آج کے اس پرآشوب
اور پرفتن دور میں جبکہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا اور اس سے بھی بڑھ کر سوشل میڈیا
کے ذریعے فحاشی اور بے حیائی کو پھیلایا جارہا ہے اور مخلوط تعلیمی اداروں، دفاتر
نیز گھروں اور بازاروں وغیرہ میں بےپردگی بھرے ماحول کے سبب نہ صرف بدنگاہی اور
عورتوں سے بے تکلفانہ گفتگو کرنے جیسے گناہوں میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ ان وجوہات
کے باعث بدکاری جیسے سخت گناہ کبیرہ کے ارتکاب میں بھی لوگوں کی ایک تعداد مبتلا
ہوجاتی ہے اور پھر رسوائی، بربادی اور پچھتاوے کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا۔ لہذا
ضروری ہے کہ اس گناہ کے اسباب مثلا فلمیں، ڈرامے دیکھنے، گانے سننے، بےپردہ عورتوں
کو دیکھنے (اور عورتوں کو بےپردگی کرنے) سے بچاجائے اور اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ
کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے پاکیزہ اور نیکیوں والی زندگی گزاری جائے۔
یہاں ذیل میں
بدکاری کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ کتنا سخت
گناہ اور دنیاوی و اخروی عذاب کا سبب ہے۔
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔ زانی جب زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں
ہوتا۔ (مسلم، ص 690، حدیث: 202)
2۔ جب زنا عام ہوجائے گا تو تنگدستی اور غربت
عام ہوجائے گی۔ (شعب الایمان، 6/16، حدیث: 7369)
3۔جب شراب کا عادی مرے گا تو ایک بت پرست کی
طرح اللہ پاک سے ملے گا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ زنا اللہ پاک کے نزدیک شراب
پینے سے بھی زیادہ سخت اور بڑا گناہ ہے۔ (مسند امام احمد بن حنبل، 1/583، حدیث: 2453)
4۔ جس نے کسی عورت کو شہوت سے ہاتھ لگایا جو
اس پر حلال نہیں تو وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا ہاتھ گردن سے بندھا
ہوگا اور اگر اسے بوسہ دیا تو اس کے دونوں ہونٹ جہنم میں کاٹ دیئے جائیں گے اور
اگر اس سے زنا کیا تو اس کی ران بولے گی اور قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دے گی
اور کہے گی: میں حرام چیز پر سوار ہوئی۔
پس اللہ پاک اس کی طرف ناراضی کی نظر سے دیکھےگا تو اس کے چہرے کا گوشت جھڑ جائے
گا اور وہ جھگڑا کرتے ہوئے کہے گا: میں نے ایسا نہیں کیا۔ تو اس کی زبان اس کے
خلاف گواہی دے گی اور کہے گی: میں نے حرام
کلام کیا۔ اور اس کے ہاتھ کہیں گے: میں نے
حرام پکڑا۔ اور اس کی آنکھ کہے گی: میں نے
حرام شے کو دیکھا۔ اور اس کا پاؤں کہے گا: میں حرام کاموں کی طرف چلا۔ اور اس کی
شرم گاہ کہے گی: میں نے ایسا کیا۔ اور
محافظ فرشتہ کہے گا: میں نے سنا۔ اور دوسرا فرشتہ کہے گا: میں نے لکھا۔ اور اللہ
پاک ارشاد فرمائے گا: میں بھی اس کو جانتا تھا لیکن میں نے اسے چھپایا۔ پھر فرمائے
گا: اے فرشتو! اسے پکڑو اور میرے عذاب کا مزہ چکھاؤ، میرا سب سے زیادہ غضب اس پر
ہوتا ہے جو مجھ سے بہت کم حیا کرتا ہے۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 59)
5۔ جہنم میں ایک ایسی وادی بھی ہے جس کا نام
جب الحزن (یعنی غم کا کنواں) ہے، اس میں سانپ اور بچھو ہیں، ان میں سے ہر بچھو خچر
جتنا بڑا ہے، اس کے 70 ڈنک ہیں، ہر ڈنک میں زہر کی مشک ہے، جب وہ زانی کو ڈنک مارے
گا اور اپنا زہر اس کے جسم میں انڈیلے گا تو وہ ہزار (1000) سال تک اس کے درد کی
شدت محسوس کرتا رہے گا، پھر اس کا گوشت جھڑ جائے گا اور اس کی شرم گاہ سے پیپ اور
کچ لہو (یعنی خون ملی پیپ) بہنے لگے گی۔ (کتاب الکبائر للذہبی، ص 59)
اللہ پاک ہمیں
بدکاری سمیت تمام گناہوں سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ
زنا ایک سنگین
اور قبیح ترین گناہ ہے۔ دینِ اسلام جہاں زنا سے منع کرتا ہے وہیں اسبابِ زنا کے
قریب جانے سے بھی روکتا ہے۔شرک کے بعد زنا کی نجاست و خباثت تمام معصیات سے بڑھ کر
ہے۔ کیونکہ یہ گناہ ایسے ہیں جو دل کی قوت و وحدت کو پارہ پارہ کر دیتے ہیں اور جب
یہ نجاست دل کو فساد سے بھر دیتی ہے تو یقیناً اللہ طیب و پاک ذات سے انسان دور ہی
ہوگا۔ دینِ اسلام اس بدکاری کی ہر شکل سے روکتا اور اس کی مذمت کرتا ہے۔ سراً ہو
یا جہراً، ہمیشہ کا ہو یا ایک لحظہ کا، آزادی سے ہو یا غلامی کے ساتھ، اپنوں سے ہو
یا بیگانوں سے، حتی کہ اس کی طرف لے جانے والے اسباب المخادنہ والمصادقہ کی بھی
نہیں اور نفی کر دی گئی ہے۔ مردوں کے لیے بھی اور عورتوں کے لیے بھی۔ اور قرب
قیامت اسی بدکاری کے ارتکاب کی شدت و کثرت کی وجہ سے سماوی عذاب اور لا علاج امراض
مسلط کر دیئے جائیں گے۔ حتی کہ اس جرم اور دیگر اس کے ہم جنس جرائم کی وجہ سے لوگ
خنزیر اور بندر کی شکل والے بنا دیئے جائیں گے۔
یہاں زنا کی
مذمت پر 5 اَحادیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:
(1)حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب مرد زنا کرتا
ہے تو اُس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہوجاتا ہے، جب اِس فعل سے جدا ہوتا
ہے تو اُس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ ( ابو داود، 4 / 293،
حدیث: 4690)
(2)حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین شخصوں سے اللہ تعالیٰ نہ
کلام فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ اُن کی طرف نظرِ ِرحمت فرمائے گا
اور اُن کے لیے دردناک عذاب ہوگا: 1) بوڑھا زانی2)جھوٹ بولنے والا بادشاہ 3)تکبر کرنے
والا فقیر۔(مسلم، ص68، حدیث: 107)
(3)حضرت مقداد
