قرآن پاک اور
احادیث مبارکہ میں بدکاری کی بہت مذمت اور اس کے کرنے والے کے لیے وعیدیں آئی ہیں
یہ ایک گھناؤنا کام ہے اس سے انسان کی عزت و آبرو جو اس کی متاع گراں بہا ہے،
متاثر ہوتی ہے۔ زنا کی مذمت میں چند احادیث طیبہ ملاحظہ ہوں۔
فرامینِ
مصطفیٰ:
1۔زنا سے بچو!
اس سے چھ مصیبتیں آتی ہیں جن میں تین کا تعلق دنیا سے تین کا واسطہ آخرت سے ہے،
دنیاوی آفات یہ ہیں: روزی کا تنگ ہو جانا، زندگی یا عمر میں کمی اور توبہ کا موقع
جاتے رہنا اور چہرہ سیاہ ہونا۔ آخرت میں ان کا سامنا کرنا پڑے گا:اللہ کا غضب،
حساب کی سختی اور دوزخ میں ٹھکانا۔(مکاشفۃ القلوب، ص158)
2۔ جب کوئی
مسلمان زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان نکل کر سائبان کی طرح اس کے سر پر منڈلاتا رہتا
ہے جب اس سے فارغ ہوتا ہے تو پھر اس میں داخل ہوتا ہے۔ (ترمذی،4/283،حدیث:2634)
3۔ اللہ کے نزدیک انسان کا نطفہ حرام رحم میں رکھنے سے
بڑا کوئی گناہ نہیں اور لواطت زنا سے بھی بڑا گناہ ہے۔ (ذم الہوی، ص 190)
4۔ جنت کی
خوشبو پانچ سو سال کی مسافت کی دوری سے آئے گی مگر اغلام بازی کرنے والا اس سے
محروم رہے گا۔ (اللآلی المصنوعہ، 2/168)
5۔ جس کسی نے
شہوت کے ساتھ لڑکے کو بوسہ دیا وہ جہنم میں پانچ سو سال جلے گا جس نے عورت کو بوسہ
دیا گویا اس نے باکرہ ستر عورتوں سے زنا کیا اور جس نے باکرہ لڑکی سے زنا کیا وہ
ایسے ہے جیسے اس نے ستر ہزار شادی شدہ عورتوں سے زنا کیا ہو۔
6۔ حضرت موسیٰ
علیہ السلام نے عرض کی: اے میرے خالق زانی کو کیا سزا ملے گی تو اللہ پاک نے
فرمایا: میں اسے اتنی وزنی زرہ پہناؤں گا کہ اگر اسے پہاڑ پر رکھ دیا جائے تو وہ
ریزہ ریزہ ہو جائے، شیطان کو ایک ہزار بدکار مردوں سے زیادہ ایک بدکار عورت پسند
ہے۔
زنا حرام اور
کبیرہ گناہ ہے، قرآن مجید میں اس گناہ کی شدید مذمت بیان فرمائی گئی ہے اور زنا
جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنے والے بدبختوں کے لیے حد جاری کرنے کے احکام بھی
بیان کیے گئے ہیں اور زنا سے باز رہنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا گیا ہے، چنانچہ
اللہ پاک
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
اس آیت مبارکہ
میں بدکاری کے پاس جانے سے منع کیا گیا ہے اور بدکاری کو بے حیائی اور برا راستہ
قرار دیا گیا ہے، اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ سورۂ فرقان کی آیت نمبر 68 تا
69 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ
الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ
النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ
یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ
مُهَانًاۗۖ(۶۹) (پ 19، الفرقان: 68-69)
ترجمہ
کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو
جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے
وہ سزا پائے بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے
گا۔
اس آیت مبارکہ
میں بھی زنا سے روکا گیا ہے اور اس حرام کام میں مبتلا ہونے والے کو جہنم کے عذاب
کی وعید سنائی گئی ہے، اسی طرح کثیر احادیث مبارکہ میں بھی زنا سے بچنے کی ترغیب
اور زنا کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا و آخرت کے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
اس حدیث
مبارکہ میں زنا کی مذمت بیان کی گئی کہ جس قوم میں اس مذموم اور گندے فعل کا ظہور
ہوگا تو ایسی قوم قحط سالی جیسے بڑے عذاب میں مبتلا ہوگی، اسی طرح ایک اور حدیث
مبارکہ میں زنا کی مذمت کے متعلق بیان ہوا ہے:
2۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
اس حدیث پاک
میں فرمایا گیا کہ وہ بستی جس میں ایسے کبیرہ گناہ مثلا زنا اور سود وغیرہ کا
ارتکاب ظاہر ہوگا تو ایسی قوم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال
کر لیا۔
3۔ آدھی رات
کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا
ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ
اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے
کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے
والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم اوسط، 2/133، حدیث: 2769)
اس حدیث
مبارکہ میں بھی زنا کی شدید مذمت بیان ہو رہی ہے کہ وہ عورت جو دنیا کے تھوڑے مال
و پیسے کی لالچ میں اپنی عزت و آبرو بیچ دیتی ہے اور اپنی عفت و عصمت کی چادر پر
بدنما داغ لگاتی ہے تو اللہ ایسی بدکار عورت کی دعا قبول نہیں فرماتا، اسی طرح ایک
اور حدیث میں حضور ﷺ نے پڑوسی عورت سے زنا کرنے کی مذمت ارشاد فرمائی ہے:
4۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے
ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ
اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے
ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)
اس حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا کہ دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنے کا
گناہ ایک پڑوسی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے یعنی پڑوسی عورت کے ساتھ زنا
کرنا انتہائی سخت گناہ ہے، پڑوسی کی جان و مال اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت کرنا
ایک مسلمان پڑوسی پر فرض ہوتا ہے، لہٰذا جب وہ خود ہی اس کی بیوی کے ساتھ گناہ کا
ارتکاب کرے گا تو شدید عذاب کا حقدار قرار پائے گا اور جہنم اس کا ٹھکانہ بنے گی،
لہٰذا ہر مسلمان کو اس گناہ کبیرہ سے بچناچاہیے۔
اللہ پاک ہر
مسلمان کو زنا جیسے گندے بدترین اور انتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائےاور ساری امت مسلمہ کی مغفرت فرمائے۔ آمین
اس بات سے
کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ شرم و حیا اسلامی معاشرے کی بنیادی اقدار اور قرآن و
سنت کے حکیمانہ احکام میں سے ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ بدکاری
اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے اور کوئی بھی مذہب اس کو اچھا نہیں سمجھتا،
جس طرح دیگر مذاہب میں اس کی مذمت کی گئی ہے اسی طرح اسلام نے بھی اس کی مذمت کی
ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس کی حرمت و خباثت کو بیان کیا
گیا ہے، چنانچہ
ارشاد ربانی
ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بیشک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
تفسیر صراط
الجنان میں اس آیت کی تفسیر کچھ اس طرح ہے: زنا اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں
زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و
فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی
سامنے آرہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا
رہا ہے یہ گویا دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔ ( تفسیر
صراط الجنان، 5/454)
اسی طرح
احادیث مبارکہ میں بھی بدکاری کرنے والوں کے بارے میں سخت وعیدیں آئی ہیں، چنانچہ
احادیث
مبارکہ:
1۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔
(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
2۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
3۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب میں
گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
4۔ بدکاری
کرنے والے کی دعا بھی قبول نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی طرف رحمتِ الٰہی متوجہ ہوتی
ہے چنانچہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس
کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ
کہ اس کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ
ٹیکس لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم الاوسط،2/133، حدیث: 2769)
5۔ پڑوسی کے
ساتھ بدکاری کرنا تو اور بھی مذموم ہے جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: جو شخص اپنے پڑوسی
کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ فرمائے گا
اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں
داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301، حدیث: 3371)
