یوں تو ہر گناہ اللہ پاک کی نافرمانی ہے اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری سے اعراض ہے اور اللہ پاک کا نافرمان دنیا و آخرت میں کہیں بھی چین و سکون نہیں پا سکتا، گناہ کرنے والے کی زندگی تلخ کر دی جاتی ہے، معاشرے میں ہر گناہ کو ہی برا اور معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن بدکاری کو تو بہت ہی برا محسوس کیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے ذریعے معاشرے میں فتنہ و فساد برپا ہوتا ہے اور معاشرہ برائی کی طرف گامزن ہونا شروع ہو جاتا ہے جو ایک فرد سے لے کر تمام افراد کے لیے تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔

بدکاری کی تعریف: بدکاری، زنا کاری یا پھر حرام کاری شادی شدہ شخص کا بالارادہ کسی ایسے شخص کے ساتھ جنسی اختلاط جو مرتکب جرم کا شوہر یا بیوی نہ ہو یا کسی کا ایسے شخص کے ساتھ جو کسی اور کے ساتھ شادی شدہ ہو ان کے ساتھ بد فعلی یعنی برا کام کرے بدکاری کہلاتا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

2۔ تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)

3۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

4۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 15/246، حدیث: 26894)

5۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے ان میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اس میں آگ جل رہی ہے اور اس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں، جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ ہیں ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری، 1/467، حدیث: 1386)


اسلام بلاشبہ سچا مذہب ہے، اللہ پاک کا کروڑ کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا فرمایا، آقا کریم ﷺ کا امتی بنایا، اسلام کی خوبصورتی ہر طرف اپنی خوشبو بکھیر رہی ہے، ہر وہ کام جو ہمارے لیے ہماری اپنی ذات، معاشرے کے لیے نقصان دہ ہے اس کی اسلام میں ممانعت ہے، پر ہم سوچیں غور کریں ہمارا دین ہمیں کیسی بے راہ روی سے بچا رہا ہے۔ جن کاموں سے بچنے سے اسلام نے شریعت نے تاکید کی ہے اس میں ایک بدکاری بھی ہے، بدکاری بلاشبہ ایک گھناؤنا عمل ہے، جس سے اللہ اور اس کے محبوب ﷺ سخت ناراض ہیں، اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے گویا یہ دنیا میں عذاب الٰہی کی صورت ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

2۔ تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)

3۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 15/246، حدیث: 26894)

4۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے ان میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اس میں آگ جل رہی ہے اور اس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں، جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ ہیں ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری، 1/467، حدیث: 1386)

اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ شرم و حیا اسلامی معاشرے کی بنیادی اقدار اور قرآن و سنت کے حکیمانہ احکام میں سے ہے اور اس سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بدکاری اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے خواہ رضا مندی سے ہو یا جبری، پیسے کے بدلے میں یا مفت، اس کی تمام صورتیں حرام ہیں، بدکاری کو حلال سمجھنے والا مسلمان نہیں اسلام نے بدکاری سے بچانے والے اسباب کے متعلق ہدایات فرمائی ہیں جن میں پردے کی تاکید، اجنبی مرد و عورت کا کسی بند جگہ تنہا نہ ہونا، اجنبی مرد و عورت کا بلا ضرورت آپس میں کلام و ملاقات نہ کرنا، عورتوں کا غیروں کے سامنے بھڑکیلے اور بے پردگی کے لباس نہ پہننا، بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلنا وغیرہ کثیر احکام عطا فرمائے گئے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں شریعت کے مطابق پردہ کرنے کی اور ہمیں اور ہمارے بچوں کو ہماری نسلوں کو اور امت محمدیہ کو موجودہ دور اور آنے والے دور کے فتنوں سے بچائے۔ آمین


زنا کو اسلام میں بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آ رہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے یہ گویا دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)

3۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)

5۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اس میں آگ جل رہی ہے اور اس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں، جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ ہیں ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری، 1/467، حدیث: 1386)

بدکاری اپنی تمام تر صورتوں کے ساتھ حرام ہے خواہ رضا مندی سے ہو یا جبری پیسے کے بدلے ہو یا مفت، اسلام میں بدکاری کی مذمت ضروریات دین میں سے ہے اسے حلال سمجھنے والا مسلمان نہیں، حیادار آدمی کا لوگوں کی نظروں میں معزز ہونا اور بے حیا کا گھٹیا ہونا انسانی فطرت میں داخل ہے، انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی شرمگاہ اور نظروں کی حفاظت کریں تو ان شاء اللہ وہ بدکاری جیسے برے فعل سے بچ جائے گا۔

اللہ پاک ہمیں اپنی نظروں اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حرام کاموں سے بچنے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین


بدکاری ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے جبکہ افسوس معاشرے میں یہ گناہ بہت زیادہ عام ہوتا جا رہا ہے جس قدر بے حیائی بڑھتی جا رہی ہے افسوس کہ بدکاری بھی بڑھتی جا رہی ہے، آج ضرورت ہے اس حرام کام کو روکا جائے، آئیے اس کی مذمت پر احادیث مبارکہ سنتی ہیں، اے کاش مسلمانوں کی آنکھوں سے بے حیائی کی پٹی اتر جائے اور وہ حیا کا لباس پہن لیں۔ آئیے سب سے پہلے بدکاری کی مذمت پر آیات قرآنیہ پڑھتی ہیں، اے کاش کہ مسلمان ہوش کے ناخن لیں اور اس برے فعل سے باز آجائیں:

آیات قرآنیہ:

اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ۪-وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِۚ-وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآىٕفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ(۲) (پ 18، النور: 2) ترجمہ: جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ اور تمہیں ان پر ترس نہ آئے اللہ کے دین میں اگر تم ایمان لاتے ہو اللہ اور پچھلے دن پر اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کا ایک گروہ حاضر ہو۔

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ لَا یَزْنُوْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ یَلْقَ اَثَامًاۙ(۶۸) یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ وَ یَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاۗۖ(۶۹) (پ 19، الفرقان: 68-69)

ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پوجتے اور اس جان کو جس کی اللہ نے حرمت رکھی ناحق نہیں مارتے اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے وہ سزا پائے بڑھایا جائے گا اُس پر عذاب قیامت کے دن اور ہمیشہ اس میں ذلت سے رہے گا۔

اندازہ کریں کہ بدکاری کتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی مذمت قرآن کریم میں رب تعالیٰ فرما رہا ہے، کثیر احادیث مبارکہ میں بھی پیارے آقا ﷺ نے بدکاری کی مذمت بیان فرمائی ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب بندہ زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے اور جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی، 4/283، حدیث: 2634)

قارئین غور کیجیے حدیث مبارکہ پر کہ بندہ جب زنا کرے تو اس سے ایمان نکل کر اس کے سر پر سائبان ہو جاتا ہے معاذ اللہ۔

جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

قارئین ہمیں محض احادیث مبارکہ پڑھنی نہیں ہیں بلکہ ان پر غور و فکر کر کے اپنی اصلاح کرنی ہے اور ہمیں ڈرنا بھی ہے کہ کہیں ہم تو معاذ اللہ اس نحوست میں مبتلا نہیں۔

3۔ جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)

قارئین اس حدیث مبارکہ میں غور کریں خوف خدا سے لرزئیے۔

زنا اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، یہ بدکاری پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ افسوس ایڈز کی بیماری زنا کے پھیلنے کے سبب بڑھتی جا رہی ہے۔

زنا کا حکم: زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

اللہ کریم مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے اللہ ہمیں ہمیشہ بدکاری جیسے حرام کام سے بچائے، اللہ پاک ہمارے ملک پاکستان کو اس بدکاری جیسے گناہ سے پاک فرمائے۔ آمین 


بدکاری (زنا)ایک بہت بڑا گناہ ہے، زنا کو اسلام میں بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے اور اب تو اس کے دوسرے نقصانات بھی ایڈز جیسے خوفناک بیماری کی شکل میں سامنے آ رہے ہیں، قرآن پاک میں بھی اس کی مذمت بیان فرمائی گئی ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

احادیث مبارکہ میں بھی بدکاری کی مذمت بیان کی گئی ہے، آئیے احادیث مبارکہ میں بدکاری کی مذمت ملاحظہ کرتے ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

2۔ جس قوم میں زنا ظاہر ہوگا وہ قحط میں گرفتار ہوگی اور جس قوم میں رشوت کا ظہور ہوگا وہ رعب میں گرفتار ہوگی۔(مشکاۃ المصابیح،1/656،حدیث:3582)

3۔ جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔ (مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)

4۔ جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا تو قیامت کے دن اللہ پاک اس کی طرف نظر رحمت نہ فرمائے گا اور نہ ہی اسے پاک کرے گا اور اس سے فرمائے گا کہ جہنمیوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں داخل ہو جاؤ۔ (مسند الفردوس، 2/301، حدیث: 3371)

5۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)

ہم نے احادیث مبارکہ میں اس بدترین گناہ کی مذمت ملاحظہ کی اور قرآن پاک میں بھی اس گناہ کی مذمت ملاحظہ کی تو ہمیں اس بدترین گناہ سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنا سکیں اور ذلت و رسوائی سے بچ سکیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ مسلمانوں کو اس بدترین گناہ اور فتنہ و فساد کی جڑ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