بن اسود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، نبیِ اکرم ﷺ نے اپنے صحابۂ کرام سے ارشاد
فرمایا زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے، اللہ اور
اس کے رسول نے اُسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا۔ رسولُ اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے
(کے گناہ) سے ہلکا ہے۔ ( مسند امام احمد، 9 / 226،
حدیث: 23915)
(4)حضرت
میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت اس وقت
تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے
اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا
فرما دے گا۔ ( مسند امام احمد، 10 / 246،
حدیث: 26894)
(5)صحیح بخاری
میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک طویل حدیث ہے، حضورِ اقدس ﷺ نے
ارشاد فرمایا میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر
زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے اُن میں ایک یہ بات بھی
ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ،
اُس میں آگ جَل رہی ہے اور اُس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں۔ جب آگ کا
شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے
کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ تھےان کے متعلق بیان فرمایا) یہ
زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ ( بخاری، 1/ 467،
حدیث: 1386)
ان احادیث
مبارکہ کو پڑھ کر ہر مسلمان کو اللہ پاک کے ڈر سے لرز جانا چاہیے اور اس گناہ سے
بچنا چاہیے کہ یہ بدترین گناہ ہے۔
اس گناہ میں
مبتلا ہونے کی ایک وجہ والدین کا اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرنا بھی ہے۔ کچھ
والدین اپنی اولاد کے نکاح میں اچھےمال و دولت والے خاندان کی تلاش میں بھی تاخیر
کر دیتے ہیں کہ مال و دولت والا خاندان ملے لیکن حقیقت میں جو دین دیکھ کر نکاح
کرتے ہیں انہیں مال میں برکت دی جاتی ہے۔ فقط مال دیکھ کر نکاح کرنے والے کے متعلق
حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: جو صِرف مال دیکھ کر نکاح کرے گا، وہ فقیر رہے گا، جو صِرف
خاندان دیکھ کر نکاح کرے گا وہ ذلیل ہو گا اور جو دِین دیکھ کر نکاح کرے گا اسے
برکت دی جائے گی، مال ایک جهٹکے میں، جمال ایک بیماری میں جاتا رہتا ہے۔ (مراٰۃ
المناجیح، 5/3-4)
اس گناہ میں
مبتلا ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح تو کر دیا جاتا ہے لیکن بیٹی کی رُخصتی
میں تاخیر کر دی جاتی ہے۔
یاد رہے نکاح
کے بعد رُخصتی میں تاخیر شرعاً جائز ہے۔ اگرچہ تاخیر سے رُخصتی کرنا جائز ہے مگر
فی زمانہ ایسا نہ چاہیے موجودہ حالات کسی سے ڈھکے چهپے نہیں، لڑکی ہو یا لڑکا ان
کے نکاح میں تاخیر کرنا یا نکاح کے بعد بیٹی کی رُخصتی میں تاخیر کرنا خطرے سے
خالی نہیں ہے لہٰذا والدین کو چاہئے کہ اس فرض سے جتنی جلدی ممکن ہو سبکدوش ہوں
ورنہ لڑکی یا لڑکا اگر بہک گئے تو ان کے گناہ کا وبال والدین پر بهی آئے گا،
علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اپنی اولاد کے گناہ اپنے سَر نہ لو، جیسا کہ اعلیٰ حضرت
امام احمد رضا خان رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں: اگر نکاح کی حاجت شدید ہے کہ بے نکاح
کے معاذ اﷲ گُناہ میں مبتلا ہونے کا ظنِ غالب ہے تو نکاح کرنا واجب ہے، بلکہ بے
نکاح وقوعِ حرام کا یقینِ کلی ہو تو نکاح فرضِ قطعی یعنی جبکہ اُس کے سِوا کثرتِ
روزہ وغیرہ معالجات سے تسکین متوقع نہ ہو، (ایسی صورت میں) اگر خود نکاح نہ کریں
گنہگار ہوں گے اور اگر اُن کے اولیاء (یعنی والدین یا سرپرست) اپنے حد مقدور تک
کوشش میں پہلوتہی کریں گے تو وہ بهی گنہگار ہوں گے۔ (فتاویٰ رضویہ، 12/291)
نبی کریمﷺ نے
ارشاد فرمایا: اگر بچہ بالغ ہو اور اُس کا نکاح نہ کِیا پهر اگر وہ گُناہ میں پڑا
تو اُس کا گُناہ اُس کے باپ پر (بهی) ہو گا۔ (شعب الایمان، 6/401،
حدیث: 8666)
زنا جیسی بری
عادت سے بچنے کا آسان نسخہ بھی اس حدیث پاک میں موجود ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو! تم میں
جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے
سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی
استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری، 3 / 422، حدیث: 5066)
اللہ پاک تمام
مسلمانوں کو بدکاری سے بچائے اور اللہ پاک ہمیں اپنے احکام پر چلتے ہوئے پاکیزہ
زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریمﷺ
بدکاری کی مذمت از بنت حافظ منظور احمد، فیضان مدینہ العطار
ٹاؤن میر پور خاص
ہمارا دین
دینِ اسلام ہے۔جو ہمیں پاکیزہ رہنے کا حکم دیتا ہے اور دین اسلام نے پاکیزگی کو
نصف ایمان قرار دیا ہے۔ لہذا ہر مسلمان کو اپنی عزت، نفس،نسب،روح،ظاہر وباطن کو
پاکیزہ رکھنا ضروری ہے اور انکو غلیظ کرنے والی ایک چیز زنا ہے۔زنا ایک قبیح ترین
گناہ ہے۔ دین اسلام زنا سے ہی نہیں بلکہ زنا کے اسباب کے قریب جانے سے بھی روکتا
ہے شرک کے بعد زنا کی نجاست و خباثت تمام گناہوں سے بڑھ کر ہے۔
زنا کی مذمت
قرآن وحدیث میں بارہا وارد ہوئی ہے۔چنانچہ
ارشاد باری
تعالیٰ ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
اس آیت مبارکہ
میں اللہ پاک نے زنا کی خباثت و حرمت کو بیان فرمایا ہے۔ دين اسلام بلكہ تمام
آسمانی مذاہب میں بدكاری کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔یہ پرلے درجے کی
بےحیائی اور فتنہ فساد کی جڑ ہے۔
اسکے علاوہ
بکثرت احادیث مبارکہ میں بھی بدکاری کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے جن میں سے چند پیش