دین اسلام کی
خوبصورتی یہ ہے کہ جس چیز کو حرام قرار دیتا ہے اس سے بچنے کے طریقے بھی سکھاتا
ہے، اسلام نے بدکاری اور بےحیائی کو حرام قرار دیا تو اس سے بچانے والے اسباب کے
متعلق بھی ہدایات عطا فرمائیں جن میں پردے کی تاکید، اجنبی مرد و عورت کا کسی بند
جگہ تنہا نہ ہونا، عورتوں کا مردوں کے سامنے بھڑکیلے اور بے پردگی کے لباس نہ
پہننا اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلنا وغیرہ۔ اگر ہر مسلمان ان سب پر عمل کرے
تو بہت حد تک معاشرے سے بدکاری و بے حیائی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
اللہ پاک ہر
مسلمان کو بدکاری جیسے بدترین گندے اور انتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے، زنا کاری وہ جرم ہے کہ دنیا میں تمام قوموں کے
نزدیک فعل قبیح اور جرم ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا و آخرت میں
ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، زنا کاری کی مذمت و مخالفت
کے بارے میں کثیر احادیث وارد ہوئی ہیں اور قرآن مجید میں بھی اس کی بہت مذمت کی
گئی ہے، چنانچہ
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی
برا راستہ ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ زنا کرنے
والا جتنی دیر تک زنا کرتا رہتا ہے اس وقت تک وہ مومن نہیں رہتا۔ (بخاری، 4/338،
حدیث:6810)
اس کا مطلب یہ
ہے کہ زنا کاری کرتے ہوئے ایمان کا نور اس سے جدا ہو جاتا ہے پھر اگر وہ اس سے
توبہ کر لیتا ہے تو اس کا نورِ ایمان پھر اس کو مل جاتا ہے ورنہ نہیں۔
2۔ ساتوں آسمان
اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی شرمگاہ کی بدبو جہنم
والوں کو ایذا دے گی۔ (مجمع الزوائد، 6 / 389، حدیث: 10541)
3۔ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا
قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس
کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس
لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم
اوسط، 2/133، حدیث: 2769)
4۔ جو عورت
کسی قوم میں اس کو داخل کر دے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی زنا کرایا اور اس سے اولاد
ہوئی) تو اسے اللہ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ پاک اسے جنت میں داخل نہ
فرمائے گا۔ (ابو داود، 2/90، حدیث: 2263)
دیکھا آپ نے
کہ زنا کی مذمت میں کس قدر سخت احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں، زانی مرد ہو یا عورت
اس کی دنیا تو برباد ہوتی ہی ہے ساتھ ساتھ اس کی آخرت بھی برباد ہو جاتی ہے۔ انسان
نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر شیطانی وسوسوں میں آکر معمولی سی دیر کی لذت حاصل کرنے
کے لیے اپنا ایمان گنوا بیٹھتا ہے، لذت تو ختم ہو جاتی ہے لیکن وہ گناہ عظیم نامۂ
اعمال میں لکھا جا چکا ہوتا ہے، جو کہ بغیر سچے دل سے توبہ کے معاف نہ ہوگا۔
5۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہوتا ہے
پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283،حدیث:2634)
دو
سانپ نوچ نوچ کر کھائیں گے: حضرت مسروق رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے
نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص چوری یا شراب خوری یا بدکاری یا ان میں سے کسی
بھی گناہ میں مبتلا ہو کر مرتا ہے اس پر دو سانپ مقرر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا
گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 172)
زانیوں
کے لیے آگ کے تابوت: منقول ہے کہ جہنم میں آگ کے تابوت میں کچھ لوگ قید
ہوں گے جب وہ راحت مانگیں گے تو ان کے لیے تابوت کھول دیئے جائیں گے اور جب ان کے
شعلے جہنمیوں تک پہنچیں گے تو وہ بیک زبان فریاد کرتے ہوئے کہیں گے: یا اللہ ان
تابوت والوں پر لعنت فرما۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عورتوں کی شرمگاہ پر حرام طریقے سے
قبضہ کرتے تھے۔ (بحر الدموع، ص 167)
جنت
میں داخلے سے محرومی: اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ نے جب جنت
