بدکاری کرنا
ایک ایسا فعل ہے جسے معاشرے میں ہی برا جانا جاتا ہے اور زنا کرنا حرام اور کبیرہ
گناہ ہے، اسلام میں بدکاری سے بچنے کا حکم فرمایا گیا ہے، چنانچہ
اللہ کریم
ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
نیز بہت سی
احادیث مبارکہ میں بھی بدکاری کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
2۔ جو شخص
اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ
فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم
بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301، حدیث: 3371)
3۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
4۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
5۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟
انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ
قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا
اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث:
23915)
دن
رات مسلسل ہے گناہوں کا تسلسل کچھ
تم ہی کرو نا یہ نحوست نہیں جاتی
اللہ پاک ہر
مسلمان کو زنا جیسے بد ترین اور گندے فعل سے بچنے کی توفیق دے۔ آمین
بدکاری کی مذمت از بنت افضال، فیضان فاطمۃ الزہراء مدینہ
کلاں لالہ موسیٰ
بدکاری حرام
اور کبیرہ گناہ ہے۔ احادیث میں بدکاری کی بڑی سخت مذمت و برائی بیان کی گئی ہے جس
میں سے چند درج ذیل ہیں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب مرد زنا
کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا
ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)
2۔ تین شخصوں
سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت
فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور
تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)
3۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے
ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور
وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا
کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226،
حدیث: 23915)
4۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو
جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں
عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
5۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
اللہ کریم ہر
مسلمان کو زنا جیسے بدترین فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بدکاری کی مذمت از بنت محمد احسن، فیضان فاطمۃ الزہراء
مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: اَلزَّانِیْ لَا یَنْكِحُ اِلَّا زَانِیَةً اَوْ مُشْرِكَةً٘-وَّ
الزَّانِیَةُ لَا یَنْكِحُهَاۤ اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِكٌۚ-وَ حُرِّمَ ذٰلِكَ
عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ(۳)
(پ 18، النور: 3) ترجمہ کنزالعرفان: زنا کرنے والامرد بدکار عورت یا مشرکہ سے ہی
نکاح کرے گااور بدکار عورت سے زانی یا مشرک ہی نکاح کرے گااور یہ ایمان والوں پر
حرام ہے۔
1۔ پیارے آقا ﷺ
کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جس قوم میں بدکاری عام ہو جاتی ہے وہاں اموات کی کثرت ہو
جاتی ہے۔ (موطا امام مالک، 2/19،
حدیث: 1020)
بدکاری مختلف
خطرناک اور لاعلاج بیماریوں کا ذریعہ ہے جس کی وجہ سے آئے روز اموات کی شرح بڑھتی
چلی جارہی ہے اور بدکاری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی تباہی و بربادی کا ذریعہ ہے۔
2۔ پیارے آقا ﷺ
نے فرمایا: میری امّت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں بدکاری عام نہ ہو
گی اور جب ان میں بدکاری عام ہو جائے گی تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔
(مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکاری سے بچنے والے کے لیے بھلائیاں ہی بھلائیاں ہیں اور بدکاری
کرنے والا عذاب نار کا حقدار ہے۔
3۔ پیارے آقا
ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جب بدکاری عام ہو جائے گی تو تنگ دستی اور غربت بھی عام
ہو جائے گی۔(شعب الایمان، 6/ 16،
حدیث: 7369)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکاری تنگ دستی اور غربت کا ذریعہ ہے اور آج کل ہر کوئی تنگ دستی
اور غربت کا رونا رو رہا ہے اور اِس کی بناپر آئے روز خودکشی کی شرح بڑھتی چلی
جارہی ہے۔
4۔ منقول ہے
کہ بدکاری کرنے والے قِیامَت کے دِن اس حال میں آئیں گے کہ ان کے چہرے سے آگ کے شعلے
بھڑک رہے ہوں گے۔ (جامع صغیر، ص 123،
حدیث: 2008)
وہ اپنی
بدبودار شرمگاہوں کی وجہ سے مخلوق میں پہچانے جائیں گے، ان کی شرم گاہیں بدبودار