خدمت ہیں:
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔ میری امت
اس وقت تک بھلائی میں رہےگی جب تک بدکاری سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے
اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ انہیں
عذاب میں ڈال دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)
2۔ جب مرد زنا
کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے جب اس فعل سے جدا ہوتا
ہے تو ایمان اسکی طرف لوٹ آتا ہے۔
(ترمذی،4/283،حدیث:2634)
3۔ تین شخصوں
سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا نہ انکی طرف نظر رحمت فرمائے
گا اور انکے لئے دردناک عذاب ہے:1) بوڑھا زانی 2) جھوٹ بولنے والا بادشاہ 3)،تکبر
کرنے والا فقیر۔ (مسلم، حدیث: 172)
لہٰذا ہر
انسان کو چاہیے کہ وہ ان احادیث پر غور کرتے ہوئے اپنی ذات پر غور کرے اور بدکاری
سے دور کرنے والے اسباب پر غور کرے جن میں ایک سبب نکاح ہےاگر اسکی استطاعت رکھتا
ہو تو دل میں اس گناہ سے ضرور نفرت پیدا ہوگی۔
یاد رہے زانی
پر حد قائم کرنے کی اجازت چند شرائط کے ساتھ ہے کہ وہ مسلمان ہو، عاقل ہو، بالغ ہو،
یہ جرم اپنے اختیار سے کیا ہو زبردستی نہ ہو۔
اللہ پاک ہمیں
تمام صغیرہ و کبیرہ گناہ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ان کی
پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
اللہ پاک
پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر
والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
اہلِ بیت سے مراد کون: خزائن العرفان اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں ہے: اوراہلِ بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ
زہرا اور علیِ مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و
احادیث کو جمع کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔(خزائن العرفان، ص780)
حضرت علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیتِ کریمہ اہلِ بیت کے فضائل کا منبع یعنی سرچشمہ ہے، اس سے
ان کے اعزازِ ماثر یعنی بلند مقام اور علوِ شان یعنی اونچی شان کا اظہار ہوتا ہے
اور معلوم ہوتا ہے کہ تمام اخلاقِ دنیہ یعنی گھٹیا اخلاق و احوالِ مذمومہ یعنی
ناپسندیدہ حالتوں سے ان کی تطہیر یعنی پاکی فرمائی گئی۔ بعض احادیث میں مروی ہے کہ
اہلِ بیت نار یعنی جہنم پر حرام ہیں اور یہی اس تطہیر کا فائدہ اور ثمرہ ہے، اور
جو چیز ان کے احوال شریف یعنی شرافت والی حالتوں کے لائق نہ ہو اس سے ان کا
پروردگار انہیں محفوظ رکھتا اور بچاتا ہے۔ (سوانح کربلا، ص 82)
آئیے! اللہ کریم کے ان مقدس بندوں اور آقا ﷺ کے حقوق کے
بارے میں سنتے ہیں:
اچھا سلوک: اہلِ بیت
سے اچھا سلوک کیا جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے
ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر،
45/303، رقم: 5254)
اولاد کو ان کی محبت سکھانا: رسول
اللہ ﷺ کے اہلِ بیت کے حقوق میں سے ہے کہ اپنی اولاد کو ان کی محبت سکھائی جائے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کو تین باتیں سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ
بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25، حدیث: 311)
اہلِ بیت کی خدمت کرنا اور انہیں خوش کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری
بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو
اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)
اہلِ بیت سے محبت کرنا:
اہلِ بیت کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے
محبت کی جائے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی
کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور
میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189،
حدیث: 1505)
اہلِ بیت سے دشمنی نہ رکھنا: اہلِ
بیت کے حقوق میں سے ہے کہ ان سے دشمنی نہ رکھی جائے کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ جو
شخص اہلِ بیت سے دشمنی رکھتے ہوئے مرا وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کی
پیشانی پر لکھا ہوگا: یہ آج اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (تفسیر قرطبی، پ 25،
الشوریٰ، تحت الآیۃ:23، 8/17)
روایت میں ہے کہ میرے اہلِ بیت میری امت کے لئے امان و
سلامتی ہیں۔ (نوادر الاصول، 5/130، حدیث: 1133)
ہمیں چاہئے کہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہونے کے لئے رسول اللہ
ﷺ کے اہلِ بیت کے تمام حقوق احسن انداز سے ادا کریں اور اپنے درجات کی بلندی کا
سامان کریں۔
اللہ پاک ہمیں اہلِ بیت ِ کرام رضی
اللہُ عنہم کی سچی و پکی محبت عطا فرمائے
اور ان کے صدقے میں ہماری دنیا و آخرت بہتر فرمائے، ان کے غلاموں میں اٹھائے۔ آمین
حقیقت ہے کہ جب کسی سے محبت ہوجائے تو
اس سے نسبت رکھنے والی ہر شے سے پیار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی جس کو پیارے آقا ﷺ سے
محبت ہوتی ہے وہ ان کی آلِ پاک سے بھی محبت رکھتا ہے اور ان کے صحابہ سے بھی پیار
کرتا ہے۔ قرآن پاک میں اہلِ بیت کا ذکر آیا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا
ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب
ستھرا کردے۔
احادیثِ مبارکہ میں اہلِ بیت کے بہت سارے فضائل بیان کئے
گئے ہیں، جن میں سے پانچ درج ذیل ہیں:
(1) اے فاطمہ! بےشک اللہ پاک
تمہیں اور تمہاری اولاد کو عذاب نہیں دے گا۔ (معجم کبیر، 11/210، حدیث: 11685)