بدکاری ایک ایسا جرم ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے نزدیک فعل قبیح اور جرم و گناہ ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا اور آخرت میں ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، اس کی مذمت میں اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اللہ پاک نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ان باتوں سے بھی بچتے رہو جو تمہیں زنا کاری کی طرف لے جائیں۔ بدکاری کی مذمت و مخالفت کے بارے میں مندرجہ ذیل چند احادیث بھی پڑھ لیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو شخص زنا کرتا یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ یعنی ان گناہ کے وقت مجرم نورِ ایمان سے نکل جاتا ہے۔(مستدرک، 1/175، حدیث: 64)

2۔ چار طرح کے لوگوں کو اللہ پاک مبغوض رکھتا ہے؛ بکثرت قسمیں کھانے والا تاجر، متکبر فقیر، بوڑھا زانی اور ظالم حکمران۔ (76 کبیرہ گناہ، ص 57)

پیارے آقا ﷺ سے سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دے حالانکہ اس نے تجھےپیدا کیا، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم، ص 59، حدیث: 86)

4۔ زانی جس وقت زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283، حدیث: 2634)

5۔ زناکار قوم میں بکثرت موتیں ہوں گی۔ (جہنم کے خطرات، ص 33)

الغرض دنیا و آخرت میں اس فعل بد کا انجام ہلاکت و بربادی ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے معاشرے کو اس ہلاکت خیز بدکاری کی نحوست سے بچائیں ورنہ ہمارا خالق اگر ہم سے اس فعل کے سبب ناراض ہو گیا تو ہماری ہلاکت ہوگی۔ جھٹ پٹ توبہ کر لیجیے رب تعالیٰ غفور الرحیم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس بلائے عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین


بدکاری ایک ایسا جرم ہے کہ دنیا کی تمام قوموں کے نزدیک فعل قبیح اور جرم و گناہ ہے اور اسلام میں یہ کبیرہ گناہ ہے اور دنیا اور آخرت میں ہلاکت کا سبب اور جہنم میں لے جانے والا بدترین فعل ہے، اس کی مذمت میں اللہ کریم نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے قریب نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اللہ پاک نے فرمایا کہ زنا کے قریب بھی مت جاؤ یعنی ان باتوں سے بھی بچتے رہو جو تمہیں زنا کاری کی طرف لے جائیں۔ بدکاری کی مذمت و مخالفت کے بارے میں مندرجہ ذیل چند احادیث بھی پڑھ لیجیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جو شخص زنا کرتا یا شراب پیتا ہے تو اللہ اس سے ایمان یوں نکالتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارے۔ یعنی ان گناہ کے وقت مجرم نورِ ایمان سے نکل جاتا ہے۔(مستدرک، 1/175، حدیث: 64)

2۔ چار طرح کے لوگوں کو اللہ پاک مبغوض رکھتا ہے؛ بکثرت قسمیں کھانے والا تاجر، متکبر فقیر، بوڑھا زانی اور ظالم حکمران۔ (76 کبیرہ گناہ، ص 57)

پیارے آقا ﷺ سے سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ ارشاد فرمایا: تو کسی کو اللہ کا ہمسر قرار دے حالانکہ اس نے تجھےپیدا کیا، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کر دینا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی، عرض کی گئی: پھر کون سا؟ ارشاد فرمایا: تیرا اپنی پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا۔ (مسلم، ص 59، حدیث: 86)

4۔ زانی جس وقت زنا کرتا ہے تو ایمان اس سے نکل جاتا ہے پس وہ اس کے سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے پھر جب بندہ زنا سے فارغ ہوتا ہے تو ایمان اس کی طرف لوٹ آتا ہے۔ (ترمذی،4/283، حدیث: 2634)

5۔ زناکار قوم میں بکثرت موتیں ہوں گی۔ (جہنم کے خطرات، ص 33)

الغرض دنیا و آخرت میں اس فعل بد کا انجام ہلاکت و بربادی ہے لہٰذا مسلمانوں پر لازم ہے کہ اپنے معاشرے کو اس ہلاکت خیز بدکاری کی نحوست سے بچائیں ورنہ ہمارا خالق اگر ہم سے اس فعل کے سبب ناراض ہو گیا تو ہماری ہلاکت ہوگی۔ جھٹ پٹ توبہ کر لیجیے رب تعالیٰ غفور الرحیم ہے اللہ پاک تمام مسلمانوں کو اس بلائے عظیم سے محفوظ فرمائے۔ آمین


پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا یعنی بدکاری کے اسباب سے بھی بچو لہٰذا بدنظری، غیر عورت سے خلوت (تنہائی) عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہیں بخار روکنے کے لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت، گانے باجے کی حرمت، نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ (نور العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)