کو پیدا فرمایا تو اس سے فرمایا: کلام کر۔ وہ بولی: جو مجھ میں داخل ہوگا سعادت
مند ہے۔ تو اللہ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! تجھ میں آٹھ قسم کے لوگ
داخل نہ ہوں گے؛ شراب کا عادی، بدکاری پر اصرار کرنے والا، چغل خور، دیوث، ظالم
سپاہی، ہجڑا (عورتوں سے مشابہت اختیار کرنے والا)، رشتے داری توڑنے والا اور وہ
شخص جو خدا کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ فلاں کام ضرور کروں گا پھر وہ شخص نہیں
کرتا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 229)
عادی
سے مراد:
اس روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بدکاری پر
اصرار کرنے والے سے مراد ہمیشہ بدکاری کرتے رہنے والا نہیں، اسی طرح شراب کے عادی
سے مراد یہ نہیں جو ہمیشہ شراب پیتا رہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب اسے شراب میسر ہو
تو وہ پی لے اور اللہ کے خوف کی وجہ سے شراب پینے سے باز نہ آئے۔ اسی طرح جب اسے
زنا کاری کا موقع ملے تو اس سے توبہ نہ کرے اور نہ ہی اپنے نفس کو اس بری خواہش کی
تکمیل سے روکے، بے شک ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)
بدکاری
کی ابتدا و انتہا:
حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ
کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام
ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)
ان احادیث
مبارکہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بدکاری ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے کہ جس کی سزا دنیا
میں تو ہے ہی لیکن آخرت میں بھی اس کے لیے سخت عذاب کی وعید ہے، لہٰذا اسلام نے اس
کے بہت سے طریقے بھی بتائے ہیں کہ کیسے اس سے بچا جا سکتا ہے، جیسے کسی غیر محرم
سے تنہائی اختیار نہ کرنا، بے پردگی نہ کرنا، نگاہیں جھکائے رکھنا۔
دین اسلام ایک
مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے اور ایک مسلمان کے لیے
اس کی عفت و عصمت سب سے بڑھ کر ہے اور اس کی حفاظت ہر چیز پر مقدم ہے، دین اسلام
فحاشی، مرد و عورت کے اختلاط اور بے پردگی جیسے گناہوں سے بچنے کا حکم دیتا ہے جو
کہ بعد میں بدکاری جیسے کبیرہ گناہ کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا اللہ پاک قرآن مجید
میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى
اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور
بہت ہی برا راستہ ہے۔
جو لوگ بے
حیائی، بدکاری اور فحاشی جیسے افعال کرتے ہیں قرآن مجید میں انہیں شیطان کا
پیروکار کہا گیا ہے، نہ صرف یہ افعال کرنے والے بلکہ جو ان افعال کو عام کرنے کی
کوشش کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں عذاب ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ
یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا
تَعْلَمُوْنَ(۱۹) (پ 18، النور:19)
ترجمہ
کنز الایمان: وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بُرا چرچا پھیلے ان کے لیے
دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
احادیث مبارکہ
میں بدکاری سے بچنے کی بڑی فضیلت وارد ہے، جو شخص اپنے آپ کو اس برے فعل سے محفوظ
رکھتا ہے رسول پاک ﷺ نے اس کے لیے جنت کی بشارت عطا فرمائی ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جو مجھے دونوں
جبڑوں کے درمیان والی چیز (یعنی زبان) اور دونوں پیروں کے درمیان والی چیز ( یعنی
شرمگاہ) کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری، 4/240،
حدیث: 6474)
اسی طرح ایسی
عورتیں جو کہ پاکدامنی و پارسائی اختیار کرتی ہیں اور پردے کا خصوصی طور پر اہتمام
کرتی ہیں ان کے لیے بھی حدیث پاک میں جنت کی بشارت ہے۔
پیاری اسلامی
بہنو! جس طرح اس قابلِ مذمت فعل سے بچنے کے قرآن و حدیث میں فضائل وارد ہیں اسی
طرح اس فعل بد کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے بھی سخت وعیدیں ہیں، بدکاری گویا کہ
عذابِ الٰہی کو دعوت دینا ہے، چنانچہ
2۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی بستی میں زنا