(2) اپنی اولاد کو تین باتیں
سکھاؤ: اپنے نبی کی محبت، اہلِ بیت کی محبت اور تلاوتِ قرآن۔ (جامع صغیر، ص25،
حدیث: 311)
(3) میر ی شفاعت میری امت کے اس
شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ بغداد، 2/144)
(4) جو شخص اولادِ عبد المطلب میں
کسی کے ساتھ دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ
قیامت مجھ سے ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)
(5) تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو
میرے بعد میرے اہلِ بیت کے لئے بہتر ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
ہمیں بھی اہلِ بیت سے محبت کرنی چاہئے اور اہلِ بیت کا ادب
و احترام کرنا چاہئے اور ان سے محبت کرکے برکت حاصل کرنی چاہئے۔ اللہ پاک ہمیں
اہلِ بیت کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
لفظِ اہل کا معنی ہے والا اور لفظِ بیت کا معنی ہے گھر یعنی
اس سے مراد گھر والا یا گھر والے ہیں۔ ہمارے اردو محاورے میں بھی بیوی بچوں کو
اہلِ خانہ یا اہل و عیال یا گھر والے کہا جاتا ہے۔ اہلِ بیت نبوت خانوادۂ نبوت ہے۔ اہلِ بیت ِ نبوت سیدِ مرسلین
ﷺ کا گھرانہ ہے۔ اہلِ بیت کی محبت باعثِ تکمیلِ ایمان ہے۔ اہلِ بیتِ نبوت وہ مقدس
ہستیاں ہیں کہ جس طرح حضور ﷺ تمام انبیاء ورسل علیہمُ السّلام کے سردار ہیں اسی
طرح رسول اللہ ﷺ کے اہلِ بیت تمام انبیاء کرام اور رسلِ عظام علیہمُ السّلام کے
اہلِ بیت کے سردار ہیں۔ (عظمت و شانِ اہلِ بیت،ص 23)
انہی نفوسِ قدسیہ کی شان میں اللہ پاک نے قرآن مجید میں
فرمایا: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں اہلِ بیت سے مراد کون لوگ ہیں،
اس بارے میں مختلف اقوال ہیں، لیکن اکثر مفسرین کا خیال ہے اور خود حضور نبیِ کریم
ﷺ نے اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد ارشاد فرمایا: یہ آیتِ تطہیر علی، فاطمہ،
حسن اور حسین (رضی اللہُ
عنہم )کے متعلق نازل ہوئی۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ اہلِ
بیت سے محبت ہو جیسا کہ خود رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے: اللہ پاک کی محبت کی بناء پر
مجھ سے محبت رکھو اور میری محبت کی بناء پر اہلِ بیت سے محبت رکھو۔(مشکاۃ
المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)
نسبتِ
اہلِ بیت کا طلبگار ہوگیا کرکے
وفا ان سے جنت کا حقدار ہوگیا
جسے اہلِ بیت کی محبت مل جائے اسے دونوں جہاں کی عزت مل
جائے گی، آخرت میں شفیعِ امت ﷺ کی رفاقت میسر آئے گی، اہلِ بیت کے صدقے اس کی بخشش
و مغفرت ہوجائے گی۔ (کراماتِ شیرِ خدا)
اہلِ بیتِ رسول اللہ ﷺ کی ایک دن کی محبت پورے سال کی عبادت
سے بہتر ہے اور جو اسی محبت پر فوت ہوا تو وہ جنت میں داخل ہوگیا۔ (الشرف الموبد،
ص 92)
اگر کوئی شخص حجرِ اسود اور مقامِ ابراہیم کے درمیان مقیم
ہو، پابندِ صوم وصلوۃ ہو اور اس حالت میں فوت ہو کہ وہ محمد مصطفےٰ ﷺ کے اہلِ بیت
سے بغض رکھتا ہو وہ آگ میں داخل ہوگا۔(عقائد
ومسائل،ص82)
راہِ فقر میں تمام مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے
عطا ہوتے ہیں، جو اہلِ بیت کا منکر اور بےادب ہے وہ اسلام سے خارج ہے۔
حضر ت زید بن ارقم سے روایت ہے: نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: ہم
تمہارے درمیان وہ شے چھوڑ کر جارہے ہیں کہ اگر تم نے اسے مضبوطی سے تھامے رکھا تو
ہمارے بعد ہرگز ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ان میں سے ایک دوسری سے بڑی ہے: اللہ پاک کی
کتاب جو آسمان سے زمین تک پھیلی ہوئی ہے اور ہماری اولاد اور اہلِ بیت۔ یہ دونوں
جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں ہمارے پاس حوض ِ کوثر پر آئیں گے۔ تم دیکھو کہ
ان کے ساتھ ہمارے بعد کیسا معاملہ کرتے ہو۔ (عقائد و
مسائل،ص89)
جو شخص امام حسن و حسین اور اہلِ بیت یا صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں
سے کسی کی شان میں گستاخی کے کلمات کہتا ہے اس پر حدیث شریف میں لعنت آئی ہے، ایسا
شخص فاسق اور گمراہ ہے۔
دل میں
بغضِ اہلِ بیت اور جنت
جانے کا جنون
انا للہ
وا نا الیہ راجعون
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے محبت کرو کہ اس نے تمہیں
نعمتوں سے نوازا ہے اور اللہ کی محبت کی خاطر مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی
خاطر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/443، حدیث: 6182)
خدا نے کتے کی طرح نجس کسی کو نہیں پیدا کیا لیکن وہ شخص
کتے سے زیادہ نجس ہے جس کے دل میں بغضِ آلِ محمد ہو۔
اللہ پاک ہم مسلمانوں کو اس کشتی میں سوار فرمادے کہ جو
ہماری فلاح و بقا کا ذریعہ ہے اور ہمیں ہلاکت سے محفوظ فرمادے اور اہلِ بیت کی
ہمارے دلوں میں صحیح عقیدت و احترام نصیب فرمائے۔ آمین
اہلِ بیت میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ
جنت فاطمہ زہرا، حضرت علی مرتضیٰ اور امام حسن و حسین رضی
اللہُ عنہم سب داخل ہیں۔ (خزائن العرفان، ص780)
پیاری اسلامی بہنو! قرآن کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے
میں اللہ پاک کا فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ
اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25،
الشوری: 23) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا
مگر قرابت کی محبت۔
ان کے گھر
بےاجازت جبرئیل آتے نہیں قدر
والے جانتے ہیں قدر و شانِ اہلِ بیت
مسلمانوں کے دلوں میں جہاں صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم کی