آج ہم اپنے مسلم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو حالات انتہائی نازک ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط، بے پردگی، مخلوط تعلیمی اداروں کا نظام، الغرض ہر طرف فحاشی و عریانی کا ایک سیلاب ہے جو ہمیں تباہی و بربادی کی طرف بہائے لیے جا رہا ہے لیکن ہمیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے ہمیں نہ صرف بدکاری بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام اسباب کا بھی سد باب کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزار سکیں جس طرح قرآن پاک میں بدکاری سے بچنے کا حکم آیا بالکل اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس فعل بد کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ زنا کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اور زانی پر قیامت تک اللہ پاک، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 226)

2۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی گناہ زنا سے بڑھ کر نہ ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جو اپنے نطفے کو حرام رحم میں رکھتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے قیامت کے دن زانی کی شرمگاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ سطحِ زمین پر ڈال دیا جائے تو اس کی بو کی وجہ سے ساری دنیا والوں کا جینا دوبھر ہو جائے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

3۔ زنا تنگ دستی پیدا کرتا ہے اور چہرے کا نور ختم کر دیتا ہے اللہ فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں زانی کو تنگ دست کر دوں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد سہی۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

4۔ زنا سے بچتے رہو کیونکہ یہ جسم کی تازگی کو ختم کرتا ہے اور طویل محتاجی کا سبب ہے اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی حساب کی سختی اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 228)

5۔ حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)

اب بدکاری کے چند اسباب کے متعلق بھی جان لیتے ہیں، چنانچہ

پہلا سبب یہ ہے کہ اجنبی عورتوں سے بے تکلف ہونا اور انہیں چھونا و مس کرنا، بد قسمتی سے آج کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط عام ہو چکا ہے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اخیتار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے اور کسی شخص کا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر کو چھونا اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کے ساتھ مس ہوں جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

معلوم ہوا جہاں مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں وہاں شیطان بھی ہوتاہے لہٰذا اس بے جا اختلاط سے بچیے۔

بدکاری کا دوسرا سبب ہے اخلاق سوز ناول و کتابیں پڑھنا اور حیا سوز تصاویر، فلمیں ڈرامے اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی بدکاری کی طرف لے جانے کا بہت بڑا سبب ہے، انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں موجودہ دور میں میڈیا بدنگاہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بہت ساری معاشرتی برائیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/5)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو آدمی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر قادر نہیں ہوتا وہ اپنی شرمگاہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا۔ (احیاء علوم الدین، 3/125)

تو معلوم ہوا کہ بدنگاہی انسان کے بدکاری میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔

معاشرے کو فحاشی و بدکاری کے طوفان سے بچانے کے لیے دو مدنی پھول پیش خدمت ہیں:

پہلا یہ کہ معاشرے میں حیا کو عام کرنا ہوگا ہمیں اگر اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے تو اس کے لیے شرم و حیا کے پیغام کو عام کرنا ہوگا کیونکہ حیا ایک ایسی چیز ہے جہاں یہ ہو وہاں سے برائی ختم ہو جاتی ہے اور جہاں حیا نہ ہو وہاں فحاشی و عریانی ڈیرے ڈال لیتی ہے چنانچہ منقول ہے کہ جس میں حیا نہیں اس کا جو جی چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3483)

امیر اہلسنت فرماتے ہیں: اللہ سے حیا یہ ہے کہ اس کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں بٹھائے اور ہر اس کام سے بچے جس سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1724)

ایک اور حدیث شریف میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1725)

تو ہمیں چاہیے کہ خود بھی با حیا بنیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی حیادار بنانے کی کوشش کریں۔

دوسرا مدنی پھول یہ ہے کہ بے پردگی کا خاتمہ کرنا ہے، بدکاری کا راستہ روکنے کے لیے معاشرے میں بے پردگی کا رواج ختم کرنا ہوگا اور پردہ نافذ کرنا ہوگا کیونکہ عورت کا حسن و جمال اور پھر اس کا بن سنور کر بے پردہ نکلنا بہت سارے گناہوں کے دروازے کھول دیتا ہے اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1172)

حتی الامکان بے پردگی وغیرہ کے معاملے میں عورتوں کو روکا جائے مگر حکمت عملی کے ساتھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سختی کر بیٹھیں جس سے گھر کا امن ہی تہہ و بالا ہوکر رہ جائے۔

اللہ پاک ہمیں ان مدنی پھولوں پر عمل کر کے اپنے معاشرے کو بدکاری جیسے گناہ کبیرہ کی نحوست سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔


پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (پ15، بنی اسرائیل:32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بےشک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بُری راہ۔

مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ نور العرفان میں اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: زنا یعنی بدکاری کے اسباب سے بھی بچو لہٰذا بدنظری، غیر عورت سے خلوت (تنہائی) عورت کی بے پردگی وغیرہ سب ہی حرام ہیں بخار روکنے کے لیے نزلہ روکو، طاعون سے بچنے کے لیے چوہوں کو ہلاک کرو، پردہ کی فرضیت، گانے باجے کی حرمت، نگاہ نیچی رکھنے کا حکم یہ سب زنا سے روکنے کے لیے ہے۔ (نور العرفان، پ 15، بنی اسرائیل، تحت الآیۃ: 32)

آج ہم اپنے مسلم معاشرے پر نگاہ ڈالیں تو حالات انتہائی نازک ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط، بے پردگی، مخلوط تعلیمی اداروں کا نظام، الغرض ہر طرف فحاشی و عریانی کا ایک سیلاب ہے جو ہمیں تباہی و بربادی کی طرف بہائے لیے جا رہا ہے لیکن ہمیں اس سیلاب کے آگے بند باندھنا ہوگا ہمیں ہتھیار نہیں ڈالنے ہمیں نہ صرف بدکاری بلکہ اس کی طرف لے جانے والے تمام اسباب کا بھی سد باب کرنا ہوگا تاکہ ہم ایک پاکیزہ اور صاف ستھری زندگی گزار سکیں جس طرح قرآن پاک میں بدکاری سے بچنے کا حکم آیا بالکل اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی اس فعل بد کی ممانعت آئی ہے، چنانچہ ذیل میں چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ زنا کبیرہ گناہوں میں سے بہت بڑا گناہ ہے اور زانی پر قیامت تک اللہ پاک، ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت برستی رہے گی اور اگر وہ توبہ کر لے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔(آنسوؤں کا دریا، ص 226)

2۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے فرمایا: جب بندہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوگا تو شرک کے بعد اس کا کوئی گناہ زنا سے بڑھ کر نہ ہوگا اور اسی طرح وہ شخص جو اپنے نطفے کو حرام رحم میں رکھتا ہے وہ بھی ایسا ہی ہے قیامت کے دن زانی کی شرمگاہ سے ایسی پیپ نکلے گی کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ سطحِ زمین پر ڈال دیا جائے تو اس کی بو کی وجہ سے ساری دنیا والوں کا جینا دوبھر ہو جائے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

3۔ زنا تنگ دستی پیدا کرتا ہے اور چہرے کا نور ختم کر دیتا ہے اللہ فرماتا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں زانی کو تنگ دست کر دوں گا اگرچہ کچھ عرصہ بعد سہی۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 227)

4۔ زنا سے بچتے رہو کیونکہ یہ جسم کی تازگی کو ختم کرتا ہے اور طویل محتاجی کا سبب ہے اور آخرت میں اللہ کی ناراضگی حساب کی سختی اور ہمیشہ کے لیے جہنم میں جانے کا سبب ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 228)

5۔ حضرت لقمان حکیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے سے ارشاد فرمایا: بیٹا بدکاری سے بچ کر رہنا کیونکہ اس کی ابتدا خوف اور انتہا ندامت ہے اور اس کا انجام جہنم کی وادی آثام ہے۔ (آنسوؤں کا دریا، ص 235)

اب بدکاری کے چند اسباب کے متعلق بھی جان لیتے ہیں، چنانچہ

پہلا سبب یہ ہے کہ اجنبی عورتوں سے بے تکلف ہونا اور انہیں چھونا و مس کرنا، بد قسمتی سے آج کل حالات بڑے ناگفتہ بہ ہیں، مردوں اور عورتوں کا اختلاط عام ہو چکا ہے چنانچہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: عورتوں کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے سے بچو اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے جو شخص کسی عورت کے ساتھ تنہائی اخیتار کرتا ہے تو ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے اور کسی شخص کا سیاہ بدبودار کیچڑ میں لت پت خنزیر کو چھونا اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ اس کے کندھے ایسی عورت کے کندھوں کے ساتھ مس ہوں جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

معلوم ہوا جہاں مرد و عورت تنہا ہوتے ہیں وہاں شیطان بھی ہوتاہے لہٰذا اس بے جا اختلاط سے بچیے۔

بدکاری کا دوسرا سبب ہے اخلاق سوز ناول و کتابیں پڑھنا اور حیا سوز تصاویر، فلمیں ڈرامے اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال بھی بدکاری کی طرف لے جانے کا بہت بڑا سبب ہے، انسان جو کچھ پڑھتا یا دیکھتا ہے اس کا اثر اس کے دل پر ہوتا ہے اور پھر اسی طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں موجودہ دور میں میڈیا بدنگاہی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی بہت ساری معاشرتی برائیوں کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔

تاجدار رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: آنکھیں بھی بدکاری کرتی ہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/6)

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنکھوں کی بدکاری دیکھنا ہے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/5)

حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو آدمی اپنی آنکھوں کو بند کرنے پر قادر نہیں ہوتا وہ اپنی شرمگاہ کی بھی حفاظت نہیں کرسکتا۔ (احیاء علوم الدین، 3/125)

تو معلوم ہوا کہ بدنگاہی انسان کے بدکاری میں مبتلا ہونے کا ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہیے۔

معاشرے کو فحاشی و بدکاری کے طوفان سے بچانے کے لیے دو مدنی پھول پیش خدمت ہیں:

پہلا یہ کہ معاشرے میں حیا کو عام کرنا ہوگا ہمیں اگر اپنے معاشرے کو پاکیزہ بنانا ہے تو اس کے لیے شرم و حیا کے پیغام کو عام کرنا ہوگا کیونکہ حیا ایک ایسی چیز ہے جہاں یہ ہو وہاں سے برائی ختم ہو جاتی ہے اور جہاں حیا نہ ہو وہاں فحاشی و عریانی ڈیرے ڈال لیتی ہے چنانچہ منقول ہے کہ جس میں حیا نہیں اس کا جو جی چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3483)

امیر اہلسنت فرماتے ہیں: اللہ سے حیا یہ ہے کہ اس کی ہیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں بٹھائے اور ہر اس کام سے بچے جس سے اس کی ناراضگی کا اندیشہ ہو۔

اسلام میں حیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے: بے شک ہر دین کا ایک خلق ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1724)

ایک اور حدیث شریف میں ہے: حیا ایمان سے ہے۔ (مؤطا امام مالک، 2/405، حدیث: 1725)

تو ہمیں چاہیے کہ خود بھی با حیا بنیں اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو بھی حیادار بنانے کی کوشش کریں۔

دوسرا مدنی پھول یہ ہے کہ بے پردگی کا خاتمہ کرنا ہے، بدکاری کا راستہ روکنے کے لیے معاشرے میں بے پردگی کا رواج ختم کرنا ہوگا اور پردہ نافذ کرنا ہوگا کیونکہ عورت کا حسن و جمال اور پھر اس کا بن سنور کر بے پردہ نکلنا بہت سارے گناہوں کے دروازے کھول دیتا ہے اللہ کے محبوب ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ نکلتی ہے تو اسے شیطان جھانک کر دیکھتا ہے۔ (ترمذی، 2/392، حدیث: 1172)

حتی الامکان بے پردگی وغیرہ کے معاملے میں عورتوں کو روکا جائے مگر حکمت عملی کے ساتھ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سختی کر بیٹھیں جس سے گھر کا امن ہی تہہ و بالا ہوکر رہ جائے۔

اللہ پاک ہمیں ان مدنی پھولوں پر عمل کر کے اپنے معاشرے کو بدکاری جیسے گناہ کبیرہ کی نحوست سے بچانے کی توفیق عطا فرمائے۔


بدکاری کرنے والے کو بدکار کہتے ہیں بدکاری کے اردو معانی ہیں برے کام کرنے والا، بد فعل۔ اللہ پاک نے مرد اور عورت کے رشتے میں ایک عمومی حرمت قائم کی ہے یعنی عورت اور مرد کے آزادانہ جنسی اختلاط پر پابندی لگائی ہے اس پابندی کے دو مقاصد ہیں؛ پہلا یہ کہ ایک ایسی سوسائٹی قائم ہو جس کی بنیاد آزادانہ جنسی تعلق کی بجائے نکاح کے اصول پر ہو تاکہ ایک مضبوط خاندانی نظام کو فروغ دیا جاسکے۔ دوسرا مقصد انسان کو آزمانا ہے کہ کون اپنے نفس کے منہ زور تقاضوں کو لگام دے کر خدا کی اطاعت و بندگی اختیار کرتا ہے اور کون اپنے نفس کو آلودہ کر کے اللہ کی نافرمانی کا مرتکب ہوتا ہے، جونہی انسان کی زندگی کا آغاز ہوا انسان کے ازلی دشمن شیطان نے انسان پر یلغار کر دی اور اسے راہ راست سے بھٹکانے کے لیے الٹے سیدھےہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے، ان چالوں میں ایک اہم منصوبہ یہ تھا کہ انسان کو بے حیائی کی طرف راغب کیا جائے۔