ہوں گی، ان کو منہ کے بل جہنم کی طرف گھسیٹاجائے گا، جب وہ جہنم میں داخل ہوں گے
تو حضرت مالک علیہ السلام ان کو آگ کی ایسی قمیص پہنائیں گے کہ اگر اس کو اونچے
اور مضبوط پہاڑکی چوٹی پرلمحہ بھرکے لئے رکھ دیاجائے تووہ جَل کر راکھ ہوجائے پھر
حضرت مالک فرمائیں گے: اے عذاب کے فرشتو!ان زانیوں کی آنکھوں کو آگ کی سلائیوں سے
داغ دو جس طرح کہ یہ حرام دیکھتے تھے، ان کے ہاتھوں کو آگ کی زنجیروں سے جکڑ دو جس
طرح کہ یہ حرام کی طرف ہاتھ بڑھاتے تھے، ان کے پاؤں کو آگ کی بیڑیوں سے باندھ دو
جس طرح کہ یہ حرام کی طرف چلتے تھے۔ فرشتے کہیں گے: ہاں! ہاں! ضرورتو وہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں
کوزنجیروں میں جکڑدیں گے اور ان کی آنکھیں آگ کی سَلائیوں سے داغ دیں گے تووہ چیخ
وپکار کرتے ہوئے فریاد کریں گے: اے عذاب
کے فرشتو! ہم پر رحم کرو، ایک لمحہ کے لئے تو ہم سے عذاب کم کردو۔ فرشتے کہیں گے: ہم تم پرکیسے رحم کریں جبکہ رب العالمین
قہاروجبار تم پرغضب فرماتا ہے۔ (قرۃ العیون، ص 388)
5۔ تاجدارِ
رِسالت، شہنشاہِ نَبوت ﷺ کا فرمانِ عبرت نِشان ہے: میں نے آج رات دو شخص دیکھے، وہ میرے پاس آئے
اور مجھے ایک مقدس سر زمین کی طرف لے گئے۔ اس کے بعد (راوی نے ) طویل حدیثِ پاک
ذکر کی یہاں تک کہ سرکارِ عالی وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم تنور کی مثل ایک سوراخ کے پاس پہنچے جس
کا اوپر والا حصہ تنگ اور نیچے والا کشادہ تھا، اس کے نیچے آگ جَل رہی تھی، جب آگ
کے شعلے بلند ہوتے تو اس میں موجود لوگ بھی اوپر آ جاتے یہاں تک کہ وہ نکلنے کے
قریب پہنچ جاتے اور جب آگ بجھ جاتی تو وہ اسی میں واپس لوٹ جاتے اور اس میں برہنہ
مرد اور عورتیں تھیں۔ (بخاری، 1 /467،
حدیث: 1386)
اورایک روایت
میں ہے کہ حضور نبی ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم تنور کی مثل ایک چیز کے پاس پہنچے۔ راوی
کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ آپ فرما رہے تھے: اس میں سے چیخ و پکار کی آوازیں آرہی
تھیں۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: ہم نے اس
میں جھانکا تو اس میں ننگے مرد اور عورتوں کو پایا جبکہ ان کے نیچے سے ایک شعلہ ان
کی طرف آتا اور جب ان تک پہنچتا تو وہ چیخنے لگتے۔ اس حدیثِ پاک کے آخر میں ہے: ننگے مرد اور عورتیں جو کہ تنور کی مثل سوراخ
میں تھےوہ سب زانی مرد اور زانی عورتیں تھیں۔ (بخاری، 4 /425،
حدیث: 7047)
5۔ عالَم کے
مالِک و مختار ﷺ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: جہنّم میں ایک وادی کا نام جُبُّ الحزن (یعنی غم
کا کنواں) ہے، اس میں سانپ اور بچھو ہیں، ان میں سے ہر بچھو خچر جتنا بڑا ہے، اس
کے 70 ڈنک ہیں، ہر ڈنک میں زہر کی مشک ہے، جب وہ بدکاری کرنے والے کو ڈنک مارکر
اپنا زہر اس کے جسم میں انڈیلے گا تو وہ 1000 سال تک اس کے درد کی شدّت محسوس کرتا
رہے گا، پھر اس کا گوشت جھڑ جائے گا اور اس کی شرم گاہ سے پیپ اور کَچ لَہُو (یعنی
خون ملی پیپ) بہنے لگے گی۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 59)
6۔ حضور نبی
ٔپاک، صاحبِ لَوْلاک ﷺ کا ارشادِ پاک ہے: اے لوگو!بدکاری سے بچتے رہو بیشک اس کے چھ نقصان
ہیں: تین نقصان دنیا میں ہیں اور تین آخرت
میں۔ دنیاکے نقصان یہ ہیں: (۱) بدکاری، بدکاری کرنے والے کے چہرے کی
خوبصورتی خَتْم کردیتی ہے (۲)اسے
محتاج وفقیر بنادیتی ہے اور(۳)اس کی
عمر گھٹادیتی ہے۔ آخرت کے نقصانات یہ ہیں: (۱) بدکاری،
اللہ کی ناراضی (۲) کڑے وبُرے حساب اور (۴)جہنّم میں مدّتوں رہنے کاسبب ہے۔ پھر
آپ ﷺ نے آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی: لَبِئْسَ مَا قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ
وَ فِی الْعَذَابِ هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰) (پ 6، المائدۃ: 80) ترجمہ کنز
الایمان: کیا ہی بُری چیز اپنے لئے خود
آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ (شعب
الایمان، 4 /379، حدیث: 5475)
اس سے یہ
معلوم ہوا کہ بدکار مردو عورت کی نہ ہی معاشرے میں کوئی عزت ہوتی ہے اور نہ اللہ پاک
کے نزدیک۔ دنیا میں تباہی و بربادی اور آخرت میں بھی بڑکتی ہوئی آگ کی غذا ٹھہرتے
ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
نفس و شیطان کے شر سے محفوظ رکھے۔ آمین یارب العالمین
بدکاری کی مذمت از بنت عبد الرحمٰن، فیضان فاطمۃ الزہراء
مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
بدکاری کے
نتائج انتہائی برے ہیں شیخ الاسلام شہاب الدین فرماتے ہیں بدکاری جہنم اور شدید
عذاب میں مبتلا کر دیتی ہے۔ فقر و تنگدستی کا باعث بنتی ہے۔
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔ جس قوم میں
بدکاری عام ہوجاتی ہے وہاں اموات کی کثرت ہوجاتی ہے۔(موطا امام مالک،2/19، حدیث:1020)
2۔ جہنم میں ایک
وادی کا نام جب الحزن (غم کا کنواں) ہے اس میں سانپ اور بچھو ہیں ان میں سے ہر
بچھو خچر جتنا بڑا ہے اس کے 70 ڈنگ ہیں، ہر ڈنگ میں زہر کی مشک ہے جب وہ بدکاری
کرنے والے کو ڈنک مار کر اپنا زہر اس کے جسم میں انڈیلے گا تو وہ 1000 سال تک اس کے
درد کی شدت محسوس کرتا رہے گا پھر اس کا
گوشت جھڑ جائے گا اور اس کی شرم گاہ سے پیپ اور کچ لہو( خون ملی پیپ) بہنے لگے گی۔
(کتاب الکبائر للذہبی، ص 23)
3۔ جب بندہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اسکا کوئی گناہ بدکاری سے بڑھ کر
نہ ہوگا اور قیامت کے دن بدکاری کرنے والے کی شرم گاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر
اس کا ایک قطرہ سطح زمین پر ڈال دیا جائے تو اس کی بوکی وجہ سے ساری دنیا والوں کا
جینا دوبھر ہو جائے (آنسوؤں کا دریا، ص227)
4۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں بدکاری نہ ہوگی اور جب ان میں بدکاری عام
ہو جاے گی تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا فر ما دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246،
حدیث: 26894)
5۔ اے لوگو!
بد کاری سے بچتے رہو بیشک اس کے 6نقصانات ہیں: 3 نقصان دنیا میں اور 3 آخرت میں
ہیں۔ دنیا کے 3 نقصانات یہ ہیں: 1) بدکاری،
بدکاری کرنے والے کے چہرے کی خوبصورتی ختم کر دیتی ہے۔ 2)اسے محتاج و فقیربنادیتی
ہے۔ 3) اور اسکی عمر گھٹا دیتی ہے۔ جبکہ آخرت کے نقصانات یہ ہیں:1) بدکاری اللہ کی
ناراضی ہے 2) کڑے وبرے حساب اور 3) جہنم میں مدتوں رہنے کا سبب ہے۔
اس کے بعد آپ
نے یہ آیت تلاوت فرمائی: لَبِئْسَ مَا
قَدَّمَتْ لَهُمْ اَنْفُسُهُمْ اَنْ سَخِطَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ وَ فِی الْعَذَابِ
هُمْ خٰلِدُوْنَ(۸۰) (پ 6، المائدۃ: 80) ترجمہ کنز
الایمان: کیا ہی بُری چیز اپنے لئے خود
آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے۔ (شعب
الایمان، 4 /379، حدیث: 5475)
زنا حرام اور
کبیرہ گناہ ہے، قرآن مجید میں اس کی بہت مذمت کی گئی ہے، چنانچہ
اللہ کریم
ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
نیز کثیر
احادیث میں بھی زنا کی بڑی مذمت و برائی بیان کی گئی ہے، یہاں 5 احادیث ملاحظہ
ہوں۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
2۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے
ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور
وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا
کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226،
حدیث: 23915)
3۔ جو اپنی
محرم سے زنا کرے اسے قتل کر دو۔ (مستدرک، 5/509، حدیث: 8119)
4۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
5۔ جو شخص زنا کرتا یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے
ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ (مستدرک، 1/175،
حدیث: 64)
زنا حرام، گناہ
کبیرہ اور انتہائی نا پسندیدہ فعل ہے جس کو ہر معاشرے ہی برا سمجھتا ہے۔ قرآن کریم
اور احادیث مبارکہ میں اس کی شدید مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے۔ وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
کثیر احادیث میں زنا کی مذمت اور برائی بیان کی
گئی ہے یہاں 5 ملاحظہ فرمائیں۔
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔
مومن نہیں ہوتا:
زانی جس وقت زنا کرتا ہے مومن نہیں ہوتا اور چور جس وقت چوری کرتا ہے مومن نہیں
ہوتا اور شرابی جس وقت شراب پیتا ہے مومن نہیں ہوتا۔ (بخاری، 2/137، حدیث: 2475 )
ان تمام
مقامات میں یا تو کمالِ ایمان مراد ہے یا نورِ ایمان، ورنہ یہ گناہ کفر نہیں نہ ان
کا مرتکب مرتد۔
2۔قحط
میں گرفتار: جس قوم میں
زنا ظاہر ہو گا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہو گا وہ رعب میں
گرفتار ہو گی۔ (مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
3۔
سب سے بڑا گناہ: رسول اللہ ﷺ
سے سوال کیا گیا کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ ارشاد فرمایا: ( حدیث کے ایک حصہ میں)
تیرا اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم، ص 59، حدیث: 86)
4۔
بزور قیامت خسارے ہی خسارے میں: تین قسم کے لوگ وہ ہیں جن سے قیامت کے
دن اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا، نہ ان کی طرف نظر فرمائے گا اور نہ ان کو پاک
کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے: بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور عیال دار
تکبر کرنے والا۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)