محبت دینِ اسلام کے لئے ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی اللہُ عنہم سے
محبت و عقیدت بھی دینِ اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں
فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ
گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی فرمایا:میرے
اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات پاگیا اور جو
پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: آپ ﷺ نے فرمایا: لوگو! میں
تمہیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میری اہلِ بیت کی محبت، مودت اور ان کے ساتھ معاملے کو
سامنے رکھتے ہوئے اللہ سے ڈرنا اور اس کو یاد رکھنا۔ اس کو آپ ﷺ نے دوبار دہرایا۔
(کنز العمال، 13/276، حدیث: 3762)
کس زباں
سے ہو بیان عزو شان اہلِ بیت
ایک بارحضرت صدیقِ اکبر رضی
اللہُ عنہ نے فرمایا: رسولِ اکرم ﷺ کے
احترام کے پیشِ نظر اہلِ بیت کا احترام کرو۔ (بخاری، 2/438، حدیث: 3713)
اللہ پاک پارہ 22 سورۂ احزاب آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا
ہے:اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ
عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی
کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
ان کی
پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
آپ ﷺ نے فرمایا: اس وقت تک کوئی کامل مومن نہیں ہوسکتا جب
تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی
اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب
الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
صحابہ کا
گدا ہوں اور اہلِ بیت کا خادم یہ
سب ہے آپ کی تو عنایت یارسول اللہ
جو شخص وسیلہ حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ میری
بارگاہ میں اس کی کوئی خدمت ہو جس کے سبب میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں، تو
اسے چاہئے کہ میرے اہلِ بیت کی خدمت کرے اور انہیں خوش کرے۔ (الشرف المؤبد، ص 54)
اللہ پاک سے محبت کرو کیونکہ وہ تمہیں اپنی نعمت سے روزی
دیتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لئے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لئے میرے
اہلِ بیت سے محبت کرو۔ (ترمذی، 5/434، حدیث: 3814)
ہمارے اہلِ بیت کی محبت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ پاک
سے اس حال میں ملا اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس
کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا
جب کہ وہ ہمارا حق پہچانے۔ (معجم اوسط، 1/606، حدیث: 243)
واللہ وہ
سن لیں گے فریاد کو پہنچیں گے اتنا
بھی تو ہو کوئی جو آہ کرے دل سے
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ
الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳) (پ
22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ
تم سے ہر ناپاکی دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔
خزائن العرفان میں ہے: اوراہلِ
بیت میں نبی کریم ﷺ کے ازواجِ مطہرات اور حضرت خاتونِ جنّت فاطمہ زہرا اور علیِ
مرتضٰی اور حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہم سب داخل ہیں، آیات و احادیث کو جمع
کرنے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ (خزائن العرفان، ص780) امام طبری
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں
اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف
کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)
ان کی
پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
جسے پسند ہو کہ اس کی عمر میں برکت ہو اور اللہ پاک اسے
اپنی دی ہوئی نعمت سے فائدہ دے تو اسے لازم ہے کہ میرے بعد میرے اہلِ بیت سے اچھا
سلوک کرے۔ جو ایسا نہ کرے اس کی عمر کی برکت اڑجائے اور قیامت میں میرے سامنے کالا
منہ لے کر آئے۔(کنز العمال، 6/46،حدیث:34166)
سیدوں کا ادب: حضرت علی
خواص رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ
کرام اگرچہ نسب میں رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی
خواہشوں پر ان کی رضا کو مقدم کریں اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات
زمین پر تشریف فرماہوں تو اونچی جگہ (کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور
الابصار، ص129)
سادات کو خصوصاً قربانی کا گوشت دینا:
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: فقیر کا معمول یہ کہ
قربانی ہر سال اپنے حضرت والدِ ماجد رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا
گوشت پوست سب تصدق یعنی خیرات کردیتا ہے اور ایک قربانی حضورِ اقدس ﷺ کی طرف سے
کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب نذر حضراتِ سادات کرام فرماتا ہے۔ تقبل اللہ
تعالیٰ منی و من المسلمین، اللہ پاک میری اور سب مسلمانوں کی طرف سے قبول
فرمائے۔(فتاوی روضویہ، 20/456)
دو جہاں
میں خادم آل رسول اللہ کر حضرت
آل رسول مقتدا کے واسطے
اعلیٰ حضرت سیدوں کو ڈبل دیتے: اعلیٰ
حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ ساداتِ کرام کا بہت خیال فرماتے یہاں تک کہ جب کوئی چیز
تقسیم فرماتے تو سب کو ایک ایک عطا فرماتے اور سید صاحبان کو دو دیتے۔ (حیاتِ
اعلیٰ حضرت، 1/183)
محبتِ اہلِ بیت: اہلِ بیت
کی محبت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا اسے میری شفاعت کے
سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! کسی