اور سود عام ہو جائے تو اس بستی والوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کے حلال کر لیا۔ (مستدرک
للحاکم، 2/339، حدیث:2308)
بدکاری اور بے حیائی ایک ایسا معاملہ ہے جو کہ پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ
میں لے لیتا ہے اور کئی نسلیں اس سے متاثر ہو جاتی ہیں، دنیا میں ذلت و رسوائی
حاصل ہوتی ہے، آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور غضب حصے آتی ہے اور بدکاری کرنے والی
عورت نہ صرف اللہ کی رحمت سے محروم ہوگی بلکہ اس کو جنت میں بھی داخل نہ کیا جائے
گا، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے:
3۔ جو عورت
کسی قوم میں وہ داخل کرے جو اس قوم سے نہ ہو (یعنی بدکاری کے نتیجے میں جو بچہ
پیدا ہوا اسے یہ زانی کے علاوہ شوہر کی طرف منسوب کرے) تو رحمتِ الٰہی میں اس کا
کوئی حصہ نہیں اور نہ ہی اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ (ابو داود، 2/90، حدیث:
2263)
بدکاری گناہ
کبیرہ ہے جس کی سزا قرآن پاک میں وارد ہوئی ہے، اللہ پاک پارہ 18 سورۂ نور کی آیت
نمبر 2 میں ارشاد فرماتاہے: اَلزَّانِیَةُ وَ
الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪- ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو
مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ۔
اسی طرح ایک
حدیث میں وارد ہے کہ جب آدمی زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان نکل کر اس کے سر پر
سائبان ہو جاتا ہے جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،
4/283، حدیث: 2634)
معلوم ہوا کہ
بدکاری اور اس کی طرف لے جانے والے تمام امور انسان کے ایمان کو ضائع کر دیتے ہیں
مصلحت اسی میں ہے کہ انسان بدکاری کے خیالات کی طرف بھی راغب نہ ہو۔
بدکاری
سے بچنے کے طریقے:
شریعت اسلامیہ میں بدکاری ایک ناقابلِ معافی گناہ ہے، اس کا ارتکاب کرنے والے کے
لیے دنیا و آخرت میں ذلت ہے اور ایک مسلمان کو ہرگز یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ
ایسے افعال کا مرتکب ہو جو شریعت میں ناپسندیدہ ہو، لہٰذا ہمیں چاہیے کہ زہد و
تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کریں، نمازوں کی پابندی کریں، نفلی روزوں کی کثرت کریں،
ذکر اللہ و درود پاک میں مشغول رہیں اور نیکوں کی صحبت اختیار کریں اور بارگاہِ
الٰہی میں اپنے گناہوں کی توبہ کریں کہ اس کی رحمت کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے اور وہ
اپنے بندوں کی توبہ کو پسند فرماتا ہے، پردے کا خصوصی طور پر اہتمام کریں، غیر
مردوں سے آنکھ، دل اور تمام اعضا کا پردہ کریں، فحاشی پر مبنی فلمیں ڈرامے دیکھنے
سے بچیں۔
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں قول اور فعل کی پارسائی و پاکدامنی عطا فرمائے ہمیں فحاشی اور
بدکاری جیسے گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ہمیں ظاہری و باطنی اور سوچوں کی
پاکیزگی عطا فرمائے۔ آمین
وَ
لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
اس آیت میں
دوسرے گناہ کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے اور وہ ہے زنااسلام بلکہ تمام
آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے۔ اور یہ پرلے درجے
کی بےحیائی اور فتنہ فساد کی جڑ ہے۔( تفسیر صراط الجنان، 5/454)
زنا
کی تعریف:
علامہ راغب
اصفہانی فرماتے ہے: بغیر کسی عقد شرعی کے عورت سے وطی کرنا زنا کہلاتا ہے۔
غیر
محصن زانی کی سزا: شریعت کی جانب سے زنا کی ایک حد مقرر ہے اس میں کمی
بیشی نہیں ہو سکتی زنا کی حد آزاد غیر محصن کی ہے کیونکہ آزاد محصن کا حکم ہے کہ
اسے رجم کیا جائے۔ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت
ماعز رضی اللہ عنہ کو نبی کریم ﷺ کے حکم سے رجم کیا گیا۔ اگر غیر محصن زنا کرے تو
اسکا حکم ہے انہیں سو کوڑے مارے جائے۔ (صراط الجنان، النور، جلد 6)
زنا
کی مذمت میں احادیث مبارکہ:
1۔ جو عورت
کسی قوم میں اسکو داخل کردے جو اس قوم سے نہ ہو یعنی زنا کرایا اور اُس سے اولاد ہوئی