5۔ایمان
نکل جاتا ہے: حضورِ
اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان
کی طرح ہو جاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283،حدیث:2634)
نقصانات
و بچنے کی ترغیب: زانی
شخص سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے، یہ ہلاکت اور بربادی میں ڈالتا ہے۔ لوگ اس سے نفرت
کرتے ہیں۔ یہ شخص ایڈز جیسی خوفناک بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ ثابت ہے جہاں زنا
کی تعداد میں اضافہ ہو وہاں یہ مریض بھی پھیلتا ہے۔
بد کاری سے
بچنے اور دل میں اس کی نفرت پیدا کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کے دنیاوی و اخروی
نقصانات کو مد نظر رکھا جائے۔ موت اور قبر کو یاد رکھا جائے۔ اچھی صحبت اختیار کی
جائے کہ بری صحبت برا اثر لاتی ہے۔
اللہ پاک سب
مسلمانوں کو اس قبیح اور مذموم عمل سے محفوظ رکھے۔ آمین
ہمارے معاشرے
میں جہاں دوسرے گناہ عام ہوتے جا رہے ہیں وہاں بدکاری بھی سنگین اور قبیح ترین
گناہ ہے، دین اسلام بدکاری کی ہر شکل سے روکتا ہے اور اس کی مذمت کرتا ہے۔
اللہ پاک قرآن
کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا
الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
بے حیائی اور
بدکاری جیسے گناہ دنیاوی زندگی میں تو ذلت و رسوائی کا سبب بنتے ہی ہیں آخرت میں
بھی عذاب کا سبب بنے گا، چنانچہ
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ
اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور:19)
ترجمہ
کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے
دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب مرد زنا
کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا
ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)
2۔ بدکاری کا
مرتکب شخص اللہ کے عذاب کا مستحق ہوگا جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین
شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف
نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا
بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)
3۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
4۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو
جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں
عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
رب کی ناراضگی
کا سبب ہے، ہر پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے۔ اللہ پاک ہمیں
احکامِ شرع پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آج کا موضوع بدکاری کی مذمت ہے، اللہ پاک بدکاری کرنے والوں کو ناپسند
فرماتا ہے، بدکاری کرنا گناہ ہے، بدکاری سے مراد یہ ہے کہ کسی عورت کا کسی مرد کے
ساتھ یا کسی مرد کا کسی عورت کے ساتھ حرام طریقے سے کوئی برا فعل کرنا۔
بدکاری کرنا حرام، گناہ کبیرہ اور جہنم میں لے جانے والا عمل ہے، قرآن و
حدیث میں اس کی بہت شدید مذمت کی گئی ہے، چنانچہ
اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ
فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس
نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
ایک اور آیت مبارکہ میں ارشاد فرمایا:
وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ
وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا
یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ
الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ(۶۹)(پ 18، الفرقان: 68-69)
ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں
کرتے اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے اور بدکاری
نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا وہ سزا پائے گا، اس کے لیے قیامت کے دن عذاب بڑھا
دیا جائے گا اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
2۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب میں
گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
3۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
4۔ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا
قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس
کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس
لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم
اوسط، 2/133، حدیث: 2769)
5۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے
ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور
وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا
کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226،
حدیث: 23915)
6۔ جو شخص
اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ
فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم
بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301، حدیث: 3371)
اللہ پاک ہر
مسلمان کو بدکاری جیسے بدترین گندے فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی بری راہ۔
اس آیت میں
زنا کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے، اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو
بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد
کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے
آرہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے
یہ گویا کہ دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔( تفسیر
صراط الجنان، 5/454)
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب مرد زنا
کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا
ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)
2۔ تین شخصوں
سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت
فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور
تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 172)
3۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو
جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں
عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
ان احادیث اور
آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بدکاری ایک گناہ ہے اور جس کو کرنے والا اللہ کے عذاب
کا مستحق ہے، اس لیے ہمیں چاہیے کہ بدکاری سے دور رہیں اور اس سے بچنے کی تدابیر
کریں جیسے حضور ﷺ کا فرمان ہے: اے جوانو! تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے
وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور
شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ
روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری، 3/422، حدیث: 5066)
اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کریں
کم ہے کہ اس نے ہمیں اسلام کی فطرت پر پیدا کیا اور ہمیں استقامت بھی بخشی اور ایک
بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے حضور ﷺ کے نام کا شیدا کیا۔ ہم پر بھی فرض بنتا ہے
کہ اسکی اطاعت و فرمانبرداری کریں اس کی بتائی ہوئی ہر حلال چیز کو حلال اور حرام
کو حرام جانیں۔ بہت سارے احکامات میں سے ایک حکم یہ بھی ہےکہ نکاح کہیں سنت مؤکدہ
کہیں حرام اور کہیں فرض ہے اور زنا حرام حرام حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے۔ زنا صرف شرمگاہ سے ہی نہیں بلکہ آنکھ کان ہاتھ زبان دل ان سب سے بھی ہوتا ہے۔
زنا کی مذمت پر اَحادیثِ
مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔
فرامین
مصطفیٰ:
1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اُس
سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا ہے تواُس
کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ ( ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)
یہاں ذرا غور کیا جائے کہ چند
منٹ کی
لذت کیلئے اسکا ایمان اس سے نکال لیا جاتا ہے اور یہ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے
کہ ایمان نکل جانے کا ڈر بھی نہیں اور اللہ کی نافرمانی میں وہ وقت گزارا
اورمسلمان ہوتے ہوئے ایمان پر شہوت غالب آجائے،افسوس صد کروڑ افسوس!
2۔ تین شخصوں سے اللہ پاک نہ
کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظر ِرحمت فرمائے گا
اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا: (1) بوڑھازانی(2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ
(3)تکبر کرنے والا فقیر۔(مسلم، ص68،
حدیث: 172)
الله اكبر فرمایا
جا رہا ہے کہ اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا اس کی طرف نظر رحمت نہیں ہوتی ان تینوں
میں سے ایک زانی شخص بھی ہے اس فرمان عبرت نشان سے مسلمان کو اپنی روح پر ضرب لگا
کر اب تو جگا لینا ہو گا کہ اے مسلم کدھر کی راہ پکڑ لی ہے تو چند منٹوں چند
سیکنڈوں کیلئے اپنی آخرت کیوں برباد کر رہا ہے وہی حیات باقی یہ حیات تو فانی ہو
جانی ہے۔
3۔ نبی اکرم
ﷺنے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم
کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہےاللہ پاک اور اس کے رسول نے اُسے حرام
کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے
ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے (کے گناہ) سے ہلکا ہے۔( مسند
امام احمد،9 / 226، حدیث: 23915)
4۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو
جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ پاک
انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔ ( مسند امام احمد، 10 /246،
حدیث:26894)
الله اكبر! اے
مسلمان یہاں ہوش کے ناخن لینے کا مقام ہے حضور اللہ پاک کی عطا سے علمِ غیب جانتے تھےاور
فرما دیا کہ زنا سے بچے پیدا ہونا عام ہوجائےگا آہ! یہ حضور کی امت کدھر کو چل دی
بڑے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ نہ صرف گناہ کیا جائے گا بلکہ ایک چلتا پھرتا گناہ
وجود میں لایا جائےگا افسوس صد کروڑ افسوس لذتیں کس قدر غالب آگئی ہے۔ایک مسلمان
پر نہ خوفِ خدا رہا نہ شرمِ مصطفٰیﷺ
ایک
دن مرنا ہے آخر موت ہے
کر لے
جو کرنا ہے آخر موت ہے
بدکاری زنااسلام
بلکہ تمام مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیاہے۔ یہ پرلے درجے کی
بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس
کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں، جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے
وہیں ایڈز پھیلتا جارہا ہے۔ یہ گویا دنیا میں عذاب ِ الٰہی کی ایک صورت ہے۔
بدنگاہی بھی
بدکاری کا ایک بہت بڑا سبب ہے۔ انسان جب فحاشی وعُریانی (Nudity &
Obscenity) پرمبنی نَظارے دیکھتا ہے تو اس کے شَہوانی
جَذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور پھر وہ اپنی خواہِش کو پوراکرنے کے لئے بسا اوقات ہر حد
سے گزرجاتاہے۔ موجودہ دور میں میڈیا اس بدنِگاہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی
بہت ساری مُعاشرتی برائیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں
ہے کہ فِلْموں، ڈِراموں میں جِنْسی جَذبات کو (اُبھارنے )والے مَنَاظِر دِکھائے
جاتے ہیں تاکہ لوگ جَذبات سے مَغْلُوب ہوکریہ سب دیکھیں۔
بدکاری کا
گناہ ہماری دنیا وآخرت برباد کردینے والا ہے، آیئے! اس سلسلے میں احادیثِ مبارکہ
میں بیان کردہ چند وعیدیں پڑھیئے اور خوفِ خدا سے لرزیئے:
احادیث
مبارکہ:
1۔ جہنّم میں
ایک وادی کا نام جُبُّ الحزن (یعنی غم کا کنواں) ہے، اس میں سانپ اور بچھو ہیں، ان
میں سے ہر بچھو خچر جتنا بڑا ہے، اس کے 70 ڈنک ہیں، ہر ڈنک میں زہر کی مشک ہے، جب
وہ بدکاری کرنے والے کو ڈنک مارکر اپنا زہر اس کے جسم میں انڈیلے گا تو وہ 1000
سال تک اس کے درد کی شدّت محسوس کرتا رہے گا، پھر اس کا گوشت جھڑ جائے گا اور اس
کی شرم گاہ سے پیپ اور کَچ لَہُو (یعنی خون ملی پیپ) بہنے لگے گی۔ (کتاب الکبائر
للذہبی، ص59)
2۔ جو شخص
چوری یاشراب خوری یا بدکاری یا ان میں سے کسی بھی گناہ میں مبتلا ہو کر مرتا ہے
اُس پر دو سانپ مقرَّر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا گوشت نوچ نوچ کرکھاتے رہتے ہیں۔ (شرحُ
الصُّدور، ص 172)
3۔ اے قریش کے
جوانو! اپنی شرمگاہوں کی حِفاظَت کرو، زِنا مت کرو، جس نے اپنی شرمگاہ کی حِفاظَت
کی اس کے لئے جنّت ہے۔ (مستدرک، 5/512،
حدیث: 8127)
4۔ اللہ نے جب
جنت کو پیدا فرمایاتو اس سے فرمایا: کلام
کر۔ تو وہ بولی: جومجھ میں داخل ہوگا وہ
سعادت مند ہے۔ تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی
عزت وجلال کی قسم!تجھ میں آٹھ قسم کے لوگ داخل نہ ہوں گے: (1) شراب
کا عادی (2) بدکاری پر اصرار کرنے والا (3) چُغْل خَور (4) دَیُّوث
(5) (ظالِم) سپاہی (6) ہیجڑا
(عورتوں سے مُشَابَہَت اِختِیار کرنے والا) (7) رِشْتے
داری توڑنے والا اور (8) وہ شخص جو خدا
کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ فُلاں کام ضرور کرو ں گا پھر وہ کام نہیں کرتا۔ (آنسوؤں
کا دریا، ص 229 )
5۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہوجائے تو اُنہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا۔
(مستدرک، 2 / 339، حدیث: 2308)
آپ نے بدکاری
کی تباہ کاریاں ملاحظہ کیں کہ اس کے سبب بندہ دنیا میں ذلیل و رسوا اور آخرت میں
بھی ذلیل و خوار اور دردناک عذابِ الٰہی کا حقدار ہوتا ہے۔ اس فعل بدکے مُرتَکِب
کے بارے میں احادیث مبارکہ ہمارے سامنے ہیں، کیا ہم اب بھی نہ مانیں گے، خودکو اس
گناہ کی طرف لے جانے والے اسباب سے نہیں بچائیں گے؟
1۔ میری امّت
اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں بدکاری عام نہ ہو گی اور جب ان میں
بدکاری عام ہو جائے گی تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا فرما دے گا۔ (مسند امام احمد،
10/246، حدیث: 26894)
2۔ میری امّت
اس وقت تک اپنے مُعاملے کو مَضبوطی سے پکڑے ہوئے اور بھلائی پر رہے گی جب تک ان
میں حَرام کی اولاد عام نہ ہو گی۔ (مسند ابی یعلیٰ، 6/ 148،
حدیث: 7055)
3۔ جب بدکاری
عام ہو جائے گی تو تنگ دستی اور غربت بھی عام ہو جائے گی۔ (شعب الایمان، 6/ 16، حدیث: 7369)
4۔ کسی قوم
