاک تمہیں اور تمہاری اولاد کو
عذاب نہیں دے گا۔ (معجم کبیر، 11/210، حدیث: 11685)
(4) بےشک میرے لئے اور میرے اہلِ بیت کے لئے صدقے کا مال
حلال نہیں ہے۔
(5) میری شفاعت میری امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے
گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ بغداد، 2/144)
دعا: اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت کی
محبت عطا فرمائے، باادب بنائے، ان کے فیض سے حصہ عطا فرمائے، ان کے صدقے ہماری
مغفرت فرمائے۔