بندے کو اس کا عمل اسی صورت میں فائدہ دے گا جب کہ وہ ہمارا حق پہچانے۔ (معجم
اوسط، 1/606، حدیث: 243)
تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو میرے بعد اہلِ بیت کے لئے بہتر
ہوگا۔ (مستدرک، 4/369، حدیث: 5410)
کس زباں
سے ہو بیاں عزو شان اہلِ بیت مدح
گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت
مسلمانوں کے دلوں میں صحابۂ کرام رضی
اللہُ عنہم کی محبت دینِ اسلام کے لئے
ضروری ہے، وہیں حضور ﷺ کے گھرانے اہلِ بیت ِ اطہار رضی
اللہُ عنہم سے محبت و عقیدت بھی دینِ
اسلام کا حصہ ہے۔ آقا ﷺ نے جہاں اپنے اصحاب کے بارے میں فرمایا: میرے صحابہ ستاروں
کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پاؤ گے۔ (مشکاۃ المصابیح، 2/414،
حدیث: 6018) وہیں اپنی آل کے لئے بھی
فرمایا:میرے اہلِ بیت کی مثال کشتیِ نوح کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا وہ نجات
پاگیا اور جو پیچھے رہ گیا وہ ہلاک ہوگیا۔(مستدرک،
3/ 81، حدیث: 3365)
ساداتِ کرام کی عظمت پر اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: جب عام صالحین کی صلاح (نیکی) ان کی نسل و اولاد کو دین و دنیا و آخرت میں
نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق و عثمان و علی و جعفر و عباس و انصار کرام رضی اللہُ عنہم کی
صلاح کا کیا کہنا۔ جن کی اولاد میں شیخ، صدیقی و فاروقی عثمانی وعلوی و جعفری و
عباسی و انصاری ہیں، یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین و دنیا و آخرت میں نفع
پائیں گے! اور اللہ اکبر ! حضراتِ علیہ ساداتِ کرام اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنت،
بتولِ ِ زہرا رضی اللہُ
عنہا کہ حضور پر نور سید الصالحین، سید العلمین، سید المرسلین ﷺ کے بیٹے
ہیں کہ جن کی شان تو ارفع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ
اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22،
الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم
سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب ستھرا کردے۔ (فتاویٰ رضویہ، 23/243-
244)
قرآنِ کریم میں اہلِ بیت کی محبت کے بارے میں اللہ پاک کا
فرمان ہے: قُلْ لَّاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ اَجْرًا
اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبٰىؕ- (پ25، الشوری: 23) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ میں اس پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا مگر قرابت کی محبت۔
دورِ صحابہ سے لے کر آج تک امتِ مسلمہ اہلِ بیت سے محبت
رکھتی ہے، چھوٹے بڑے سبھی اہلِ بیت سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ حضرت علامہ عبد الروف
مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کوئی بھی امام یا مجتہد ایسا نہیں گزرا جس نے
اہلِ بیت کی محبت سے بڑا حصہ اور نمایاں فخر نہ پایا ہو۔ (فیض القدیر، 1/256)
تفسیر خزائن العرفان میں ہے: حضور سیدِ عالم ﷺ کی محبت اور
آپ کے اقارب کی محبت دین کے فرائض میں سے ہے۔
نبیِ رحمت شفیعِ امت ﷺ کا فرمان ہے: اس وقت تک کوئی کامل
مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کو اس کی جان سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں اور میری
اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہوجائے۔ (شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
حقوقِ اہلِ بیت: (1)آقا
کریم ﷺ نے فرمایا: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا میں
قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم: 5254)
مزید فرمایا: جو شخص اولادِ عبد المطلب میں کسی کے ساتھ
دنیا میں بھلائی کرے گا اس کا بدلہ دینا مجھ پر لازم ہے، جب وہ روزِ قیامت مجھ سے
ملے گا۔ (تاریخ بغداد، 1/102)
(2)ساداتِ کرام کی تعظیم و تکریم کی اصل وجہ یہی ہے کہ یہ
حضرات رسولِ کائنات ﷺ کے جسمِ اطہر کا ٹکڑا ہیں۔ اس لئے ساداتِ کرام کی تعظیم فرض
ہے ۔
(3)ساداتِ کرام کی تعظیم آقا کریم ﷺ کی تعظیم ہے۔
(4) استاد بھی سید کو مارنے سے پرہیز کریں۔
(5) سید کی بطورِ سید یعنی وہ سید ہے، اس لئے توہین کرنا
کفر ہے۔
(6) ساداتِ کرام کو ایسے کام پر ملازم رکھا جاسکتا ہے جس
میں ذلت نہ پائی جاتی ہو، البتہ ذلت والے کاموں میں انہیں ملازم رکھنا جائز نہیں۔
اللہ پاک ہمیں ساداتِ کرام کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا
فرمائے اور سدا بے ادبی سے بچائے۔ آمین
الحمد اللہ اللہ پاک نے ہمیں قرآن کی دولت عطا فرمائی اور
پھر کریم آقا ﷺ کے صدقے ہمیں اہلِ بیت کی دولت ملی، جن کے فضائل اور کمالات کی حد
نہیں۔ اہلِ بیت کے ہم پر بےشمار حقوق ہیں جن کا خیال رکھنا زندگی کے اہم افعال میں
سے ایک ہے۔ ان کے حقوق میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) حضرت علی خواص رحمۃُ اللہِ
علیہ فرماتے ہیں: بعض اہلِ علم نے یہاں تک فرمایا ہے کہ ساداتِ کرام اگرچہ نسب میں
رسول اللہ ﷺ سے کتنے ہی دور ہوں، ان کا ہم پر حق ہے کہ اپنی خواہشوں پر ان کی رضا
کو مقدم کریں اور ان کی بھر پور تعظیم کریں اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرماہوں
تو اونچی جگہ (کرسی، صوفے وغیرہ)پر نہ بیٹھیں۔ (نور الابصار، ص129)
(2) آقا ﷺ سے محبت کا تقاضا ہے کہ
ان کے اہلِ بیت سے بھی اتنی محبت کی جائے۔ ان سے محبت کرنا پلِ صراط پر ثابت قدمی
کا ذریعہ ہے۔ ان سے کسی قسم کی نفرت انسان کے لئے باعثِ آزمائش ہے۔ حدیث کی میں ہے