میں بدکاری اور سود ظاہر نہیں ہوا مگر یہ کہ ان پر اللہ کا عذاب نازل ہو گیا۔
(مسند ابی یعلیٰ، 4/314، حدیث: 4960)
آیت
مبارکہ کی روشنی میں بدکاری کی مذمت:
اُولٰٓىٕكَ
كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۷۹) (پ 9،
الاعراف: 179) ترجمہ
کنز الایمان: وہ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر گمراہ وہی غفلت میں پڑے
ہیں۔
صدر الافاضل
حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ مبارکہ
کے تحت فرماتے ہیں: آدمی روحانی، شہوانی،
سماوی، ارضی ہے، جب اس کی روح شہوات پر غالب ہو جاتی ہے تو ملائکہ سے فائق (بلند) ہو
جاتا ہے اور جب شہوات روح پر غلبہ پا جاتی ہیں تو زمین کے جانوروں سے بدتر ہوجاتا
ہے۔ (خزائن العرفان، پ9، الاعراف،
تحت الآیۃ: 179)
آنکھوں
میں آ گ:
حضرت امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: جو کوئی اپنی آنکھوں کو نظر حرام سے پُر کرے گا
قیامت کے روز اللہ اس کی آنکھوں کو آگ سے بھر دے گا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص10)
ایڈز
عذابِ الٰہی ہے:
بدکاری دنیا وآخرت کی بربادی کا سبب ہے، لہٰذا فلاح و کامیابی اسی میں ہے کہ خود
کو اس برائی سے بچاکر پرہیزگاری کی زندگی بسر کی جائے۔ بدکاری کے نتیجے میں پیدا
ہونے والی مہلک بیماری ایڈز کا یہ ایک مختصر سا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ بس یہ بات
ہمیشہ یاد رکھئے کہ جب بدکار مردوں اور عورتوں نے اپنے کالے کرتوتوں کی بنا پر
قہرِ خداوندی کو دعوت دی تو دنیا میں ایڈز کی شکل میں عذابِ خداوندی ان پر نازل
ہوا۔
حاصل
کلام:
اللہ نے اپنے بندوں کی آزمائش کے لیے انہیں حلال و حرام کے دو راہے پر کھڑا فرما
دیا ہے کہ چاہیں تو حلال کے راستے پر چلیں یا حرام کے۔ اس کے علاوہ ان پر یہ بھی
خوب واضح فرما دیا ہے کہ اگر یہ حلال کے راستے پر چلے تو فرشتہ صفت یا اس سے بھی
برتر مقام پر فائز ہوں گے ورنہ حرام کی راہ اپنانے کی صورت میں درندہ صفت یا اس سے
بھی بدتر ہوجائیں گے۔ اب یہ انسان پر ہے کہ وہ کون سی راہ اختیار کرتا ہے، حلال
اپنا کر جنّت کا حقدار بنتا ہے یا حرام اپنانے کی صورت میں مستحقِ نار بنتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں شیطان کے شر اور بدکاری وبدنگاہی
جیسے فعل بد سے محفوظ فرمائے آمین۔ یارب العالمین
بدکاری کے
معنی: برے کام کرنے والا، بد فعل، حرام
کار، بدمعاش، زناکار، زانی۔
حکیم
الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: فاحشہ (بے حیائی) وہ
گناہ ہے جسے عقل بھی برا سمجھے، کفر اگرچہ بدترین گناہ کبیرہ ہے مگر اسے رب نے فاحشہ
(یعنی بے حیائی) نہ فرمایا کیوں کہ نفس انسانی اس سے گھن نہیں کرتی۔ بہتیر عاقل
(عقلمند کہلانے والے) اس میں گرفتار ہیں مگر اغلام (یعنی بدفعلی) تو ایسی بری چیز
ہے کہ جانور بھی اس سے متنفر ہیں سوائے سور کے۔ لڑکوں سے اغلام حرام قطعی ہے اس کے
حرام ہونے کا منکر (یعنی انکار کرنے والا) کافر ہے، لوطی (یعنی اغلام باز) مرد
عورت کے قابل نہیں رہتا۔ (نور العرفان، ص 200)
الله پاک ارشاد
فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى
اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15،
بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے
حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
مفسر
شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت
مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا (بدکاری) کے اسباب سے بھی بچو، لہٰذا بدنظری،
غیر عورت سے خلوت (تنہائی)، عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہے، بخار روکنے کے
لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت گانے باجے
کی حرمت نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا (بدکاری) سے روکنے کے لئے ہے۔ (نور
العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)
زنا و دواعی زنا کی مذمت میں آیات
قرآنیہ:
1۔ ارشادِ
خداوندی ہے: وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا
یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ
مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ
مُهَانًاۗۖ(۶۹) (پ 19، الفرقان: 68-69)
ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو
جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے
وہ سزا پائے بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے
گا۔
غیر شادی شدہ
افراد کے لیے زنا کی سزا کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ
مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ
اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ
لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲) (پ 18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت
بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے
اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی
سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔
موبائل
کا استعمال، ڈرامے، ناول وغیرہ پڑھنا:
عشقیہ وفسقیہ
ناول اور افسانے وغیرہ پڑھنا اور حیا سوز ڈرامے دیکھنا بھی بدکاری کی طرف لے جانے
کا بہت بڑا سبب ہے انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے
اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ تو جو کوئی ان ناولوں اور ڈراموں میں عشق
و محبت کی داستانوں کو پڑھتا یا دیکھتا ہو وہ خود کو ان حرکتوں سے کیسے روک پائے
گا۔ جن کا بعض اوقات نتیجہ بدکاری کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ بدقسمتی سے ان ناولوں
اور ڈراموں کو زیادہ تر خواتین پڑھتی اور دیکھتی ہیں۔ حالانکہ یہ تو وہ نازک سی شیشی
ہیں جنہیں معمولی سی چیز بھی نقصان پہنچا سکتی ہے، چنانچہ
اعلی حضرت
امام اہلسنت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ لڑکیوں کو سورۂ یوسف
کا ترجمہ و تفسیر نہ پڑھائیں کہ اس میں عورتوں کے دھوکا دینے کا ذکر فرمایا ہے۔ (فتاوی
رضویہ، 24/455)
نظر
کی حفاظت کرنے والے کے لئے جہنم سے امان ہے:
جو
امردوں اور غیر عورتوں وغیرہ کی موجودگی میں آنکھیں جھکاتا، اپنی گندی خواہش دباتا
اور ان کو دیکھنے سے خود کو بچاتا ہے وہ قابل صد مبارک باد ہے، چنانچہ نصیحتوں کے
مدنی پھول صفحہ 30 پر ہے: اللہ پاک فرماتا ہے کہ جس نے میری حرام کردہ چیزوں سے
اپنی آنکھوں کو جھکا لیا یعنی انہیں دیکھنے سے بچا میں اسے جہنم سے امان (پناہ)
عطا کر دوں گا۔
بدکاری
کے اسباب: معلوم
ہوا کہ اللہ پاک نے نہ صرف بدکاری بلکہ بدکاری کی جانب لے جانے والے اسباب سے بھی
بچنے کا حکم فرمایا ہے تاکہ ان سے بچ کر ہم پاکیزہ اور ستھری زندگی گزارنے میں
کامیاب ہو سکیں، چند اسباب درج ذیل ہیں:
1۔ اجنبی عورتوں
سے بے تکلف ہو نا اور انہیں چھو نا وہ مس کرنا۔
2۔ اخلاق سوز ناول
اور کتابیں پڑھنا اور حیا سوز ڈرامے اور فلمیں وغیرہ دیکھنا۔
3۔ بدکاری جیسے برے کام کا ایک سبب اجنبی
عورتوں سے یا مردوں سے تعلق دوستی پیدا کرنا۔ ان سے تنہائی میں ملاقات کرنا اور ان
کے ساتھ گفتگو وغیرہ کرنا بے تکلفی ہے۔
بدقسمتی سے آج
کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں مردوں اور عورتوں کا اختلاط میل جول عام ہو چکا ہے، بالخصوص
اس کے نظارے مخلوط تعلیمی اداروں اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں عام ہیں آج کی
ہماری نوجوان نسل کس طرح Boy Friend اور Girl
Friend کے منحوس چکر میں شرم حیاء سے ہاتھ دھو
بیٹھی ہے وہ سب پر عیاں ہے، یاد رکھئے! مرد و زن کے اس طرح بے تکلفانہ اختلاط سے
گناہوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے پہلے زمانے میں بھی اگرچہ یہ
دوستیاں ہوتی تھی مگر انہیں چھپانے کی کوشش کی جاتی تھی مگر اب جناب! ہر ہاتھ میں
موبائل ہے رات رات بھر باتیں ہوتی ہیں اور ملنے کے لئے تفریح پارک اور تعلیمی
اداروں کی بلندوبالا دیواریں موجود ہیں، نہ کوئی روکنے والا نہ ٹوکنے والا! اب آپ خود غور فرمائیں ایسی صورت میں کونسی چیز
ہے جو اس لڑکے اور لڑکی کو اس برے کام سے روکے گی؟
حاصل کلام: ہمیں اپنی
کھوئی ہوئی عظمت کو حاصل کرنا ہے تو اس دور جدید کی بد تہذیبی سے جان چھڑا کر اپنے
روشن ماضی کی جانب واپس جانا ہوگا ابتدا گھر سے کرتے ہوئے اپنے گھر کی خواتین کو
شرعی پردے کا اہتمام کا ذہن دینے کی کوشش کرنی ہوگی ان کا ذہن بنانا جہاں شریعت
اجازت دیتی ہے اسی صورت میں گھر سے باہر قدم رکھے اور وہ بھی مدنی احتیاطوں کے
ساتھ جن کا ذہن شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ نے دیا۔
آپ فرماتے ہیں:
شرعی اجازت کی صورت میں گھر سے نکلتے وقت اسلامی بہن غیر جاذب نظر کپڑے کا ڈھیلا
ڈھالا مدنی برقع اوڑھے ہاتھوں میں دستانے اور پاؤں میں جرابیں پہنے۔ مگر دستانے
اور جرابوں کا کپڑا اتنا باریک نہ ہو کہ کھال کی رنگت جھلکے۔ جہاں کہیں غیر مردوں
کی نظر پڑنے کا امکان ہو وہاں چہرے سے نقاب نہ ہٹائے مثلا اپنے یا کسی کے گھر کی
سیڑھی اور گلی محلے وغیرہ میں
ہوں۔
ہر ایک یہ
کوشش کریں خود بھی اور اپنے ماتحت کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے برائیوں سے بچانے کی
کوشش کریں۔ یعنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا انتہائی اہم کام ہے اور
اس کا ترک کردینا دنیا و آخرت برباد کر دینے کا باعث ہے۔ ہمیں ہمیشہ ہمارے پیر و
مرشد کے اس قول پر عمل کرنا چاہیے: مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی
کوشش کرنی ہے۔