تو اسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا حصہ نہیں ملے گا اور اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل
نہ فر مائے گا۔ (ابو داود، 2/90، حدیث: 2263)
2۔ فرمایا
ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زا نیوں کی شرمگاہ
کی بد بو جہنم والوں کو ایذا دے گی۔(مجمع الزوائد، 6 / 389، حدیث: 10541)
3۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔
(مستدرک للحاکم، 2/339، حدیث:2308)
4۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور میں قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ ر عب
میں گرفتار ہوگی۔ (مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
5۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اسکی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283،حدیث:2634)
وضاحت:
جتنے
قریبی ساتھی شوہر اور بیوی ہوتے ہیں اتنے کوئی اور نہیں ہوتے اور ان میں سے کوئی
ایک بدعقیدہ یا بد کردار ہو تو اس کے اثرات اتنے خطرناک ہوتے ہیں
کہ بندہ اپنے دین وایمان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے غیر مذہب والیوں کی محبت آگ ہے،
ذی علم، عاقل، بالغ مردوں کے مذہب اس میں بگڑ گئے ہیں۔ جسے اپنے دین کی فکر ہو وہ
برے کردار والے مرد یا عورت سے شادی کرنے سے بھی بچے۔ اچھے کردار نیک پارسا سے
نکاح کریں۔ (صراط الجنان، النور، جلد 6)
زنا
کی عادت سے بچنے کا آسان نسخہ: اس بری عادت سے محفوظ رہنے یا نجات
پانے کے آسان نسخے سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن
مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو!
تم میں جو کوئی نکاح کی استطاعت رکھتا ہے
وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور
شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزے رکھے کہ
روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری،3/422،حدیث: 5066)
اللہ تعالیٰ
ہر مسلمان کو زنا جیسے بد ترین گندے اور انتہائی مذموم فعل سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
بدکاری یعنی
زنا ایک ایسا فعل ہے جسے معاشرے کی نظر میں بھی نہایت قبیح و مذموم جانا جاتا ہے
اور شریعت میں بھی زنا کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، بہت سی آیات مبارکہ میں بھی
بدکاری کی مذمت بیان کی گئی ہے، جیسا کہ ارشاد رب الانام ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15،
بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز
العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
اور بہت سی
احادیث مبارکہ میں بھی اس کی مذمت بیان کی گئی ہے۔
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل سے
جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
2۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
3۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
4۔ جو شخص
اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ
فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم
بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔(مسند الفردوس، 2/301،حدیث:3371)
دن
رات مسلسل ہے گناہوں کا تسلسل کچھ
تم ہی کرو نا یہ نحوست نہیں جاتی
اللہ کریم
نےہمیں اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے اور ہر اس چیز سے بچنے کی ترغیب بھی دلائی
جو اس کی ناراضی کا سبب بنے، بدکاری سے اللہ اور رسول کی ناراضی مول لینا بہت بڑی
حماقت ہے، بدکاری سے نہ صرف آخرت میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑےگا بلکہ دنیا میں
بھی رسوائی ہوتی ہے، قرآن کریم کی سورۂ بنی اسرائیل میں اللہ پاک ارشاد فرماتا
ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (بنی
اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے
اور بہت ہی برا راستہ ہے۔
ہمارے پیارے
نبی ﷺ نے بدکاری کے متعلق وعیدیں بھی بیان فرمائی ہیں، چنانچہ
احادیث
مبارکہ:
1۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
2۔ آدھی رات کے وقت آسمانوں کے دروازے کھول دیئے جاتے