کہ میری شفاعت امت کے اس شخص کے لئے ہے جو میرے گھرانے سے محبت رکھنے والا ہو۔ (تاریخِ
بغداد، 2/144)
(3) اہلِ بیت کے ساتھ ہر حال میں
اچھا سلوک کرنا چاہئے، ان کے آگے آوازیں نہ بلند کریں۔ اگر ہمارے یہاں کام کریں تو
ادب کے دائرے میں عرض کی جائے۔ اگر ان سے کوئی غلطی ہوجائے تو خلوت میں التجاءً
گفتگو کی جائے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جو میرے اہلِ بیت میں سے کسی کے ساتھ اچھا سلوک
کرے گا میں قیامت کے دن اس کا بدلہ عطا کروں گا۔ (تاریخ ابن عساکر، 45/303، رقم:
5254)
(4) اہلِ بیت کی عظمت و شان بہت
بلند ہے، ان کی شان میں گستاخی کرنا، ظلم کرنا، حسد یا بغض رکھنا آقا ﷺ کی شفاعت،
جنت اور پلِ صراط پر ثابت قدمی سے دوری کا سبب ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: جس شخص نے
میرے اہلِ بیت پر ظلم کیا اور مجھے میری عترت کے بارے میں تکلیف دی اس پر جنت حرام
کردی گئی۔ (الشرف الموبد، ص 99)
کس زباں
سے ہو بیان عزو شانِ اہل بیت مدح گوئے مصطفےٰ ہے مدح خوانِ اہل بیت
(5) سید زادوں کی ہر حاجات کو
مقدم رکھا جائے کہ ان کی عزت بڑھاتے ہوئے ان کی حاجات پوری کی جائیں کہ ان کے دل
میں ایسی خوشی داخل ہو کہ ان کے نانا جان ﷺ کا بھی دل خوش ہوجائے۔ ان کے حقوق کی
پاسداری کے بعد روزِ محشر ان کے نانا جان ﷺ کے قدموں میں جگہ مل جائے، ان کی شفاعت
مل جائے، ان کے ہاتھوں سے جامِ کوثر نصیب ہوجائے۔
تیری نسلِ
پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا
اللہ پاک ہم سب کو حقوقِ اہلِ بیت کی پاسداری نصیب فرمائے
اور ان کاادب نصیب فرمائے۔ آمین
مجھے آج جس موضوع پر قلم کشائی کی سعادت مرحمت ہوئی وہ
موضوع اہلِ بیت کے حقوق پر مبنی ہے۔ اہلِ بیت اطہار کے حقوق بیان کرنے سے پہلے یہ
جان لینا نہایت ضروری ہے کہ اہلِ بیت کون ہیں اور ان میں کون نیک ہستیاں داخل ہیں۔
اہلِ بیت سے مراد وہ محترم افراد ہیں جو آقا ﷺ کے اہلِ خانہ
ہیں، جن میں نبیِ کریم ﷺ کی ازواجِ مطہرات، خاتونِ جنت حضرت فاطمہ، حضرت علی
مرتضیٰ اور حسنین کریمین رضی اللہُ
عنہم داخل ہیں۔
آقا ﷺ نے فرمایا: میرے اہلِ بیت کی مثال حضرت نوح علیہ
السّلام کی کشتی کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا نجات پاگیا اور سوار نہیں ہوا ہلاک
ہوگیا۔ (مستدرک، 3/ 81، حدیث: 3365)
اس حدیثِ مبارکہ سے شانِ اہلِ بیت تو
ظاہر ہوئی مگر ان کا بلند مقام بھی ظاہر ہوگیا اور جو بدبخت ان کی شان میں خباثت
بکتے ہیں ان کو شریعت کی طرف سے یہ ایسا جواب ہے کہ جس پر ان کی عقلوں کی رسائی
ممکن نہیں۔
اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ
یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)(پ 22، الاحزاب: 33) ترجمہ کنز الایمان: اللہ تو یہی چاہتا
ہے اے نبی کے گھر والو کہ تم سے ہر ناپاکی کو دور فرمادے اور تمہیں پاک کرکے خوب
ستھرا کردے۔
امام طبری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اے آلِ محمد! اللہ
پاک چاہتا ہے کہ تم سے بری باتوں اور فحش یعنی گندی چیزوں کو دور رکھے اور تمہیں
گناہوں کے میل کچیل سے پاک و صاف کردے۔ (تفسیر طبری، 1/296)
ان کی
پاکی کا خدائے پاک کرتا ہے بیاں آیۂ
تطہیر سے ظاہر ہے شانِ اہلِ بیت
اب میں اہلِ بیت کے پانچ حقوق پر قلم اٹھانا چاہوں گی کہ ان
حضرات کا پہلا حق تو یہ ہے کہ ہم امتِ مسلمہ ان حضرات سے محبت کریں۔ آپ ﷺ نے
فرمایا: ہمارے اہلِ بیت کو لازم پکڑلو کیونکہ جو اللہ سے اس حال میں ملا کہ وہ ہم
سے محبت کرتا ہے تو اللہ پاک اسے میری شفاعت کے سبب جنت میں داخل فرمائے گا اور اس
کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! کسی بندے کو اس کا عمل اس صورت میں فائدہ دے
گا جبکہ وہ ہمارا حق پہنچائے۔ (فیضانِ اہلِ بیت)
ان حضرات کا دوسرا حق یہ ہے کہ اپنے دلوں کو اہلِ بیت کے بغض
سے پاک رکھا جائے اور ان کی تعظیم کی جائے۔ آقا ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے اہلِ بیت
سے بغض رکھا وہ منافق ہے۔ (فضائلِ صحابہ لامام احمد، 2/661، حدیث: 1126) حضور پر نور ﷺ نے فرمایا:
میں قیامت کے دن چار طرح کے لوگوں کی شفاعت کروں گا: میری آل کی عزت و تعظیم کرنے
والا، میری آل کی پریشانی میں ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرنے والا، میری آل کی ضروریات
پوری کرنے والا اور اپنے دل و زبان سے میری آل سے محبت کرنے والا۔ (جمع الجوامع،
1/48)
پیارےآقا ﷺ کی حدیثِ مبارکہ سے پتا چلا کہ اہلِ بیت کی
تکریم کرنے والا روزِ قیامت آقا ﷺ کی شفاعت سے ضرور بہرا مند ہوگا۔
ان بابرکت حضرات کا تیسرا حق یہ ہے کہ ان پر درود و سلام کی
کثرت کی جائے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اسے پورا ثواب
ملے تو اسے چاہئے کہ ہمارے اہلِ بیت پر درود بھیجے۔
معلوم ہوا کہ اہلِ بیت پر درود و سلام پڑھنا بھی حقیقتاً
اپنے لئے ہی کارِ ثواب ہے۔ ان پر درود و سلام کی کثرت باعثِ ثواب اور خود پر اللہ
پاک کی نعمتوں کا باب کھولنا ہے اور یہی نجات کا ذریعہ ہے۔
چوتھا حق یہ ہے کہ ان کی اتباع کی
جائے،ان کے عمل کو اپنایا جائے۔ امتِ مسلمہ پر نعمتوں کی فراوانی کا اندازہ اسی
بات سے لگایا جاسکتا ہے۔ آوقا ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے
جارہا ہوں، اگر ان کی تعلیمات پر عمل کروگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک قرآن اور
دوسرا میرے اہلِ بیت ہیں۔ (نور المبین)
قرآن ہدایت ہے اور اہلِ بیت قرآن کے احکامات پر عمل کرنے
والے ہیں۔ ان کا طرزِ زندگی و عمل اپنانے سے ان کی اتباع کرنے سے جہالت کے اندھیرے