بدکاری کی مذمت: قرآن و حدیث میں بیشتر مقامات پر واشگاف الفاظ میں بدکاری کی مذمت بیان کر دی گئی ہے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے، چنانچہ احادیث کی روشنی میں بدکاری کی مذمت ملاحظہ فرمائیے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

2۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 173)

3۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

4۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)

5۔ جو شخص اپنے دونوں جبڑوں کے درمیان کی چیز (یعنی زبان) اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی چیز (شرمگاہ) کا ضامن ہو تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔(بخاری، 4/240، حدیث: 6474)

بدکاری سے بچنے کا نسخہ: پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے جوانو! تم میں جو نکاح کی استطاعت رکھتا ہے وہ نکاح کرے کہ یہ اجنبی عورت کی طرف نظر کرنے سے نگاہ کو روکنے والا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے اور جس میں نکاح کی استطاعت نہیں وہ روزہ رکھے کہ روزہ شہوت کو توڑنے والا ہے۔ (بخاری،3/ 422،حدیث:5066)

دکھ، خوشی اور غصے کے اظہار کے طریقے تو انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں میں بھی پائے جاتے ہیں جبکہ حیا ایسا وصف ہے جو انسان میں ہی پایا جاتا ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا: جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرے۔ (بخاری، 2/470، حدیث: 3483)

ایک اور جگہ فرمایا: بے شک حیا اور ایمان آپس میں ملے ہوئے ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔ (مستدرک للحاکم، 1/176، حدیث: 66)

اللہ سے دعا ہے کہ پیارے آقا ﷺ کی نیچی نیچی نگاہوں کی حیا کے صدقے ہمیں شرم و حیا کا پیکر بنا دے اور ہمارے معاشرے کو بدکاری کی لعنت سے محفوظ فرمائے۔ آمین


وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز الایمان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

یہاں آیت کی مناسبت سے زنا کی مذمت پر 5 احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

2۔ جب مرد زنا کرتا ہے تو اس سے ایمان نکل کر سر پر سائبان کی طرح ہو جاتا ہے، جب اس فعل سے جدا ہوتا ہے تو اس کی طرف ایمان لوٹ آتا ہے۔ (ابو داود، 4/293، حدیث: 4690)

3۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)

4۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا ان کے لیے دردناک عذاب ہوگا؛ بوڑھا زانی، جھوٹ بولنے والا بادشاہ اور تکبر کرنے والا فقیر۔ (مسلم، ص 69، حدیث: 172)

5۔ سرکار ﷺ فرماتے ہیں: میں نے رات کے وقت دیکھا کہ دو شخص میرے پاس آئے اور مجھے مقدس سر زمین کی طرف لے گئے (اس حدیث میں چند مشاہدات بیان فرمائے ان میں ایک یہ بات بھی ہے) ہم ایک سوراخ کے پاس پہنچے جو تنور کی طرح اوپر سے تنگ ہے اور نیچے سے کشادہ، اس میں آگ جل رہی ہے اور اس آگ میں کچھ مرد اور عورتیں برہنہ ہیں، جب آگ کا شعلہ بلند ہوتا ہے تو وہ لوگ اوپر آجاتے ہیں اور جب شعلے کم ہو جاتے ہیں تو شعلے کے ساتھ وہ بھی اندر چلے جاتے ہیں (یہ کون لوگ ہیں ان کے متعلق بیان فرمایا) یہ زانی مرد اور عورتیں ہیں۔ (بخاری، 1/467، حدیث: 1386)

اللہ پاک ہمیں بدکاری سے بچنے اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


عزت اور نسل کی حفاظت چونکہ اسلامی شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے اس لیے اسلام میں زنا کو حرام اور کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے، اسلام نے نگاہ نیچی رکھنے، عورتوں کو پردہ کرنے اور اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کو حرام قرار دے کر زنا تک پہنچانے والے تمام اسباب و ذرائع کو بند کر دیا ہے۔

زنا کی حرمت میں آیت مبارکہ: زنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے قرآن مجید میں اس کی بہت شدید مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةًؕ-وَ سَآءَ سَبِیْلًا(۳۲) (بنی اسرائیل: 32) ترجمہ کنز العرفان: اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ بے شک وہ بے حیائی ہے اور بہت ہی بری راہ۔

اس آیت میں زنا کی حرمت و خباثت کو بیان کیا گیا ہے، اسلام بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں زنا کو بدترین گناہ اور جرم قرار دیا گیا ہے، یہ پرلے درجے کی بے حیائی اور فتنہ و فساد کی جڑ ہے بلکہ اب تو ایڈز کے خوفناک مرض کی شکل میں اس کے دوسرے نقصانات بھی سامنے آرہے ہیں جس ملک میں زنا کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں ایڈز پھیلتا جا رہا ہے یہ گویا کہ دنیا میں عذاب الٰہی کی ایک صورت ہے۔( تفسیر صراط الجنان، 5/454)