ہیں پھر ایک اعلان کرنے والا اعلان کرتا ہے کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا
قبول کی جائے، ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی مصیبت زدہ کہ اس
کی مصیبت دور کی جائے اس وقت پیسے لے کر زنا کروانے والی عورت اور ظالمانہ ٹیکس
لینے والے شخص کے علاوہ ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کر لی جائے گی۔ (معجم
اوسط، 2/133، حدیث: 2769)
اسلام میں زنا
کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے اور یہ اعلیٰ درجے کی بے حیائی ہے یہ فتنہ
و فساد کی جڑ ہے اور بھی بہت سے نقصانات ہیں گویا یہ عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔ (
تفسیر صراط الجنان، 5/454) قرآن کریم میں ارشاد ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ
سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ
کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔
احادیث
کریمہ:
1۔ تین شخصوں
سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت
فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور
تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)
2۔ نبی کریم ﷺ
نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے
ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور
وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا
کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226،
حدیث: 23915)
3۔ جس بستی
میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر
لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)
4۔ جب بندہ
زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل
سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)
5۔ جس قوم میں
زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب
میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)
زنا شریعت میں
بھی منع ہے اور عرف میں بھی اسے برا جانا جاتا ہے اللہ کریم ہمیں اور تمام امت
مسلمہ کو زنا جیسے برے کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
دعوتِ اسلامی کے تحت پاکستان کے شہر راولپنڈی
میں اسلامی بہنوں کو نیکی کی دعوت دینے والی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا ماہانہ مدنی مشورے کاانعقاد ہوا جس
میں راولپنڈی شہر کی میٹروپولیٹن نگران و
شعبہ ذمہ داران ،ٹاؤن نگران و شعبہ ذمہ
داران اور یوسی نگران اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
تفصیلات کے مطابق اس مدنی مشورے میں نگرانِ
پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے مکتبۃالمدینہ کے نئے رسالے ”اسلامی پردہ“ سے
مدنی پھول بیان کرتے ہوئے ماہانہ کارکردگی شیڈول بروقت جمع کروانے،ماہانہ 8 دینی
کاموں کی کارکردگی کا تقابلی اور ماہِ
رمضان کے اہم دینی کاموں کا جائزہ لیا۔
اس کے علاوہ نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت نے
اسلامی بہنوں کی جانب سے کئے گئے سوالات کے جواب دیئےنیز ذمہ داران کو دینی کاموں میں عملی طور پر حصہ لنے، ماہانہ
مدنی مشورے لینےاور سالانہ ڈونیشن کے لئے زیادہ سے زیادہ ڈونیشن جمع کروانے کا ذہن دیا۔
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت
پچھلے دنوں صوبہ گلگت بلتستان کی ذمہ داران کا بذریعہ انٹرنیٹ مدنی مشورہ منعقد
ہوا جس میں ڈویژن، ڈسٹرکٹ اور ٹاؤن نگران
اسلامی بہنیں شریک ہوئیں۔
دورانِ مدنی مشورہ نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نےآن لائن ذمہ دار اسلامی بہنوں کی تربیت و رہنمائی کی اور دعوتِ اسلامی کے سالانہ ڈونیشن کے متعلق چند اہم نکات پر مشاورت کی جس پر ذمہ دار اسلامی بہنوں اچھی اچھی نیتیں کیں۔
مختلف شعبہ جات کی صوبہ تا ڈویژن سطح کی ذمہ دار
اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ
شعبہ مدرسۃالمدینہ بالغات اور شعبہ گلی گلی مدرسۃالمدینہ
کے تحت صوبہ خیبرپختونخوا کی صوبائی نگران اور دونوں شعبہ جات کی صوبہ تا ڈویژن
سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہوا۔