مٹ جاتے ہیں اور ہر کوئی ہدایت سے سرفراز ہوتا ہے۔
شکریہ تم
نے آل کا صدقہ میری جھولی
میں ڈال رکھا ہے
پانچواں حق یہ ہے کہ ان کی ناموس کا دفاع کیا جائے۔ ان کے
خلاف کوئی کلام کرے تو اسے روکا جائے۔ یہ محبت و ادب کا تقاضا ہے کہ ہم جس سے محبت
رکھتے ہیں اس کے خلاف کوئی بھی ایسی گفتگو برداشت نہیں کرتے جس سے محبوب کی تذلیل
ہوتی ہو، تو اہلِ بیت تو بدرجۂ اولیٰ محبت کے حق دار ہیں اور ان کی محبت ہمارے دل
میں طبعی ہونی چاہئے۔
میں اپنے مضمون کو اختتام پذیر کرنے سے پہلے اہلِ بیت کی
مدح کرنا چاہوں گی اور یہ بھی ان حضرات کے حقوق میں شامل ہے کہ راہِ فقر میں تمام
مقامات اور منازل اہلِ بیت کے وسیلے سے عطا ہوتے ہیں، اہلِ بیتِ اطہار کی محبت ہم
پر واجب ہے۔
اللہ پاک کے آخری نبی ﷺسے نسبت رکھنے والی ہر چیز (خواہ وہ
لباس ہو،جگہ ہو یا آپ کی اولاد ہو ان سب) کا ادب و احترام اور دل کی گہرائیوں سے
ان کی تعظیم و توقیر کرنا، دشمنی سےپرہیز، فضیلت کا اقرار اور ذکر خیر کرنا عشق کا
تقاضا ہے نبی کریم ﷺکی عظمت کا یہ عالم ہے کہ آپ سے نسبت رکھنے والی ہر چیز عظیم
ہو جاتی ہے۔ نسبت اولاد ملنے سے سیادت کا شرف میسر آتا ہے۔آپ کی اولاد کو ہم ادب
سے آل رسول اور سادات کرام کہتے ہیں۔
اہل بیت سے مراد: اہل بیت
میں نبی کریم ﷺکی تمام اولاد اور ازواج مطہرات شامل ہیں۔ حکیم الامت حضرت مفتی
احمد یار خان نعیمی گجراتی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اہل بیت کے معنی ہیں گھر
والے۔اہل بیت رسول چندمعنی میں آتا ہے: (1)جن پر زکوۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم
عباس،علی، جعفر،عقیل،حارث کی اولاد(2)حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی
اولاد(3)حضورﷺکے گھر میں رہنے والے جیسے ازواج پاک۔(مراٰۃ المناجیح،8/450)
اہل بیت اطہار وہ عظیم ہستیاں ہیں جنہیں ہمارے پیارے آقا
ﷺسے خاندانی نسبت بھی حاصل ہے۔اہلِ بیت اطہار کے ہم بہت سے حقوق ہیں جن میں سے
پانچ مندرجہ ذیل ہیں:
تعظیم و توقیر کی جائے: جب نبی کریم ﷺسے منسوب ہر شے کا ادب و احترام لازم ہے تو
اہل بیت اطہار کا بھی ادب لازم ہے۔چنانچہ حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری
دامت برکاتہم العالیہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر بجا لانے کا کوئی موقع ہاتھ سے
نہیں جانے دیتے۔ملاقات کے وقت اگر بتا دیا جائے کہ یہ سید صاحب ہیں تو عموماً ان
کی تعظیم کے لیے کھڑے ہو جائے سید زادے کا ہاتھ چوم لیا کرتے ہیں۔ انہیں اپنے
برابر میں بٹھاتے ہیں۔ حتی کہ سادات کرام کے بچوں سے بے پناہ محبت اور شفقت سے پیش
آتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہیے کہ سادات کرام کی تعظیم و توقیر اور ادب و احترام کاکوئی
موقع ہاتھ سےنہ جانےدیں۔
عقیدت و محبت کی جائے: محبت اہل
بیت کامل ایمان کی علامت ہے۔ اہل بیت سے محبت و عقیدت کی برکت سے آقا ﷺ کی شفاعت
ملتی ہے اور ایسا شخص جنت کا حقدار بنتا ہے۔چنانچہ حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم
اہل بیت کی محبت کو خود پر لازم کر لو۔جو اللہ پاک سے اس حال میں ملےکہ ہم سے محبت
کرتا ہو تو وہ ہماری شفاعت کے صدقے جنت میں چلا جائےگا۔(معجم
اوسط، 1/606، حدیث: 243) اس کے بغیر ایمان کامل نہیں ہوتا چنانچہ ایک اور جگہ ارشاد
فرمایا: کوئی بندہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کو اس کی جان
سے زیادہ پیارا نہ ہو جاؤں اور میری اولاد اس کو اپنی اولاد سے زیادہ پیاری نہ ہو۔(شعب الایمان، 2/189، حدیث: 1505)
عداوت و دشمنی سے پرہیز
کیا جائے: ہمیں سادات کرا م سے محبت کرنی چاہیے۔
جو ان سے دشمنی رکھے یا کسی بھی طریقے سے ان کی بے ادبی کرے تو وہ اپنے اس عمل سے
نہ صرف سادات کرام کو بلکہ ان کے جد امجد حضور ﷺکو بھی ناراض کرتا اور جہنم کا
حقدار بنتا ہے۔جیسا کہ نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا: اس ذات کی قسم جس کےقبضہ قدرت میں
میری جان ہے۔ ہمارے اہل بیت سے بغض رکھنے والے کو اللہ جہنم میں داخل فرمائے گا۔ (مستدرک،4/131،حدیث:4771) ہم اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرتے ہیں اور اللہ پاک ہمیں سادات کرام کی بے
ادبی کرنے سے محفوظ رکھے۔
عظمت و فضیلت کا اقرار: سادات کرام کا ہم پر حق تو یہ ہے کہ
ہم ان پر اپنی روح کو قربان کر ڈالیں کیونکہ رسول اللہ کا مبارک خون اور گوشت ان
میں سرایت کیے ہوئے ہے اور جب یہ حضرات زمین پر تشریف فرما ہوں تو اونچی نشست پر
نہ بیٹھیں۔ ا ن کی خدمت میں پیش پیش رہنا چاہیے اور عظمت و فضیلت کا اقرار کرنا
چاہیے چنانچہ ابو مہزم رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک جنازے میں سے تھے
تو کیا دیکھاکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اپنے کپڑوں سے حضرت امام حسین رضی
اللہ عنہ کے پاؤں مبارک سے مٹی صاف کر رہے تھے۔ (سیر اعلام النبلاء، 4/407)
اہل بیت کا ذکر بھلائی سے کیا جائے:جب بھی اہل بیت اطہار کا ذکر کیا جائے تو بھلائی اور اچھے
انداز سے کیا جائے ان کے شایان شان الفاظ استعمال کیے جائیں۔جب بھی ان کے اعراس کے
ایام آئیں تو ان کے لیے گھر،مسجد وغیرہ میں ایصال ثواب کے اہتمام کیا جائے۔چنانچہ
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خود بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف و کمالات
سنائے اور لوگوں کو بھی اس کا حکم دیا۔حاضرین محفل سے مولا علی رضی اللہ عنہ کے
شایان شان اشعار سنانے کا کہا اور اس کے بدلے خوب انعام و اکرام فرمائے۔