احادیث مبارکہ:

1۔ نبی کریم ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: زنا کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: زنا حرام ہے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے اسے حرام کیا ہے اور وہ قیامت تک حرام رہے گا، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: دس عورتوں کے ساتھ زنا کرنا اپنے پڑوسی کی عورت کے ساتھ زنا کرنے سے ہلکا ہے۔ (مسند امام احمد، 9/226، حدیث: 23915)

پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا اس لیے زیادہ قبیح کیا گیا ہے کہ پڑوسی سے ایسی توقع نہیں ہوتی اس سے بندہ مطمئن ہوتا ہے اور اس سے امن کی امید ہوتی ہے، شریعت نے اس پر احسان و اکرام کرنے کا حکم دیا ہے اسی طرح استاد یا پیر کی بیٹی سے زنا کرنا زیادہ سخت ہے۔

2۔ جس بستی میں زنا اور سود ظاہر ہو جائے تو انہوں نے اپنے لیے اللہ کے عذاب کو حلال کر لیا۔(مستدرک، 2/339، حدیث: 2308)

3۔ میری امت اس وقت تک بھلائی پر رہے گی جب تک ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام نہ ہو جائیں گے اور جب ان میں زنا سے پیدا ہونے والے بچے عام ہو جائیں گے تو اللہ انہیں عذاب میں مبتلا کر دے گا۔ (مسند امام احمد، 10/246، حدیث: 26894)

شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ: امام جوزی رحمۃاللہ علیہ اپنی کتاب ذم الہوی میں لکھتے ہیں: حضرت ہیثم بن مالک طائی سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ اللہ کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی اپنا نطفہ ایسے رحم میں رکھے جو اس کے لیے حلال نہیں۔ (ذم الہوی، ص 190)

حضرت یحیی عَلَیہِ السَّلَام سے پوچھا گیا کہ زنا کی ابتدا کیسے ہوتی ہے؟ ارشاد فرمایا: دیکھنے اور خواہش کرنے سے۔ (احیاء العلوم مترجم، 3/313)

6۔ نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر ابن آدم کے لیے زنا سے حصہ ہے آنکھیں زنا کرتی ہیں، اور ان کا زنا دیکھنا ہے، ہاتھ زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا یعنی چھونا ہے، پاؤں زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا چلنا ہے، منہ زنا کرتا ہے اور اس کا زنا بوسہ لینا ہے، دل ارادہ اور تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔ (مسلم، حدیث: 2657)

بدکاری سے بچنے کا نسخہ: لوگوں میں ایک جملہ مشہور ہے کہ اپنی اولاد اور پرائی عور ت ہمیشہ خوبصورت لگتی ہے اگر غور کیا جائے کہ آخر پرائی عورت اور اپنی بیوی میں کیا فرق ہے تو ثابت ہوگا کہ یہ صرف شیطانی چکر ہے کہ جس نے لوگوں کو برائی میں پھنسا رکھا ہے، صحیح مسلم کی حدیث پاک ہے: عورت شیطان کی صورت میں آگے آتی ہے اور شیطان کی صورت میں پیچھے جاتی ہے۔ جب تم میں سے کسی کو کوئی عورت اچھی لگ جائے اور دل میں گڑ جائے تو اس کو چاہیے کہ اپنی بیوی کے پاس جا کر اس سے جماع کرلے تو ایسا کرنے سے اس کے دل کا خیال دفع ہو جائے گا۔(مسلم، 558، حدیث: 1403)

اس بات کو اگر ہم اپنے پلے باندھ لیں تو یقینا زنا کو کسی حد تک معاشرے سے ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے، زنا میں شیطانی لذت ہے مگر برکت نہیں اور بیوی کے پاس اگرچہ زنا جیسی لذت نہ ہو لیکن برکت ضرور ہے، پاکیزہ بیویوں کو چھوڑ کر مکار عورتوں کے پاس آنے والے ایسے ہیں جیسے تازہ اور پاکیزہ گوشت چھوڑ کر گلا سڑا گوشت کھانے والے، اسی طرح حلال اور پارسا شوہروں کو چھوڑ کر بدکار لوگوں کے پاس آنے والیاں ایسی ہی ہیں، اگر ان باتوں کو پیش نظر رکھا جائے تو معاشرے سے بدکاری کا خاتمہ کسی حد تک ہو سکتا ہے۔

دعا ہے کہ اللہ ہمیں ہماری آنے والی نسلوں اور تمام مسلمان کو اس زنا جیسے منحوس فعل سے محفوظ فرمائے۔

امین